• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہدائے کربلا اور ہمارے رویے

tanveer ahmad awan

مبتدی
شمولیت
اگست 23، 2016
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
7
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہید کربلااور ہمارا طرز عمل
مولانا تنویراحمداعوان
شہادت درحقیقت حیات جاوداں ہے،شہادت ایک عظیم تحفہ الہی ہے،اتنی لذیذ کہ شہید جنت میں شہادت کے وقت حاصل ہونے والے لطف کو محسوس کرے گا،اسلام میں شہادتوں کا سفر حضرت یاسرؓ کے خاندان سے شروع ہوا،سب سے پہلے شرپسندوں نے عورت کو نشانہ ستم بنایا اور خاتم الانبیاء ﷺ کی عظیم صحابیہ حضرت سمیہؓ کو شہید کیا ،خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ کی مصلیٰ رسول پہ شھادت ہو یا خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنیؓ کی82سال کی عمرمیں 40رو ز تک بھوک پیاس کی حالت میں شہادت ہو ،یاد رہے کہ حضرت عثمان غنیؓ بحیثیت خلیفہ بلوائیوں کے خلاف انتہائی اقدام اٹھا سکتے تھے لیکن آپ نے مدینہ الرسول ﷺ میں خون خرابے کو پسند نہ فرمایا اور اپنی زندگی پر خلافت اسلامیہ کے امن کو ترجیح دی۔تاریخ اسلام جانثاری و جانفروشی کی متحیر العقول داستانوں سے عبارت ہے،جن میں نمایاں حیثیت واقعہ کربلا کے شہداء کو حاصل ہے جن کے سرخیل نواسہ رسول ﷺ،جگر گوشہ بتولؓ ،پسر حیدر کرارؓ حضرت سیدنا حسینؓ تھے۔
3شعبان 4 ؁ھ حضرت علی المرتضیٰؓ کے گھرمیں دوسرے بچے کی پیدائش ہوئی، جس کا نام پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ نے حسین رکھا ،آپ ﷺ اپنے اس نواسے سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ،نبی کریم ﷺ آپ کے خوش ہونے سے خوش ہوتے تھے ،آپ کے رونے سے پریشان اور جدائی سے بے تاب ہو جاتے تھے، آپﷺ نے فرمایا حسن و حسین میری دنیا کی بہار ہیں۔(صحیح بخاری)اللہ کریم نے حضرت سیدنا حسینؓ کو جامع الصفات بنایا تھا،عبادت و ریاضت، سخاوت و فیاضی ،شجاعت وبہادری ،علمی تبحر ،فصاحت اور بلاغت آپ کی پہچان تھی،آپ کی مجالس علم وحکمت ،وقار و متانت سے عبارت ہوتیں تھیں،اکثر پیادہ حج پر تشریف لے جاتے تھے ،تمام کبار صحابہؓ آپ کے ساتھ محبت ،شفقت اور اکرام والا معاملہ کرتے تھے۔خلفاء الراشدین اپنے اپنے ادوار میں مختلف مواقع پر آپ کوبیش بہاقیمتی ھدایااور وظائف عطا فرماتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ اپنی خدمات اسلام کے تحفظ و بقا کے لیے پیش کیں، مختلف اسلامی لشکروں میں شریک ہو کر کافروں کا مقابلہ کیا ،دور حضرت عثمان غنیؓ میں مدینہ پر بلوائیوں کے حملے کے بعد خلیفہ المسلمین حضرت عثمانؓ کے گھر کے باہر پہرہ دیتے رہے۔
امیرالمؤمنین حضرت امیرمعاویہؓ نے اپنی حیا ت میں صحابی رسو ل حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی تحریک سے ولی عہد اپنے بیٹے یزید کو مقررکیا، جس کی تائید اہل شام وعراق نے کی مگر ا ہل مدینہ میں حضرت سیدنا حسینؓ ،عبداللہ بن زبیرؓ اورعبداللہ بن عمرؓ نے انکار کیا ۔وصا ل کے وقت حضرت امیر معاویہؓ نے یزید کو وصیت کی کہ" میرا اندازہ یہ ہے کہ اہل عراق میرے بعد حضرت حسینؓ کو تمھارے مقابلے پر آمادہ کریں گے،اگرایسا ہوا اور تم مقابلے میں کامیاب ہو جاؤ تو ان سے درگزر کرنا اور قرابت رسول اللہ ﷺ کا پورا احترام کرنا، ان کا سب مسلمانوں پربڑا حق ہے۔" (تاریخ کامل ابن اثیر)رجب 60 ؁ ھ میں امیر المومنین حضرت امیر معاویہؓ کا وصال ہوااور یزید مسند نشین ہوا اور تجدید بیعت کی۔
اکابرین اہل حجاز نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور اہل کوفہ کی طرف سے سینکڑوں خطوط بنام حضرت سیدناحسینؓ مکہ پہنچناشروع ہوئے جن میں تحریر تھا کہ" ہمارا کوئی امام نہیں ہے اور ہم نے ابھی تک کسی کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ہے"۔(الطبری ص۲۶۲ج۴)جب کہ حضرت تعمان بن بشیرؓ کوفہ کے حاکم تھے ۔حضرت حسینؓ نے حقیقت احوال معلوم کرنے کے لیے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا ،آپ کا موقف یہ تھا کہ صرف اہل شام کی بیعت پوری امت پر لازم نہیں ہوسکتی ،لہذا اس کی خلافت ابھی منعقد نہیں ہوئی،اس کے باوجود وہ پورے عالم اسلام پر بزور متصرف ہونا چاہ رہا ہے،حضرت سیدناحسینؓ ایسی حالت میں اس غلبہ کو روکنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ نے کوفہ پہنچے تو بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ نے حضرت سیدنا حسینؓ کوحالات سے باخبر کرنے کے لیے خط لکھا کہ آپ جلد کوفہ پہنچیں،مگر عبیداللہ ابن زیاد کے بحیثیت امیر کوفہ آنے کے بعد سرداران کوفہ دنیاوی چمک دمک اور بعض زور زبردستی سے متاثر ہوکربیعت سے منحرف ہو گے اور مسلم بن عقیل اور ان کے میزبا ن ہانی ابن عروہ کو شہید کردیا ۔
ذی الحجہ کی تیسری یا آٹھویں تاریخ 60 ؁ھ حضرت سیدنا حسینؓ کوفہ روانہ ہوئے ،حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت ابن عمرؓ ،حضرت عمر بن عبدالرحمنؓاور عبداللہ بن جعفرؓ سمیت کبار صحابہ کے منع کرنے کے باوجودآپ عازم سفر رہے ۔ حضرت حسینؓ نے مقام حاجر پر پہنچ کر اہل کوفہ کے نام خط لکھا کر قیس بن مسرہد کے ہاتھ روانہ کیا ،خط میں اپنے آنے کی اطلاع اور جس کام کے لیے ان کو اہل کوفہ نے بلایا تھا اس میں پوری کوشش کرنے کی دعوت تھی، مگر قیس کوگرفتار کرکے بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔آپ نے کوفہ کے بجائے کربلا کا رخ کیا اس وقت آپ کے ساتھ 45سوار اور 100پیادہ لوگ تھے ۔عمر بن سعد کربلا میں عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے قاصد بن کر حضرت سیدنا حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے ان کو سامنے تین باتیں رکھیں ،(الف)میں جہاں سے آیا ہوں ،وہیں واپس چلا جاؤں۔(ب)میں یزید کے پاس چلا جاؤں اور خود اس سے اپنا معاملہ طے کر لوں۔(ج)مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر پہنچادو،جو حال وہ کے عام مسلمانوں کا ہو گا میں اسی میں بسر کروں گا۔عمر بن سعد کی کوششوں سے معاملہ کی حل کی طرف جارہا تھا کہ شمر ذی الجوشن کے غلط مشوروں سے عبیداللہ ابن زیاد نے غیر مشروط طور پر صرف اپنی بیعت پر حضرت حسینؓ کو مجبور کر نا چاہا ،مگر آپ نے انکار فرمایا۔کوفی لشکر آپ کا مکمل محاصرہ کر چکا تھا آپؓ نے مختلف کوفی سرداروں کے نام لے کر انہیں مخاطب کر رہے تھے ،اے شیث بن ربعی!،اے حجاز بنابحر!،اے قیس بن اشعث !، ا ے زید بن حارث !کیا تم نے مجھے بلانے کے لیے خط نہیں لکھے؟میرے پاس تمھارے خطوط موجود ہیں۔اس کے بعد فرمایا اگر تم لوگوں کو میرا آنا ناپسند ہے مجھے چھوڑ دو میں کسی ایسی زمین میں چلا جاؤں جہاں مجھے امن ملے۔10محرم 61 ؁ھ کوواقعہ کربلا پیش آیا ، نواسہ رسول سیدنا حسینؓ کو آپ کی اولاد اور جانثاروں سمیت72 افراد کوشہید کردیا گیا ،ان شہداء کو ایک روز بعد دفن کیا گیا،اہلبیت کی خواتین اور شہداء کے سروں کو ابن زیاد اور پھر یزید کے دربار میں لایا گیا۔
شمر ،عمر و بن سعد، ابن زیاداورکوفیوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے نبی کے خاندان کو تہہ تیغ کیا،ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی مثال سے تاریخ قاصر ہے،حضرت سیدنا حسینؓ جب مکہ سے چلے تھے ،اپنے انجام سے باخبر اور عزیمت کے اس راستے کی صعوبتوں کو واقف تھے،"راوی "اہل کوفہ کی غداری کی تاریخ بھی آپ کو سناتا رہا مگر آپ اسلامی خلافت میں پھیلے اضطراب کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔حضرت سیدنا حسینؓ کی زندگی ،سفر کرب وبلا اور شہادت صبر و رضا ،استقامت اور جرأت سے عبارت ہے، پورے خاندان کو قربان کردیا مگر اپنے موقف سے ذرہ برابر لچک نہ آنے دی، اپنی بہن کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ "میری بہن میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ میری شہادت پرکپڑے پھاڑنا یا سینہ کوبی ہرگز نہ کرنا،آواز سے رونے اور چلانے سے بچنا"۔
اسوہ شبیریؓ پر عمل کرنے سے ہم بہت سارے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں،حق کی تائید اور باطل کی سرکوبی کے لیے جدو جہد اور اس راستے میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات کو صبر ورضا سے برداشت کرنا آپ کی زندگی کا اہم پیغام ہے،ماتم ،خنجر وزنجیرزنی اور سینہ کوبی سے حضرت سیدنا حسینؓ اور آپ کے متبعین لاتعلق اور بیزار ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
واقعہ کربلا کے تین رخ ،بحث کو خلط نہ کیا جائے

تحریر : سمیع اللہ سعدی
محرم آتے ہی کربلا پر متنوع قسم کی بحثیں شروع ہوجا تی ہیں ،اور پھر ناصبیت ،رافضیت اور نیم رافضیت کے الزامات ایک دوسرے کے سر تھوپے جاتے ہیں ،اس واقعے کے تین رخ ہیں ،اور بحث کرتے وقت ہر رخ متعین کر کے بات کی جانی چاہیے ،خلط مبحث سے ہی الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے ۔
پہلا رخ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور اہلبیت کی مظلومانہ شہادت
اس واقعہ کا پہلا رخ یہ ہے کہ کربلا میں یقینا ظلم و عدوان کی تاریخ رقم ہوئی ،اور اہلبیت کو بے دردی سے شہید کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دی گئی،جب بھی محرم آتا ہے تو میرے ذہن میں یہ سوال ہر بار آتا ہے کہ اگر روز قیامت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری امت سے اپنے نواسے کے خون کا سوال کیا تو کس امتی میں جواب دینے کی ہمت ہوگی ؟اگر آپ نے پوچھ لیا کہ میری وجہ سے تم سب کے سب دنیا و آخرت میں سر خرو ہوگئے ،کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تم نے دیا کہ میرے پھول جیسے نواسے اور میرے اہلبیت کو بے آب و گیاہ صحرا میں خون میں تڑپایا گیا ،تو اس وقت کیا کیفیت ہوگی ؟کیا حالت ہوگی ، حساس دل پر اس کا تصور بھی بہت بھاری ہے ۔ جس جس نے بھی رسول اللہ کا کلمہ پڑھا ،اسے اس حادثے پر غم نہ ہو ،محال ہے ،یہ عقیدے اور عقیدت کا مسئلہ ہے ۔ اس میں غالی و مفرط رافضی کہلاتا ہے،جبکہ اس میں مقصر و مفرط (تفریط سے )ناصبی کہلاتا ہے،اور اوسط اہلسنت و الجماعت کا پیروکار ہوتا ہے۔
دوسرا رخ سانحہ کربلا کے ذمہ داران کا تعین
دوسرا رخ یہ ہے کہ اس سانحے کے ذمہ دار کون ہیں ،اور یہ کس کے وحشیانہ کرتوتو ں کا نتیجہ ہے؟اس سانحہ کے وقت کل چار فریق تھے:
۱۔یزید جو اس وقت حکمران تھا ۔
۲۔شمر و ابن سعد کی سرکردگی میں کوفیوں کا لشکر جو اہلبیت سے براہ راست لڑا اور خانوادہ اہلبیت کا کا قتل عام کیا ۔
۳۔حضرت حسین کے منافق و بزد ل حمایتی ،ان کےپھر دو گرہ تھے ،ایک اہل کوفہ ۔،جنہوں نے حضرت حسین کو سینکڑوں خطوط لکھے اور حمایت کا وعدہ کیا ،جبکہ وقت آنے پر نہ صرف حمایت کا ہاتھ کھینچ ل،یا بلکہ مسلم بن عقیل کی مخبری کر کے انہیں شہید بھی کروایا ۔،دوسرا مکہ سے روانگی کے وقت بہتر افراد کے سوا باقی ہزاروں کا لشکر ،جنہوں نے راستہ میں ہی ساتھ چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے ۔
۴۔صحابہ و تابعین کی ایک بڑی خاموش جماعت ،جنہوں نے نہ حضرت حسین کا ساتھ دیا نہ ان کے مخالفین کا ۔جنہوں نے بوقت سانحہ اور بعد از سانحہ بھی سکوت کی مہر نہ توڑی ۔
اب سوال یہ ہےکہ ان چار فریقوں میں سے کون ذمہ دار ہیں ،سب ہیں ،یا ان میں سے بعض ،پھر ہر فریق کتنا فیصد ذمہ دار ہے ،یہ ایک خالص تاریخی نوعیت کی بحث ہے ،جس کا عقیدے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے ،کوئی چاروں کو ذمہ دار سمجھتا ہےتاریخی کتب کی روشنی میں ،کوئی صرف یزید کو ذمہ دار سمجھتا ہے ،کوئی صرف کوفیوں کے سر سب کچھ ڈالتا ہے ،اس میں متعدد آرا کی گنجائش ہے ،بس جس کو بھی دلائل کی روشنی میں جو بھی گروہ ذمہ دار نظر آتا ہے ،اور جو گروہ بری نظر آتا ہے ،وہ اپنا مقدمہ بیان کرے ،بس ایک بات کا خیال اس پوری بحث میں کرنی چاہیے کہ حضرت حسین اور شہدائے کربلا کی مظلومیت اور ان کی عظمت کو پامال نہ کرے ۔ اگر کوئی ان چارو ں گروہوں میں سے بعض کی برات کا قائل ہے ،اور عظمت امام عالی مقام اور اہلبیت کا پوری طرح قائل ہے ،تو اس سے اختلاف کا حق ہر ایک کو ہے ،لیکن ناصبیت کا الزام دینا تاریخ اور عقیدے کو خلط کرنے کی بات ہے ۔
تیسرا رخ اقدام حسین کے مقاصد اور اس کی فقہی و شرعی تکییف
تیسرا رخ یہ ہے کہ حضرت حسین اس انتہائی اقدام پر کیونکر مجبور ہوئے ؟کن پہلووں کی وجہ سے انہوں نے قتال کا راستہ اختیار کیا ،اور جان کی قربانی پیش کی ،اس لڑائی کی اگر تکییف کرنی ہو،تو کیا تکییف کریں گے ،یہ خالص فقہی نوعیت کا مسئلہ ہے ،اس تکییف سے فقہا کا مقصد قوانین و اصولوں کا استنباط ہے ،جیسے جمل و صفین سے کئی اصول نکالے گئے ،اس لیے اسے اسی تناظر مین دیکھنے کی کوشش کی جائے ،یہ اقدام خروج (یعنی حکومت وقت کے خلاف اقدام )کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟(یاد رہے خروج کا لفظ فقہ اسلامی میں ہمیشہ برے مفاہیم میں نہیں آتا ،حکومت وقت کے خلاف نیک اور جائز اقدا م کو بھی خروج کہتے ہیں ) اگر یہ خروج تھا ،تو اس کی کیا بنیادیں تھیں ،نیز وہ بنیادیں اقدام کو جائز قرار دے ری تھیں ،یا واجب یا وہ خطائے اجتہادی (میں صرف محتملات بیان کر رہا ہوں ،اسے میرا نظریہ نہ سمجھا جائے )تاکہ اس سے آئندہ کے لیے احکام نکالے جائیں ،اگر یہ خروج نہیں تھا ،یعنی امام کا مقصد پر امن تحریک تھی ،تو اس کی کیا بنیادیں تھیں ؟وغیرہ وغیرہ یہ خالص فقہی و قانونی نوعیت کی بحثیں ہٰیں ،عوام کا نہ اس سے سروکار ہونا چایے نہ ہی عوام کو اس کی ضرورت ،باقی اہل علم کو ان فقہی بحثوں پر مکالمہ کرنا چاہیے ،اس سے نہ اسلام کو خطرہ ہوتا ہے نہ ہی امام عالی مقا م کے مرتبہ کو ۔۔اہل علم نے متفقہ خلیفہ حضرت صدیق اکبر کے خلاف (بعض روایات کے مطابق )حضرت علی کی چھ ماہ بیعت سے تاخیر کی بنیادوں پر بھی بحث کی ہے ،حضرت معاویہ کے خروج پر بھی ،ام المومنین اور عشرہ مبشرہ میں سے حضرت طلحہ و زبیر کی حضرت علی کے خلاف جنگ و جدل کی بھی تکییف کی ہے ،حضرت معاویہ کے یزید کو ولی عہد بنانے کی بھی ،حضرت ابن زبیر کے اقدامات کی بھی ،الغرض پہلی صدی کے جملہ سانحات و واوقعات کو فقہا نے قانونی حٰیثیت سے موضوع بحث بنایا ہے ،اور ان اقدامات کے قانونی سقم یا قوت کی نشاندہی کی ہے ،اس لیے اس جیسی بحثوں پر پابندی ،یا ان ابحاث سے دشمن صحابہ ،دشمن اہل بیت ،نیم رافضیت یا ناصبیت جیسے تمغے ایک دوسرے کو دینا نری جذباتیت اور بحث کو خلط کرنے والی بات ہے ،اگر کسی عالم کی بیان کردہ تکییف و قانونی پہلو سے اختلاف ہو تو برملا ا س سے اختلاف کیا جائے ،لیکن فتوے اور تمغے دینا درست نہیں ،لیکن ان قانونی و فقہی بحثوں میں صحابہ و اہلبیت کے مقام و مرتبہ کی پوری پوری رعایت کرنی چاہیے ،یہی قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں اور اہلسنت کا معتدل منہج ہے ۔۔۔۔وما علینا الا البلاغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر سے مکمل اتفاق ضروری نہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایک پہلو کا اضافہ مزید کر لیں کہ اس المناک واقعہ کے اسباب کیا ہیں کیونکہ اسباب سے اس واقعہ کی تفاصیل کے تعین میں مدد ملتی ہے
 
Top