محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو دین مکمل ہو چکا تھا اور آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دین قویم اور منہج سدید صراط مستقیم پر چھوڑ کر گئے تھےجس کی رات بھی دن کی طرح روشن تھی لیلھا کنھارھا جس میں کوئی زیخ اور ٹیڑھا پن نہیں تھا پھر صحابہ کرام نے بھی اسی منہج کو لازم پکڑے رکھااور اسے چھوڑا نہیں۔
اسلام ایک کامل دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ امت میں سے ہرکوئی شخص ان تمام نصوص کا احاطہ رکھتا ہو جو اسلام کی وسیع تر تعلیم میں پائے جاتے ہیں ۔خصوصا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی ایک جگہ اجتماعی زندگی نہیں گزارتے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی حیات مبارکہ میں مختلف بلاد علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے اور بعد از وفات تو اس پھیلاو میں مزید وسعت پیدا ہوتی چلی گئی جیسے جیسے فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوگیاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح ان مفتوحہ علاقوں میں آباد ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شرف صحابیت کی وجہ سے انتہائی قدرو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھااور لوگوں میں جو دینی مسائل پیدا ہوتے ان کے حل کے لیے ان کی طرف ہی رجوع کیا جاتابسا اوقات ایک صحابی اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتا اور دوسرا صحابی اس کے برعکس فتویٰ دےدیتا جس سے ایک نوع کا اختلاف پیدا ہوجاتالیکن یہ اختلاف محض عارضی ہوتاجب اس مسلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مل جاتی تو اختلاف ختم ہو جاتا جس کی کتب حدیث میں درجنوں مثالیں موجود ہیں ان میں سے چند ایک کا ہم ذکر کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کی نو عیت اور اور کیفیت واضح ہو جائے۔
ہزیل بن شرجیل فرماتے ہیں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کی میت کے ترکہ میں اس کی ایک بیٹی پوتی اور ایک بہن ہےترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کل ترکہ کا نصف بیٹی کو اور باقی نصف بہن کو ملے گا پوتی محروم رہے گیا اور سائل سے فرمایا تم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاو وہ بھی میر ی تائید کرے گا ( وہ سائل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ) اور ان سے دریافت کیا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا تھا وہ بھی بتا دیا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایا اگر میں ابو موسیٰ کی تائید کروں تو گمراہ ہو جاوں گا میں تو وہی ٍفیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا بیٹی کو نصف ملے گا پوتی کو (سدس) یعنی ( چھٹا حصہ ) ملے گاجو دو ثلث کا تکملہ ہوگا۔ اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا سائل کہتا ہے ہم ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےجواب دیا تھا وہ انہیں بتایا تو وہ فرمانے لگے ( لا تسالونی مادام ھذا الحبر فیکم ) بخاری مع فتح الباری ص 17 ج 12 ) تم مجھ سے سوال نہ کیا کرو جب تک یہ بڑا عالم ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) تم میں موجود ہے۔
ایک بار امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین کے بارے میں کچھ سنا ہو ؟ مٖغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا جناب عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ پھر پوچھا تو جس شخص کے بارے میں فیصلہ ہوا تھا وہ خود کھڑا ہو کر کہنے لگا ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔
امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ( لو لا ما بلغتی من قضا النبی صلی اللہ علیہ وسلم لجعلتہ دیۃ بین دیتین ) اگر مجھے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ پہنچتا تو میں اس کی دیت دو دیتوں کے درمیان کرتا۔ ( دارمی ص 124 ج 1 )
ابن عباس رضی اللہ عنہ بسا اوقات ایک رائے رکھتے تو پھر اس رائے کو ترک کر دیتے ( دارمی ص 122 ج 1 ) ان آثار سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے موقف کے خلاف حدیث مل جانے پر اس پر عمل کرتے اور اپنے عمل اور فتوے کو ترک کر دیتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اختلاف کو عارضی سمجھتے تھے اور اسے مستقل حیثیت نہ دیتے تھے۔
اسلام ایک کامل دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ امت میں سے ہرکوئی شخص ان تمام نصوص کا احاطہ رکھتا ہو جو اسلام کی وسیع تر تعلیم میں پائے جاتے ہیں ۔خصوصا جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی ایک جگہ اجتماعی زندگی نہیں گزارتے تھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی حیات مبارکہ میں مختلف بلاد علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے اور بعد از وفات تو اس پھیلاو میں مزید وسعت پیدا ہوتی چلی گئی جیسے جیسے فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوگیاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی طرح ان مفتوحہ علاقوں میں آباد ہوگئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شرف صحابیت کی وجہ سے انتہائی قدرو عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھااور لوگوں میں جو دینی مسائل پیدا ہوتے ان کے حل کے لیے ان کی طرف ہی رجوع کیا جاتابسا اوقات ایک صحابی اپنے علم کے مطابق فتویٰ دیتا اور دوسرا صحابی اس کے برعکس فتویٰ دےدیتا جس سے ایک نوع کا اختلاف پیدا ہوجاتالیکن یہ اختلاف محض عارضی ہوتاجب اس مسلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث مل جاتی تو اختلاف ختم ہو جاتا جس کی کتب حدیث میں درجنوں مثالیں موجود ہیں ان میں سے چند ایک کا ہم ذکر کرتے ہیں تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلاف کی نو عیت اور اور کیفیت واضح ہو جائے۔
ہزیل بن شرجیل فرماتے ہیں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کی میت کے ترکہ میں اس کی ایک بیٹی پوتی اور ایک بہن ہےترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کل ترکہ کا نصف بیٹی کو اور باقی نصف بہن کو ملے گا پوتی محروم رہے گیا اور سائل سے فرمایا تم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جاو وہ بھی میر ی تائید کرے گا ( وہ سائل ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ) اور ان سے دریافت کیا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا تھا وہ بھی بتا دیا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےفرمایا اگر میں ابو موسیٰ کی تائید کروں تو گمراہ ہو جاوں گا میں تو وہی ٍفیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا بیٹی کو نصف ملے گا پوتی کو (سدس) یعنی ( چھٹا حصہ ) ملے گاجو دو ثلث کا تکملہ ہوگا۔ اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا سائل کہتا ہے ہم ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نےجواب دیا تھا وہ انہیں بتایا تو وہ فرمانے لگے ( لا تسالونی مادام ھذا الحبر فیکم ) بخاری مع فتح الباری ص 17 ج 12 ) تم مجھ سے سوال نہ کیا کرو جب تک یہ بڑا عالم ( ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) تم میں موجود ہے۔
ایک بار امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنین کے بارے میں کچھ سنا ہو ؟ مٖغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام یا ایک لونڈی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا جناب عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ پھر پوچھا تو جس شخص کے بارے میں فیصلہ ہوا تھا وہ خود کھڑا ہو کر کہنے لگا ہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔
امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ( لو لا ما بلغتی من قضا النبی صلی اللہ علیہ وسلم لجعلتہ دیۃ بین دیتین ) اگر مجھے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ پہنچتا تو میں اس کی دیت دو دیتوں کے درمیان کرتا۔ ( دارمی ص 124 ج 1 )
ابن عباس رضی اللہ عنہ بسا اوقات ایک رائے رکھتے تو پھر اس رائے کو ترک کر دیتے ( دارمی ص 122 ج 1 ) ان آثار سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے موقف کے خلاف حدیث مل جانے پر اس پر عمل کرتے اور اپنے عمل اور فتوے کو ترک کر دیتے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے اختلاف کو عارضی سمجھتے تھے اور اسے مستقل حیثیت نہ دیتے تھے۔