• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ سرہند

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
شیخ سرہند

جمیل اطہر سرہندی​
برصغیر پاک و ہند میں تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک روشن باب شیخ احمد سرہندی ملقب بہ مجدد الف ثانی (۱۵۶۴ئ… ۱۶۲۴ئ) سے منسوب ہے۔ مغل سلطنت نے جہاں برصغیر میں علوم و فنون اور بہت سے دوسرے ثقافتی اور تمدنی مظاہر کی بنا رکھی،وہاں علوم و افکار کے راستے اِلحاد و زندقہ کی راہ کو ہموار کرنے میں بھی اپنی سعی ٔ بد کو بروے کار لائے۔ نصیر الدین ہمایوں نے ایران سے واپسی پر مغل دربار میں ایک کشمکش کی بنا رکھی جو اس کے فرزند اکبر ؔکے عہد میں فتنہ و اِلحاد کے بامِ عروج تک پہنچ گئی۔ جلال الدین اکبر نے دین الٰہی کو ایجاد کیا۔ ملامبارک کے بیٹوں ابوالفضل اور فیضی نے توحید کے بعد نبوت کی ضرورت سے انکار کردیا۔ نبوت پر اعتراضات کی رو شِ بد کا آغاز کیا بلکہ مجلس میں ابوالفضل نے مجدد الف ِثانی کی موجودگی میں امام غزالی پر نامعقولیت کی پھبتی کسی۔ عبادات اور شعائر ِاسلام کو عقل کے خلاف ثابت کیا گیا۔ مساجدکو گرانے کا کام شروع ہوا اور عین شاہی محل میں ایک آتش خانہ تیار کرایا گیا جس میں خود اکبر بھی اپنے مخصوص عقائد کے مطابق عبادت کرتا تھا۔ اذان کی بجائے ناقو س اور صور پھونکے جانے لگے۔ ہندو علم الاصنام کے کرداروں برہما، مہاویر، شین، کشن وغیرہ کی تعظیم کی جانے لگی۔ سورج کی عبارت دن میں چار مرتبہ کی جانے لگی۔ اکبر خود سورج کے ایک ہزار ناموں کی مالا جپتا۔ اکبر کی تقلید میں تمام درباری داڑھی منڈانے کو خوبی تصور کرنے لگے۔ ماتھے میں قشقہ لگایا جاتا۔ آگ، پانی، درختوں اور دوسرے مظاہر فطرت کی پوجا ہونے لگی۔ خنزیر کے گوشت کو حلال اور کتوں کو متبرک سمجھا جانے لگا۔ گائے کا گوشت حرام اور اس کا پیشاب پوتر قرار پایا۔ سود، شراب اور قمار کی تمام شکلیں حلال تصور کی گئیں۔لے دے کے ایک کسر باقی رہ گئی اور اسے پورا کرنے کے لئے اکبر نے اپنی تعظیم میں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ لا إلہ الا إللہ أکبر خلیفۃ اللہ کا کلمہ دین الٰہی کی اساس اور بنیاد ٹھہرایا گیا۔ مختلف شعائر اسلام کی جس قدر توہین کی گئی، قلم اسے لکھتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ الغرض یہ وہ نازک دینی صورت حال تھی جس میں اکثر علمائِ سوء دین سے انحراف کو ذہنا قبول کرچکے تھے۔اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے مجدد الف ِثانی کو اس فتنہ و الحاد کی سرکوبی کے لئے منتخب کیا، جن کی خدمات کے باعث علامہ اقبالؒ نے فرمایا : ؎
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
پیش نظر کتاب ’شیخ سرہند ؒ ‘ اس تاریخ دعوت و عزیمت کے مختلف پہلوئوں کو سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کے فاضل مرتب جمیل اطہر سرہندی پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور دائرہ صحافت میں ان کی سرگرمیاں گذشتہ چار عشروں پر محیط ہیں۔ جمیل اطہر کے قلم میں جو جرأت و جسارت اور بیباکی کا عنصر ہے، اغلباً یہ بھی حضرت مجدد کی سیرت کا ایک ادنیٰ پرتو ہے۔ جمیل اطہر کے آبائو اجداد سرہند کی سرزمین میں بستے تھے اور انہیں حضرت مجدد کی خانقاہ اور سلسلۂ طریقت سے ایک ذ ہنی اور قلبی لگائو تھا۔
فاضل مرتب کو ایک مرتبہ ۱۹۵۴ء میں اپنے والد کی ہمراہی میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۸ء میں ایک وفد کے ہمراہ سرہند کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مجدد کے ساتھ اسی خاندانی اور شخصی محبت نے انہیں ’حضرت مجدد الف ثانی سوسائٹی‘ کی تشکیل کا داعیہ بخشا۔ جس کے مختلف جلسوں میں جو متعدد مضامین پڑھے گئے، وہ سب جرعاتِ علمی اب اس ارمغانِ علمی کی شکل میں پیش خدمت ہیں۔ پیش لفظ کے علاوہ اس میں ۲۳ نثری مضامین اور دو اُردو منظومات شامل ہیں۔ ان مضامین میں سات مستقل مضامین خود فاضل مرتب کے قلم سے یادگار ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
اس مجموعہ مبارک کے مطالعہ سے برصغیر کے ایک خاص عہد میں اس دینی ابتلا کا اندازہ ہوتا ہے جس کے دفاع کے لئے حضرت مجدد نے عظیم تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا۔ عجمی تصوف اور وحدت الوجود کی دلدل میں اُتری ہوئی امت کے بے بس افراد کو ’اثبات النبوۃ‘ اور ’مکتوبات ‘جیسی تحریروں کے ذریعے ساحل عافیت پر لانے کی کوششیں کی گئیں۔ شعائر ِاسلامی کے انسداد کے باعث مجدد علیہ الرحمہ نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی روایات کے دفاع میںجو عظیم خدمات پیش کیں، ان کے باعث ملت کو ایک مرتبہ پھر اپنا تشخص نصیب ہوا اور سیاسی سطح پر یہ دوقومی نظریے کی مثبت اساس تھی جس پر آگے چل کر اسلامیانِ ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کو استوار کیا۔ حضرت مجددؒ نے تصوف کی اصلاح و تجدید کے لئے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا اس کی تفصیلات بھی اس مختصر مجموعہ مضامین کا مستقل حصہ ہیں۔ اس کتاب کا اسلوبِ ترتیب موزوں ہے اور اس کے مطالعے سے برصغیر کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور سب سے روشن پہلو کا علم اور اِدراک حاصل ہوتا ہے۔ فاضل مرتب اس مقصد میں بخوبی کامیاب ہیں۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)
 

allahkabanda

رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
174
ری ایکشن اسکور
568
پوائنٹ
69
فاضل مرتب کو ایک مرتبہ ۱۹۵۴ء میں اپنے والد کی ہمراہی میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۸ء میں ایک وفد کے ہمراہ سرہند کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔
درباروں پر حاضری کوئی شرف کی بات ہے ؟
 
Top