• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعہ ذاکر کی حضر ت ابراہیم علیہ سلام اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی ،،لعنت ہو ایسے ع

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے
تو جناب ہم نے کسی گروہ کو یا پھر کسی شقص کو لپیٹ کر ملامت یا لعنت نہیں کیے بل کے جو لوگ صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں جھوٹا کہتے ہیں ان پر الله کی لعنت ہو آمین یہ کہا
جزاک اللہ خيرا
السلام و علیکم حافظ صاحب!
میرا اشارہ آپ کے جواب کی طرف نہیں بلکہ اس دھاگہ کے عنوان کی طرف تھا۔
جزاک اللہ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مخصوص ومتعین گروہ یا اشخاص پر لعنت کرنا صحیح نہیں۔

البتہ مخصوص اعمال واقوال پر لعنت تو کیا تکفیر بھی کی جا سکتی ہے، مخصوص عمل پر منافق بھی کہا جا سکتا ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
جی بجا فرمایا۔ میرا مطلب بھی یہی تھا۔

ویسے ضمنا" ایک سوال ہے کہ کسی متعین فرد پر تولعنت کی جاسکتی ہے نا اگر اس کے کھلے اعمال و اقوال اسی قابل ہوں جیسے ملعون رشدی ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
محترم توصیف الرحمٰن صاحب کے خطابات تو ماشاء اللہ بہت عمدہ اور ایمان افروز ہوتے ہیں۔آپ کی تقاریر تو ہم اہل خانہ سب مل کر ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔میں نے صرف اس دھاگہ کے ناموزوں عنوان کی طرف اشارہ کیا تھا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جی بجا فرمایا۔ میرا مطلب بھی یہی تھا۔

ویسے ضمنا" ایک سوال ہے کہ کسی متعین فرد پر تولعنت کی جاسکتی ہے نا اگر اس کے کھلے اعمال و اقوال اسی قابل ہوں جیسے ملعون رشدی ۔
لعنت کی دو صورتیں ہیں:
اول: کسی پر مطلق (بغیر تعیین کے) لعنت کرنا، خواہ وہ کافر ہو یا اہل معاصی میں سے کوئی فاسق ۔۔۔ جیسے کوئی کہے کہ یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت! یا کافروں، فاسقوں یا ظالموں پر اللہ کی لعنت! یا کہے شراب نوشی کرنے والے یا چور پر اللہ کی لعنت! تو لعنت کی یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
دوم: کسی (شخص یا گروہ) پر معین طور پر (نام لے کر) لعنت کرنا خواہ وہ کافر ہو یا فاسق ۔۔۔ جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص پر اللہ کی لعنت! تو اس کی مزید دو صورتیں ہیں:
1۔ اس شخص پر لعنت کے متعلق کوئی نص وارد ہوا ہو جیسے ابلیس یا اس کی کفر پر موت کے متعلق نص ہو جیسے فرعون، ابو لہب، ابو جہل وغیرہ تو یہ لعنت جائز ہے۔ ایسے لوگوں پر لعنت نہ کرنے پر بھی کوئی حرج نہیں۔
2۔ کسی ایسے زندہ کافر یا فاسق شخص پر معین کرکے لعنت کرنا، جس پر بطورِ خاص لعنت کے متعلق کوئی نص وارد نہیں۔ جیسے کسی شرابی، غیر اللہ کیلئے ذبح کرنے والے، اپنے ماں باپ پر لعنت کرنے، کسی بدعتی کو پناہ دینے والے یا زمین کے نشانات تبدیل کرنے والے پر کوئی شخص نام لے کر لعنت کرے۔
درج بالا تمام افعال پر مطلق طور پر لعنت تو صحیح احادیث میں وارد ہے، لیکن معین کرکے لعنت کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے
تو اس بارے میں علماء کی تین آراء ہیں:
1۔ ایسے لوگوں پر معین لعنت کسی طور جائز نہیں!
2۔ کافر کے بارے میں جائز ہے، فاسق کے بارے میں جائز نہیں!
3۔ مطلقا جائز ہے۔

الآداب الشرعية لابن مفلح 1 / 303

جو لوگ جائز قرار نہیں دیتے ہیں، ان کے دلائل یہ ہیں:
عن عبد الله بن عمر أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ مِنْ الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنْ الْفَجْرِ يَقُولُ : اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلانًا وَفُلانًا وَفُلانًا بَعْدَ مَا يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ : ( لَيْسَ لَكَ مِنْ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ ) . (صحيح البخاري)
کہ سیدنا ابن عمر﷜ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو سنا کہ جب وہ فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کے بعد فرماتے کہ اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت کر، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمادی: اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں۔

عن عمر أن رجلا على عهد النبيﷺ كان اسمه عبد الله، وكان يلقب حمارا ، وكان يضحك رسول اللهﷺ، وكان النبيﷺ قد جلده في الشراب، فأتي به يوما فأمر به فجلد، قال رجل من القوم : اللهم العنه، ما أكثر ما يؤتى به، فقال النبيﷺ: ( لا تلعنوه ، فو الله ما علمت، إلا أنه يحب الله ورسوله ) . (صحيح البخاري)
سیدنا عمر﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا، وہ رسول کریمﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، نبی کریمﷺ نے شراب نوشی پر اسے کوڑے لگوائے تھے، ایک دن (پھر) اسے لایا گیا تو نبی کریمﷺ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ تو ایک لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ اس پر لعنت کرے کتنی مرتبہ اسے (شراب پینے پر سزا دینے کیلئے) لایا گیا ہے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم، جہاں تک میں اسے جانتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔


اس بارے میں امام ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں:
جن پر اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺ نے لعنت کی ہے، ان پر مطلقاً (بغیر تعیین کے) لعنت کرنا جائز ہے۔ جہاں تک معین کرکے لعنت کرنا ہے تو اگر کسی کے بارے میں یہ علم ہوجائے کہ وہ کفر پر فوت ہوا ہے اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔ جہاں تک کسی فاسق پر تعیین کرکے لعنت کا معاملہ ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ نے عبد اللہ بن حمار نامی شخص - جنہیں بار بار شراپ پینے کی جرم میں لایا جاتا تھا - پر لعنت کرنے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ نبی کریمﷺ نے شارب الخمر پر مطلقاً (عمومی طور پر، بغیر تعیین کے) لعنت فرمائی ہے۔
مجموع الفتاوى" 6 / 511

الشیخ محمد بن صالح العثیمین﷫ فرماتے ہیں:
کسی شخص پر معین لعنت اور اہل معاصی پر مطلقاً لعنت میں فرق ہے۔ پہلی صورت ناجائز ہے۔ دوسری صورت (فاسقوں پر مطلقاً لعنت) جائز ہے۔ اگر تم کسی بدعتی شخص کو دیکھو تو اسے یہ نہ کہو کہ تم پر اللہ کی لعنت! بلکہ عمومی طور پر کہو بدعتی کو پناہ دینے والے پر اللہ کی لعنت! (جیسا کہ حدیث میں ہے) اس کی دلیل یہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے اہل جاہلیت کے بعض مشرکین پر لعنت کرنا شروع کی کہ اے فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت کر! تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل کرکے آپﷺ کو اس سے منع فرما دیا: ﴿ ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون ﴾ کہ اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے یا عذاب دے، کیونکہ وہ ظالم ہیں (128) (صحیح بخاری)
القول المفيد: 1 / 226

واللہ تعالیٰ اعلم!

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں:
موقع الإسلام سؤال وجواب - حكم لعن المعين
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
سیدنا ابراہیم خلیل اللہ� اور ابو بکر صدیق� پر سبّ وشتم کرنے والوں پر الله رب العٰلمین، فرشتوں اور مجھ ناچیز سمیت سب لوگوں کی لعنت!

فرمانِ نبویﷺ ہے:
من سب أصحابي ، فعليه لعنة الله و الملائكة و الناس أجمعين
الراوي: عبدالله بن عباس المحدث: الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 2340
خلاصة حكم المحدث: حسن بجموع الطرق
الدرر السنية - الموسوعة الحديثية


جناب آپ بھی اس حدیث کو صحیح مان رہے ہیں!!!!

جزاک اللہ خیرا
 

اعتصام

مشہور رکن
شمولیت
فروری 09، 2012
پیغامات
483
ری ایکشن اسکور
725
پوائنٹ
130
جی بلکل میں تو مانتا ہوں پر یہ بھی دیکھ لیں۔۔۔
من سب عليا فقد سبنى ، ومن سبنى سبه الله
الراوي:أم سلمة هند بنت أبي أميةالمحدث:الألباني - المصدر:السلسلة الضعيفة- الصفحة أو الرقم:2310
خلاصة حكم المحدث:منكر


من سب عليا فقد سبني ، و من سبني فقد سب الله
الراوي:أم سلمة هند بنت أبي أميةالمحدث:الألباني - المصدر:ضعيف الجامع- الصفحة أو الرقم:5618
خلاصة حكم المحدث:ضعيف


!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!
!

من سب عليا فقد سبني، و من سبني فقد سب الله
الراوي:أم سلمة هند بنت أبي أميةالمحدث:السيوطي - المصدر:الجامع الصغير- الصفحة أو الرقم:8736
خلاصة حكم المحدث:صحيح

من سب عليا فقد سبني ، ومن سبني فقد سب الله
الراوي:أم سلمةالمحدث:محمد جار الله الصعدي - المصدر:النوافح العطرة- الصفحة أو الرقم:383
خلاصة حكم المحدث:صحيح

دخلت على أم سلمة فقالت لي أيسب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم قلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سب عليا فقد سبني
الراوي:أم سلمةالمحدث:الهيثمي - المصدر:مجمع الزوائد- الصفحة أو الرقم:9/133
خلاصة حكم المحدث:رجاله رجال الصحيح غير أبي عبد الله الجدلي وهو ثقة‏‏

من سب عليا فقد سبني
الراوي:أم سلمةالمحدث:الشوكاني - المصدر:در السحابة- الصفحة أو الرقم:165
خلاصة حكم المحدث:إسناده رجاله رجال الصحيح غير أبي عبد الله الجدلي وهو ثقة
 
Top