• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شہید ِ کربلا سیدنا حسین ؓ کی قربانی

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اس کے بعد ۹ محرم کو عصر کے وقت اس نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ حضرت حسین ؓ نے فرمایا کہ میں نماز و دعا کے لئے ایک رات کی اجازت چاہتا ہوں ۔
رات کے وقت حضرت حسین ؓ نے اپنے ساتھیوں کو ایک دردناک خطبہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا:
’’الٰہی! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمارے گھرانے کو نبوت سے مشرف فرمایا اور دین کی سمجھ اور قرآن کا فہم عطا فرمایا۔ لوگو! میں نہیں جانتا کہ آج روے زمین پرمیرے ساتھیوں سے افضل اور بہتر لوگ بھی موجود ہیں یا میرے اہل بیت سے زیادہ ہمدرد و غمگسار کسی کے اہل بیت ہیں۔ اے لوگو! خدا تمہیں جزاے خیر دے۔ کل میرا اور اُن کا فیصلہ ہوجائے گا۔ غوروفکر کے بعد میری رائے ہے کہ رات کے اندھیرے میں تم سب خاموشی سے نکل جاؤ اور میرے اہل بیت کو ساتھ لے جاؤ۔ میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں۔ مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں اور میری جان لے کر تم سے غافل ہوجائیں گے۔‘‘
حضرت سیدنا حسین ؓ کے ان الفاظ سے اہل بیت فرطِ بے قراری سے تڑپ اُٹھے اور سب نے بالاتفاق آپ سے وفاداری اور جاں نثاری کا عہد کیا۔ جب وفاداروں کی گرم جوشیاں ختم ہوئیں تو نماز کے لئے صفیں آراستہ کی گئیں۔ سیدنا حسین ؓ اور ان کے رفقا ساری رات نماز، استغفار، تلاوتِ قرآن،دعا و تضرع میں مشغول رہے اور دشمن کے تیغ بکف سوار رات بھر لشکر حسینؓ کے گر چکر لگاتے رہے۔
۱۰ محرم ۶۱ہجری کوجمعہ کے دن نمازِ فجر کے بعد عمرو بن سعد چار ہزار سواروں کو لے کر نکلا۔ حضرت حسین ؓ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں۔ لشکر حسینؓ محض گنتی کے سواروں اور چند پیدل افراد پر مشتمل تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سیدنا حسین ؓ کا دردناک خطبہ
جب دشمن کی فوج نے پیش قدمی کی تو اس مجسمۂ ایثار و قربانی اور صبر واستقامت کے پیکر نے ان کے سامنے بہ آوازِ بلند مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا:
’’لوگو! میرا حسب نسب یاد کرو۔ سوچو! میں کون ہوں۔ پھراپنے گریبانوں میں نظر ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو۔ کیا تمہارے لئے مجھے قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کی لڑکی کا بیٹا، ان کے چچیرے بھائی علی ؓ کا فرزند نہیں ہوں۔ کیا سید ِشہدا حمزہؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے۔ کیا ذوالجناحین جعفر طیارؓ میرے چچا نہیں؟ کیا تم نے رسول اللہﷺ کو میرے اور میرے بھائی کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا:
سیدا شباب أہل الجنۃ (جوانانِ جنت کے سردار)
اگر میرا بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک جھوٹ نہیں بولا تو بتاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہئے؟ کیا یہ بات بھی تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی؟ واللہ اس وقت روے زمین پر بجز میرے، کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں۔ میں تمہارے نبیؐ کا بلا واسطہ نواسہ ہوں۔ کیا تم مجھے اس لئے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے؟ کسی کا مال چھینا ہے۔ کہو کیا بات ہے… آخر میرا قصور کیا ہے؟‘‘
آپؓ نے بار بار پوچھا مگر کسی نے جواب نہ دیا پھر آپ نے بڑے بڑے کوفیوں کو نام لے کر کر پکارنا شروع کیا: اے شیث بن ربیع! اے حجار بن بجر! اے قیس بن اشعث! اے یزید بن حارث! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ، زمین سرسبز ہوگئی، نہریں اُبل پڑیں۔ اگر آپ آئیں گے تو اپنی جرار فوج کے پاس آئیں گے سو جلد آ جائیے۔
اس پر اُن لوگوں نے انکار کیا تو آپؓ نے چلا کر کہا :
واللہ! تم ہی نے لکھا تھا۔ آخر میں آپ نے کہا: اگر مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑ دو میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں۔
قیس بن اشعث نے کہا: آپ اپنے آپ کو اپنے عم زادوں کے حوالے کردیں۔ اس کے جواب میں آپؓ نے فرمایا: واللہ! میں ذلت کے ساتھ کبھی اپنے آپ کو اُن کے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘
جس وقت ابن سعد نے فوج کو حرکت دی تو حُر اُن سے کٹ کر علیحدہ ہونے لگا تو مہاجر بن اوس نے اس سے کہا: مجھے تمہاری حالت مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ حُر نے سنجیدگی سے جواب دیا: خدا کی قسم! میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کررہا ہوں۔ بخدا میں نے جنت منتخب کرلی ہے۔ یہ کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا لشکرحسینؓ میں پہنچ گیا اور نہایت عاجزی اور انکساری سے معافی کا خواستگار ہوا، آپؓ نے اُسے معاف فرما دیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جنگ کی ابتدا
اس واقعہ کے بعد عمرو بن سعد نے کمان اُٹھائی اور لشکر ِحسین ؓ کی طرف یہ کہہ کر تیر پھینکا کہ گواہ رہو، سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے۔
مختصر سی مبارزت طلبی کے بعد عمرو بن سعد کی فوج لشکر حسین ؓ پر ٹوٹ پڑی۔ ہر طرف جنگ کا میدان گرم ہوگیا اور خون کے فوارے اُبلنے لگے۔ سیدنا حسین ؓ کے شیردل سپاہی جس طرف رخ کرتے، صفوں کو اُلٹ دیتے تھے۔ مگر کثیر تعداد دشمن ذرا سی دیر میں پھر ہجوم کر آتا تھا۔ چند گھنٹوں میں لشکر ِحسین ؓ کے بڑے بڑے نامور بہادر مسلم بن عوسجہ، حُر اور حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے۔ جب دشمن کے سپاہی سیدنا حسین ؓ کے قریب پہنچے تو نماز کا وقت قریب تھا۔آپ نے ابوثمامہ سے فرمایا: دشمنوں سے کہو کہ ہمیں نماز کی مہلت دیں۔ مگر دشمن نے یہ درخواست منظور نہ کی اور لڑائی بدستور جاری رہی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل بیت کو صبر کی تلقین
سیدنا حسین ؓ کے سب رفقا یکے بعد دیگرے شہید ہوچکے تو بنی ہاشم خاندانِ نبوت کی باری آئی۔ سب سے پہلے علی اکبر ؓ شہید ہوئے۔ حضرت حسین ؓ نے علی اکبرؓ کی لاش اُٹھائی اور خیمہ کے پاس رکھ دی۔ اس کے بعد حضرت حسین ؓ میدانِ جنگ سے قاسم بن حسن ؓ کی لاش اُٹھا کر خیمہ کے پاس لائے اور علی اکبرؓ کی میت کے پہلو میں لٹا دیا۔ اہل بیت کے رونے کی آواز آپ کو سنائی دی تو آپ نے اہل بیت کو مخاطب کرکے فرمایا:
صبرًا یا أہل بیتي صبرًا یا بني عمومي لأریتم ھوانًا بعد ذلک
’’ اے اہل بیت! صبر کرو۔ اے میرے چچا کی اولاد! صبر کرو۔ اس کے بعد کوئی تکلیف نہ دیکھو گے۔‘‘
جس وقت عبداللہ بن حسن ؓ نے اپنے چچا سیدنا حسین ؓ پر دشمن کو وار کرتے دیکھا تو اُس پیکر وفا نے لپک کر اپنے ہاتھ پر تلوار کے وار کو روکا، اس کا دایاں بازو شانے سے کٹ کر جدا ہوگیا۔ سیدنا حسین ؓ نے اپنے نوجوان بھتیجے کو چھاتی سے لگایا اور فرمایا:
اصبر علی ما نزل بک واحتسب في ذلک الخیر فإن اﷲ تعالیٰ یُلحقک بابائک الصّٰلحین
’’اے بھتیجے! جو مصیبت اس وقت تم پر آئی ہے، اس پر صبر کرو اور ثواب کے اُمیدوار رہو۔ بہت جلد خدا تجھے تیرے صالح باپ دادا سے ملا دے گا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ایک شیرخوار بچے کی شہادت
اس کے بعد سیدنا حسین ؓ کا صاحبزادہ علی اصغرؒ جب شدتِ پیاس سے تڑپنے لگا تو آپ اس کو گود میں اُٹھا کر لائے اور دشمنوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’تمہیں مجھ سے تو عداوت ہوسکتی ہے، لیکن اس معصوم بچے کے ساتھ تمہیں کیا دشمنی ہے؟ اس کو تو پانی دو کہ شدتِ پیاس سے دم توڑ رہا ہے۔‘‘
اس کے جواب میں دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا جو اس بچے کے حلق میںپیوست ہوگیا اور وہ معصوم وہیں جاں بحق ہوگیا۔ حضرت حسین ؓ نے اس قدر ہوشربا سانحہ پر بھی کمالِ صبر وسکون کا مظاہرہ کیا یعنی اس کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا:
اللھم ھوِّن علی ما نَزَل بہ إنہ لایکون أھون علیک من قتل ناقۃِ صالح
’یا اللہ! جومصیبت اس وقت اس پرنازل ہے، اس کو تو آسان کر۔ مجھے اُمید ہے کہ اس معصوم بچے کا خون تیرے نزدیک حضرت صالح کی اونٹنی سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نواسہ ٔ ؓرسولﷺ کا بے مثال صبر و استقلال
جب اہل بیت ایک ایک کرکے شہید ہوئے تو حضرت سید ِشہدا کی باری آئی اور دشمن کی تلواریں نواسۂ رسولؐ کے جسم اطہر پر ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے نہایت صبرو استقامت سے دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کیا۔ بے شمار دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ تن تنہا ہزاروں کا مقابلہ کررہے تھے۔ شدتِ پیاس سے زبان سوکھ کر کانٹا ہوچکی تھی، تین روز سے پانی کی ایک بوند لبوں تک نہ پہنچی تھی، اوپر سے جھلسا دینے والی دھوپ، نیچے سے تپتی ہوئی ریت، عرب کی گرمی موسم کی سختی اور بادِ سموم کا زور۔ ریت کے ذرّوں کی پرواز جو چنگاریاں بن کر جسم سے لپٹتے تھے۔ حضرت سعد بن وقاصؓ (فاتح ایران) کا بدنہاد بیٹا حکومت کے لالچ سے اندھا ہوکر اَب خاندانِ رسالت کے آخری چراغ حضرت حسین ؓ کی شمع حیات کوبھی بجھانے کیلئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ آپؓ کے جسم اطہر میں تیروں، تلواروں اور نیزوں کے ۸۰ زخم پڑچکے تھے۔ تمام بدن چھلنی بنا ہوا تھا مگر آپؓ پھر بھی نہایت شجاعت اور ثابت قدمی سے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔
شمر بن ذی الجوشن حضرت حسین ؓ کی پامردی اور استقامت دیکھ کر بہت حیران و سراسیمہ ہوگیا اور اس نے سیدنا حسین ؓ کی توجہ میدانِ جنگ سے ہٹانے کیلئے یہ چال چلی کہ فوج سے ایک دستہ علیحدہ کرکے اہل بیت کے خیموں کا محاصرہ کرلیا، اس پر آپؓ نے جھلا کر فرمایا:
’’اے لوگو شرم کرو! تمہاری لڑائی مجھ سے ہے یا بے کس و بے قصور عورتوں سے ۔کم بختو! کم از کم میری زندگی میں تو اپنے گھوڑوں کی باگیں اِدھر نہ بڑھاؤ۔‘‘
شمر نابکار نے شرمندہ ہوکر خیمہ اہل بیت سے محاصرہ اُٹھا لیا اور حکم دیا کہ آخری ہلہ بول دو۔ آخر پوری کی پوری فوج درندوں کی طرح سیدنا حسین ؓ پرٹوٹ پڑی۔ آپؓ صفوں کو چیرتے ہوئے فرات پر پہنچ گئے اور یہ کہہ کر گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا کہ میں بھی پیاسا ہوں اور تو بھی پیاسا ہے ۔ جب تک تو اپنی پیاس نہ بجھائے گا، میںپانی کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ گھوڑا پانی پی چکا تو آپؓ نے پینے کے لئے پانی چلو میں لیا اور چاہتے تھے کہ اس سے اپنا حلق تر کریں کہ یکایک ایک تیر سامنے سے آکر لب ہائے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ آپ نے پانی ہاتھ سے پھینک دیا، تیر کھینچ کر نکالا اور منہ خون سے لبریز ہوگیا۔ آپ خون کی کلیاں کرتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا:
’’بارِ الٰہ! تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ تیرے رسولؐ کے نواسے پرکیا کیا ظلم کررہے ہیں۔‘‘
اتنے میں آوازآئی کہ ’’حسینؓ دور نکل گئے اور اہل بیت کی بھی خبر نہ رہی۔‘‘ یہ آواز سنتے ہی سرعت سے آپ خیموں کی طرف پلٹے۔ راستہ میں دشمنوں کے پَرے کے پَرے لگے کھڑے تھے۔ آپ اُنہیں چیرتے ہوئے خیموں میںپہنچ گئے۔ حضرت حسین ؓ کو مجروح اور خون میں شرابور دیکھ کر خیموں میں کہرام مچ گیا۔ آپ نے اُنہیں صبر کی تلقین کی اور باہر نکل آئے ایک تیر آپ کی پیشانی پر لگا جس سے سارا چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ چند لمحوں کے بعد ایک تیر سینہ اطہر میں آکر پیوست ہوگیا جس کے کھینچتے ہی ایک خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ آپؓ نے اس خون کو اپنے چہرہ پر مل لیا اور فرمایا کہ اسی حالت میں اپنے جدامجد رسولِ کریمﷺ کے پاس جاؤں گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
’جنت کے نوجوانوں کے سردار‘ کی شہادت
طاقت جواب دے چکی تھی، چاروںطرف سے تلواروں اور نیزوں کی بارش ہورہی تھی۔ آپؓ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے ۔ تپتی ہوئی ریت پرگر پڑے۔ دشمن اگر چاہتا تو آپؓ کو اس سے بہت پہلے شہید کردیتا مگر کوئی شخص نبیرۂ رسول کا خون اپنے ذمہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ اب شمر بن ذی الجوشن چلایا اور زرعہ ابن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ کے دائیں ہاتھ کو زخمی کیا پھر شانہ پر تلوار ماری۔ آپ ضعف سے لڑکھڑائے تو سنان بن انس نخنی نے آگے بڑھ کر نیزہ مارا اور آپ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔
آپ کے لئے جنت الفردوس کے تمام دروازے کھل چکے تھے۔ حورانِ فردوس آپ کو فردوس کے جھونکوں سے جھانک رہی تھیں۔ حاملانِ عرش آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ صالحین، صدیقین اور انبیاے علیہم السلام کی روحیں استقبالِ نواسۂ سرورِ انبیاءﷺ کے لئے تیار تھیں۔ ملاے اعلیٰ میں ایک شور برپا تھا، جنت کی تزئیں و آرائش کی جارہی تھی کہ جوانانِ جنت کا سردار آنے والا ہے۔ آپ نے وفورِ انتشار حواس میںکروٹ بدلی اور آنکھ کھول کر دیکھا تو نمازِ عصر کا وقت تھا۔ فوراً سرسجدے میں جھک گیا اور نمازِ عصر ادا کی۔ اس کے بعد شمر نے حکم دیا کہ سرکاٹ لو۔ مگر اس وقت بھی آپؓ کے چہرہ پررعب و جلال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی کو سرکاٹنے کی جراء ت نہ ہوئی۔ شیث بن ربیع آگے بڑھا مگر اس پر بھی ہیبت و رعب طاری ہوگیا، اس کے بعد سنان بن انس آگے بڑھا، اس کی بھی یہی حالت ہوئی۔ آخر شمر دوڑ کر آپ کے سینہ اطہر پر سوار ہوگیا اور جسم اوندھا کرکے سرتن سے جدا کردیا۔ دنیا نے شقاوت، ظلم اور بربریت کے بہت سے مناظر دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا خوفناک سانحہ نہ دیکھا اور نہ دیکھے گی۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سیدنا حسین ؓکا جسد ِمبارک
ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو حکم دیا تھا کہ حسین ؓ کی لاش کو گھوڑوں کے ٹاپوں سے روند ڈالے۔ اب یہ تقدیر بھی حضرت حسین ؓ کے بدنِ مبارک پر پوری ہوئی۔ دس سواروں نے گھوڑے دوڑا کر آپ کے جسم اطہر کو روند ڈالا۔ آہ! یہ وہ جسم مبارک تھا جس کو پیغمبر الٰہﷺ، آپ کی پیاری بیٹی فاطمتہ الزہرا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اُٹھائے اُٹھائے پھرتے۔ یہی وہ جسم تھا، جس کو سرورِکائنات کی پشت ِمبارک اور کندھوں پر سواری کا شرف نصیب ہوا۔ یہی جسم زخموںسے چور، خون میں شرابور، میدانِ کربلا میں گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندا جارہا ہے۔ فاعتبروا یا أولي الابصار!
اس جنگ میں حضرت حسینؓ کے ۷۲ اور کوفیوں کے ۸۸ آدمی مقتول ہوئے۔ اس شقاوت اور قساوت کے مظاہرے کے بعد کوفیوں نے وحشت اور بربریت کا اس طرح مظاہرہ کیاکہ پروگیانِ عفاف کے خیموں میں گھس کر لوٹ گھسوٹ شروع کردی۔ خواتین کے سروں سے چادریں اُتار لی گئیں۔ غور کیجئے کہ اس بے کسی کے عالم میں ان نبی زادیوں کے قلوب کا کیا حال ہوگا۔ مگر یہ سب کچھ انہوں نے کمالِ صبر وتشکر سے برداشت کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شہداے کربلا کے سر نیزوں پر
سلسلۂ حرب و ضرب اور جدال و قتال کے بعد عمرو بن سعد نے اپنی فوج کو آرام کرنے کا حکم دیا۔ کیونکہ مظاہر ِشقاوت سے وہ تھک چکے تھے۔ دوسرے دن مقتول کوفیوں کی لاشیں عمرو بن سعد نے نماز ِجنازہ پڑھ کر دفن کرا دیں مگر شہدا کی لاشیں ویسے ہی چھوڑدیں جنہیں بعد میں قریبی آبادی کے لوگوں نے سپردِ خاک کیا۔ سہ پہر کو عمرو بن سعد نے ۷۲ شہدائے اہل بیت کے کٹے ہوئے سر مختلف قبائل کے سرداروں کو علی قدرِ مراتب دو دو، چار چار اور چھ چھ تقسیم کئے جن کو اُنہوں نے نیزوں پر چڑھا لیا اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ یہ لشکر فتح و ظفر کے شادیانے بجاتا ہوا چھید ہوئے سروں کو آگے آگے لئے ہوئے روانہ ہوا۔ ان سروں کے حلقے میں اہل بیت کی خواتین بھی تھیں جنہیں اونٹوں پر سوار کیا گیاتھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قافلۂ مظلوم کا کوفہ میں ورود اور اہل کوفہ کا ماتم وشیون
۱۲؍ محرم کو یہ قافلہ کوفہ میں پہنچا۔ کوفہ کے لوگ اس جلوس کو دیکھنے کے لئے سڑکوں، چھتوں اور گلیوں پر جمع ہوگئے اور شہدا کے سروں کو نیزوں پردیکھ کر اس طرح رونا پیٹنا شروع کردیا ۔یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خطوط بھیج کر خدا کے واسطے دے کر اپنی اطاعت کا یقین دلا کر سیدناحسین ؓکو بلایا اور جب آپ پہنچ گئے تو روپے پیسے کے لالچ میں آکر حضرت حسین ؓ کی بیعت سے منحرف ہوگئے اور ابن زیاد کی فوج میں شامل ہوگئے اور خاندانِ نبوت کا خاتمہ کردیا۔یہ وہی بزدل اور بے وفا کوفی تھیجو خود چین وا طمینان سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور ان سے صرف ۱۰ فرسخ کے فاصلہ پر میدانِ کربلا میں چمنِ رسالت اپنے ہی کے فرزندں کے ہاتھوں پامال اور تباہ و برباد ہوا۔
آج جو حضرات ہر سال ماہِ محرم میں ماتم کرتے ہیں، یہ انہی کوفیوں کے ماتم کی نقل ہے۔ جنہوں نے اپنی شقاوت و ظلم کے خونیں داغ دھونے کے لئے پیٹنا شروع کردیا تھا۔
 
Top