• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم (مختصر)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابُ الشَّفَاعَةِ
شفاعت کا بیان​
(93) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَوْمًا بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَ كَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً فَقَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ هَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَ يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ وَ تَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لاَ يُطِيقُونَ وَ مَا لاَ يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ أَلاَ تَرَوْنَ مَا أَنْتُمْ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ ؟ أَلاَ تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ ؟ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ ائْتُوا آدَمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَ نَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَ أَمَرَ الْمَلاَئِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِنَّ رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَ لَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَ إِنَّهُ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ نُوحًا عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى الأَرْضِ وَ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَ لَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَ إِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَقُولُونَ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَ خَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَ لاَ يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَ ذَكَرَ كَذَبَاتِهِ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى!أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالاَتِهِ وَ بِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَ لَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَ إِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَأْتُونَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى ! أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَ كَلِمَةٌ مِنْهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَ رُوحٌ مِنْهُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَ لَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَ لَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم فَيَأْتُونِّي فَيَقُولُونَ يَامُحَمَّدُ ! أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَ خَاتَمُ الأَنْبِيَائِ وَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَ مَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلاَ تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ ؟ أَلاَ تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ وَ يُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ وَ حُسْنِ الثَّنَائِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ لِأَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ! ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهِ اشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ! أَدْخِلِ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لاَ حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَ هُمْ شُرَكَائُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الأَبْوَابِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ لَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَ هَجَرٍ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَ بُصْرَى
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے: ''میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی اور سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے؟ کیا کوئی سفارشی ، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے؟ بعض کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلو، تو سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انھوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجیے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ آج میرا رب اتنا غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح ! تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکر گزار بندہ) رکھا ہے، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا ( وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لیے مجھے تو اپنی فکر ہے، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انھوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لیے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لیے مجھے تو اپنی فکر پڑی ہے، تم عیسیٰ (علیہ السلام ) کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجیے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجیے، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے ؟کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدان حشر سے) چلوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر(اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمد! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا۔ دیا جائے گا۔ سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب !میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب !میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمد ! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں۔ (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کے لیے مخصوص ہے) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)'' قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے، جیسے مکہ اور حجر(بحرین کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَوْلُ النَّبِىِّ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ يَشْفَعُ فِي الْجَنَّةِ وَ أَنَا أَكْثَرُ الْأَنْبِيَائِ تَبَعاً
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے​
(94) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَنَا أَوَّلُ شَفِيعٍ فِي الْجَنَّةِ لَمْ يُصَدَّقْ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَائِ مَا صُدِّقْتُ وَ إِنَّ مِنَ الأَنْبِيَائِ نَبِيًّا مَا يُصَدِّقُهُ مِنْ أُمَّتِهِ إِلاَّ رَجُلٌ وَاحِدٌ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں سب سے پہلے جنت (کے بارے) میں سفارش کروں گا اور کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا (پیروی نہیں کی) جتنے لوگوں نے مجھے مانا (میری پیروی کی) اور کوئی پیغمبر تو ایسا ہے کہ اس کا ماننے والا (ایمان لانے والا) ایک ہی شخص تھا۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : إسْتِفْتَاحُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم بَابَ الْجَنَّةِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت کا دروازہ کھلوانا​
(95) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأسْتَفْتِحُ فَيَقُولُ الْخَازِنُ مَنْ أَنْتَ ؟ فَأَقُولُ مُحَمَّدٌ فَيَقُولُ بِكَ أُمِرْتُ لاَ أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ چوکیدار پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں۔ وہ کہے گا کہ مجھے آپ ہی کے واسطے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَولُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم : لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجابَةٌ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے​
(96) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ وَ إِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَائَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے جلدی کر کے وہ دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی اور میں اپنی دعا کو قیامت کے دن کے لیے، اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھپا کر رکھتا ہوں .اور اللہ کے حکم سے (میری) شفاعت ہر اس امتی کے لیے ہو گی جو اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا ۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : دُعائُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِأمَّتِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لیے دعا فرمانا​
(97) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم تَلاَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِي إِبْرَاهِيمَ {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِىْ ... الآيَةَ } ( ابراهيم :36 ) وَ قَالَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلاَمُ { إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ } ( المائده : 118) فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَ قَالَ اللَّهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي وَ بَكَى فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَ رَبُّكَ أَعْلَمُ فَسَلْهُ مَا يُبْكِيكَ ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَسَأَلَهُ فَأَخْبَرَهُ النَّبِىُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَا قَالَ وَ هُوَ أَعْلَمُ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ يَا جِبْرِيلُ اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ فَقُلْ إِنَّا سَنُرْضِيكَ فِي أُمَّتِكَ وَ لاَ نَسُوئُكَ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تلاوت فرمائی کہ ''اے میرے پالنے والے (معبود!) انھوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے، تو تو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔'' (ابراہیم: ۳۶) اور عیسیٰ علیہ السلام کا قول (جو کہ قرآن پاک میں منقول ہے) کہ ''اگر تو ان کو سزا دے، تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے، تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔'' پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے رب! میری امت ، میری امت۔ اور رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' اے جبرائیل! تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور تیرا رب خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حال بیان کیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے جا کرعرض کی، حالانکہ وہ تو خود خوب جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' اے جبرائیل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جا اور کہہ کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں کریں گے۔ ''
(98) عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ عَمْرٍو الدَّوْسِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَتَى النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَلْ لَكَ فِي حِصْنٍ حَصِينٍ وَ مَنْعَةٍ ؟ قَالَ حِصْنٌ كَانَ لِدَوْسٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَبَى ذَلِكَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم لِلَّذِي ذَخَرَ اللَّهُ لِلأَنْصَارِ فَلَمَّا هَاجَرَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلَى الْمَدِينَةِ هَاجَرَ إِلَيْهِ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ هَاجَرَ مَعَهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَاجْتَوَوُا الْمَدِينَةَ فَمَرِضَ فَجَزِعَ فَأَخَذَ مَشَاقِصَ لَهُ فَقَطَعَ بِهَا بَرَاجِمَهُ فَشَخَبَتْ يَدَاهُ حَتَّى مَاتَ فَرَآهُ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍورَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي مَنَامِهِ فَرَآهُ وَ هَيْئَتُهُ حَسَنَةٌ وَرَآهُ مُغَطِّيًا يَدَيْهِ فَقَالَ لَهُ مَا صَنَعَ بِكَ رَبُّكَ ؟ فَقَالَ غَفَرَ لِي بِهِجْرَتِي إِلَى نَبِيِّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا لِي أَرَاكَ مُغَطِّيًا يَدَيْكَ ؟ قَالَ قِيلَ لِي لَنْ نُصْلِحَ مِنْكَ مَا أَفْسَدْتَ فَقَصَّهَا الطُّفَيْلُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم اللَّهُمَّ وَ لِيَدَيْهِ فَاغْفِرْ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لیے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہوگیا، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور ا س کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :''مجھے اس لیے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبرکی طرف ہجرت کی تھی۔'' سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے۔ (یعنی اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي قَولِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ : وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ''(اے محمد!) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایے۔''​
(99) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ { وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ }(الشعرا :214) دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قُرَيْشًا فَاجْتَمَعُوا فَعَمَّ وَ خَصَّ فَقَالَ يَا بَنِي كَعْبِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي مُرَّةَ بْنِ كَعْبٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي هَاشِمٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ يَا فَاطِمَةُ (رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا) أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لاَ أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّ لَكُمْ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلاَلِهَا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ''اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایے'' (الشعراء:۲۱۴) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو بلایا، وہ سب اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) سب کو بالعموم ڈرایا اور پھر خاص کیا (یعنی نام لے کر ان لوگوں کو) اور فرمایا:'' اے کعب بن لؤی کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے مرہ بن کعب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے چھڑاؤ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اس لیے کہ میں اللہ کے سامنے کچھ اختیار نہیں رکھتا (یعنی اگر وہ عذاب کرنا چاہے تو میں بچا نہیں سکتا) البتہ تم جو ناطہ مجھ سے رکھتے ہو، اس کو میں جوڑتا رہوں گا (یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ احسان کرتا رہوں گا)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : مَا نَفَعَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم أَبَا طَالِبٍ
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچا سکے؟​
(100) عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْئٍ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَ يَغْضَبُ لَكَ ؟ قَالَ نَعَمْ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَ لَوْلاَ أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا یارسول اللہ ! کیا آپ نے ابوطالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے لیے غصہ ہوتے تھے (یعنی جو کوئی آپ کو ستاتا تو اس پر غصہ ہوتے تھے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''ہاں! وہ جہنم کے اوپر کے درجہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا (یعنی میں ان کے لیے دعا نہ کرتا)، تو وہ جہنم کے نیچے کے درجے میں ہوتے (جہاں عذاب بہت سخت ہے)۔''
(101) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَ هُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا، وہ دو ایسی جوتیاں پہنے ہوگا کہ جن سے اس کا دماغ کھولے گا (جیسے ہنڈیا میں پانی کھولتا ہے)۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم : يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتي سَبْعُونَ أَلْفاً بِغَيْرِ حِسَابٍ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے​
(102) عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ فَقَالَ أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ ؟ قُلْتُ أَنَا ثُمَّ قُلْتُ أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلاَةٍ وَ لَكِنِّي لُدِغْتُ قَالَ فَمَاذَا صَنَعْتَ ؟ قُلْتُ اسْتَرْقَيْتُ قَالَ فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ ؟ قُلْتُ حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ فَقَالَ وَ مَا حَدَّثَكُمُ الشَّعْبِيُّ ؟ قُلْتُ حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لاَ رُقْيَةَ إِلاَّ مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَةٍ فَقَالَ قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ وَ لَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَ مَعَهُ الرُّهَيْطُ وَالنَّبِيَّ وَ مَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلاَنِ وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي فَقِيلَ لِي هَذَا مُوسَى صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَوْمُهُ وَ لَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ فَقِيلَ لِي انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ فَقِيلَ لِي هَذِهِ أُمَّتُكَ وَ مَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَ لاَ عَذَابٍ ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَ لاَ عَذَابٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم وَ قَالَ بَعْضُهُمْ فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الإِسْلاَمِ وَ لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ وَ ذَكَرُوا أَشْيَائَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ فَأَخْبَرُوهُ فَقَالَ هُمُ الَّذِينَ لاَ يَرْقُونَ وَ لاَ يَسْتَرْقُونَ وَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ أَنْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ
سیدنا حصین بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ،انھوں نے کہا کہ تم میں سے کس نے اس ستارہ کو دیکھا جو کل رات کو ٹوٹا تھا؟ میں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں کچھ نماز میں مشغول نہ تھا (اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی مجھے عابد، شب بیدار نہ خیال کرے) بلکہ مجھے بچھو نے ڈنگ مارا تھا (تو میں سو نہ سکا اور تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا) سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے دم کروایا۔ انھوں نے کہا کہ تو نے دم کیوں کرایا؟ میں نے کہا کہ اس حدیث کی وجہ سے جو شعبی نے ہم سے بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ شعبی نے کونسی حدیث بیان کی؟ میں نے کہا کہ انھوں نے ہم سے سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ دم فائدہ نہیں دیتا مگر نظر کے لیے یا ڈنگ کے لیے (یعنی بد نظر کے اثر کو دور کرنے کے لیے یا بچھو اور سانپ وغیرہ کے کاٹے کے لیے مفید ہے) سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے سنا اور اس پر عمل کیا تو اچھا کیا لیکن ہم سے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے حدیث بیان کی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :''میرے سامنے پیغمبروں کی امتیں لائی گئیں۔ کوئی پیغمبرایسا تھا کہ اس کی امت کے لوگ دس سے بھی کم تھے اور کسی پیغمبر کے ساتھ ایک یا دو ہی آدمی تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی نہ تھا۔ اتنے میں ایک بڑی امت آئی۔ میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے، تم آسمان کے کنارے کو دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان لوگوں میں ستر ہزار آدمی ایسے ہیں کہ جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔'' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے تو لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کی جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ بعضوں نے کہا کہ شاید وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے۔ بعض نے کہا نہیں شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کیا۔ بعض نے کچھ اور کہا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا:'' تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو؟'' انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' وہ لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ بدشگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔'' یہ سن کرعکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تو انہی لوگوں میں سے ہے۔'' پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لیے بھی دعا کیجیے کہ اللہ مجھے بھی انہی لوگوں میں کرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' عکاشہ رضی اللہ عنہ تجھ سے پہلے یہ کام کر چکا۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : قَوْلُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم إِنِّي لَأَرْجُوْ أَنْ تَكُوْنُوا نِصْفَ أَهْلِ الجَنَّةِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم ہو گے (یعنی مسلمان)​
(103) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْن مسعودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم فِي قُبَّةٍ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِينَ رَجُلاً فَقَالَ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ قَالَ قُلْنَا نَعَمْ فَقَالَ أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ فَقُلْنَا نَعَمْ فَقَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ ذَاكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لاَ يَدْخُلُهَا إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ وَ مَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلاَّ كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَائِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَائِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے جس میں تقریباً چالیس آدمی ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے چوتھائی تم لوگ ہو؟'' ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے ایک تہائی تم ہو؟'' ہم نے کہا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے: مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھے ہوگے اور یہ اس لیے کہ جنت میں وہی جائے گا جو مسلمان ہے اور مسلمان مشرکوں کے اندر ایسے ہیں جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک سرخ بیل کی کھال میں ایک سیاہ بال ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
بَابٌ : فِي قَولِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لِآدَمَ :أَخْرِجْ بَعْثَ النَّار مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تسْعَ مِئَةٍ وَ تِسْعَةً وَّ تِسْعِيْنَ
اللہ عزوجل کا آدم علیہ السلام کو یہ فرمانا : ''ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے افراد جہنم کے لیے نکالو۔''​
(104) عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم يَقُولُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ يَا آدَمُ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ قَالَ يَقُولُ أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ قَالَ وَ مَا بَعْثُ النَّارِ ؟ قَالَ مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وَ تِسْعَةً وَ تِسْعِينَ قَالَ فَذَاكَ حِينَ يَشِيبُ الصَّغِيرُ {وَ تَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَ تَرَى النَّاسَ سُكَارَى وَ مَا هُمْ بِسُكَارَى وَ لَكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ } قَالَ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وأَيُّنَا ذَلِكَ الرَّجُلُ ؟ فَقَالَ أَبْشِرُوا فَإِنَّ مِنْ يَأْجُوجَ وَ مَأْجُوجَ أَلْفًا وَ مِنْكُمْ رَجُلٌ قَالَ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لِأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَحَمِدْنَا اللَّهَ وَ كَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لِأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَحَمِدْنَا اللَّهَ وَ كَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لِأَطْمَعُ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِنَّ مَثَلَكُمْ فِي الأُمَمِ كَمَثَلِ الشَّعْرَةِ الْبَيْضَائِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ أَوْ كَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الْحِمَارِ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے کہ حاضر ہوں تیری خدمت میں اور تیری اطاعت میں اور سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔حکم ہو گا کہ دوزخیوں کی جماعت نکالو۔ وہ عرض کریں گے کہ دوزخیوں کی کیسی جماعت؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار آدمیوں میں سے نو سو ننانوے آدمی جہنم کے لیے نکالو (اور ایک آدمی فی ہزار جنت میں جائے گا۔'') آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہی تو وقت ہے جب بچہ بوڑھا ہو جائے گا (بوجہ ہول اور خوف کے یا اس دن کی درازی کی وجہ سے) ''اور ہر ایک پیٹ والی عورت اپنا پیٹ ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ جیسے نشہ میں مست ہیں حالانکہ وہ مست نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔'' (الحج :۲) صحابہ اس امر کے سننے سے بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ! دیکھیے اس ہزار میں سے ایک آدمی (جو جنتی ہے) ہم میں سے کون نکلتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج کے کافر اس قدر ہیں کہ اگر ان کا حساب کرو تو تم میں سے ایک آدمی اور ان میں سے ہزار آدمی پڑیں۔'' پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ جنت کے ایک چوتھائی آدمی تم میں سے ہوں گے۔'' اس پر ہم نے اللہ کی تعریف کی اور تکبیر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ جنت کے ایک تہائی آدمی تم میں سے ہوں گے۔'' اس پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور کبریائی بیان کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مجھے امید ہے کہ جنت کے آدھے آدمی تم میں سے ہوں گے۔ تمہاری مثال اور دوسری امتوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک نشان گدھے کے پاؤں میں۔ ''
 
Top