• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیعیت کا آغاز

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
شیعیت کا آغاز

علامہ احسان الہیٰ ظہیر رحمہ اللہ(شہید ان شاء اللہ)کی کتاب’’الشیعہ والسنہ‘‘سے ماخوذ

جب سرورگرامی قدرحضرت محمدﷺکی نبوت ورسالت کا آفتاب طلوع ہوااوراس کی کرنوں سےکفر وشرک کی ظلمتیں چھٹنے لگیں تو کفر وشرک کے حاملین اسی وقت پیغمبر اسلام اور تعلیمات اسلام کے خلاف محاذآرا ہوگئےاورانہوں نے تو پہلے میدان جنگ میں بالمقابل صف بندی کرکےدوبدو مسلمانوں کو شکست دینی چاہی مگر جب ان کی تمام ترمسلمانوں کے ایمان ویقین کے سامنے ٹھہر نہ سکیں اور جذبہ جہاد سےسرشار کاہنات کی عظیم ہستی کے عظیم ساتھیوں نےمیدان جہاد میں ارباب کفروشرک کو پسپا کردیاتوانہوں نے ایک نیا لبادہ اوڑھ کر فکری محاذ پرمسلمانوں کی قوت وشوکت کوپارہ پارہ کرنے کی خفیہ جدوجہد شروع کردی۔
چنانچہ جزیرہ عرب میں یہودی لابی،ایران میں مجوسی عناصر اور برصغیر میں ہندواہل اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہوگئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ اللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(الصف:8)
’’مخالفین اسلام اللہ تعالیٰ کے جلائے ہوئےچراغ کو اپنی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ بھی اپنے نور کومکمل کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہےخواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوارکیوں نہ گزرے‘‘
اسلامی عقائد کی دیوارمیں سب سے پہلےجس شخص نے نقب لگانے کی کوشش کی وہ منافق’’عبداللہ بن سبا یہودی‘‘کے نام سے معروف ہےوہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکےمسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوا اورکفریہ عقائد کی ترویج کے لیےاپنی کوششیں شروع کر دیں،یہ ناپاک اور بدطینت شخص اپنے سینے میں اسلام کے خلاف بغض وحقدکو چھپائےحب اہل بیت کا لبادہ اوڑھےاوراپنے مکروہ چہرے پر اسلام کاماسک لگائے ہوئےان سادہ لوح افراد کو مکرودجل کے جال میں پھنسا کرصحیح اسلامی عقائد سے منحرف کرنےلگاجو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق روم وفارس کی سلطنتوں کے فتح ہونے کے بعددین اسلام میں داخل ہوگئے تھے۔

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا(النور:55)
’’اللہ تعالیٰ کا شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرنے والےاہل ایمان سےوعدہ ہےکہ وہ انہیں اقتدارعطا فرمائے گااوردین اسلام کو مضبوط اورغالب فرمائے گا اور مسلمانوں کے خوف کو امن وسکون میں تبدیل کردے گا‘‘
اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوااورروم وفارس کی سلطنتوں پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا،یہ عظیم الشاں فتوحات یہودیوں اورایرانی مجوسیوں کو گوارا نہ تھیں،چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے عقائد وافکار میں نقب زنی کرکےغیر اسلامی افکار ونظریات کو دخل کرنا چاہیےکیوں کہ ان کے اسلاف قیصر وکسری،بنوقریظہ اور بنو نضیر میدان جنگ وقتال میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنےاورانہیں ختم کرنے کی کوشش کاتجربہ دہرا چکےتھےاوراس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑا تھاتو یہودیوں اورمجوسیوں کے باہمی اشتراک عمل نے عبداللہ بن سبا کو جنم دیا اور یہاں سے تشیع یعنی شیعہ ازم کا آغاز ہوا،ابن سبا نے اسلامی سلطنت کے فرمانروا،داماد رسول ﷺذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا،اس نے دوردراز کے علاقوں کے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بے بنیاد الزام عائد کیے،بہت سے یہودی اور مجوسی اس کے معاون بن گئےاوریوں انہوں نے اسلامی سلطنت میں ایک خفیہ تنظیم قائم کر لی اور حضرت علی رضی اللہ کی محبت کا لبادہ اوڑھ کر پوری سلطنت میں اپنے نمائندوں کا جال بچھا دیا۔
اس گروہ نے’’ولایت علی رضی اللہ عنہ‘‘کو بنیاد بنایا اور اپنے پیروکاروں میں ایسے عقائد کی نشرواشاعت شروع کردی جن کا دین اسلام کے بنیادی ارکان سے کوئی تعلق نہ تھا،یہ لوگ خود کو’’شیعان علی‘‘کہلانے لگےجب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان سے اوران کے عقائد سے بری الذمہ تھے۔
اس طرح عبداللہ بن سبا اپنے یہودی اور مجوسی معاونین کے تعاون سےامت میں ایک ایسا فرقہ پیدا کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا،جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے آگے چل کرناسور کی حیثیت اختیار کرگیا،اس فرقے نے اسلامی عقائد کو بہت شدید نقصان پہنچایا اور مسلمانوں کے اسلاف کے خلاف انتقامی موقف اختیار کیا۔
عبداللہ بن سبا شیعی عقائد کا بانی ہے،اس کا اعتراف خود شیعہ کے بعض مورخین نے بھی کیا ہے،چنانچہ شیعہ مورخ’’الکشی‘‘جوکہ ان کے متقدم علمائے رجال میں سے ہےاورجس کے بارے میں شیعہ علماء لکھتے ہیں کہ وہ جید عالم،صحیح العقیدہ اور مستقیم المذہب ہے،اس کی کتاب علم رجال کے موضوع پر انتہائی اہم،قدیم اوربنیادی مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔کتاب کا پورا نام’’معرفۃ الناقلین عن الائمۃ الصادقین ‘‘ہے۔جو ’’رجال الکشی‘‘کے نام سے معروف ہے۔(۱)
یہ نامور شیعہ مورخ(۲)اپنی کتاب میں رقم طراز ہے۔
’’بعض اہل علم سے روایات ہےکہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا،پھر وہ مسلمان ہوگیا اور حضرت علی علیہ السلام سے اظہار محبت کرنے لگا اور اس کا جو عقیدہ حضرت موسی علیہ السلام کےوصی یوشع بن نون کے بارے میں تھا بعینہ وہی عقیدہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق اختیار کیاوہ سب سے پہلا شخص ہےجس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین کی تکفیر کی،اسی بنا پر شیعہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ تشیع(شیعہ ازم)یہودیت سے ماخوذ ہے(۳)
یہی روایت شیعہ محدث مؤرخ مامقانی نے الکشی سے اپنی کتاب’’تنقیح المقال‘‘میں نقل کی ہے(۴)

اسی طرح شیعہ مؤرخ نوبختی جس کے بارے میں مشہور شیعہ عالم ماہر علم رجال نجاشی کہتے ہے:
’’الحسن بن موسی ابو محمدنوبختی بہت بڑا شیعہ متکلم،اپنے ہم عصروں پر فوقیت کھنے والا اور جید عالم تھا‘‘(۵)
جاری ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
نوراللہ تستری نوبختی کا ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نوبختی،شیعہ فرقہ کے اکابرین میں سے ہیں وہ بہت بڑے متکلم اور فلسفی تھے(۷)

یہ شیعہ مؤرخ’’نوبختی‘‘اپنی کتاب’’فرق الشیعہ‘‘میں لکھتا ہے:

’’عبداللہ بن سبا ابوبکر،عمر عثمان اور دیگر صحابہ کرام پر طعن وتشنیع کا آغاز کرنے والوں میں سے تھا،اس نے لوگوں سے کہا کہ علی علیہ السلام سے اسےایسا کرنے کا حکم دیاہے،جب حضرت علی کو علم ہوا تو آپ نے اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا،چنانچہ اسے گرفتار کرکے لایا گیا،اعتراف کرنے پرحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کاحکم دے دیا‘‘
مگراس کے ساتھی چیخ اٹھے کہ امیر المومنین:آپ ایسے شخص کو کیوں قتل کروا رہے ہیں جو اہل بیت کی محبت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہےجس پرحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے جلا وطن کرکے ایران کے شہرمدائن کی طرف بھیج دیا۔
نوبختی لکھتا ہے:
’’اہل علم سے روایت ہےکہ یہ شخص یہودی تھاپھر وہ اسلام قبول کرکے علی علیہ السلام کا معتقد بن ہوگیا۔اسلام قبول کرنے سے قبل وہ حضرت موسی علیہ السلام کے وصی یوشع بن نون کے متعلق جو عقائد رکھتا تھا اسی قسم کے عقائد کا اظہاراس نے علی علیہ السلام کے بارے میں کیا۔وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت وولایت کی فرضیت اورآپ علیہ السلام کے دشمنوں سے برأت کے عقیدے کا پرچار کیا،اسی بنا پر شیعہ کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ شیعہ مذہب کی بنیاد یہودیت پر رکھی گئی ہے‘‘
نوبختی مزید لکھتا ہے:
’’جب عبداللہ بن سبا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر ملی تو اس نے کہا کہ اگر کوئی شخص مجھے ان کے جسم اطہر کے ستر ٹکڑے بھی مجھے دکھا دےاورستر عینی شاھدین ان کے قتل کی گواہی دیں میں تب بھی یہی کہوں گاکہ ان کی موت واقع نہیں ہوئی کیوں کہ میرا عقیدہ ہےکہ جب تک وہ پوری دنیا پر قبضہ نہیں فرما لیتےان پر موت نہیں آسکتی‘‘(۸)
ایک شیعہ مورخ اپنی کتاب’’روضۃ الصفا‘‘میں لکھتا ہے:

’عبداللہ بن سبا کو جب علم ہواکہ مصر میں عثمان بن عفان کے مخالفین موجود ہیں تو وہ مصر چلا گیا،وہاں جاکر اس نے بظاہر تقوی وطہارت کا لبادہ اوڑھ لیااورجب اسے کچھ ہمنوا میسرآگئےتو اس نے اپنے نظریات پھیلانا شروع کر دیےاس نے کہا کہ ہر نبی کا ایک وصی اور نائب ہوتا ہےاوررسول اللہﷺکے وصی اور نائب حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں‘‘
اس نے یہ بھی کہا:
’’امت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا ہے،ان کا حق غصب کیا ہےوہ خلافت کے حقدار تھےان سے ان کا یہ حق چھینا گیا ہےاورچھینے والے ابوبکروعمر(رضی اللہ عنہما)تھےاوراب عثمان بن عفان نے ان کا حق غصب کیا ہوا ہے،چنانچہ ان کے خلاف بغاوت کرکےحضرت علی کی بیعت کرنا ہمارا فرض ہےکچھ مصری اس کی باتوں سے متاثر ہوکراس کے ساتھی بن گئے اورعثمان بن عفان کے خلاف اعلان بغاوت کردیا‘‘(۹)
یہ ہیں خود شیعہ مورخین کی گواہیاں اورواضح نصوص ہیں جن سے ہم نے درج ذیل اشارات اخذ کیے ہیں۔
اولا:
یہودیوں کی طرف سے اسلام کے لبادہ میں عبداللہ بن سبا کی قیادت میں ایسے گروہ کی ایجادجو بظاہر مسلمان کہلائے،مگردرپردہ اسلام کا دشمن اورکفروارتدادکا حامی ہو۔
ثانیا
مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلانے کی گہری سازش جس میں یہودی گروہ کے بعد امت اسلامیہ واضح طور پرگروہ بندی کا شکار ہوگئی اور فتوحات کا وہ طویل سلسلہ رک گیا جس کا آغاز سرور کائناتﷺاورخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں ہوا تھااوردنیا کےخطےخطے میں اسلام کا پرچم لہرانے لگا تھا،یہ ساری سازش ابن سبا اوراس کی تنظیم کی طرف سے تیار کی گئی اور’’حب علی‘‘کے نام سے پروان چڑھی۔
سبائیوں کی کاروائیوں کے نتیجہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت واقع ہوئی اور پھر اس کے بعد فتنہ وفساد کا ایسا دروازہ کھلاکہ آج تک اسے بند نہ کیا جا سکا۔آج بھی تیرہ صدیاں گزر جانے کے باوجودابن سبا کی معنوی اولادابن سبا کےمشن کی تکمیل میں مصروف ہے۔
ثالثا:
ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام کے خلاف بغض وعنادپر مبنی عقائد کی ترویج،یہودیوں کا مقصد تھاکہ وہ مسلمانوں کی تاریخ کو اس قدر داغدار کردیں اوراسےاسقدر معیوب بنا کر پیش کریں کہ ان کی نسلیں اپنی تاریخ پر فخر کرنے کی بجائےاس سے نفرت کا اظہار کریں اوراپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے اوران کے کارناموں پر رشک کرنے کی بجائےان کی عیب جوئی میں مصروف رہیں۔
یہودی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوئےاورمسلمانوں میں ہی ایسا گروہ پیدا کردیاجورسول اللہﷺکے اولین پیروکاروں اورآپﷺکے دست وبازوبن کر رہنے والے،آپ کے لائے ہوئے دین کو کائنات تک پہنچانے والے،آپﷺکے پرچم تلے جہاد کرکےاپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے،اپنے مال کو اللہ کی راہ میں لٹانے والے،آپ کے اشارہ ابروپراپنا تن من نچھاور کرنے والے،ہاتھوں میں قرآن اور سینوں میں نور ایمان لیے اللہ کی زمین پر اللہ کانام بلند کرنے والے،اسلام کے پودے کی اپنے خون سے آبیاری کرنے والے،نبی کائنات ﷺکے محب،متبع،اطاعت گزار،وفاشعار،مقدس اور پاکباز ساتھیوں کے خلاف زبان طعن دراز کرنے لگا۔ان کی قربانیوں کا ان کے عیوب بنا کر پیش کرنے لگا۔ان کے نقش قدم پر چلنے کی بجائےان پر طعن وتشنع کے نشتر چلانے لگا اور یوں اس گروہ نے گویاخود رسول اللہﷺپر تنقید کی کہ آپﷺاپنی مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی ایسے ساتھی تیار کرنے میں ناکام رہے۔جو آپ کے سچے پیروکار اور دفادار ثابت ہوتے۔آپ اپنے ساتھیوں کی تربیت نہ کرسکے۔وہ معاذاللہ بظاہر تو آپ کے ساتھ رہےمگر حقیقت میں ان کے دلوں میں نفاق تھا اور وہ محض اقتدار کی خاطرآپ سے وابستہ رہے۔
اس عقیدے کے بعد سورۃ النصر کا کیا مفہوم باقی رہ جاتا ہے؟جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو بشارت دیتے ہوئے فرمایاہے:
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُۙ۔وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًاۙ۔۔فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ١ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًاؒ
’’یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آجائےاوراے نبیﷺآپ لوگوں کو دیکھیں کہ وہ فوج درفوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں تو آپ اپنے رب کی تعریف وتسبیح اوراستغفار کریں کہ وہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے‘‘
تواگر معاذاللہ نبیﷺکے ساتھی کفار ومرتدین تھےتووہ کون لوگ ہیں جو جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوئے؟
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
رابعا:
یہودیوں کی طرف سےقرآن وحدیث پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش،انہوں نے عام صحابہ کی تکفیر کی،اس سے ان کا مقصد یہ تھاکہ جب رسول اللہﷺکے فیض یافتہ اورآپﷺسےقرآن سن کرلوگوں تک پہنچانے والےہی کفار ومنافقین ٹھہریں گےتوان کے جمع کردہ قرآن پر کون اعتماد کرے گا اورقرآن مجید کی صحت مشکوک ہوجائے گی اور مسلمان کتاب ہدایت سے محروم ہوجائیں گےیااس پر عمل کرنا ترک کردیں گے۔
اسی وجہ سے سبائیوں نےآگے چل کریہ عقیدہ بھی اختیار کرلیاکہ نہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کاایمان مشکوک ہےبلکہ ان کا جمع کردہ قرآن بھی تحریف وتبدیلی سے محفوظ نہیں ہےاوریہ کہ اصل قرآن اس بارہوں امام کے پاس ہےجوغار میں چھپا ہوا ہے۔
جولوگ عیاذاباللہ قرآن وحدیث میں خیانت اورتحریف کرنے سے بازنہیں آئےوہ رسول اللہﷺکی طرف سے بیان کردہاس کی تفسیر وتوضیح اورآپ کے ارشادات وفرامین میں ردوبدل سے کیوں کر باز رہیں گےاوراس عقیدے کے بعدقرآن کے علاوہ حدیث کی صحت بھی مشکوک ہوجائے گی اوراسلام کی ساری بنیاد ہی منہدم ہوکررہ جائے گی۔یہودی اس میں کامیاب ہوئےاورشیعہ قوم نے اس عقیدے کو بھی اپنے عقائد میں شامل کرلیا،چنانچہ ان کے نزدیک نہ موجودہ قرآن اصلی ہےاورنہ ہی احادیث کی کتب قابل اعتماد ہیں۔
شیعہ قوم کے عقائد کے مطابق اب مسلمانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیےکوئی کتاب موجود نہیں۔اصلی قرآن غار میں بندہےچنانچہ بارہوں امام کا غاز سے نکلنے کا انتظار کیا جائےجو قیامت تک نہیں نکلے گااورحدیث ویسے ہی اس قابل نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔
خامسا:
یہودی عقیدہ’’عقیدہ وصایت وولایت‘‘کی ترویج اس عقیدے کانہ قرآن میں ذکر ہےنہ ھدیث میں۔یہودیوں نے یہ عقیدہ محض اس لیے پھیلایا کہ وہ صحابہ کی تکفیر کر سکیں کیوں کہ اگر یہ کہا جائےکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریمﷺاپنا وصی،نائب اور خلیفہ مقرر فرما کر گئے تھےتوآپ کی وفات کے بعدحضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت فرض تھی اوریوں خلفائے ثلاثہ کی خلافت اور مسلمانوں کی طرف سےان کی بیعت باطل ٹھہراتی ہےاوروہ غاصب،خائن اور ظالم قرار پاتے ہیں۔اورنبی کریمﷺکی صریح نص اور آپ کے واضح حکم کی مخالفت کی وجہ سےان کا ایمان سلامت نہیں رہتا چنانچہ اسی وجہ سے’’عقیدہ وصایت‘‘کو اختیار کیا گیا تاکہ اسے بنیاد بنا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی جاسکےاورپھر اس کے ذریعے سےقرآن و حدیث کی صحیت کو مشکوک قرار دےکر اسلامی عقائد کو باطل قرار دیا جاسکے۔
شیعہ قوم کے نزدیک اس عقیدے کی اہمیت تمام ارکان اسلام سے زیادہ ہےان کے نزدیک حضرت علی کی وصایت ونیابت کا اقرارکا اقرار عین ایمان اور خلفائے ثلاثہ کی خلافت اقرار عین کفر ہے۔اوراس عقیدے کےبعدصحابہ کرام،تابعین اور تبع تابعین،محدثین ومفسرین اورائمہ وفقہا میں کوئی مسلمان نہیں رہتا۔
یہودی،حضرت یوشع بن نون کوحضرت موسی علیہ السلام کاوصی اورنائب قرار دیتے ہیں اور شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحضرت محمدﷺکا وصی ونائب قرار دیتے ہیں۔تو یہ عقیدہ خالصتاً یہودی عقیدہ ہے،اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں یہ عقیدہ مسلمانوں کو کافروں سے جہاد کی بجائےآپس میں دست وگریبان کرنے کے لیےابن سبا نے پھیلایا اور یہ بات شیعہ مورخین’’نوبختی‘‘ اور’’کشی‘‘کی گزشتہ عبارتوں پر ذرا سا غور کرنے سے عیاں ہوجاتی ہے۔
سادسا:
دوسرے یہودی افکار ونظریات کی اشاعت مثلا عقیدہ رجعت،تصرف،بدا اور علم غیب ودیگر عقائد کا ذکر آئے گا۔
یہ تمام کے تمام یہودی عقائد ابن سبا اور اس کے دوسرے یہودی ساتھیوں نےمسلمانوں میں پھیلائے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ابن سبا کی ان سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہ تھاجیسا کہ نوبختی کے حوالے سے پیچھے گزرچکا ہے
اس کی تائید’’طوق الحمامۃ فی مباحث الامامۃ‘‘میں یحیی بن حمزہ زیدی نے بھی کی ہے،سوید بن غفلہ سے مروی ہے،کہتے ہیں:

’’کہ میں نے کچھ لوگوں کوحضرت ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کے خلاف گستاخی کے کلمات کہتے ہوئے سنا،میں سیدھا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہوااورکہا کہ کچھ لوگ ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کر برا بھلا کہتے ہیں جن میں عبداللہ بن سبا بھی ہےان کا کہنا ہے کہ آپ کا یہی عقیدہ ہےمگرآپ ظاہر نہیں کرتے،حضرت علی رضی اللہ عنہ بہت پشیمان ہوئے اور فرمایا:’’نعوذباللہ،رحمنا اللہ۔اللہ کی پناہ خداہمارے حال پر رحم فرمائے۔پھر آپ شدید غصے اورپریشانی کے عالم میں اٹھے،مجھے ساتھ لیا اور سیدھا مسجد میں تشریف لے آئے اور لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا،منبر پر چڑھے،اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی پھرآپ نے خطبے کا آغاز کیا اور فرمایا:وہ کون بدبخت ہیں جو ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں وہ تو رسول اللہﷺکے بھائی،ساتھی،آپﷺکے وزیر ومشیر،قریش کے سردار اور مسلمانوں کے آقا تھے۔ان کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے میں برأت کا اظہار کرتا ہوں۔میراان سے کوئی تعلق نہیں،ابوبکروعمر کے متعلق طعن وتشنیع کرنے والے سن لیں،میراان کے بارے میں یہ عقیدہ ہےکہ وہ زندگی بھر نبی کریمﷺکے باوفاساتھی بن کر رہے،نیکی کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکتے رہے۔ان کی خوشی بھی اللہ کے لیے تھی،ان کا غضب بھی اللہ کے لیے تھا،رسول اللہﷺان کی رائے کا احترام کرتے،ان سے بے پناہ محبت کرتے،وہ اللہ اور رسول اللہﷺکی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرتےرسول اللہﷺان سے زندگی پھر خوش رہے،انہوں نے کبھی اللہ کے حکم سے تجاوز نہیں کیا،وہ رسول اللہﷺکی سیرت کے تابع بن کررہےاللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
خالق ارض وسما کی قسم:ان سے محبت رکھنے والا مومن اوربغض رکھنے والا منافق ہےان کی محبت خداوندباری تعالیٰ میں تقرب کا ذریعہ اور ان سے بغض بدنصیبی اور اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب ہے،اللہ اس شخص پر لعنت فرمائےجو اپنے دل میں ان کے خلاف بغض و عناد رکھتا ہے‘‘(۱۰)

خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب میں اہل سنت کی کتب حدیث وتفسیر میں بے شمار روایات ہیں۔نہج البلاغہ میں بھی اس طرح کی بہت سی نصوص موجود ہیں۔
مگر جہاں تک شیعہ قوم کے دین کاتعلق ہےتو وہ یہودیوں کا ایجاد کردہ ہےاس کی بنیاد ان خطوط پر رکھی گئی ہےجو یہود ی النسل اور ان کے دیگر یہودی ساتھیوں نے وضع کیے ہیں،شیعہ قوم اپنا تعلق اسلام سے جوڑنے کے لیےیہودیت سے برات کا اظہار کرتی ہےمگر جب تک وہ ان عقائد سے رجوع نہیں کرتی جو یہودیت سے ماخوذ ہیں اور ان افکار سے برأت کا اظہار نہیں کرتی جو خالصتاً ابن سبا کی ایجاد ہیں اس وقت تک ابن سبا یہودی سے ان کا رشتہ توڑا نہیں جا سکتا،شیعی عقائد یہودی عقائد ہیں ان سے توبہ کیے بغیر یہودیت سے برأت کا کوئی فائدہ نہیں۔
شیعہ قوم کے دین کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم یہودی منافقوں کے پھینکے ہوئے لقموں کو چبا رہی اور ان کے پھیلائے ہوئے جال کا شکار بنی ہوئی ہے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
حواشی

(۱)مقدمہ رجال الکشی حالات مصنف۔

(۲)اس کا پورانام ہےابوعمربن عبدالعزیز الکشی ہے،چوتھی صدی کے شیعہ علماء میں سے تھا،شیعی روایات کے مطابق اس کا گھر اس وقت کے شیعہ کا مرکز تھا

(۳)رجال الکشی،ص۱۰۱مطبوعہ موسسۃ الاعلمی کربلا عراق

(۴)تنقیح المقال از مامقانی ج۲ص۱۸۳،مطبوعہ تہران

(۵)الفہرست از نجاشی ص۴۸مطبوعہ بھارت۱۳۱۷ھ

(۶)فھرست الطوسی ص۹۸مطبوعہ بھارت۱۸۳۵ء

(۷)مجالس المومنین از تستری ص۱۷۷مطبوعہ ایران

(۸)فرق الشیعہ از نو بختی،ص:43،44،مطبوعہ نجف عراق1379ہجری،بمطابق1959ء

(۹)روضۃ الصفا،فارسی،ص:292

(۱۰)طوق الحمامۃ فی مباحث الامامۃ،منقول از مختصر التحفۃ الاثنی عشریۃ للشیخ محمودآلوسی،ص:۱۶مطبوعہ مصر،۱۳۸۷ھ
 
Top