عکرمہ
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 27، 2012
- پیغامات
- 658
- ری ایکشن اسکور
- 1,869
- پوائنٹ
- 157
شیعیت کا آغاز
علامہ احسان الہیٰ ظہیر رحمہ اللہ(شہید ان شاء اللہ)کی کتاب’’الشیعہ والسنہ‘‘سے ماخوذ
جب سرورگرامی قدرحضرت محمدﷺکی نبوت ورسالت کا آفتاب طلوع ہوااوراس کی کرنوں سےکفر وشرک کی ظلمتیں چھٹنے لگیں تو کفر وشرک کے حاملین اسی وقت پیغمبر اسلام اور تعلیمات اسلام کے خلاف محاذآرا ہوگئےاورانہوں نے تو پہلے میدان جنگ میں بالمقابل صف بندی کرکےدوبدو مسلمانوں کو شکست دینی چاہی مگر جب ان کی تمام ترمسلمانوں کے ایمان ویقین کے سامنے ٹھہر نہ سکیں اور جذبہ جہاد سےسرشار کاہنات کی عظیم ہستی کے عظیم ساتھیوں نےمیدان جہاد میں ارباب کفروشرک کو پسپا کردیاتوانہوں نے ایک نیا لبادہ اوڑھ کر فکری محاذ پرمسلمانوں کی قوت وشوکت کوپارہ پارہ کرنے کی خفیہ جدوجہد شروع کردی۔
چنانچہ جزیرہ عرب میں یہودی لابی،ایران میں مجوسی عناصر اور برصغیر میں ہندواہل اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(الصف:8)
اسلامی عقائد کی دیوارمیں سب سے پہلےجس شخص نے نقب لگانے کی کوشش کی وہ منافق’’عبداللہ بن سبا یہودی‘‘کے نام سے معروف ہےوہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکےمسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوا اورکفریہ عقائد کی ترویج کے لیےاپنی کوششیں شروع کر دیں،یہ ناپاک اور بدطینت شخص اپنے سینے میں اسلام کے خلاف بغض وحقدکو چھپائےحب اہل بیت کا لبادہ اوڑھےاوراپنے مکروہ چہرے پر اسلام کاماسک لگائے ہوئےان سادہ لوح افراد کو مکرودجل کے جال میں پھنسا کرصحیح اسلامی عقائد سے منحرف کرنےلگاجو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق روم وفارس کی سلطنتوں کے فتح ہونے کے بعددین اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔’’مخالفین اسلام اللہ تعالیٰ کے جلائے ہوئےچراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ بھی اپنے نور کومکمل کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہےخواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوارکیوں نہ گزرے‘‘
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا(النور:55)
اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوااورروم وفارس کی سلطنتوں پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا،یہ عظیم الشاں فتوحات یہودیوں اورایرانی مجوسیوں کو گوارا نہ تھیں،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے عقائد وافکار میں نقب زنی کرکےغیر اسلامی افکار ونظریات کو دخل کرنا چاہیےکیوں کہ ان کے اسلاف قیصر وکسری،بنوقریظہ اور بنو نضیر میدان جنگ وقتال میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنےاورانہیں ختم کرنے کی کوشش کاتجربہ دہرا چکےتھےاوراس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑا تھاتو یہودیوں اورمجوسیوں کے باہمی اشتراک عمل نے عبداللہ بن سبا کو جنم دیا اور یہاں سے تشیع یعنی شیعہ ازم کا آغاز ہوا،ابن سبا نے اسلامی سلطنت کے فرمانروا،داماد رسول ﷺذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا،اس نے دوردراز کے علاقوں کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بے بنیاد الزام عائد کیے،بہت سے یہودی اور مجوسی اس کے معاون بن گئےاوریوں انہوں نے اسلامی سلطنت میں ایک خفیہ تنظیم قائم کر لی اور حضرت علی رضی اللہ کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر پوری سلطنت میں اپنے نمائندوں کا جال بچھا دیا۔’’اللہ تعالیٰ کا شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرنے والےاہل ایمان سےوعدہ ہےکہ وہ انہیں اقتدارعطا فرمائے گااوردین اسلام کو مضبوط اورغالب فرمائے گا اور مسلمانوں کے خوف کو امن وسکون میں تبدیل کردے گا‘‘
اس گروہ نے’’ولایت علی رضی اللہ عنہ‘‘کو بنیاد بنایا اور اپنے پیروکاروں میں ایسے عقائد کی نشرواشاعت شروع کردی جن کا دین اسلام کے بنیادی ارکان سے کوئی تعلق نہ تھا،یہ لوگ خود کو’’شیعان علی‘‘کہلانے لگےجب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے اوران کے عقائد سے بری الذمہ تھے۔
عبداللہ بن سبا شیعی عقائد کا بانی ہے،اس کا اعتراف خود شیعہ کے بعض مورخین نے بھی کیا ہے،چنانچہ شیعہ مورخ’’الکشی‘‘جوکہ ان کے متقدم علمائے رجال میں سے ہےاورجس کے بارے میں شیعہ علماء لکھتے ہیں کہ وہ جید عالم،صحیح العقیدہ اور مستقیم المذہب ہے،اس کی کتاب علم رجال کے موضوع پر انتہائی اہم،قدیم اوربنیادی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔کتاب کا پورا نام’’معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین ‘‘ہے۔جو ’’رجال الکشی‘‘کے نام سے معروف ہے۔(۱)اس طرح عبداللہ بن سبا اپنے یہودی اور مجوسی معاونین کے تعاون سےامت میں ایک ایسا فرقہ پیدا کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا،جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے آگے چل کرناسور کی حیثیت اختیار کرگیا،اس فرقے نے اسلامی عقائد کو بہت شدید نقصان پہنچایا اور مسلمانوں کے اسلاف کے خلاف انتقامی موقف اختیار کیا۔
یہ نامور شیعہ مورخ(۲)اپنی کتاب میں رقم طراز ہے۔
یہی روایت شیعہ محدث مؤرخ مامقانی نے الکشی سے اپنی کتاب’’تنقیح المقال‘‘میں نقل کی ہے(۴)’’بعض اہل علم سے روایات ہےکہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا،پھر وہ مسلمان ہوگیا اور حضرت علی علیہ السلام سے اظہار محبت کرنے لگا اور اس کا جو عقیدہ حضرت موسی علیہ السلام کےوصی یوشع بن نون کے بارے میں تھا بعینہ وہی عقیدہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق اختیار کیاوہ سب سے پہلا شخص ہےجس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین کی تکفیر کی،اسی بنا پر شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ تشیع(شیعہ ازم)یہودیت سے ماخوذ ہے(۳)
اسی طرح شیعہ مؤرخ نوبختی جس کے بارے میں مشہور شیعہ عالم ماہر علم رجال نجاشی کہتے ہے:
’’الحسن بن موسی ابو محمدنوبختی بہت بڑا شیعہ متکلم،اپنے ہم عصروں پر فوقیت کھنے والا اور جید عالم تھا‘‘(۵)
جاری ہے