• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقۃ الفطرمیں رقم اور قیمت دینے کامسئلہ

شمولیت
اکتوبر 06، 2013
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
43
صدقۃ الفطر کی ادائیگی میں اناج کی قیمت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟لوگ اس حدیث کو دلیل بنا کر قیمت دینے کو غلط سمجھتے ہیں۔
عن عبد اللہ بن عمر؛ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض زکاۃ الفطرۃ من رمضان علی کل نفس من المسلمین، حر أو عبد، رجل أو إمرأۃ، صغیر أو کبیر، صاعا من تمر أوصاعا من شعیر" (صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر علی المسلمین من التمر والشعیر)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سوال کاجواب پہلے دیناچاہئے تھا تاخیرکے لئے معذرت۔
صدقہ الفطر سے متعلق بے شک احادیث میں یہی ملتا ہے کہ غلہ دیاجائے۔ اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غلہ دیاجاتاتھا۔
لیکن غورطلب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غلطہ بطورکرنسی بھی استعمال ہوتا تھا۔ یہ ناقابل انکار حقیقت ہے۔
بلکہ آج بھی دیہاتوں میں میوہ فروش یا برف بیچنے والا آتا ہے تو عام طور سے بچے غلہ دے کر ہی سوداکرتے ہیں یعنی غلہ کو بطور کرنسی استعمال کرتے ہیں ۔یہی صورت حال عہد رسالت میں تھی اس دور میں غلہ کرنسی کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔
ایسی صورت میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ عہد رسالت میں صدقہ الفطر میں جوغلہ دیا جاتا تھا وہ بطورکرنسی دیا جاتا تھا؟ یا بطور خوراک دیا جاتاتھا؟

ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ صدقہ الفطر میں دیا جانے والا غلہ اصلا بطور کرنسی ہی تھا اس کے دلائل درج ذیل:
1: اگر صدقۃ الفطر میں دیے جانے والے غلہ کا مقصود صرف خوراک فراہم کرنا ہوتا تو کیا وجہ ہے کسی بھی حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ غلہ دینے کے بجائے کسی کو کھانا کھلا دو؟
سوال یہ ہے کہ جب اس غلہ کا مقصودصرف اور صرف کھانا فراہم کرنا ہی ہے ۔تو آخراس بات کی اجازت کیوں نہیں دی گئی کہ بعض لوگ فطرہ دینے کے بجائے کسی کو کھانا بھی کھلاسکتے ہیں ؟

2:اگرمقصود صرف خوراک فراہم کرنا ہوتا تو صرف یہ حکم دیا جاتا کہ خوراک فراہم کردو ،لیکن اس خوراک کی نوعیت کی تعیین نہیں کی جاتی ۔مگرہم دیکھتے ہیں کہ احادیث میں غلہ دینے کی صراحت کے ساتھ ساتھ اس کی نوعیت کی تعیین بھی واردہوئی ہے کہ فلاں فلاں چیز دی جائے ۔اوریہ چیزیں وہی ہیں جوعہدرسالت میں بطور کرنسی استعمال ہوتی تھیں۔نیزغورکریں کہ اسلام میں بعض مسائل میں بطور کفارہ کھانا کھلانے کی بات ہے لیکن اس طرح کے نصوص میں کھانے کی نوعیت کا تعین نہیں بلکہ صرف مطلق کھانا کھلانے کی بات ہےجس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں اصل مقصود کھانا کھلانا ہے ۔
لیکن صدقہ الفطر میں اول تو کھانا کھلانے کی نہیں بلکہ کھانا دینے کی بات ہے نیز اس کے ساتھ اس کی تعیین بھی وارد ہے ۔یہ تفریق ہی بتلارہی ہے کہ صدقۃ الفطر میں دیا جانے والا کھانا بطور خوراک نہیں بلکہ بطورکرنسی تھا۔

3: ہرمعقول شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ بھوکے آدمی کے لئے زیادہ سہولت غلہ لینے میں نہیں بلکہ بنابنایا کھانا لینے میں ۔اسی لئے کفارہ وغیرہ میں جہاں مقصود صرف اورصرف کھانا کھلانا ہے وہاں بنابنایا کھانا ہی کھلانے کاحکم ہے ۔لیکن فطرہ میں صرف غلطہ دینے ہی کی بات ملتی ہے اس سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اصل مقصود کرنسی فراہم کرنا ہے نہ کہ خوراک۔

4: فطرہ میں گیہوں دیا جائے تو اس کی مقدار نصف صاع بتلائی گئی ہے۔شیخ البانی رحمہ اللہ کے بقول یہ با ت مرفوعا بھی ثابت ہے اور اس کے موقوفا ثابت ہونے میں کوئی کلام نہیں ۔
یہاں غور کیجیے کہ گیہوں کی مقدار دیگر خورک کے مساوی نہیں بلکہ دیگر خوراک کی قیمت کے مساوی رکھی گی ہے۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ فطرہ میں دیا جانے ولا غلہ بطور خوراک نہیں بلکہ بطور کرنسی تھا۔

ان تمام باتوں سے یہی پتہ چلتاہے کہ عہدرسالت میں صدقۃ الفطر میں دیا جانے والا غلہ بطر کرنسی تھا نہ کہ بطور خوراک۔

ایک شبہہ کا ازالہ:
ایک حدیث میں صدقۃ الفطر کے مال کو ’’طعمة للمساكين‘‘ گیا ہے۔
عن ابن عباس، قال: «فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث، وطعمة للمساكين، من أداها قبل الصلاة، فهي زكاة مقبولة، ومن أداها بعد الصلاة، فهي صدقة من الصدقات»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا تاکہ روزے کے لیے لغو اور بیہودہ اقوال و افعال سے پاکیزگی ہو جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو۔ چنانچہ جس نے اسے نماز (عید) سے پہلے پہلے ادا کر دیا تو یہ ایسی زکوٰۃ ہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔[سنن أبي داود 2/ 111 رقم 1609 وحسنہ الالبانی ]

اس حدیث میں ’’طعمة للمساكين‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ فطرہ میں دیا جانے والا غلہ بطور خوراک تھا۔
عرض ہے کہ لفظ ’’طعمة ‘‘ صرف خوراک ہی کے لئے مستعمل نہیں ہوتا ہے بلکہ دیگر اموال واشیاء کے لئے بھی ’’طعمة ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا جیساکہ درج ذیل احادیث میں ہے:
عن أنس بن مالك، أنه حدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم «إن الكافر إذا عمل حسنة أطعم بها طعمة من الدنيا، وأما المؤمن، فإن الله يدخر له حسناته في الآخرة ويعقبه رزقا في الدنيا على طاعته»،[صحيح مسلم 3/ 2162 رقم 2808]
عن أبي الطفيل، قال: جاءت فاطمة رضي الله عنها، إلى أبي بكر رضي الله عنه، تطلب ميراثها من النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقال أبو بكر رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله عز وجل، إذا أطعم نبيا طعمة، فهي للذي يقوم من بعده»[سنن أبي داود 3/ 144 واسنادہ صحیح اوحسن علی الاقل]

عن بن لهيعة، قال: " كان عثمان قد جعل لموالي قريش طعمة خمسة دنانير لكل رجل وكل حول، وذلك أن قريشا قالت: إنا لسنا كغيرنا، ليس لنا مدد وإنما موالينا مددنا، فجعل لهم هذه الطعمة، فكان يموت الرجل منهم فيكتب وليه ولدا إن كان له، وإن لم يكن له ولد كتب عليها من شاء، لم يجعلها عثمان لأحد من الموالي إلا موالي قريش "[تاريخ المدينة لابن شبة: 3/ 989 رجالہ ثقات واسنادہ منقطع لکنہ مقبول فی استشہاد لغوی]

معلوم ہوا کہ ’’طعمۃ ‘‘ بھی صرف خوراک کے لئے نہیں آتا اس لئے اس سے خوراک کی تعیین کرنا درست نہیں ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں ہمارے نزدیک یہی واضح ہے کہ صدقہ الفطر میں دیا جانے ولا غلہ اصلا بطور کرنسی ہی تھا نہ کہ بطور خورا ک ۔یہ اور بات ہے کہ اس کے مقاصد میں خوراک فراہم کرنا بھی شامل ہے لیکن یہ اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصودمحتاج کو کرنسی فراہم کرنا ہے۔ اب یہ اس کی ضرورت پرمنحصر ہے کہ وہ اسے خوراک کی جگہ استعمال کرتا ہے یابطورکرنسی استعمال کرکےکسی اور مصرف میں لاتا ہے۔
اورجب یہ واضح ہواکہ فطرہ میں غلہ بطور کرنسی دیا جاتا تھا، تو صدقہ الفطر میں کرنسی دینے پر بھی غلہ والی حدیث ہی نص ہے ۔
اگرکسی کو اس سے اختلاف ہے تو وہ ثابت کرے کہ فطرہ والی احادیث میں مذکور غلہ بطورکرنسی نہیں بلکہ بطورخوراک دیا جاتا تھا۔

اب رہا سوال یہ ہے کہ اگر عہد رسالت میں یہ غلطہ بطور کرنسی دیا جاتاتھا تو خودکرنسی ہی صدقہ الفطر میں کیوں نہیں دے دی گئی ؟
عرض ہے کہ ہمارے علم کی حد تک ایک صاع طعام کے متبادل کسی طرح کی کرنسی کا سراغ عہد رسالت میں نہیں ملتا ہے۔اس لئے عہد رسالت میں صدقہ الفطر میں کرنسی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بالفرض اگر اس کی متبادل کرنسی ہوبھی تو بھی اس دور میں سب کے پاس کرنسی کا ہونا عام بات نہیں بلکہ عمومی طور پر لوگ غلے ہی کو بطورکرنسی استعمال کرتے تھے۔
البتہ بعد میں جب طعام کی قیمت بڑھی تو ایک صاع طعام کرنسی کے متبادل ہوگیا نیز معاشی اعتبار سے صحابہ کی حالت بھی پہلے سے بہتر ہوگئی اور ایسا ہوتے ہی صحابہ کرام صدقہ الفطر میں قیمت دینے لگے جیساکہ ابواسحاق السبیعی کے بیان سے پتہ چلتا ہے جس کی سند صحیحین کی شرط پر صحیح ہے۔
حدثنا أبو أسامة ، عن زهير ، قال : سمعت أبا إسحاق يقول : أدركتهم وهم يعطون في صدقة رمضان ، الدراهم بقيمة الطعام.
امام ابواسحاق السبیعی کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو پایا وہ صدقۃ الفطر میں کھانے کی قیمت کے مساوی درہم دیتے تھے۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ متصل صحیح علی شرط الشیخین وابواسحاق روی امرا شاھدہ فلاعبرۃ بتدلیسہ واختلاطہ ۔وحدیثہ من طریق زھیر اخرجہ البخاری و مسلم]


امام ابواسحاق السبیعی نے کسی ایک دو کا نہیں بلکہ ایک جماعت کا موقف بیان کیا ہے کہ انہوں نے جن لوگوں کو پایا وہ صدقۃ الفطر میں قیمت دیتے ۔
امام ابواسحاق السبیعی نے علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی پایاہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بہت سارے صحابہ کا دور انہوں نے دیکھا ہے۔اورآپ علم و فن کے امام ہیں اس لئے علمی معاملہ میں اپنے دور کے اہل علم کا تعامل نقل کریں گے تو ظاہرہے کہ صحابہ کا استثناء نہیں کریں گے کیونکہ ان سے بڑے عالم کون ہوسکتے ہیں۔
لہٰذا اس روایت میں صحابہ سے بھی فطر ہ میں قیمت دینا ثابت ہوا۔

تنبیہ:
بعض لوگ اس روایت کو مقطوع کہتے ہیں ۔عرض ہے کہ مقطوع اس روایت کو کہتے ہیں جس میں صرف کسی تابعی کا قول وفعل وغیرہ منقول ہے ۔اوراس روایت میں امام ابواسحاق السبیعی رحمہ اللہ نے صراحتا تابعین کانام لیکران کاعمل نقل نہیں کیا بلکہ اپنے دورکے اہل علم کا تعامل نقل کیا ہے اور ان کے دور میں صحابہ بھی تھے اور تابعین بھی تھے ۔لہٰذا ان کے قول میں دونوں آگئے بلکہ صحابہ کی شمولیت زیادہ مؤکد ہے کیونکہ علمی معاملہ میں بڑے علماء ہی کے حوالے دئے جاتے ہیں بالخصوص جب کہ امام ابواسحاق السبیعی جیسے صاحب علم حوالہ دیں جو خود محدث اور امام ہیں۔
لہٰذا ان کے قول میں صحابہ کی شمولیت کا بغیر کسی دلیل کے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اورتابعین سے فطرہ میں قیمت دینے کا ثبوت تو مسلم ہے۔اس کی ایک دلیل تو ماقبل کی روایت ہی ہے اس میں صحابہ کے ساتھ تابعین بھی شامل ہیں ۔

اس کے علاوہ خلیفہ عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے اپنی خلافت میں حکم صادر کیا کہ فطرہ میں لوگوں سے غلہ یا اس کی قمیت وصول کرو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ صحیح]

اورپوری دنیا کے کسی کونے سے بھی اس جلیل القدر خلیفہ کے حکم پر کوئی علمی تعاقب نہیں ہوا۔جس سے پتہ چلتا ہے کہ تابعین کا اس مسئلہ پر اجماع تھا۔

بلکہ تابعین ہی میں ایک عظیم علمی شخصیت حسن بصری رحمہ اللہ کی تھی وہ بھی فطرہ میں قیمت دینے کے قائل تھے [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174 واسنادہ صحیح ]
حسن بصری رحمہ اللہ کی مخالفت بھی پوری دنیا میں کسی نے نہ کی ۔اس سے بھی پتہ چلا کہ فطرہ میں قیمت دینے کے جواز پر تابعین کا اجماع تھا۔

اس سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ تابعین نے فطرہ والی احادیث کا یہ مفہوم قطعا نہیں سمجھا ہے کہ اس سے صرف خوراک فراہم کرنا مراد ہے ۔اوراس کے علاوہ قیمت دینا کافی نہیں ۔
اورتابعین کے اس فہم پر دیگرتابعین کا کوئی اختلاف نہیں ملتا ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ فطرہ والی احادیث کو خوراک ہی پر خاص کرناتابعین کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔
اور ہمارا اصول ہی ہے اتباع الدلیل بفھم السف ۔ یعنی فہم سلف کے ساتھ دلیل کی پیروی کرنا ۔

صحابہ وتابعین سے صراحتا یہ چیز ثابت ہونے کے بعد بھی اس میں تشدد کرنا بہت ہی عجیب وغریب بات ہے۔
بلکہ صرف تابعین ہی سے اس کا ثبوت مل جانے کے بعد بھی اس مسئلہ میں پرتشدد فتوی دینا انتہائی غیر مناسب ہے۔

حافظ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ فطرہ میں غلہ دینے کو بہترکہنے کے ساتھ ساتھ آثار تابعین کے پیش نظر لکھتے ہیں:
ان آثار کی وجہ سے صدقہ فطر میں رقم (روپے)وغیرہ دینا جائز ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ اجناس مثلا گندم ،آٹا اور کھجوروغیرہ سے صدقہ فطر اداکیا جائے ۔واللہ اعلم[فتاوی علمیہ :ج2ص165]۔

اورحیرت کی بات ہے کہ لوگ صرف صدقۃ الفطر ہی کے معاملہ میں نصوص میں ظاہرپرستی کا ثبوت د یتے ہیں ۔
حالانکہ دیگر صدقات میں یہ طرزفکر ان کی بھی نہیں ہوتی ہے۔
مثلا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روپے میں زکاۃ نکالنا ثابت نہیں ہے لیکن اس سے کوئی منع نہیں کرتا۔آخرکیوں؟
بلکہ سونے چاندی کی زکاۃ میں بھی سوناچاندہی نکالنے کا ثبوت ملتا ہے لیکن آج لوگ سونےچاندی کی زکاۃ اسی جنس سے نہیں دیتے یعنی سونا چاندی کی شکل میں نہیں دیتے بلکہ اس کے مساوی رقم اور پیسے دیتے ہیں ۔اس کے خلاف فتوی بازی کیوں نہیں ؟

خلاصہ یہ کہ اس معاملہ میں تشدد کرنا صحیح نہیں ہے
اور ہمارے نزدیک رقم نکالنا ہی افضل ہے۔ایک تو اس لئے کہ ہماری نظر میں فطرہ والی احادیث میں غلہ کاذکر بطور کرنسی ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک رقم نکالنے پر نص موجود ہے۔
اوردوسرے اس لئے کہ موجودہ دورمیں محتاجوں کے لئے یہی زیادہ فائندہ مندہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top