• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ القراء والمحدثین محمد بن جزری رحمہ اللہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء والمحدثین محمد بن جزری رحمہ اللہ

قاری صہیب احمد میرمحمدی​
نام و نسب
آپ کا لقب شمس الدین اور کنیت ابوالخیر ہے۔ آپ کا، آپ کے والد، دادا اور پردادا کا نام محمد تھا۔ سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔ قدوۃ المجودین، شیخ القراء والمحدثین، شمس الدین ابوالخیر محمد بن محمدبن محمدبن محمد بن علی بن یوسف الجزری الشافعی۔ آپ زیادہ تر ابن الجزری کی عرفیت سے مشہور ہیں جوکہ جزیرہ ابن عمرسے نسبت رکھنے کے باعث ملی۔ جزیرہ ابن عمر مشرق وسطیٰ حدودِ شام میں موصل شہر کے شمال میں جبل جودی کے قریب (جبل جودی جہاں نوح علیہ السلام کی کشتی آکرٹھہری تھی) ایک علاقہ ہے جس کو نہر دجلہ ہلال کی طرح اِحاطہ کئے ہوئے ہے۔ اس جزیرہ کو آباد کرنے والے عبدالعزیز بن عمر برقعیدی تھے۔ اسی لیے اس کو ’جزیرہ ابن عمر‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ ابن جزری کے آباؤ اجداد اس جزیرہ کے رہنے والے تھے۔لہٰذا اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ابن جزری کہا جاتا ہے۔ الجزری کے علاوہ آپ کو’الشافعی‘ بھی کہتے ہیں۔قاری رحیم بخش رحمہ اللہ اپنی کتاب العطایا الوھبیۃ کے ص۱۶ پر فرماتے ہیں کہ اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں:
(ا) ابن جزری شافعی المذہب تھے۔
(ب) نسب کی رو سے شافعی تھے یعنی آپ امام محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع رحمہ اللہ(۱۵۰ تا ۲۰۴ھ) کی اولاد میں سے ہیں۔
قاری محمد سلیمان اپنی کتاب فوائد مرضیۃمیں لکھتے ہیں کہ
’’ ابن جزری بنو شافع کے قبیلہ سے تھے، لیکن آخری دونوں احتمال صحیح نہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یہ مذہبی انتساب ہے، چنانچہ ابن جزری کے صاحبزادے نے بھی اس کی تصریح کی ہے کہ
’’تاریخ کی اس مشہور حقیقت کا کون انکار کرسکتا ہے کہ ابن جزری جلیل القدر علماء شافعیہ میں سے ہوئے ہیں۔ قیاس یہ چاہتا تھا کہ نسبت کو ملا کر مقلد کو شافعی الشافعی کہا جاتا، لیکن اختصار کے پیش نظر ایک نسبت کو حذف کردیتے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ولادت باسعادت
آپ کے والد محترم کی شادی کو چالیس برس گذر چکے تھے، لیکن وہ اولاد کی نعمت سے ہنوز محروم تھے۔ ایک مرتبہ وہ حج بیت اللہ کی غرض سے سرزمین حجاز پر موجود تھے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے گھر پرنگاہ پڑی تو ان کا دل بھر آیا۔ انہوں نے خانہ کعبہ کاطواف بڑی دلسوزی سے کیا۔ پھر چاہ زم زم پر گئے اور آب زم زم پینے کے بعدہاتھ اٹھا لئے۔ ان کی دیرینہ دلی تمنا لفظوں میں ڈھل کر لبوں تک آگئی اور پوری رقت سے دعا کی۔
’’اے میرے رب مجھے نیک و صالح اولاد عطا فرما۔‘‘
حج کے تمام مناسک سے فارع ہو کر وہ اپنے ملک واپس پہنچ گئے۔ چند ماہ بعد رمضان المبارک کا مقدس مہینہ سایہ فگن ہوا۔ برکتوں اور سعادتوں سے معمور اسی ماہ مبارک کی ۲۵ تاریخ ۷۵۱ھ، بروز ہفتہ نماز تراویح کے بعد (یعنی ۲۶ نومبر ۱۳۵۰ء ) کو دمشق کے ایک محلہ میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ یہ بچہ اسی غمزدہ شخص کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو اپنی شادی کے بعد ۴۰ برس تک اولاد کی نعمت کا منتظر رہا۔ اس وقت کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محمد کے گھر پیدا ہونے والابچہ کتنا بڑا قاری، عالم، فقیہ اور محدث بنے گا۔ آج دنیا اس کو ’ابن جزری‘ کے نام سے جانتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعلیم
آپ رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم اسی شہر میں ہوئی۔ آپ رحمہ اللہ نے صرف ۱۲ برس کی عمر میں مکمل قرآن حفظ کرلیاتھا۔ آپ رحمہ اللہ ہر سال نماز تراویح میں قرآن سناتے تھے۔ابن جزری رحمہ اللہ نے فقہ شافعیہ کی پانچ مشہور کتابوں میں سے فقیہ ابواسحاق ابراہیم شیرازی (م۴۷۶ھ؍۱۰۸۳ء) کی کتاب’’التنبیہ‘‘ کو بھی حفظ کیا۔
ابن جزری رحمہ اللہ قرآن کریم کی مختلف قراء ات کے ماہر تھے۔ آپ رحمہ اللہ نے پہلے ۷۶۸ھ؍ ۱۳۶۷ء میں قرآن مجید کی سات مشہور قراء ات کا علم حاصل کیا۔ اس غرض سے آپ رحمہ اللہ نے علامہ ابوعمرو عثمان الدانی رحمہ اللہ (م۴۴۴ھ؍۱۰۵۲ء)کی مشہور کتاب ’التیسیر‘ اور ابومحمد قاسم الشاطبی(م ۵۹۰ھ؍۱۱۹۴ء) کی ’حرز الأمانی ووجہ التھانی‘جوکہ ’شاطبیہ‘ کے نام سے مشہور ہے، شیخ تقی الدین عبدالرحمن بغدادی سے پڑھیں۔ ساتوں قراء توں کی مشق احمد بن الحسین الکغری (م ۷۷۴ھ؍۱۳۷۲ء) کی مدد سے مکمل کی۔ نیز شیخ القراء محمدبن احمد اللیسان(م۷۷۶ھ؍۱۳۷۴ء) سے فنی کتب کا علم بھی سیکھا اورقراء ات بھی پڑھیں۔
اس کے بعدابن جزری رحمہ اللہ قرآن مجید کی چودہ قراء توں کی طرف مائل ہوئے اور آپ رحمہ اللہ نے شیخ عبدالوہاب بن یوسف اور شیخ احمد بن رجب بغدادی کی مدد سے الگ الگ ۱۴ قراء توں کی مشق کی اور ان سے اسناد حاصل کیں۔یہ وہ زمانہ تھا جب دمشق علم و فنون کا گہوارہ تھا، لیکن ابن جزری رحمہ اللہ حصول ِعلم کے شوق میں دیگر مقامات کی طرف سفر کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ (۷۶۸ھ؍۱۳۶۶ء) کو آپ رحمہ اللہ اپنے وطن سے روانہ ہوئے۔پہلے فریضۂ حج ادا کیا۔ اس کے بعد مکہ، مدینہ، قاہرہ، اسکندریہ، بعلبک اور دیگر شہروں میں نامور اَساتذہ کی شاگردی اختیار کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیوخ
ابنجزری رحمہ اللہ نے تقریباً چالیس مشائخ سے کسب فیض کیا۔چنانچہ فقہ کا علم جمال الدین عبدالرحیم الاسنوی (م۷۲۲ھ؍۱۳۷۰ء)، عمر بن رسلان (م۸۰۵ھ؍۱۴۰۲ء) اور ابوالبقاء عبدالوہاب سبکی (م۷۷۱ھ؍۱۳۶۹ء) جیسے قابل فقہاء کرام سے حاصل کیا۔ اصولِ فقہ اور معانی وبیان کی تعلیم علامہ عبداللہ بن سعد الدین (م۷۸۲ھ؍۱۳۸۰ء) اور دیگر اہل علم سے پائی۔
حدیث کا درس لینے کے لیے ابن جزری رحمہ اللہ نے شیخ ابوالثناء محمد بن خلیفہ (م۷۶۷ھ؍۱۳۶۵ء) بہاؤالدین عبداللہ (م۷۹۴ھ؍۱۳۹۲ء)شہاب الدین احمد حنبلی(م۷۷۷ھ؍۱۳۷۵ء) ،شمس الدین محمد بن محب المقدسی (م۷۸۹ھ؍ ۱۳۸۷ء) اور ابن کثیر الدمشقی جیسے نامور حفاظ حدیث کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
اس کے علاوہ ابن جزری رحمہ اللہ نے فخرالدین البخاری (م۶۹۰ھ؍۱۲۹۱ء)حافظ شرف الدین عبدالمومن الدمیاطی (۷۰۵ھ؍۱۳۰۵ء) اور شیخ شہاب الدین احمد الابرقوی (م۷۰۱ھ؍ ۱۳۰۱ء) کے نامور تلامذہ سے بھی اَحادیث نبویﷺ کی سماعت کی۔
حافظ الحدیث عمر بن حسن المراغی (م۷۷۸ھ؍۱۳۷۶ء)سے سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی کی سماعت کی۔ جبکہ شیخ صلاح الدین حنبلی (م۷۸۰ھ؍۱۳۷۸ء) سے طبرانی کی ’المعجم الکبیر‘ اور ’مسنداحمد‘ پڑھیں۔ علاوہ ازیں آپ کے شیوخ کی کافی تعداد ہے جن میں ابن عبدالکریم حنبلی اور بہاؤالدین مامینی وغیرہما کا تذکرہ ملتا ہے۔شیخ کبری زادہ فرماتے ہیں کہ ’’سمع الحدیث من جماعۃ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعلیم و تعلم کے دوران پیش آمدہ حالات
ابن جزری رحمہ اللہ کو فن قراء ت سے خاص دلچسپی تھی۔ آپ رحمہ اللہ نے اس فن میں کمال حاصل کیا۔ آپ رحمہ اللہ کے بعض اساتذہ نے آپ رحمہ اللہ کومشورہ دیاکہ علم قراء ت بہت محنت چاہتا ہے۔اسی لیے اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کم ہے۔ آپ کو دیگر علوم سے بھی لگاؤ رکھنا چاہئے۔ چنانچہ ابن جزری رحمہ اللہ نے اَحادیث رسولﷺ کی طرف توجہ فرمائی اور باقاعدہ اسناد کے ساتھ ایک لاکھ اَحادیث حفظ کرلیں۔
ابن جزری رحمہ اللہ صغر سنی میں ہی متعدد علوم کی تکمیل فرماچکے تھے اور آپ رحمہ اللہ کی غیر معمولی ذہانت،حافظہ اورعلم سے گہری دلچسپی سے آپ رحمہ اللہ کے اَساتذہ بہت متاثرتھے۔ اب آپ رحمہ اللہ کے اَساتذہ نے آپ رحمہ اللہ کو درس وتدریس، افتاء اور تحدیث (حدیث روایت کرنا) کی اِجازت مرحمت فرمائی۔ امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اذن لہ غیر واحد بالافتاء والتدریس والاقراء‘‘
’’یعنی بہت سے مشائخ نے آپ کو افتاء، درس و تدریس اور قراء ت پڑھانے کی اجازت سے نوازا۔‘‘
چنانچہ۷۷۴ھ؍۱۳۷۲ء کو حضرت عماد الدین ابن کثیررحمہ اللہ نے ۷۷۸ھ؍۱۳۷۶ء کو ضیاء الدین القری رحمہ اللہ نے اور ۷۸۵ھ؍۱۳۸۳ء کو شیخ الاسلام البلقینی رحمہ اللہ نے ابن جزری رحمہ اللہ کو درس دینے اور فتویٰ جاری کرنے کی اجازت عنایت فرمائی۔
ابن جزری رحمہ اللہ نے چند برس تک دمشق کی جامع (مسجد) بنی اُمیہ میں قراء ت کی تعلیم دی۔ اس غرض سے وہ قبہ نسرین (جگہ کا نام) کے نیچے اپنی نشست رکھا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپؒ کو دارالعلوم عادلیہ کا شیخ القراء مقرر کردیا گیا۔ پھر آپ رحمہ اللہ نے ’دارالحدیث اشرفیہ‘ میں شیخ القراء کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ آپ رحمہ اللہ شیخ ابن السلاء کی وفات کے بعد ’تربۃ أم الصالح‘ کے شیخ القراء بنا دیئے گئے۔یہاں آکر آپ رحمہ اللہ نے دارالقراء کے نام سے ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ (بعض اسے دارالقرآن کہتے ہیں جو صحیح نہیں)
یہ وہ زمانہ تھا جب سرزمین مصرپر ملک الظاہر سیف الدین برقوق نے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ برقوق ایک دیندار، نیک دل، بہادر، اولوالعزم اور علم دوست حکمران تھا۔ انہوں نے ۷۸۴ھ کے اواخر (یعنی ۱۳۸۳ء کے اوائل ) میں مصر کا اقتدار سنبھالا تھا۔انہوں نے ابن جزری رحمہ اللہ کو ’جامع توتہ‘ کا خطیب مقرر کردیا۔ ۷۹۵ھ؍۱۳۹۵ء کو ایک اور اہم ذمہ داری آپ رحمہ اللہ کی منتظر تھی۔شام کے امیر التمش نے آپ رحمہ اللہ کو شام کا قاضی مقرر کردیا، تاہم یہ ذمہ داری ابن جزری رحمہ اللہ کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوئی۔ اوقاف کے حسابات تسلی بخش نہ ہونے کی وجہ سے امیر شام آپ رحمہ اللہ سے ناخوش ہوگئے۔آپ رحمہ اللہ پرسختیاں کی گئیں اور آپ رحمہ اللہ کا مال و متاع سب کچھ ضبط کرلیا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان نامساعد حالات میں ابن جزری رحمہ اللہ کو انتہائی صدمہ سے دوچار ہونا پڑا ۔ وہ عثمانی سلطنت کے حکمران بایزید اوّل کے پاس ان کے دارالحکومت برسہ (بروصہ) چلے گئے۔ بایزید جو کہ یلدرم (بجلی) کے لقب سے مشہور تھے، ایک بہادر اور علم پرور حکمران تھے۔ انہوں نے ابن جزری رحمہ اللہ کی بہت عزت افزائی کی۔ بڑے احترام سے اپنے پاس ٹھہرایا اور جب تک وہ حکمران رہے انہوں نے ابن جزری رحمہ اللہ کوبرسہ (بروصہ) سے کہیں اور جانے نہ دیا۔
برسہ (بروصہ) میں ابن جزری رحمہ اللہ نے درس حدیث اور درس قراء ت کا سلسلہ شروع کردیا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے آپ رحمہ اللہ کے علم سے کسب فیض کیا۔ خود عثمانی سلطنت کے بایزید یلدرم نے آپ رحمہ اللہ سے دس قراء توں کی تحصیل کی، لیکن اس کے بعد بدقسمتی سے امیرتیمور اور اس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔
بایزید اوّل بلقان کے محاذ پر عیسائیوں کے خلاف جہاد میں مصروف تھے، لیکن اپنے حلیفوں کے ترغیب دلانے پر انہوں نے ناطولیہ (موجودہ ایشیائی ترکی) پر چڑھائی کردی اور اس طرح امیر تیمور کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے جواب میں امیر تیمور نے سخت کارروائی کی۔
آخر ۱۹ ذی الحجہ (۸۰۴ھ؍۲۰ جولائی ۱۴۰۲ء) کو انقرہ کے مضافات میں بڑی خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں بایزید کے فوجیوں نے شکست کھائی۔ بایزید گرفتار ہوگئے اور امیر تیمور نے ان کے ساتھ بہت احترام کاسلوک کیا، لیکن بایزید قید کی حالت میں ۱۴ شعبان (۸۰۵ھ؍۹ مارچ ۱۴۰۳ء) کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے (بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ ان کی موت دمے کے مرض سے ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے خودکشی کی تھی۔ بہرکیف یہ بات طے شدہ ہے کہ بایزید جیسے بہادر سپہ سالار کو اپنی شکست کا غیر معمولی صدمہ پہنچا تھا۔)
امیر تیمور کے عثمانی سلطنت کے دارالحکومت برسہ (بروصہ) پرقبضہ کرلینے کے بعد وہاں کی علمی شخصیات نے کہیں اور منتقل ہونے کاارادہ کرلیا جن میں ابن جزری رحمہ اللہ بھی شامل تھے، لیکن آپ رحمہ اللہ کو حراست میں لے کرامیر تیمور کے پاس حاضر کیا گیا۔ امیر تیمور علماء وفقہاء کی بہت عزت کرتے تھے۔ جب وہ ابن جزری رحمہ اللہ کے بے پناہ علم سے واقف ہوئے تو انہوں نے ابن جزری رحمہ اللہ کواپنی محافل و مجالس میں شریک کرنا شروع کردیا۔ پھر جب امیر تیمور واپس ماوراء النہر آئے تو ابن جزری رحمہ اللہ کوبھی اپنے ساتھ لے آئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امیر تیمور ابن جزری رحمہ اللہ سے اس حد تک متاثر ہوگئے کہ جب امیر تیمور سمرقند پہنچے تو ایک شاندار دعوت کا انتظام کیا۔ اس دعوت میں مملکت کے سرکردہ علماء ، امراء اور فقراء نے شرکت کی۔ تیموری دعوتوں میں صفیں ہمیشہ حلقوں کی شکل میں بنائی جاتی تھیں۔ علماء و فضلاء کو دائیں جانب اور امراء کو بائیں جانب بٹھایا جاتا تھا۔ اس دعوت میں مشہور عالم، فقیہ، فلسفی اور ماہر لسانیات سید شریف جرجانی رحمہ اللہ بھی مدعو تھے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پرتقریباً ۵۰ کتابیں تصنیف کی تھیں۔ جو فقہ، علم، بلاغت، منطق اور صرف و نحو کے متعلق تھیں۔ امیر تیمور نے سید شریف جرجانی رحمہ اللہ کو ابن جزری رحمہ اللہ کے پیچھے جگہ دی۔ مہمانوں میں سے کسی ایک نے دریافت کیا کہ آپ نے سید شریف جرجانی رحمہ اللہ کو ابن جزری رحمہ اللہ کے عقب میں جگہ دی حالانکہ سید شریف جرجانی رحمہ اللہ تو محفل میں سب سے آگے جگہ پانے کے حقدار ہیں تو امیر تیمور نے بلا توقف یہ جواب دیا کہ:
’’میں بھلا ایسے شخص کو آگے جگہ کیوں نہ دوں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کا عالم ہو اور جب اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ میں کوئی اشکال درپیش ہو تواسے حل کرلیتا ہو۔‘‘
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امیر تیمور ابن جزری رحمہ اللہ کی کس قدر توقیر کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ تیمور نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک ابن جزری رحمہ اللہ کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دیا۔
امیرتیمور کی ہدایت پرابن جزری رحمہ اللہ ماوراء النہر کے علاقہ ’کس‘ اور پھر’ ثمرقند‘ میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ آخر ۸۰۷ھ؍ ۱۴۰۴ء میں امیر تیمور کاانتقال ہوگیا۔ جس کے بعد ابن جزری رحمہ اللہ خراسان چلے گئے۔
خراسان سے ابن جزری رحمہ اللہ ، ہرات، یزد، اور اصفہان ہوتے ہوئے رمضان المبارک ۸۰۸ھ؍فروری ۱۴۰۶ء کو شیراز پہنچے۔
’شیراز‘ میں وہ کچھ عرصہ درس دیتے رہے۔ پھر شیراز کے حاکم پیر محمد نے ابن جزری رحمہ اللہ کو چیف جسٹس(قاضی القضاۃ) مقرر کردیا۔ ابن جزری رحمہ اللہ یہ عہدہ قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، لیکن حاکم کے اصرار اور مجبور کرنے پر یہ عہدہ قبول کرلیا اور خاصہ طویل عرصہ یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے۔شیراز میں بھی آپ رحمہ اللہ نے قراء ت کی تعلیم دی اور حدیث کی ایک درس گاہ قائم کی جہاں سات یا دس قراء توں کی تکمیل کے بعد طلباء کو اسناد جاری کی جاتی تھیں۔ ’شیراز‘ کے باشندوں کو آپ رحمہ اللہ کی ذات سے بہت فیض حاصل ہوا۔ آپ رحمہ اللہ کے ذریعے اس علاقہ میں علم قراء ت اور حدیث کوبہت فروغ ملا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِشاعت علم کا یہ سلسلہ ۸۲۲ھ؍۱۴۱۹ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد حاکم شیراز بعض وجوہ کی بنا پر برگشتہ ہوگئے اور ابن جزری رحمہ اللہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت میں پہلے جیسی گرم جوشی نہ رہی۔ ۸۲۲ھ؍۱۴۱۹ء میں ابن جزری رحمہ اللہ نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا اور بصرہ کے راستے سرزمین حجاز روانہ ہوگئے۔ راستے میں آپ رحمہ اللہ کے قافلے کو راہزنوں نے لوٹ لیا جبکہ آپ رحمہ اللہ کے پاس مال و متاع نام کی کوئی چیز نہ بچی۔
چنانچہ ان نامساعد حالات میں آپ رحمہ اللہ اس سال فریضۂ حج بھی ادا نہ کرسکے۔ آپ رحمہ اللہ نے مدینہ منورہ کے قریب قدیم بندرگاہ (منبیع) میں قیام فرمایا۔ ربیع الاوّل (۸۲۳ھ/مارچ ۱۴۲۰ء) میں آپ رحمہ اللہ مدینہ منورہ پہنچے۔ وہاں آپ رحمہ اللہ نے درس حدیث دیا۔ اس کے بعد آپ رحمہ اللہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور اسی سال حج کا فریضہ ادا فرمایا۔ پھر آپ رحمہ اللہ اپنی ازواج کے ساتھ بلاد عجم کی سیاحت کے لیے روانہ ہوگئے۔ دمشق سے ہوتے ہوئے آپ رحمہ اللہ قاہرہ پہنچے۔ یہاں اس وقت سلطان الاشرف حاکم تھے۔ انہوں نے آپ رحمہ اللہ کے ساتھ بہت عزت واحترام کا سلوک کیا۔ قاہرہ میں آپ تقریباً دو ہفتے تک رہے۔
ابن جزری رحمہ اللہ کی قاہرہ آمد کی خبر پھیلتے ہی قراء حضرات آپ رحمہ اللہ کی قیام گاہ پر پہنچ گئے اور زبردست ہجوم ہوگیا۔ ہرفرد آپ سے علم قراء ت سیکھنے کا خواہاں تھا۔ قراء کا اتنا بڑااژدھام تھاکہ آپ رحمہ اللہ ہر ایک کے لیے فرداً فرداً قراء ت نہیں فرما سکتے تھے۔ چنانچہ آپ رحمہ اللہ مجمع کے سامنے (جن میں شارح بخاری حافظ ابن حجررحمہ اللہ بھی موجود تھے جو کہ ابھی جوان تھے) ایک آیت قرآنی کی تلاوت فرماتے اور پھر تمام قاری حضرات مل کر اس کودھراتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاہرہ میں ابن جزری رحمہ اللہ نے درس حدیث دیا اور مسنداحمد و مسند شافعی کی تعلیم بھی دی۔ قاہرہ سے ابن جزری رحمہ اللہ یمن (Yaman)کے راستے ایک مرتبہ پھر حج کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے۔ یمن میں آپ رحمہ اللہ کی کتاب الحصن والحصین کا بہت شہرہ تھا۔ حتیٰ کہ اہالیان یمن اس کا حوالہ دینا پسند کرتے تھے۔ جب آپ یمن واپس پہنچے تو بڑی تعداد میں آپ رحمہ اللہ کے مداحوں اور عقیدت مندوں نے آپ کی خدمت میں حاضری دی۔ آپ رحمہ اللہ کی کتاب الحصن والحصین کی سماعت آپ رحمہ اللہ سے جن لوگوں نے اس سے قبل کی تھی ان میں اکثر انتقال کرچکے تھے اب ان کے بیٹوں اور پوتوں نے آپ رحمہ اللہ سے اس کتاب کی سماعت کی۔
ابن جزری رحمہ اللہ نے کچھ دن مکہ مکرمہ سے عدن کوجانے والی شاہراہ پرواقع شہر زبید کی ’مسجد الاشاعرہ‘ میں بھی حدیث کا درس دیا اور زبید کے علماء کرام نے آپ رحمہ اللہ سے حدیث کی اجازت لی۔ یمن کے حاکم ملک المنصور بھی علم سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ بھی آپ رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ رحمہ اللہ کو صحیح مسلم سنائی اور حدیث کی روایت کی اِجازت حاصل کی۔نیز انہوں نے آپ رحمہ اللہ کی خدمت میں متعدد تحائف پیش کئے اور مکہ مکرمہ تک سفر کا اعلیٰ انتظام کیا۔
ابن جزری رحمہ اللہ ربیع الاوّل ۸۲۸ھ؍جنوری ۱۴۱۵ء کو مکہ مکرمہ پہنچے۔ جہاں مسجد الحرام میں آپ رحمہ اللہ نے مسنداحمد کا درس دینا شروع کیا۔ اپنی عمر کے آخری ایام آپ رحمہ اللہ نے شیراز ہی میں گزارے جہاں محلہ ’اسکافین‘ میں آپ رحمہ اللہ کی قیام گاہ تھی۔ ابن جزری رحمہ اللہ دو واسطوں سے امام شاطبی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ (م۵۹۰ھ؍۱۱۹۴ء) اندلس کے صوبہ ’بلنسیہ‘کے شہر شاطبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ رحمہ اللہ ان تمام علوم کے ماہر تھے جن کا تعلق قرآن مجید کی قراء ات اور تفسیر سے ہے۔
ابن جزری رحمہ اللہ حدیث کے علم میں بھی کامل تھے۔ آپ رحمہ اللہ کوایک لاکھ حدیث اپنی اسناد کے ساتھ حفظ تھیں۔
محدث طاؤس رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’وہ اعلیٰ روایت، حفظ اَحادیث، جرح و تعدیل، قدیم اور بعد کے راویوں کی معرفت میں یکتا تھے، وہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن نسائی، ابن ماجہ،سنن دارمی،مسندامام شافعی اور مؤطا امام مالک سے روایت کرتے تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تصنیفات
ابن جزری رحمہ اللہ فن قراء ات اور حدیث کے علاوہ دیگرکئی علوم مثلاً تاریخ، طبقات رجال، نحو اور اصول فقہ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ابن جزری رحمہ اللہ کو شعر و سخن سے بھی دلچسپی تھی۔ انہوں نے قرآن مجید کی قراء ت سے متعلق فن تجوید (یعنی حروف کو ان کے مخارج سے صحیح طور پر ادا کرکے پڑھنا یا حروف کاتلفظ کرنا) کے اُصول اور قواعد کو اشعار کی شکل میں مرتب کیا۔ آپ رحمہ اللہ نے قراء ات متواترہ کے اختلاف کوبھی شعروں کالباس پہنایاتاکہ یاد کرنے میں آسانی رہے۔ آپ نے صرف ۱۸ برس کی عمر میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے انداز کی ایک نظم لکھی جو دس قراء توں کے موضوع پر مشتمل تھی اور اس نظم کا نام الھدیۃ فی تتمۃ العشررکھا۔ اس نظم کا وزن وقافیہ وہی ہے جو علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی مشہور نظم شاطبیہ میں استعمال ہواہے۔ شاطبیہ کاقافیہ حرف ’ل‘ ہے۔مؤرخین کے مطابق شاطبی رحمہ اللہ کے انداز پر لکھنا نہایت مشکل کام ہے۔
ابن جزری رحمہ اللہ نے مقدمۃ الجزریۃ کے نام پر ایک کتاب لکھی اور طیبۃ النشر میں سات اور دس قراء توں کے اختلاف کو ایک ہزار اشعار کی صورت میں نظم کیا۔ نیزاُصول حدیث میں بھی ایک نظم لکھی۔ علاوہ ازیں آپ رحمہ اللہ نے محبت رسولﷺ کے رنگ میں بھی متعدد اشعار کہے۔ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ نے اپنے تلامذہ کو جب ’شمائل ترمذی‘ کتاب کی تکمیل کروائی تو فی البدیہہ دو اشعار کہے۔ ابن جزری رحمہ اللہ ، زبان و اَدب میں بھی کمال رکھتے تھے۔ وہ نہایت فصیح زبان بولتے اور لکھتے تھے۔
ابن جزری رحمہ اللہ زبان کی فصاحت کے ساتھ ساتھ خوبصورت چہرہ اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ رحمہ اللہ کی صحت بھی بہت اچھی تھی ۔ ۸۲۴ھ؍۱۴۲۱ء کو جب آپ قاہرہ رحمہ اللہ پہنچے تو آپ رحمہ اللہ کی عمر تقریباً ۷۳ برس تھی۔ اس وقت گو کہ آپ رحمہ اللہ کی سماعت میں قدرے فرق آگیاتھا، لیکن بصارت اس عمر میں بھی بالکل ٹھیک تھی۔ آپ رحمہ اللہ اس وقت بھی باریک خط میں لکھا کرتے تھے جس طرح جوانی کے زمانے میں لکھتے تھے۔
ابن جزری رحمہ اللہ نے درس و تدریس کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کے لیے وقت نکالا اور ۷۷ سے زائد کتابیں لکھیں، ان کتابوں میں سے چند درج ذیل ہیں:
 
Top