چلیں آپ کی بات مان کر غور کرتے ہیں
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا عبد العزيز، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " ليردن على ناس من أصحابي الحوض، حتى عرفتهم اختلجوا دوني، فأقول أصحابي. فيقول لا تدري ما أحدثوا بعدك ".
صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 6582
اس حدیث کے الفاظ کے مطابق أصحابي. حوض کوثر پر آئیں گے اور پھر ان کو ہٹادیا جائے گا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ تو میرے أصحابي ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا جائے گا آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔
اب دیکھتے ہیں أصحابي کن لوگوں کو کہا جاتا ہے
وددتُ أنِّي لقيتُ إخواني قالَ : فقالَ أصحابُ النَّبيِّ – صلَّى اللَّهُ عليهِ وعلى آلِهِ وسلَّمَ – أوليسَ نحنُ إخوانَكَ قالَ : بل أنتُم أصحابي ولكنْ إخواني الَّذينَ آمَنوا بي ولم يرَوني .
الراوي: أنس بن مالك المحدث: الوادعي - المصدر: الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 32
خلاصة حكم المحدث: صحيح
''حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے یہ خواہش کی کہ میں اپنے بھائیوں سے ملوں۔ صحابہ نے عرض کیا :کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میرے صحابہ ہو لیکن میرے بھائی وہ ہوں گے جو مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ ''
یعنی جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا وہ أصحابي یعنی صحابی اور جنہوں نے نہیں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے وہ إخواني یعنی بھائی
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا صحیح بخاری کی حدیث میں جن بدعتیوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے أصحابي یعنی صحابی فرمایا ہے اب اتنی واضح دلیل ان لوگوں کو ہی نظر نہیں آسکتی جن کے دل و دماغ اور بصارت پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا ہو یا جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگادی ہو
والسلام
يرد على الحوض رجال من اصحابي فيحلئون عنه فاقول يا رب
اصحابي. فيقول انك لا علم لك بما احدثوا بعدك، انهم ارتدوا على ادبارهم القهقرى.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حوض (کوثر) پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ میں عرض کروں گا ، میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں ، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے (مرتد ہو گئے)۔
صحيح البخاري
اگر یہ کہا جائے کہ بخاری کی روایت میں "اصحابي" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی ۔۔۔
نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) انہیں دیکھ کر "میرے صحابہ" کہیں گے ، اس طرح ان منافقین کے "صحابی" ہونے کی گواہی دیں گے
تو اس کا جواب درج ذیل قرآنی آیت ہے :
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے :
وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
آپ کے گرد وپیش اعرابیوں میں سے منافقین بھی ہیں اور اہل مدینہ میں سے بھی چند لوگ نفاق تک پہنچ چکے ہیں ، تم انہیں نہیں جانتے ، ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہم انہیں دوہری سزا دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
( التوبة:9 - آيت:101 )
اس آیت سے دو باتیں واضح طور پر ثابت ہو رہی ہیں :
1۔ منافقین میں مکہ کے اعرابی بھی شامل تھے اور مدینہ کے چند لوگ بھی
2۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے ان میں کون منافق ہے اور کون نہیں بلکہ ان کی اصل تعداد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
یہ متذکرہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے - اور آج بھی جو ان کے نقش قدم پر ہے وہ بھی روز محشر انہی کے ساتھ ہو گا -
اس بات کی وضاحت میں ہم اہل سنت والجماعت کا یہ ماننا ہے کہ ۔۔۔۔
درحقیقت
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بسا اوقات کلمہ "اصحابه" سے وہ تمام لوگ مراد لیے ہیں جو قبول اسلام کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی یعنی امتی بنے۔ اس توجیہ کے بعض مضبوط دلائل ہیں ،
بخاری کی ایک حدیث میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت جب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ :
دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه - صحیح بخاری
کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔
بتائیے کہ رئیس المنافقین
عبداللہ بن ابی ابن سلول کو کیا آج تک کسی مسلمان نے "صحابی" کا درجہ دیا ہے؟
پس ثابت ہوا کہ بخاری کی اس روایت میں "اصحابي" سے مراد اصطلاحی صحابی نہیں
بلکہ عرفاً صحابی مراد ہے۔ جیسا کہ بخاری ہی کی ایک روایت میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے "اپنے ساتھی" کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔
الله ہم سب کو اپنی ہدایت سے نوازے (آ مین)-