محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے پیارے بھائیو! جو الفاظ میں لکھنے جا رہا ہوں، ان کا تعلق بحیثیت مسلم میرے اور آپ کے جسم کے ہر ہر اندام و احساس سے ہے۔ بات میری اُس ماں کی ہوتی جس نے مجھے جنم دیا تو میں برداشت کر لیتا۔ کوئی مجھے شک میں ڈالتا تو میں اُس پر یقین کر لیتا لیکن یہاں بات مجھے جنم دینے والی ماں کی نہیں۔ یہاں بات میری اُس ماں کی ہے جس کے متعلق بالفرض محال اگر تمام فرشتے،انبیاء و رُسل ، امام و بزرگ، باشادہ و سلاطین، فوج و لشکر، افسران اور ان کے ہرکارے غرض کائنات کا ذرہ ذرہ اگر مجھ پر کسی قسم کا کوئی شک ثابت بھی کر دے تو میں نہیں مانوں گا کیونکہ میری اس ماں کی صداقت اللہ نے اپنے کلام سے قرآن کی زینت بنا دی۔ رضی اللہ عنہا۔ رضی اللہ عنہا۔ رضی اللہ عنہا۔
اور اس سے بھی بڑھ کر
میرے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر اگر کسی نے اُنگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی تو میں پھر بھی برداشت کر لیتا
لیکن کیا کروں
ایک شخص نے مجھے اس طرح رُلا دیا ہے کہ زندگی میں کبھی اتنا کبھی رونا نہیں آیا۔ اتنی غیرت نہیں آئی جتنی اس تحریر کے بعد آئی ہے۔
ایک صاحب نے تحریر کیا:
سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں کی اصلاح کا طریقہ مسلسل دعوت و نصیحت ہے۔
میں نے اُس سے پوچھا:
مسلسل دعوت و نصیحت یا اس کے ساتھ ساتھ حدود اللہ کا نفاذ بھی؟؟؟؟؟
موصوف نے جواب دیا:
جواب: دلیل ؟؟؟ عبداللہ ابی اور اسکے ساتھیوں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر حد قذف کیوں نہ لگی؟ ؟ ؟
اور جناب حدود اللہ کا نفاذ ، یہ حکمرانوں یا صاحب سلطہ کا کام ہے، اس معاملے عام مسلمان ، "لایکلف اللہ نفس الا وسعا" کا مصداق ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/پاکستان-میں-جاری-فساد-کا-پردہ-چاک-کرتا-،-ایک-شاندار-اردو-بلاگ.16884/#post-124101
میرے پیارے بھائیو! سوچو تو سہی کہ موصوف نے کس درجہ کمال مہارت سے میری اُس ماں کی طرف اُنگلی اٹھائی جسے میرے رب نے میری ماں کہا۔
اور
میرے محبوب ﷺ کے عدل و انصاف پر کس قدر گہری تلوار چلائی۔ ذرا سوچو تو سہی۔
کیا اسے موصوف کی ناسمجھی کہیں گے؟
یا
اپنے موقف کی حمایت میں بیان بازی؟
یا
اپنی تنظیم کے ساتھ وفاداری؟
اگر اس کی نیت میں فتور نہ بھی ہو تو کیا یہ سب کچھ قابل برداشت ہے؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میرے پیارے بھائیو! جو الفاظ میں لکھنے جا رہا ہوں، ان کا تعلق بحیثیت مسلم میرے اور آپ کے جسم کے ہر ہر اندام و احساس سے ہے۔ بات میری اُس ماں کی ہوتی جس نے مجھے جنم دیا تو میں برداشت کر لیتا۔ کوئی مجھے شک میں ڈالتا تو میں اُس پر یقین کر لیتا لیکن یہاں بات مجھے جنم دینے والی ماں کی نہیں۔ یہاں بات میری اُس ماں کی ہے جس کے متعلق بالفرض محال اگر تمام فرشتے،انبیاء و رُسل ، امام و بزرگ، باشادہ و سلاطین، فوج و لشکر، افسران اور ان کے ہرکارے غرض کائنات کا ذرہ ذرہ اگر مجھ پر کسی قسم کا کوئی شک ثابت بھی کر دے تو میں نہیں مانوں گا کیونکہ میری اس ماں کی صداقت اللہ نے اپنے کلام سے قرآن کی زینت بنا دی۔ رضی اللہ عنہا۔ رضی اللہ عنہا۔ رضی اللہ عنہا۔
اور اس سے بھی بڑھ کر
میرے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات پر اگر کسی نے اُنگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی تو میں پھر بھی برداشت کر لیتا
لیکن کیا کروں
ایک شخص نے مجھے اس طرح رُلا دیا ہے کہ زندگی میں کبھی اتنا کبھی رونا نہیں آیا۔ اتنی غیرت نہیں آئی جتنی اس تحریر کے بعد آئی ہے۔
ایک صاحب نے تحریر کیا:
سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم معاشروں کی اصلاح کا طریقہ مسلسل دعوت و نصیحت ہے۔
میں نے اُس سے پوچھا:
مسلسل دعوت و نصیحت یا اس کے ساتھ ساتھ حدود اللہ کا نفاذ بھی؟؟؟؟؟
موصوف نے جواب دیا:
جواب: دلیل ؟؟؟ عبداللہ ابی اور اسکے ساتھیوں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر حد قذف کیوں نہ لگی؟ ؟ ؟
اور جناب حدود اللہ کا نفاذ ، یہ حکمرانوں یا صاحب سلطہ کا کام ہے، اس معاملے عام مسلمان ، "لایکلف اللہ نفس الا وسعا" کا مصداق ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/پاکستان-میں-جاری-فساد-کا-پردہ-چاک-کرتا-،-ایک-شاندار-اردو-بلاگ.16884/#post-124101
میرے پیارے بھائیو! سوچو تو سہی کہ موصوف نے کس درجہ کمال مہارت سے میری اُس ماں کی طرف اُنگلی اٹھائی جسے میرے رب نے میری ماں کہا۔
اور
میرے محبوب ﷺ کے عدل و انصاف پر کس قدر گہری تلوار چلائی۔ ذرا سوچو تو سہی۔
کیا اسے موصوف کی ناسمجھی کہیں گے؟
یا
اپنے موقف کی حمایت میں بیان بازی؟
یا
اپنی تنظیم کے ساتھ وفاداری؟
اگر اس کی نیت میں فتور نہ بھی ہو تو کیا یہ سب کچھ قابل برداشت ہے؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔