- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
طالبہ کے پرس میں کیا ہے ؟
جودہ الفارس
اللہ پاک نے فرمایا:
اللہ پاک نے ہم پر اَن گنت اورلا متناہی نعمتیں نچھاور کی ہیں، ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہماری ذمہ داری صرف یہ بنتی ہے کہ ہم اللہ کے شکرگذار بنیں۔ کیوں کہ اس کا فرمان ہے:وان تعدوا نعمة اللہ لا تحصوھا (سورة ابراھیم 34)
"اگرتم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے ۔"
اس مقالے کی حقیقت ایک قصہ سے عبارت ہے جو بذریعہ ای میل مجھے موصول ہوا،اس قصہ میں سبق ہے، درس ہے، نصیحت ہے، افادہ عامہ کی خاطر یہ قصہ آپ کی خدمت میں پیش کیاجارہا ہے ،تولیجئے یہ ہے قصہ :لئن شکرتم لازیدنکم [ ابراہیم : 7]
" اگر شکر گذار بنو گے تو میں تمھیں اور زیادہ نوازوں گا ۔ "
ایک گرلز کالج میں سرکاری تفتیش آئی اور کالج کے سارے کلاسیز میں گھوم گھوم کر لڑکیوں کے بیگ کی تلاشی کرنے لگی، ایک ایک لڑکی کے بیگ کی تفتیش کی گئی،کسی بھی پرس میں کتابیں ،کاپیاں اورلازمی اوراق کے علاوہ کوئی ممنوع شے پائی نہیں گئی، البتہ ایک آخری کلاس باقی رہ گیا تھا، اور یہی جائے حادثہ تھا،حادثہ کیا تھا، اورکیا پیش آیا ؟!
تفتیشی کمیٹی ہال میں داخل ہوئی اور ساری لڑکیوں سے گذارش کی کہ تفتیش کے لیے اپنا اپنا پرس کھول کر سامنے رکھیں، ہال کے ایک کنارے ایک طالبہ بیٹھی تھی، اس کی پریشانی بڑھ گئی تھی، وہ تفتیشی کمیٹی پردزدیدہ نگاہ ڈال رہی تھی اور شرم سے پانی پانی ہورہی تھی۔ اس نے اپنے پرس پر ہاتھ رکھا ہوا تھا!! تفتیش شروع ہوچکی ہے، اس کی باری آنے ہی والی ہے، لڑکی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے .... چندمنٹوں میں لڑکی کے پرس کے پاس تفتیشی کمیٹی پہنچ چکی ہے، لڑکی نے پرس کو زورسے پکڑ لیا گویا وہ خاموش زبان سے کہنا چاہتی ہوکہ آپ لوگ اسے ہرگزنہیں کھول سکتے، اسے کہا جارہا ہے، پرس کھولو! تفتیش کی طرف دیکھ رہی ہے اور زبان بند ہے، پرس کو سینے سے چپکا لی ہوئی ہے، تفتیش نے پھرکہا: پرس ہمارے حوالے کرو، لڑکی زور سے چلاکر بولتی ہے: نہیں میں نہیں دے سکتی۔ پوری تفتیشی کمیٹی اس لڑکی کے پاس جمع ہوگئی، سخت بحث ومباحثہ شروع ہوگیا۔ ہال کی ساری طالبات پریشان ہیں،آخر رازکیا ہے؟ حقیقت کیا ہے؟ بالآخر لڑکی سے اس کا پرس چھین لیا گیا، ساری لڑکیاں خاموش ....لکچر بند .... ہر طرف سناٹا چھا چکا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہوگا .... پرس میں کیاچیز ہے ؟
تفتیشی کمیٹی طالبہ کا پرس لیے کالج کے آفس میں گئی، طالبہ آفس میں آئی، ادھراس کی آنکھوں سے آنسووں کی بارش ہورہی تھی، سب کی طرف غصہ سے دیکھ رہی تھی کہ بھرے مجمع کے سامنے اسے رسوا کیا گیا تھا، اسے بٹھایا گیا، کالج کی ڈائرکٹر نے اپنے سامنے پرس کھلوایا، طالبہ نے پرس کھولا، یااللہ ! کیاتھا پرس میں ....؟ آپ کیا گمان کرسکتے ہیں ....؟
پرس میں کوئی ممنوع شے نہ تھی، نہ فحش تصویریں تھیں، واللہ ایسی کوئی چیز نہ تھی .... اس میں روٹی کے چند ٹکڑ ے تھے، اور استعمال شدہ سنڈویچ کے باقی حصے تھے، بس یہی تھے اور کچھ نہیں۔ جب اس سلسلے میں اس سے بات کی گئی تو اس نے کہا: ساری طالبات جب ناشتہ کرلیتی ہیں تو ٹوٹے پھوٹے روٹی کے ٹکڑے جمع کرلیتی ہوں جس میں سے کچھ کھاتی ہوں اور کچھ اپنے اہل خانہ کے لیے لے کر جاتی ہوں۔ جی ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کے لیے....تاکہ انہیں دوپہر اور رات کا کھانا میسر ہو سکے۔ ہم تنگ دست ہیں، ہماری کوئی کفالت کرنے والا نہیں، ہماری کوئی خبر بھی نہیں لیتا۔ اور پرس کھولنے سے انکار کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ مبادا میری کلاس کی سہیلیاں میری حالت کو جان جائیں اور مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ میری طرف سے بے ادبی ہوئی ہے تو اس کے لیے میں آپ سب سے معافی کی خواستگار ہوں۔
یہ دلدوز منظر کیاتھا کہ سب کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، اللہ پاک ہر شخص کو ایسی مجبوری سے بچائے، اور ایسے بُرے دن کسی کو نہ دیکھنے پڑیں ۔
بھائیو اور بہنو!
یہ منظر ان مختلف المناک مناظر میں سے ایک ہے، جو ممکن ہے ہمارے پڑوس میں ہو اور ہم اسے نہ جانتے ہوں، یا بسا اوقات ایسے لوگوں سے نظریں اوجھل کئے ہوئے ہوں ۔
بشکریہ ماہنامہ مصباح (کویت)