- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
شکر کرنا اللہ کو پسند ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِِنْ تَکْفُرُوْا فَإِِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَإِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَی} [الزمر:۷]
’’ اگر تم ناشکری کرو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں ہوتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اس کی وجہ سے تم سے خوش ہوگا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (قیامت والے دن )کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔‘‘
شرح…: شکر کا لغوی معنی ظاہر ہونا ہے مراد ہے کہ کسی کے احسان یا انعام کرنے کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا۔
شکر ان (شکر گزاری) کفران (ناشکری) کی ضد ہے۔ علماء کے ہاں شکر کا معنی ہے کہ پوشیدہ اور ظاہری طور پر نافرمانیوں سے اجتناب کرنا اور فرمانبرداری میں سخت کوشش و محنت کرنا۔
یہ بھی کہا گیا ہے: احسان کرنے والے کے لیے شکر کی کمی کا اعتراف کرنا۔ یہ قول بھی ہے: شکر کی حقیقت سے عاجز آجانا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے: شکر کی حقیقت احسان کرنے والے کے احسان و نعمت کا اعتراف اور اس نعمت کو اس کی فرمانبرداری میں استعمال کرنا ہے اور ناشکری یہ ہے کہ اس کے انعام کو اس کی نافرمانی میں استعمال کرنا۔ اس بات کو سمجھنے والے تھوڑے ہی ہیں کیونکہ بھلائی برائی سے بہت کم اور فرمانبرداری نافرمانی سے بہت تھوڑی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شکر سے مراد تواضع اور انکساری، نیکیوں پر محافظت ہے اور خواہشات کی مخالفت، فرمانبرداریوں کی تند ہی اور آسمانوں اور زمین کے جبار کا مراقبہ کرنا ہے۔
یہ قول بھی ہے: اپنے سے بلند کی فرمانبرداری کرکے شکر کرنا، ہم پلہ پر برابری کا سلوک کرکے اور کم درجہ والے پر احسان اور انعام کرکے شکر کرنا۔
یہ بات بھی کہی گئی ہے: شکر، احسان کی معرفت اور اس کو بیان کرنے کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ شکر سے راضی ہوتے ہیں اور اپنے مومن بندوں کے لیے اسے پسند فرماتے ہیں۔
شکر کے تین درجے ہیں
(۱) محبوب اشیاء کی بناء پر شکر کرنا یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اور ان کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا نیز ان اشیاء میں سے حسب ضرورت مخلوق پر خرچ کرکے احسان کرنا، ایسا کرنے سے شاکر کے لیے نعمتیں محفوظ ہوجاتی ہیں اور رب تعالیٰ مزید نعمتوں سے بھی نوازتے ہیں۔
(۲) ناپسندیدہ اشیاء پر شکر کرنا: محبوب اشیاء پر شکر کرنے کی نسبت یہ شکر بہت ہی مشکل ہے اسی وجہ سے اس کا درجہ بھی بلند و بالا ہے اور ایسا شاکر سب سے پہلے جنت کی طرف بلایا جائے گا کیونکہ اس نے ان ناپسندیدہ چیزوں کا سامنا کیا ہے جن کا سامنا اکثر لوگ ناراضی اور پریشانی کے ساتھ اور متوسط درجہ کے لوگ صبر کے ساتھ اور مخصوص لوگ خوشی سے کرتے ہیں چنانچہ اس انسان نے ان کا سامنا سب سے اعلیٰ اور ارفع چیز کے ساتھ یعنی شکر کے ساتھ کیا لہٰذا جنت میں بھی ان سب سے پہلے داخل ہوگا۔
(۳) بندہ صرف منعم (احسان کرنے والا، مراد اللہ تعالیٰ ہے) کا ہی مشاہدہ کرے اور یہ درجہ نعمت والے کو منعم کے شہود کی وجہ سے نعمت سے ہی بے خبر کردے گا۔ چنانچہ اس کا شہود منعم اور غیر منعم کو شامل نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف منعم کا ہی شہود ہی باقی رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{فَاذْکُرُوْنِیْٓ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ o} [البقرۃ: ۱۵۲]
’’ اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری مت کرو۔ ‘‘