عزیر ادونوی
رکن
- شمولیت
- جون 05، 2018
- پیغامات
- 277
- ری ایکشن اسکور
- 15
- پوائنٹ
- 79
[emoji257]صلاة التسبیح کا ثبوت[emoji257]
سوال(16- 429):
صلاة التسبیح کا ادا کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟
جواب:
صلاة التسبیح والی حدیث کی روایت
امام ابو داود (1/499[1299] کتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)،
ابن ماجہ (1/443[1387] کتاب إقامة الصلاة، باب ماجاء في صلاة التسبيح)،
ابن خزیمۃ فی صحیحہ (2/223[1216] كتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)،
حاکم فی المستدرک (1/318 ،320[1192] كتاب صلاة التطوع)
بیہقی فی السنن (3/51-52[5113] كتاب الصلاة، باب ما جاء في صلاة التسبيح) وفی الدعوات الکبیر (2/22[445]باب صلاة التسبيح) اور
بخاری فی جزء القرأة (جزء: ص57) نے کی ہے۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ یہ حدیث
فضل ابن عباس،
عبد اللہ بن عمرو،
علی بن ابی طالب،
جعفر بن ابی طالب،
ام سلمہ اور
ابو رافع رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
اس حدیث کے ضعف و صحت کے تعلق سے علماء کے دو اقوال ہیں:
(١) علماء کی ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے،
جس میں عقیلی،
ابن العربی ،
امام نووی (فی شرح المہذب)،
ابن تیمیہ،
ابن الہادی،
مزی اور
حافظ ابن حجر (فی التلخیص) ہیں،
اور ابن الجوزی نے تو اس کو کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی موسیٰ بن عبد العزیز مجہول ہے۔
(٢) اور علماء کی دوسری جماعت نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، ان میں
ابو بکر آجری،
ابو محمد عبد الرحیم مصری،
امام ابو داود،
امام مسلم،
حافظ صلاح الدین العلائی،
خطیب،
زرکشی،
ابن الصلاح،
سراج الدین بلقینی،
ابن مندہ،
حاکم،
منذری،
بیہقی،
ابو موسی المدینی،
ابو سعد السمعانی،
سبکی،
بیہقی اور
دار قطنی ہیں،
حافظ ابن حجر نے بھی”الخصال المکفرة“ اور ”امالی الاذکار“ میں
اور نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور علامہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ مسند الفردوس میں فرماتے ہیں:
”صلاة التسبيح اشهر الصلوات واصحها اسنادا“
یعنی صلاة التسبیح تمام (نفلی) نمازوں میں سب سے زیادہ مشہور اور سنداً سب سے زیادہ صحیح ہے۔
اور بہت سارے حفاظ نے ابن الجوزی کی کتاب الموضوعات میں اس کو ذکر کرنے کی وجہ سے سخت تردید کی ہے،
کیونکہ امام نسائی اور ابن معین نے موسیٰ بن عبد العزیز کو ثقہ قرار دیا ہے۔
اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
”كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ يُصَلِّيهَا وَتَدَاوَلَهَا الصَّالِحُونَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ“
(عون المعبود شرح سنن ابي داود: 4/177)
یعنی عبد اللہ بن مبارک اس کو (یعنی صلاة التسبیح) پڑھتے تھے اور صالحین اس کو ایک دوسرے سے لیتے رہے ہیں۔
نیز فضل بن عباس،
عبد اللہ بن عمرو،
ابن عمر،
علی بن ابی طالب،
جعفر بن ابی طالب،
ام سلمہ اور
ابو رافع رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایتوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
اسی واسطے علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”والحق عندي أن حديث ابن عباس ليس بضعيف فضلاً عن أن يكون موضوعاً أو كذباً، بل هو حسن لا شك في ذلك عندي، فسنده لا ينحط عن درجة الحسن، بل لا يبعد أن يقال إنه صحيح لغيره لما ورد من شواهده، وبعضها لا بأس بإسناده“
(مرعاة المفاتيح:4/374)
یعنی میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں ہے،
چہ جائیکہ وہ موضوع یا کذب ہو،
بلکہ اس کے حسن ہونے میں میرے نزدیک کوئی شک نہیں،
کیونکہ اس کی سند حسن کے درجہ سے کم نہیں ہوتی ہے،
بلکہ یہ کہنا بعید نہیں کہ وہ صحیح لغیرہ ہے،
اس وجہ سے کہ اس کے بہت سارے شواہد ہیں اور
ان میں سے بعض کی سندوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ مشکاة المصابیح کے حاشیہ (1/419 ) میں لکھتے ہیں :
”واشار الحاکم (1/308 )ثم الذهبي الی تقويته، وهو حق فإن للحديث طرقاً و شواهد کثيرة يقطع الواقف عليها بأن للحديث اصلاً اصيلاً، خلافا لمن حکم عليه بالوضع، أو قال: انه باطل“
یعنی حاکم اور ذہبی نے اس کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی حق ہے،
کیونکہ اس حدیث کے بہت سارے طرق اور شواہد ہیں،
جن کو جاننے والا قطعی طور سے کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث کے لئے اصل اصیل ہے،
برخلاف اس شخص کے جو اس پر وضع کا حکم لگاتا ہے،
یا کہتا ہے کہ وہ باطل ہے۔
میرے نزدیک دوسرا قول راجح ہے،
یہ حدیث قابل عمل ہے،
جو چاہے یہ نماز ادا کر سکتا ہے۔
[emoji1651][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji1651]؛
نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن المدنی،
جلد دوم، صفحہ: 291 - 293
؛ •••═══ ༻✿༺═══ •••
دکتور فضل الرحمن المدنی ٹیلیگرام چینل.
(علمی٬ عقدی٬ تربوی٬ دعوی)
https://t.me/dr_fazlurrahman_almadni/62
https://t.me/dr_fazlurrahman_almadni/132
.
سوال(16- 429):
صلاة التسبیح کا ادا کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟
جواب:
صلاة التسبیح والی حدیث کی روایت
امام ابو داود (1/499[1299] کتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)،
ابن ماجہ (1/443[1387] کتاب إقامة الصلاة، باب ماجاء في صلاة التسبيح)،
ابن خزیمۃ فی صحیحہ (2/223[1216] كتاب الصلاة، باب صلاة التسبيح)،
حاکم فی المستدرک (1/318 ،320[1192] كتاب صلاة التطوع)
بیہقی فی السنن (3/51-52[5113] كتاب الصلاة، باب ما جاء في صلاة التسبيح) وفی الدعوات الکبیر (2/22[445]باب صلاة التسبيح) اور
بخاری فی جزء القرأة (جزء: ص57) نے کی ہے۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ یہ حدیث
فضل ابن عباس،
عبد اللہ بن عمرو،
علی بن ابی طالب،
جعفر بن ابی طالب،
ام سلمہ اور
ابو رافع رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
اس حدیث کے ضعف و صحت کے تعلق سے علماء کے دو اقوال ہیں:
(١) علماء کی ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے،
جس میں عقیلی،
ابن العربی ،
امام نووی (فی شرح المہذب)،
ابن تیمیہ،
ابن الہادی،
مزی اور
حافظ ابن حجر (فی التلخیص) ہیں،
اور ابن الجوزی نے تو اس کو کتاب الموضوعات میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت میں ایک راوی موسیٰ بن عبد العزیز مجہول ہے۔
(٢) اور علماء کی دوسری جماعت نے اس کو صحیح قرار دیا ہے، ان میں
ابو بکر آجری،
ابو محمد عبد الرحیم مصری،
امام ابو داود،
امام مسلم،
حافظ صلاح الدین العلائی،
خطیب،
زرکشی،
ابن الصلاح،
سراج الدین بلقینی،
ابن مندہ،
حاکم،
منذری،
بیہقی،
ابو موسی المدینی،
ابو سعد السمعانی،
سبکی،
بیہقی اور
دار قطنی ہیں،
حافظ ابن حجر نے بھی”الخصال المکفرة“ اور ”امالی الاذکار“ میں
اور نووی نے تہذیب الاسماء واللغات میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور علامہ دیلمی رحمۃ اللہ علیہ مسند الفردوس میں فرماتے ہیں:
”صلاة التسبيح اشهر الصلوات واصحها اسنادا“
یعنی صلاة التسبیح تمام (نفلی) نمازوں میں سب سے زیادہ مشہور اور سنداً سب سے زیادہ صحیح ہے۔
اور بہت سارے حفاظ نے ابن الجوزی کی کتاب الموضوعات میں اس کو ذکر کرنے کی وجہ سے سخت تردید کی ہے،
کیونکہ امام نسائی اور ابن معین نے موسیٰ بن عبد العزیز کو ثقہ قرار دیا ہے۔
اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:
”كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ يُصَلِّيهَا وَتَدَاوَلَهَا الصَّالِحُونَ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ“
(عون المعبود شرح سنن ابي داود: 4/177)
یعنی عبد اللہ بن مبارک اس کو (یعنی صلاة التسبیح) پڑھتے تھے اور صالحین اس کو ایک دوسرے سے لیتے رہے ہیں۔
نیز فضل بن عباس،
عبد اللہ بن عمرو،
ابن عمر،
علی بن ابی طالب،
جعفر بن ابی طالب،
ام سلمہ اور
ابو رافع رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایتوں سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
اسی واسطے علامہ مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”والحق عندي أن حديث ابن عباس ليس بضعيف فضلاً عن أن يكون موضوعاً أو كذباً، بل هو حسن لا شك في ذلك عندي، فسنده لا ينحط عن درجة الحسن، بل لا يبعد أن يقال إنه صحيح لغيره لما ورد من شواهده، وبعضها لا بأس بإسناده“
(مرعاة المفاتيح:4/374)
یعنی میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ
ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں ہے،
چہ جائیکہ وہ موضوع یا کذب ہو،
بلکہ اس کے حسن ہونے میں میرے نزدیک کوئی شک نہیں،
کیونکہ اس کی سند حسن کے درجہ سے کم نہیں ہوتی ہے،
بلکہ یہ کہنا بعید نہیں کہ وہ صحیح لغیرہ ہے،
اس وجہ سے کہ اس کے بہت سارے شواہد ہیں اور
ان میں سے بعض کی سندوں میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ مشکاة المصابیح کے حاشیہ (1/419 ) میں لکھتے ہیں :
”واشار الحاکم (1/308 )ثم الذهبي الی تقويته، وهو حق فإن للحديث طرقاً و شواهد کثيرة يقطع الواقف عليها بأن للحديث اصلاً اصيلاً، خلافا لمن حکم عليه بالوضع، أو قال: انه باطل“
یعنی حاکم اور ذہبی نے اس کی تقویت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی حق ہے،
کیونکہ اس حدیث کے بہت سارے طرق اور شواہد ہیں،
جن کو جاننے والا قطعی طور سے کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث کے لئے اصل اصیل ہے،
برخلاف اس شخص کے جو اس پر وضع کا حکم لگاتا ہے،
یا کہتا ہے کہ وہ باطل ہے۔
میرے نزدیک دوسرا قول راجح ہے،
یہ حدیث قابل عمل ہے،
جو چاہے یہ نماز ادا کر سکتا ہے۔
[emoji1651][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji3515][emoji1651]؛
نعمة المنان مجموع فتاوى فضيلة الدكتور فضل الرحمن المدنی،
جلد دوم، صفحہ: 291 - 293
؛ •••═══ ༻✿༺═══ •••
دکتور فضل الرحمن المدنی ٹیلیگرام چینل.
(علمی٬ عقدی٬ تربوی٬ دعوی)
https://t.me/dr_fazlurrahman_almadni/62
https://t.me/dr_fazlurrahman_almadni/132
.