• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں تحریف کا علمی جائزہ

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
علامہ بدرالدین عینی حنفی کا موقف
احناف کے بہت بڑے علامہ اور شارح صحیح بخاری بدر الدین عینی﷫ نے قبر پر خیمہ بنانا بھی مکروہ کہا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ
رَأَى ابنُ عُمَرَ فُسطاطًا علىٰ قبرِ عبدِ الرَّحمٰن فقال: اِنزِعه یا غلامُ فإنَّما یُظلُّه عَمَلُه
’’عبد اللہ بن عمر نے عبد الرحمٰن بن ابو بکر کی قبر پر ایک خیمہ دیکھا تو اُنہوں نے ( اُمّ المومنین عائشہؓ) کے غلام سے کہا: اے غلام! اس خیمے کو اتار لو، اس کے نیک عمل ہی اس پر سایہ کریں گے۔‘‘
علامہ عینی حنفی﷫ اس اثرکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَدَلَّ هٰذا عَلىٰ أَن نَصبَ الخِیامِ علىٰ القَبرِ مکرُوه ولا یَنفعُ الْـمَیِّتَ ذَلِكَ
’’یعنی عبد اللہ کے اس اثر میں اس بات کی دلیل ہے کہ قبر پر خیمے نصب کرنا مکروہ ہے اور اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔‘‘
مسند احمد میں ابو موسیٰ اشعری کی وصیت ہے:
لاَ تَجعَلُوا عَلىٰ قَبري بِناءً ’’میری قبر پر کوئی عمارت نہ بنانا۔ ‘‘
سیدنا ابو ہریرہ نے اپنی وفات کے وقت وصیت کی تھی کہ
لاَ تَضرِبُوا عَلَىَّ فُسطَاطًا ’’میری قبر پر خیمہ نہ لگانا۔ ‘‘
تابعیِ کبیر سعید بن مسیب ﷫ نے اپنے مرض الموت میں وصیت کرتے ہوئے کہا تھا:
إِذَا مَا مِتُّ فَلاَ تَضرِبُوا عَلى قَبرِ فُسطَاطًا
’’ جب میں وفات پا جاؤں تو میری قبر پر خیمہ نہ لگانا۔‘‘
تابعی کبیر محمد بن کعب قرظی﷫ نے کہا ہے:
هَذِهِ الفَسَاطِیطُ الَّتِي عَلىٰ القُبُورِ مُحدَثَة
ہ خیمے جو قبروں پر بنائے جاتے ہیں،یہ بدعت ہیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,401
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
دوغلی پالیسی پر تعجب و حیرت
پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف کاظمی ضیائی صاحب فی زمانہ قبروں پر بنے قبے گرانے کو مذموم حرکت قرار دے رہے ہیں اور گرانے کے جواز کا فتویٰ دینے والوں کو ’وہابی خبیث ظالم‘ کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف قبروں پر قبے بنانے کو کبیرہ گناہ اور قبے گرانے کو واجب سمجھنے والے احمد بن حجر مکی شافعی صوفی(متوفی 974ھ) کو کاظمی ضیائی کے بڑے مناظر ’مفتی‘ محمد حنیف قریشی صاحب اچھے اچھے بلند القاب سے ملقب کرتے ہوئے انھیں مشہور محدث ، علامہ ،نیز محدثِ کبیر، حضرت اور امام قرار دیتے ہوئے ساتھ ﷫ کی دعا بھی دے رہے ہیں۔
حالانکہ ابن حجر ﷫مکی صاحب نے قبوں کو منہدم کرنے کا فتویٰ اپنی مشہور کتاب ’الزواجر ‘ میں نقل کیا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور وہ فتویٰ یہ ہے:
وَ تَجِبُ الـمُبَادَرَةُ لِهَدمِهَا وَهَدمِ القِبَابِ الَّتِی عَلَى القُبُورِ اِذ هِيَ اَضَرُّ مِن مَسْجِدِ الضِّرَارِ لِأَنَّهَا أُسِّسَت عَلىٰ مَعصِیَةِ رَسُوْلِ الله ﷺ لِأنَّهُ نَهٰی عَن ذَلِكَ وَ أَمَرَ بِهَدمِ القُبُورِ الْـمُشرِفةِ وَ تَجِبُ ِإزَالَةُ کُلِّ قِندِیلٍ وَ سِرَاجٍ عَلى قَبرٍ وَلاَ یَصِحُّ وَقفُهُ وَنَذرُهُ
’’اونچی قبریں اور قبے گرانے کی طرف جلدی کرنا واجب ہے کیونکہ یہ چیزیں مسجدِ ضرار سے زیادہ نقصان دہ ہیں، کیونکہ ان اونچی قبروں اور قبوں کی بنیاد رسول اللہﷺ کی نافرمانی پر ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا ہے اور ہر قندیل اور چراغ جو قبروں پر جلایا جاتا ہے اس کو ختم کرنا واجب ہے اور یہ قبروں پر وقف کرنا یا اس کی نذر ماننا صحیح نہیں۔‘‘
میں کہتا ہوں کہ ابن حجر ﷫مکی صوفی شافعی کا نقل کردہ مذکورہ بالا فتویٰ بعینہٖ صاحب تفسیر روح المعانی محمود احمد آلوسی حنفی﷫ نے بھی اپنی تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے بلکہ اس کی تائید میں مزید بھی لکھا ہے حتیٰ کہ مصر میں امام شافعی ﷫وغیرہ کی قبروں پر جو قبے بنائے گئے ہیں، ان کے گرانے کے بارے میں بھی لکھا ہے جبکہ گرانے کی وجہ سے فتنہ کا ڈر نہ ہو۔ لیکن اس کے باوجود کاظمی ضیائی صاحب نے انہیں کسی بھی بُرے لقب سے ملقب نہیں کیا۔ نہ ظالم قرار دیا، نہ وہابی کہا، بلکہ ان کے بڑے مناظر محمد حنیف قریشی صاحب نے انہیں مشہور مفسر حضرت علامہ سید محمود احمد آلوسی ﷫ سے یاد کیاہے۔
لیکن صد افسوس کہ اسی فتوے کی بنا پر یہ لوگ کتاب وسنت کی طرف دعوت دینے والے پاک و ہند کے علمائے حدیث کو وہابی ، ظالم اور خبیث جیسے برے القابات سے ملقب کر رہے ہیں۔
﴿تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِيْزٰى۰۰۲۲﴾، ﴿ وَ سَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَيَّ مُنْقَلَبٍ يَّنْقَلِبُوْنَؒ۰۰۲۲۷﴾
مولانا محمد حنیف یزدانی﷫ فرماتے ہیں:
’’جو لوگ قبروں کو پختہ بناتے ہیں اور ان پر عالی شان گنبد کھڑا کرتے ہیں وہ دراصل ایک دکان کی بنیاد رکھتے ہیں۔قبر کی تجارت کرتے ہیں، مقبور (میت) کو ساری عمر بیچ بیچ کر کھاتے ہیں، کچی قبر آمدنی کا ذریعہ نہیں بن سکتی، وہ عام قبروں میں مل جاتی ہے، جب مرید آئیں گے تو قبرستان کی تمام قبروں میں سے کس طرح پہچانیں گے کہ ان کا ’مشکل کشا‘ کہاں لیٹا ہوا ہے؟ مرادیں مانگنے والوں کو پیر کا روضہ دس پندرہ کوس دور سے ہی نظر آنا چاہئے۔ اسٹیشن پر اترتے ہی گنبد دکھائی دینا چاہئے، سورج کی شعاعیں رنگین کلس سے ٹکراکر زائرین کی آنکھوں میں اُتر آنی چاہئیں، ایسے مزار پر روز کے روز چڑھاوے چڑھیں گے ، جمعرات کی جمعرات نذروں کے انبار لگیں گے۔ سال میں بہت سے تہوار بھی نیازوں کا پیشِ خیمہ بنیں گے اور عرس کے موقعہ پر تو وہ ریل پیل ہو گی کہ مدتوں نسلیں عیش کریں گی۔ یہ فائدے گنبد، قبے والی پختہ قبر کے ہی ہو سکتے ہیں.... ‘‘
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
جن کو آتا نہیں کو ئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نیکو نام جو قبروں کیتجارت کرکے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھرکے​
شاہ ولی اللہ دہلوی﷫ فرماتے ہیں:
’’ اگر آپ مشرکین کے حال ،عقائد اور اعمال کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے زمانہ کے پیشہ ور لوگوں کے احوال دیکھ لو ،بالخصوص وہ جو ہندوستان کے اطراف وجوانب میں رہائش پذیر ہیں۔قبروں اور آستانوں کی طرف جاتے ہیں اور طرح طرح کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ الخ ‘‘
میں کہتا ہوں اگر کوئی ناصح انہیں قرآنی آیات اور احادیثِ نبویّہ کے ساتھ نصیحت کرنے لگے تووہ سخت ناراض ہو جاتے ہیں اور ناصح کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اسے بزرگو ں اور ولیوں کا گستاخ کہنے لگتے ہیں ، جیسا کہ صاحبِ روح المعانی مفسرِ قرآن علامہ سید محمود آلوسی بغدادی حنفی اللہ تعالیٰ کے فرمان :﴿ وَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۠۰۰۴۵﴾ یعنی
’’جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اورجب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس( اللہ) کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں‘‘
کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
’’ایک دن ایک شخص اپنی شدت و تکلیف کی حالت میں کسی فوت شدہ ( اپنے بزرگ) سے مدد مانگ رہا تھا اور نِدا کر رہا تھا کہ یَا فُلَانُ! أَغِثنِي ’’اے فلاں بزرگ! میری فریاد رسی کر۔‘‘
تو میں نے اسے کہا: تو یا اللہ مدد! کہہ ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَاِنِّيْ قَرِيْبٌ١ؕ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ ﴾ یعنی :جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں توبے شک میں قریب ہوں ، میں پکارنے والے کی پکار قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔فرماتے ہیں جب میں نے اسے یہ آیت سنائی تو وہ غضب ناک ہو گیا ،اور مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اس نے میرے متعلق کہا ہے کہ یہ اولیا کا منکر ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۱۰
نوٹ :ہما رے اسی مضمون کو اصل سمجھا جائے اور جو اس سے قبل کہیں کسی رسالہ مثلاً : ہفت روزہ الاعتصام2012ءجلد ٦٤؍شمارہ نمبر ٥ ۔٦اور ہفت روزہ اہل حدیث ٢٠١٢ء میں چھپا ہے، اس میں دو تین معنوی غلطیاں واقع ہوئی ہیں۔ عفا الله تعالىٰ عنّا وعافانامن جمیع الآفات. اٰمین
 
Top