• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری میں وطی فی الدبر - جواب

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
فورم پر جاندار کی واضح تصویر لگانا منع ہے ، آئندہ خیال رکھیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
فورم پر جاندار کی واضح تصویر لگانا منع ہے ، آئندہ خیال رکھیں ۔
آپ بھی تین سال بعد جاگے ہیں، لیکن خیر وہ کہتے ہیں کہ ؛
دیر آید درست آید
ویسے اس موضوع پر ابوالقاسم سیف بنارسی رحمہ اللہ کی دفاع صحیح بخاری کافی مفید ہے!
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
وی چیٹ کے ایک گروپ میں ایک شخص نے یہ سوال کیا ہے کہ اس پر سزا کیا ہے ؟
جواب میں شیخ صاحب نے کہا ہے کہ شریعت میں اس کی سزا تجویز نہیں ہوئی ہے ، وجہ معلوم نہیں ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے کہ یہ جرم بہت بڑا ہے اور اللہ نے اس کے لیے آخرت میں سزا رکھی ہو،
واللہ اعلم ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
وی چیٹ کے ایک گروپ میں ایک شخص نے یہ سوال کیا ہے کہ اس پر سزا کیا ہے ؟
جواب میں شیخ صاحب نے کہا ہے کہ شریعت میں اس کی سزا تجویز نہیں ہوئی ہے ، وجہ معلوم نہیں ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے کہ یہ جرم بہت بڑا ہے اور اللہ نے اس کے لیے آخرت میں سزا رکھی ہو،
واللہ اعلم ۔
دبر ( پاخانہ والى جگہ ) ميں وطئ كرنے كا كفارہ
بيوى سے دبر ميں وطئ كرنے كا كفارہ كيا ہے ؟
الحمد للہ:

اول:

بيوى سے دبر ميں وطئ و جماع حرام ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو خبر دى ہے كہ ايسا كرنے والا ملعون ہے.

اس قبيح فعل كى كتاب و سنت سے حرمت كے دلائل اور اس كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابيوں كا بيان سوال نمبر ( 1103 ) اور ( 6792 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے آپ ان كا مطالعہ كر ليں.

شريعت اسلاميہ نے اس حرام فعل كا كوئى كفارہ مقرر نہيں كيا، اس ليے اس كا كفارہ تو صرف توبہ و ندامت اور اللہ كى طرف رجوع و انابت ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
بيوى سے دبر ميں وطئ كرنے كا حكم كيا ہے، اور كيا ايسا كرنے والے پر كوئى كفارہ بھى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:
سئل الشيخ ابن باز رحمه الله : ما حكم وطء المرأة في الدبر ؟ وهل على من فعل ذلك كفارة؟

فأجاب :
" وطء المرأة في الدبر من كبائر الذنوب ، ومن أقبح المعاصي ، لما ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى امْرَأَتَهُ فِي دُبُرِهَا ) رواه أبو داود (2162) وحسنه الألباني في صحيح أبي داود .

وقال صلى الله عليه وسلم : ( لا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَى رَجُلٍ أَتَى رَجُلا أَوْ امْرَأَةً فِي الدُّبُرِ ) رواه الترمذي (1166) وحسنه الألباني في صحيح الترمذي .
والواجب على من فعل ذلك البدار بالتوبة النصوح ، وهي الإقلاع عن الذنب ، وتركه تعظيما لله ، وحذرا من عقابه ، والندم على ما قد وقع فيه من ذلك ، والعزيمة الصادقة على ألا يعود إلى ذلك ، مع الاجتهاد في الأعمال الصالحة ، ومن تاب توبة صادقة تاب الله عليه وغفر ذنبه

كما قال تعالى : ( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى ) طه/72 .

وقال عز وجل : ( وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آَخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا * يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا * إِلا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ) الفرقان/68-70 . . . . .

وليس على من وطئ في الدبر كفارة في أصح قولي العلماء ، ولا تحرم عليه زوجته بذلك ، بل هي باقية في عصمته ، وليس لها أن تطيعه في هذا المنكر العظيم ، بل يجب عليها الامتناع من ذلك ، والمطالبة بفسخ نكاحها منه إن لم يتب ، نسأل الله العافية من ذلك" انتهى باختصار يسير من "فتاوى إسلامية" (3/256) .

" عورت كى دبر ميں وطئ كرنا كبيرہ گناہ شمار ہوتا ہے اور قبيح ترين معاصى ميں سے ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص اپنى بيوى كى دبر ميں وطئ كرے وہ ملعون ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2162 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اللہ سبحانہ و تعالى ايسے شخص كى جانب نہيں ديكھے گا جو كسى مرد سے بدفعلى كرے يا اپنى بيوى كى دبر ميں وطئ كرے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1166 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

ايسا قبيح فعل كرنے والے كو چاہيے كہ جتنى جلدى ہو سكے وہ اس شنيع و قبيح فعل سے توبہ كر لے، اور توبہ يہ ہے كہ وہ فورى طور پر اس گناہ كو چھوڑ دے، اور اس گناہ كو اللہ كى تعظيم كرتے اور اس كى سزا سے ڈرتے ہوئے چھوڑے، اور جو كچھ ہوا اس پر نادم ہو، اور سچا و پختہ عزم كرے كہ آئندہ ايسا نہيں كريگا، اور اس كے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ كى جدوجھد كرے، جو شخص بھى توبہ كرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے گناہ معاف كر ديتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ يقينا ميں ايسے شخص كو معاف كر ديتا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لا كر اعمال صالح كرتا اور پھر راہ ہدايت اختيار كرتا ہے }طہ ( 72 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
{ اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى دوسرے كو الہ و معبود نہيں بناتے، اور نہ ہى اس جان كو ناحق قتل كرتے ہيں جسے اللہ نے قتل كرنا حرام كيا ہے، اور نہ ہى زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا وہ گناہگار ہے }
{ اسے روز قيامت دوہرا عذاب ديا جائيگا اور وہ اس عذاب ميں ہميشہ رہے گا }
{مگر وہ جو توبہ كر لے اور ايمان لائے اور نيك و صالح اعمال كرے تو يہى ہيں وہ لوگ جن كى برائيوں كو اللہ تعالى نيكيوں ميں تبديل كر ديگا، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے }الفرقان ( 68 - 70 ).

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق دبر ميں وطئ كرنے والے پر كوئى كفارہ نہيں ہے اور نہ ہى ايسا كرنے سے اس پر بيوى حرام ہوتى ہے، بلكہ بيوى اس كى عصمت و نكاح ميں ہى رہےگى، اور بيوى كے جائز نہيں كہ وہ ايسے شنيع و قبيح فعل ميں خاوند كى اطاعت كرے، بلكہ بيوى كو چاہيے كہ اگر خاوند ايسا قبيح فعل كرنا چاہے تو اسے ايسا نہ كرنے دے، اور اگر خاوند اس فعل سے توبہ نہيں كرتا تو بيوى فسخ نكاح كا مطالبہ كر سكتى ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس سے عافيت نصيب فرمائے " انتہى مختصرا

ديكھيں فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 256 ).

امام منصور بن يونس ب البهوتى الحنبلى (المتوفى: 1051هـ) رحمہ اللہ
كا كہنا ہے:
" اور اگر وہ يہ فعل ( بيوى سے دبر ميں وطئ ) كرتا ہے تو اسے تعزير ( يعنى حاكم اسے ايسى سزا دے جو اسے اور اس جيسے افراد كو اس فعل سے روك دے ) لگائى جائيگى، كيونكہ اس نے ايسى معصيت كا ارتكاب كيا ہے جس كى كوئى حد اور كفارہ نہيں " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 190 ).
يہاں انہوں نے صراحت كى ہے كہ يہ ايسى معصيت ہے جس ميں كوئى كفارہ نہيں.

دوم:
اكثر لوگ اس وقت غلطى كے مرتكب ہوتے ہيں جب وہ يہ خيال كرتے ہيں كہ كسى معين گناہ پر كفارہ واجب نہيں تو اس كا معنى ہے كہ يہ گناہ چھوٹا اور ہلكا سا ہے، لوگوں كا يہ خيال درست نہيں ہے، بلكہ اگر كہا جائے كہ:
دبر ميں وطئى كرنے كا اللہ نے كفارہ مقرر نہيں كيا كيونكہ يہ تو اس گناہ سے بھى بڑا ہے جو كفارہ ادا كرنے سے ختم ہو جاتا ہے، تو يہ بعيد نہيں ہے، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ نے جھوٹى قسم كے بارہ ميں فرمايا ہے:

" الغموس: جان بوجھ كر جھوٹى قسم اٹھانے كو غموس كہا جاتا ہے.... اور يہ اس سے بھى بڑھ كر ہے كہ اسے كفارہ ختم كرے " انتھى
ديكھيں: التاج و الاكليل ( 4 / 406 ) اور المدونۃ ( 1 / 577 ) ميں بھى يہى درج ہے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
وی چیٹ کے ایک گروپ میں ایک شخص نے یہ سوال کیا ہے کہ اس پر سزا کیا ہے ؟
جواب میں شیخ صاحب نے کہا ہے کہ شریعت میں اس کی سزا تجویز نہیں ہوئی ہے ، وجہ معلوم نہیں ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے کہ یہ جرم بہت بڑا ہے اور اللہ نے اس کے لیے آخرت میں سزا رکھی ہو،
واللہ اعلم ۔
علامہ البانی کے شاگرد علامہ ’’مشهور حسن سلمان ‘‘
اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

أما: هل لهذا العمل من كفارة؟ لا، فهذا العمل أعظم من أن يكفر، فالكفارات تكون في الشرع في الأشياء المشروعة بأصلها، الممنوعة بوصفها، فمثلاً: أن يأتي الرجل زوجته حلال، لكن إن أتى الرجل زوجته في نهار رمضان، فهذا أمر مشروع بأصله ممنوع بوصفه، فيحرم على الرجل أن يأتي زوجته وهي صائم في نهار رمضان وهو صائم، فهل هذا عليه كفارة؟ نعم، وكفارته صيام شهرين متتابعين.
أما رجل زنا في شهر رمضان، فهذا الوصف ممنوع بالأصل، فلا كفارة على من أتى امرأة بزنا في نهار رمضان -والعياذ بالله- لأنه أتى بشيء أعظم من أن يكفر، فأمره إلى الله.
فتوی کا ربط
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ یعنی جہاں تک اس عمل بد کے کفارے کا سوال ہے تو اس کا کوئی کفارہ نہیں ۔۔اور یہ عمل ان اعمال سے بہت بڑا ہے جن کا شرع میں کفارہ ہوتا ہے،
کیونکہ شرع میں کفارہ تو ان چیزوں کا رکھا گیا ،جو شریعت میں اصلاً جائز ہیں ۔۔لیکن کچھ اوصاف سے یہی چیزیں ممنوع ہو جاتی ہیں (اور ان ممنوع صورتوں کفارہ ہوتا ہے )
مثلاً ۔۔اپنی بیوی سے مقاربت حلال ہے ۔۔لیکن اگر رمضان میں دن کے وقت مرد اپنی بیوی سے صحبت کرے گا تو کفارہ لازم آئے گا،
یعنی یہ عمل اصل میں تو مشروع تھا ۔لیکن اس وصف (روزے )کے سبب ممنوع ہوگیا۔۔تو اس وصف کے ساتھ مرد کیلئے یہ کام حرام ہوا
لہذا اس پر کفارہ ہوگا ۔
(اور جو کام سرے سے شرعاً کسی صورت جائز ہی نہیں ،اس پر کفارہ دے کر معافی نہیں مل سکتی )
 
Last edited:
Top