• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضرورت برائے رشتہ

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
667
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے ایک حافظ ،عالم،گریجوایٹ دوست کے لئے ،دیندار عالمہ فاضلہ گریجوایٹ کا رشتہ درکار ہے۔
اگر کسی صاحب کی نظر میں ایسا کوئی مناسب رشتہ موجود ہو تو رابطہ کریں۔

 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
ضرورت ہے رشتے کی یا ضرورت ہے انسان کی؟
(Talib Hussain Bhatti, MAILSI(VEHARI))
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی محلے میں ایک بیوہ عورت رہتی تھی۔ اُس کا ایک بیٹا تھا۔ اُس نے اسے سکول میں داخل کرا دیا۔پہلے تو وہ اُس کی وردی، کتابوں اور فیس وغیرہ کی ضرورت پوری کرتی رہی لیکن جب وہ لڑکا حصہ مڈل میں پہنچا تو وہ اُس کے اخراجات پورے نہ کر سکی تو سکول والوں نے اُس لڑکے کو سکول سے خارج کر دیا۔ اُس غریب عورت نے ہیڈماسٹر اور ٹیچر انچارج کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانے۔ سو وہ اپنے بیٹے کو گھر لے آئی کیونکہ محلے کے کسی شخص نے بھی اُس کی مدد نہ کی تھی۔ اب وہ لڑکا آوارہ لڑکوں کے ساتھ پھرنے کی وجہ سے آوارہ ہو گیا۔ اس نے پہلے تو جیبیں کاٹنا اور چوری کرنا شروع کیا ،پھر ڈاکے مارنے شروع کر دیے۔ یوں وہ سماج سے بدلہ لینے لگا۔ سو وہ اپنی ماں سے بے قابو ہو گیا اور محلے والوں کیلئے عذاب بن گیا۔ کیونکہ مثل مشہور ہے صحبتِ صالح ترا صالح کند، صحبت طالح ترا طالح کند!
آپ نے اکثر اخباروں میں ضرورتِ رشتہ کے اشتہارات پڑھے ہوں گے۔ مثلَا جرمن، برٹش اور امریکن نیشنلیٹی ہولڈر لڑکی کیلئے پڑھے لکھے، گریجوایٹ نوجوان خاص طور پر ڈاکٹر، انجینیر لڑکے کا رشتہ درکار ہے۔ ذات پات کی قید نہیں۔ لڑکا ساتھ رہے گا۔ جملہ اخراجات ہمارے ذمے ہوں گے۔ یا مثلَا ایک ڈاکٹر، انجینیر لڑکے کیلئے ایک پڑھی لکھی ،گریجوایٹ، خوبصورت، خوب سیرت،درازقد لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ عمر ،جہیز اور ذات پات کی کوئی قید نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کسی نے یہ اشتہار کبھی نہیں دیا کہ ایک جاہل، بے وقوف، اَن پڑھ نوجوان کا رشتہ درکار ہے جو خدا کی شریعت کی پابند، صوم و صلواۃ کی پابند، اور شرم و حیا رکھنے والی لڑکی کیلئے چاہیے تاکہ وہ اسے بھی اپنے طریقے پر لا سکے) کیونکہ عورتیں مردوں کو اکثر اپنے طریقے پر ڈھال لیتی ہیں(۔یا پھر مثلاَ ایک پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، کھاتے پیتے گھرانے کے نوجوان کیلئے ایک بھولی بھالی ، سیدھی سادھی، اَن پڑھ، غریب اور دیہاتی لڑکی درکار ہے جو واجبی سی صورت اور معمولی سوجھ بوجھ رکھتی ہو اور خاوند کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی ہو۔ عمر جہیز اور ذات پات کی کوئی قید نہیں۔ بس انسان ہو حتٰی کہ بیوہ، بانجھ اور مطلقہ بھی رابطہ کر سکتی ہے تاکہ اس کی زندگی بھی سدھر جائے، کیونکہ جس کے پیٹ میں روٹی جاتی ہے اسے عقل آجاتی ہے۔
دیکھو، شریف،نیک،فرمانبردار، کھاتے پیتے گھرانے کے لڑکے یا لڑکی کے ساتھ تو ہر کوئی نباہ کر سکتا ہے۔ مگر بات تو تب ہے کہ اُجڈ، بے وقوف، اکھڑ اور غریب لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نباہ کیا جائے۔ اور اگر کوئی لڑکا نبھاتا یا کوئی لڑکی نبھاتی ہے تو وہ بخشا یا بخشی گئی کیونکہ اس کا حساب کتاب اور جزا سزا تو اسی زندگی میں ہو گئی۔ دیکھو، دنیاوی کاروبار، اچھی شادی اور بہتر مستقبل کی کوشش تو ہر کوئی کرتا ہے۔ لیکن دینداری، پاک صاف زندگی اور آخرت کی کامیابی کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔اچھے لوگ برے آدمیوں اور بری عورتوں کو اپنی صحبت میں نہیں آنے دیتے سو وہ اُسی طرح برے کے برے رہ جاتے ہیں۔ اگر اچھے لوگ برے لوگوں کو اپنے نزدیک آنے دیں تو وہ بھی ان کی دیکھا دیکھی سدھر جائیں کیونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اچھی صحبت کا اچھا اور بری صحبت کا برا۔
پیروں فقیروں اور درویشوں کا عقیدہ ہے کہ اچھے برےانسان سب اللہ تعالٰی کی مخلوق ہیں۔ اس لیے بروں سے نفرت خالق پر اعتراض ہے! لہٰذا وہ برائی کو تو برا سمجھتے ہیں، برے کو برا نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے برے کو کسی وقت بھی توبہ کی توفیق عطا فرما کر اچھا انسان بنا سکتا ہے، اور ایک اچھے انسان کو اس کی عبادات، نیکی بھلائی پر فخر و غرور کی بنیادپر کسی وقت بھی اپنی رحمت سے دور کر سکتا ہے۔ اس لیے اپنی نیکیوں، بھلائیوں پر فخر و غرور نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالٰی سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے۔ اور ہر وقت اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہیے کہ کہیں ہم بھٹک کر کوئی گناہ اور غلط کام نہ کر بیٹھیں۔ اسی لیے حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک آدمی ساری عمر برائی کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اگر اس کی قسمت میں جنتی ہونا لکھا ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالٰی کی رحمت اور توفیق سے کوئی اچھا کام کرتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا آدمی ساری عمر عبادتیں اور نیکیاں کرتا رہتا ہے اور جنت ایک بالشت کے فاصلے پر رہ جاتی ہے تو اگر اس کی قسمت میں دوزخی ہونا لکھا ہوتا ہے تو وہ کوئی غلط کام کر بیٹھتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے۔
اچھے، پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اور امیر لوگوں کو چاہیے کہ وہ گندے، اَن پڑھ اور غریب لوگوں سے منہ نہ موڑیں اور انہیں اپنے پاس آنے سے نہ دھتکاریں۔ وہ کہاں جائیں گے؟ اگر سارے اچھے، پڑھے لکھے، کھاتے پیتے اور امیر لوگ ایک طرف ہو جائیں اور گندے، اَن پڑھ اور غریب دوسری طرف ہو جائیں تو ان میں طبقاتی نفرت اورکشمکش شروع ہو جائے گی۔ اور پھر گندے، اَن پڑھ اور غریب لوگ چوریاں کریں گے اور ڈاکے ماریں گے۔ قتل اوردیگر جرائم کریں گے اور یوں معاشرہ خراب اور زندگی جہنم بن جائے گی۔
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسرارِ خودی کا آغاز مولانا روم کے اِن شعروں سے کیا ہے جن کا مطلب ہے کہ کل ایک بزرگ دن کے وقت چراغ لیکر کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کیا ڈھونڈتے ہو۔ بزرگ نے کہا کہ انسان ڈھونڈتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ سارے انسان ہیں، آپ کو نظر نہیں آتے۔ بزرگ نے کہا: نہیں یہ حیوان اور درندے ہیں۔ مجھے مولا علی شیرِخدا جیسے پاکباز اور رستم پہلوان جیسے انسانوں کی تلاش ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ نہیں ملتی۔ بزرگ نے جواب دیا مجھےاِسی چیز )یعنی اللہ اور اللہ والوں( کی تلاش ہےجو نہیں ملتی۔
کہتے ہیں کہ ایک ریاست کے نواب کو کسی اللہ والے کی تلاش ہوئی اور اس نے تلاش بسیار کے بعدایک بزرگ کو ڈھونڈ لیا اور اُن کا مرید ہو گیا لیکن اس نے اپنے آپ کو نہ بدلا۔ اُن بزرگ کے کسی چہیتے مرید نے انہیں کہا کہ سرکار، نواب صاحب آپ کے مرید ہیں۔ اسےتو حکم دیں کہ وہ اپنی رعایا پر ظلم نہ کیا کرے۔ پیر صاحب نے کہا کہ اچھا، کاغذ قلم لاوَ۔ پھر اس پر صرف ایک فقرہ لکھا "خیال کر کہیں بھگتنی نہ پڑ جائے"۔ اور نیچے اپنے دستخط کر کے کہا کہ جاوَ اُس نواب کو دے دو۔ چنانچہ نواب نے پیر کے فرمان کو سر آ نکھوں پر رکھا اور ظلم چھوڑ دیا۔ اسی طرح جناب غوثِ پاک رحمتہ اللہ علیہ نے ایک چور کو قطب بنا دیا۔ پس ضرورت ہے ایسے ہی انسان کی جو اللہ والا ہو۔ پس اللہ والوں سے رشتہ جوڑیے، اسی میں بھلائی ہےاور اسی میں نجات ہے۔
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میں بھی کئی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ایسا کوئی تھریڈ ہونا چاہیے جہاں لوگوں کی ایسی ضرورت کو پورا کیا جاے اور الحمد للہ انتظامیہ کی طرف سے یہ ایک اچھا کام ہے گزارش ہے کہ اس کام کو آگے بڈھایا جاے تاکہ ضرورت مند لوگوں کی ضرورت پوری ہوسکے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اسی طرح جناب غوثِ پاک رحمتہ اللہ علیہ نے ایک چور کو قطب بنا دیا۔ پس ضرورت ہے ایسے ہی انسان کی جو اللہ والا ہو۔ پس اللہ والوں سے رشتہ جوڑیے، اسی میں بھلائی ہےاور اسی میں نجات ہے۔
محترم بھائی بات اصلاح طلب ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
جزاک اللہ بھائی جان اللہ آپ پر اپنی خصوصی رحمت فرماے خز ما صفی و دع ما کدر مٹھا مٹھا ہپ تے کوڑا کوڑا تھو
[/arb
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے ایک حافظ ،عالم،گریجوایٹ دوست کے لئے ،دیندار عالمہ فاضلہ گریجوایٹ کا رشتہ درکار ہے۔
اگر کسی صاحب کی نظر میں ایسا کوئی مناسب رشتہ موجود ہو تو رابطہ کریں۔


عمر علاقہ اور چند دوسری تفصیلات کا ذکر بھی مناسب ہو گا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عمر علاقہ اور چند دوسری تفصیلات کا ذکر بھی مناسب ہو گا
وہ بھائی ضلع لاہور کا رہائشی ہے تعلیم درس نظامی ، ایم اے وفاق ، بی ، اے پنجاب یونی ورسٹی عمر 28 سال تحقیق کے کام سے منسلک ہے اور اپنا ڈیری فارم اور پراپرٹی کا بزنس بھی ہے
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
667
ری ایکشن اسکور
742
پوائنٹ
301
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے میں شادی کو ایک سماجی بندھن تصور کیا جاتا ہے تاہم اس روایت اور بندھن کونبھانے کیلئے مختلف اقوام اور تہذیبوں کا طریق کار مختلف ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی زبانی یہ سوال ہی معیوب لگتا تھا کہ اس کی شادی کب ہوگی کیونکہ ہمارے بزرگ اس اعتبار سے درست تھے کہ وہ بروقت اپنی اولادوں کو بیاہ دیتے تھے مگر عہد حاضر میں جس قدر معاشی' معاشرتی مسائل پیدا ہوگئے ہیں ' غربت اور امارات میں خلیج گہری ہوگئی ہے۔ ایسے میں شادی ایک رسم نہیں بلکہ ایک مسئلہ بن گیا ہے جس کیلئے لڑکوں اور لڑکیوں کو خود نجومیوں اور ماہرین دست شناس سے پوچھنا پڑتا ہے کہ ان کی شادی کب ہوگی۔
خوبیاں اور خامیاں ہر شخص میں موجود ہوتی ہیں مگر کامیاب شادی کیلئے ذہنی ہم آہنگی بہت ضروری ہے کیونکہ کامیاب اور خوشگوار شادی ہر انسان کا خواب ہوتا ہے۔ خوبصورتی کے حوالے سے بات کرتے لڑکیوں کا کہنا تھا کہ خوبصورت ہونا بہت ضروری ہے مگر اصل خوبصورتی انسان کے اندر اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے خاوند کی عزت کرے اور خاوند کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے جائز حقوق کا خیال کرے کیونکہ انسانی مساوات کا تقاضا ہے کہ میاں بیوی کو معاشرہ میں یکساں مقام حاصل ہو۔
مقامی کالج کی بعض طالبات کااس حوالے سے کہنا تھا کہ تعلیم ان کی شخصیت کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اس لئے جیون ساتھی کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ تعلیم یافتہ فراد ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے اور باوجود یہ کہ ہماری دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلی واقع ہورہی ہے۔ مختلف تہذیبیں ایک دوسرے پر اثرانداز ہورہی ہیں۔ ہمیں اپنے اسلامی معاشرے اور اقتدار کے تناظر میں ہی سوچنا پڑے گا حالانکہ جدید دنیا کے رنگ اور چکاچوند نوجوان نسل پر بری طرح اثرانداز ہورہے ہیں مگر پھر بھی زندگی کے اس اہم فیصلے کیلئے ہمیں اپنے والدین کی خواہش کو مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین اپنی عمر' تجربے اور بچوں سے بے لوث محبت کی بنا پر اس فیصلے کا اختیار رکھتے ہیں مگر والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی اولاد بارے کسی بھی اہم فیصلے سے پہلے ان کی رائے لے لیں۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ غریب اور ان پڑھ لڑکی تو اپنی پسند اور ناپسند بارے سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہ اپنے والدین کے صحیح یا غلط فیصلے پر اپنی کوئی رائے نہیں دے سکتی جبکہ پڑھی لکھی اور باشعور لڑکی کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اسے اپنی زندگی کے اس اہم فیصلے سے متعلق مکمل شعور اور آگاہی ہوتی ہے۔ لڑکیاں چاہتی ہیں کہ ان کا ہونے والا شوہر تعلیم یافتہ اور باشعور شخص ہو' خوبصورتی ضروری ہے کیونکہ جیسے لڑکے چاہتے ہیں کہ ان کی ہونے والی بیوی خوبصورت ہو اس طرح لڑکیاں بھی چاہتی ہیں کہ ان کا ہونے والا شوہر وجیہہ' محبت کرنے والا اور باکردار ہو۔
شادی ایک ایسا بندھن ہے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے اور زندگی کے ایسے اہم فیصلے کیلئے ہمیں بڑی سوچ سمجھ سے کام لینا چاہئے۔ شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا ایک دوسرے کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ ایک دوسرے کو جانے بغیر یہ فیصلہ ہمارے لئے بہت مشکل ہے۔ پڑھی لکھی خوبصورت اور ذہین بیوی ہر کسی نوجوان کی خواہش ہوتی ہے اور یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ آج کل کا نوجوان چاہتا ہے کہ اس کی بیوی نہ صرف خوبصورت ہو بلکہ پڑھی لکھی اور ذہین بھی ہو کیونکہ تعلیم یافتہ بیوی اس کی زندگی میں کئے جانے والے فیصلوں ' پریشانیوں اور تکلیفوں میں اس کی بہتر معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ پڑھی لکھی اور تعلیم یافتہ بیوی زندگی کے اہم لمحوں میں بہتر فیصلہ کرنے میں اپنے خاوند کو مدد فراہم کرسکتی ہے۔
اس حوالے سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اچھی بیوی ملنا خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔ بیوی کا پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ گھر کے معاملات اور بچوں کی تربیت اس کے ذمے ہوتی ہے۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہو تو بہتر طریقے سے ان فرائض کی انجام دہی کرسکتی ہے۔ویسے بھی کامیاب اور خوشگوار ازدواجی زندگی کا انحصار دونوں رشتوں کے اندر خلوص میں مضمر ہے۔ اگر میاں بیوی اپنے فرائض' حقوق اور رشتے کی اہمیت کو سمجھیں گے تو گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ دونوں جانب سے ان پہلوﺅں پر اگر نہیں سوچا جاتا تو صورتحال مختلف ہوجاتی ہے۔ اگرچہ دوسرے معاشروں کی دیکھا دیکھی لو میرج کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر ہمیں اپنے والدین کے فیصلوں کو ہی اولین ترجیح دینی چاہئے کیونکہ والدین اپنی اولاد کیلئے جو سوچتے ہیں بہتر اور فائدے میں سوچتے ہیں۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں لومیرج کو پروموٹ کیا جاتا ہے حالانکہ ہمارا اسلامی معاشرہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بعض نوجوانوں کایہ بھی کہنا ہے کہ نکاح کا مقصد صرف ایک فرض کو ادا کرنا نہیں بلکہ حقیقت میں ہر انسان کو اچھے رفیق حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اسے ایک ایسا جیون ساتھی ملے جو اس کا خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا ہو۔ لڑکیوں کا کہنا تھا کہ خلوص اور سچ کسی بھی رشتے کی بنیاد ہوتی ہے۔ آسائشیں اور سہولیات تو آنی جانی چیزیں ہیں، اصل چیز ایمانداری' محبت اور خلوص ہے۔
والدین اور اولاد کے بعد قریب ترین تعلقات کی فہرست میں تیسرا درجہ میاں بیوی کے رشتے کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی تعلقات کی درستگی پر گھر کے عیش و عشرت کا انحصار ہے۔ اگر میاں بیوی کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوں گے تو گھر جنت اور اگر خدانخواستہ دونوں میں کشیدگی ہوگی تو گھر جہنم سے کم نہ ہوگا۔ ان تعلقات کا اثر میاں بیوی پر ہی نہیں پڑتا بلکہ بچوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ تعلقات کے کشیدہ ہونے پر بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔ گھریلو زندگی خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے کہ میاں بیوی اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسے خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ اس طرح ایک دوسرے پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کی بجاآوری میں کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہ لیں۔
موجودہ دور کے بدلتے ہوئے حالات کا تقاضا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا اپنی زندگی کے بارے میں واضح نقطہ نظر ہونا چاہئے۔ ہمارے معاشرے کی بدلتی ہوئی اقدار کے باوجود نوجوان نسل کی رائے اس لحاظ سے قابل ستائش ہے کہ انہیں مجموعی طور پر کامیاب ازدواجی زندگی سے منسلک رویوں سے نہ صرف آشنائی ہے بلکہ احساس ذمہ داری بھی موجود ہے۔ ہر معاشرے میں میاں بیوی کے رشتے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس رشتے کو استوار کرنے اور برقرار رکھنے کیلئے کچھ قوانین و ضوابط طے کئے گئے ہیں۔ زندگی کا ہر وہ شعبہ جسے کسی ضابطے کے تحت گزارا جائے اسے پائیدار اور خوشگوار تصور کیا جاتا ہے اور ازدواجی زندگی کی بقا کیلئے آپس میں ہم آہنگی' خلوص محبت اور قربانی بہت ضروری ہے۔
 
Top