• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاہرالقادری کو بھی پتہ لگ یا ہے کہ سچ بولنے والوں کو وہابی کہتے ہیں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
Facebook

اس ویڈیو دیکھیں اس میں طاہرالقادری اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے سچ بول ہی پڑا ہے۔ اسے بھی پتہ چل گیا ہے کہ سچ بولنے والوں کو وہابی کہا جاتا ہے۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
قادری خرافات... اور فرنچائز معاشرے!

قادری خرافات... اور فرنچائز معاشرے!


یہ تو طے ہے کہ یہ آکاش بیل کبھی اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہوئی! دیندار کیا لبرل، سب پردہ اٹھا اٹھا کر یہی ’جھانکنے‘ کی کوشش میں رہے کہ یہ مٹی کا مادھو کھڑا کس چیز کے سہارے ہے! کسی کو کیا سروکار کہ یہ ’’کہتا کیا ہے‘‘؛ اس کے ہلتے ہونٹوں کی بابت ہر کسی کو یہی تجسس کہ انہیں ’’ہلا کون رہا ہے‘‘! پیراسائٹ کی پوری تاریخ ’سہاروں‘ کے دم سے ہے۔ ہونہیں سکتا ایسا آدمی جو دین میں بھی ساری عمر جھوٹ بولتا اور مجمع بازی کرتا آیا ہے اور دنیا میں بھی باقاعدہ عدالت سے ’جھوٹا دغاباز‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ رکھتا ہے... کسی ’عندیے‘ کے بغیر اسلام آباد ’پھل‘ توڑنے جاپہنچا ہو! مسئلہ کی یہی وہ جہت ہے جو میری نظر میں حد سے بڑھ کر پریشان کن رہی۔ مگر یہ دو باتیں تصویر کا دوسرا رخ دکھارہی تھیں:

ایک یہ کہ اِس کو ششکارنے والا خواہ جو کوئی بھی تھا وہ اِس کی اوقات سے واقف تھا۔ مراد یہ کہ ’ہدایتکار‘ کی بیل اگر منڈھے نہیں چڑھتی تو بھی ڈر نہیں کہ ڈرامہ ادھورا چھوٹ جانے پر ’اداکار‘ اُس کو بگڑ کر دکھائے گا۔ اُسے معلوم ہے یہ اپنی ٹوپی اٹھا کر آرام سے ’عالم رؤیا‘ میں واپس چلا جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ، مزدوری مانگے گا اور یہ وہ جانتا ہے کہ بل اُسی کو ادا کرنا ہے۔ سید منور حسن نے خوب کہا کہ پاکستانی سیاست میں یہ تو کوئی سٹیک ہولڈر ہی نہیں ہے۔ البتہ میرے خیال میں، خود اِس ڈرامے کے اندر بھی یہ کوئی سٹیک ہولڈر نہیں ہے! خود اِس ڈرامے میں بھی اِس کو ’کاسٹ‘ کیا گیا؛ پروڈیوسر کہیں پیچھے تھا۔ البتہ کھلاڑی یہاں ایک نہیں کئی ہیں اور ’گول‘ کرآنا ایسا آسان نہیں؛ اصل کھلاڑی نے ہوسکتا ہے محض ایک موو بنائی ہو کہ ہوگیا تو واہ واہ، نہ بھی ہوا تو کیا جاتا ہے، سوائے کچھ بلوں کی ادائیگی کے۔ کھلاڑی آخر تک سامنے نہیں آیا، جس کی دلیل یہ کہ لوگ ابھی تک اندازے لگارہے ہیں کہ وہ کون تھا؛ لہٰذا سوائے کچھ پیسہ خرچ ہوجانے کے اُس اصل کردار کا تو کچھ بھی نہیں گیا۔ یعنی صرف یہ ایک آدمی ہے؛ اور اِسکو سر نیچا کرنے تک کی ضرورت نہیں کیونکہ اِسکا سر اونچا ہوتا ہی نہیں! اِسکی کتنی ہی بشارتیں وقفوں وقفوں سے ’تاویل‘ کے کباڑ میں گئیں؛ اور ’تاویلیں‘ ہی اس کباڑیے کی اصل کمائی ٹھہری... تو حالیہ ’بشارتوں‘ کا بھی بعد میں کچھ نہ کچھ بن ہی جائے گا! بلکہ آپ دیکھئے گا یہ ان میں نئے پرزے جڑ کر ابھی اور کیا کیا کچھ بنا کر لاتا ہے! اِن گاہکوں کو تو جو چاہو بیچ لو! یعنی نقصان میں کوئی ایک بھی نہ رہا، سوائے اِس بیچاری قوم کے!

دوسرا یہ کہ ٹھیکیدار مجمع پورا نہیں اکٹھا کرسکے۔ رنگ باندھا ہی نہیں جاسکا۔ اتنی گھٹیا پرفارمنس کے ساتھ بھی اگر وہ ڈرامائی مقاصد حاصل ہوجاتے تو بڑی حیرت کی بات تھی۔ یعنی ایک کام ہونا تھا تو بھی اسکے لیے ’بہانہ‘ تو ڈھنگ کا چاہئے! اِتنے میں تو یہی آتاہے! بتانے والوں نے اسکو ’چالیس لاکھ‘ کا جو فِگر بتارکھا ہوگا، وہ بڑی دیر تک اسکی زبان سے چپکا رہا۔ کنٹینر کے اندر سے جیسے ہی ’چالیس لاکھ‘ کا فگر برآمد ہوتا، دیکھنے والوں کی ہنسی چھوٹ جاتی۔

خدا و رسول پر جھوٹ گھڑنے والے، شرک کے بیوپاری، ایک مستند ’جھوٹے، شہرت کے پجاری‘ کے پیچھے واقعتاً اگر چالیس لاکھ انسان ہولیے ہوتے تو ہم کہتے یہ بڑا دجال ہے! بس یہاں سے معاملہ پھیکا پڑا تو سب جادو رفوچکر؛ فی الوقت کےلیے اتنا ہی!
تاہم جو سوال مجھے یہاں پر اٹھانا ہے وہ اپنے اُن دیندار حلقوں کیلئے ہے جنہوں نے یہ پورا عرصہ طاہر القادری کا خوب خوب رد کیا۔ قوم کو اسکی بابت ’لائیو‘ شعور دیا۔ ’دستور‘ کی روشنی میں، ’جمہوریت‘ کی روشنی میں، ’سیاسی معیارات‘ کی روشنی میں... مگر ’’دین‘‘ اور ’’عقیدہ‘‘ کا کوئی ایک حوالہ اِس گمراہ شخص سے قوم کو خبردار کرنے کے عمل میں ہمیں اپنی اِن شرعی قیادتوں کے ’’قوم کے نام‘‘ جاری بیانات میں نظر نہیں آیا۔ کیا حرج تھا کہ جہاں یہ بتایا جارہا تھا کہ یہ شخص جمہوریت پر شبخون مروانے کا ذریعہ ہے، انتخابی عمل کو تباہ اور سیاسی روایتوں کا ستیاناس کرنے جارہا ہے... وہاں یہ بھی بتادیا جاتا کہ یہ شخص دین خداوندی پر شبخون مروانے کا ذریعہ ہے، عقیدے کا ستیاناس اور ملت کا دستور تباہ کررہا ہے، بلکہ شرک کا ایک بہت بڑا آئیکون ہے(۱) ۔ شرک کی دنیا میں ترقی پاتے پاتے اب یہ شخص مقامی حیثیت سے اٹھ کر شرکیہ باطنیت کے اُس عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن چکا ہے جو عالم اسلام کی سالمیت کا سودا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کسی بچولے کو بیچ میں ڈالے بغیر کرتا ہے؛ عالم اسلام کا بکاؤ مال، ایک عالمی باطنی نیٹ ورک جو صلیبی استعمار کی حالیہ یلغار کے خلاف جاری مسلم مزاحمت کو کچل دینے کےلیے یہاں ایک منظم جماعت کے طور پر کھڑا کیا جارہا ہے۔

طاہرالقادری جمہوریت کیلئے ایک عظیم خطرہ ہے۔ یقیناً سچ ہوگا۔ مگر یہ مسلم عقیدہ کے حق میں اس سے کہیں عظیم تر خطرہ ہے، یہ لفظ ہماری زبان پر آتے ہوئے سو بار شرماتا ہے، آخر کیوں؟ دین اور عقیدہ کا موضوع، قومی زندگی کےاندر؟! دنیا کیا کہے گی؟! شرک اور توحید کے حوالے، یوں برسرعام؟!! یہاں کسی کو مسترد کروانے کےلیے حوالہ ہو تو ’کرپشن‘ کا، ناانصافی کا، جمہوریت دشمنی کا، دستور کی کسی دفعہ کا، عدلیہ کے کسی فیصلے کا!!! سیدھا قرآن ہی کا حوالہ؛ کیا بات کرتے ہیں! صاف توحید اور شرک کا حوالہ؟ قومی دھارے کے اندر؟ پریس کے سامنے کھڑے ہوکر؟ ایسی معیوب بات؟ یہاں تو وہی زبان بولی جاسکتی ہے جس کا یہاں پر رواج ہے! ہم کوئی ’رواج‘ دینے والے تھوڑی ہیں؛ ہم تو متبعین ہیں! رجحان ساز تھوڑی ہیں! ہم سعادت مندی کے ساتھ لینے پر یقین رکھتے ہیں؛ ہم دینے والے کب ہیں! کونزیومر!

گستاخی معاف، ’طاہر القادری شو‘ کا یہ تمام عرصہ میں اپنے دینی حلقوں کو قوم کو ’راہنمائی‘ دیتا اور عوام کی ’چشم کشائی‘ فرماتا دیکھ کر باربار سوچتا رہا... کیا خیال ہے ایسے کسی ’جمہوریت دشمن‘ کا شو وینزویلا میں ہوتا، یا جزیرہ ہوائی میں ہوتا، یا نیپال یا بھوٹان میں انتخابات کی بساط الٹ دینے کےلیے ایسا کوئی ہنگامہ برپا ہوتا، تو وہاں بھی تو یہی زبان بولی جار ہی ہوتی! یہی ’دستور‘ کے حوالے، ’جمہوریت‘ کے واویلے، ’خفیہ قوتوں‘ کی دہائیاں! امتِ محمدؐ کے پاس بھی ظاہر ہے اسکے علاوہ تو کوئی حوالہ نہیں! قوم کو ’خبردار‘ کرنے کےلیے اسکے علاوہ تو کوئی روگ نہیں! یہ ہم عام امتِ محمدؐ کی بات نہیں کررہے؛ امتِ محمدؐ کے رہبروں اور رہنماؤں کی بات کررہے ہیں، عام رہنماؤں کی بھی نہیں، بلکہ امت کی دینی اور شرعی قیادتوں کی! وینزویلا، ہوائی، نیپال یا بھوٹان ہو، یا امت محمدؐ کی دینی وشرعی قیادتیں، سب سے آپ ایک سی زبان سن سکتے ہیں!!! اس کے علاوہ کوئی زبان پائی ہی نہیں جاتی کسی چیز کو قبول کروانے یا مسترد کروانے کےلیے! ’معیارات‘ دینا اس کو کہتے ہیں حضرات! داد تو دیجئے اِس عالمِ نو کے صنعتکاروں کی! ایسا بھی کیا تعصب، جہانِ نو کے صورت گروں کو اِس پر کچھ تو مارکس دیجئے! اس کو کہتے ہیں اَذہان کی گلوبلائزیشن! اس کو کہتے ہیں دماغوں کے اندر بولنا، جس میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں! آج جب میں تھرڈ ورلڈ کے کسی افریقی لیڈر کو سنتا ہوں، یا عالمِ اسلام کی کسی اسلامی اپوزیشن کو سنتا ہوں، تو کلمات اور استعارے تک ایک سے دیکھ کر میں تو اِس جدید دنیا کے نقشہ گروں کے دستِ ہنرمند کا معتقد ضرور ہوتا ہوں!

اس لحاظ سے دیکھیں تو آج کے اکثر معاشرے فرنچائز ہیں؛ پیپسی، کوک، میکڈانلڈ اور شیل کی طرح۔ یعنی اصل ڈھانچہ ہرجگہ ایک سا ہوگا؛ عیسائی کی جگہ مسلم معاشرہ ڈال دیں، مسلم کی جگہ ہندو ڈال دیں، اس کے اصل فارمیٹ کو کچھ فرق نہیں پڑے گا! سٹینڈرڈز!

ہیومن ازم کا دور ہے صاحب...! یہاں ’’انسان‘‘ اور ’’عوام‘‘ ہی سب سے بڑا حوالہ ہے! بلکہ یہ بتائیے، ’’عوام‘‘ کے علاوہ یہاں حوالہ ہے کیا؟ ہم تو ’خداکے حوالے‘ کو بھی بڑے پاپڑ بیل کر اِسی ’’عوام‘‘ والے حوالےمیں فٹ کرتے ہیں تو کچھ بات بنتی ہے! بھائی یہاں ایک ہی حوالہ ہے جو ’’مطلق‘‘ ہے، یعنی کسی اور حوالے کا سہارا لیے بغیر چلتا ہے؛ باقی سب حوالے اِس کے در کے محتاج؛ اور اِس کے بغیر صفر! تعالی اللہ علوّاً کبیراً

پس ایک ہی تو چیز ہے جس کےلیے آدمی آگ بگولہ ہو تو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے! یہاں ’عوام‘ کے حق پر ہی چیخیں تو بات بنتی ہے۔ اللہ کے حق پر ڈاکہ پڑے تو یہ البتہ صبرو برداشت اور درگزر کا میدان ہے! ارے ’قومی زندگی‘ میں ’’اللہ کا حق‘‘؟ پریس کے سامنے؟! زور بھی لگا لیں تو یہ بات منہ پر نہ آئے! دل بھی چاہتا ہوگا، مگر بھائی یہ ایسی گفتگو کی جگہ ہی نہیں! ہاں اِس ’’اللہ کے حق‘‘ کےلیے کوئی نجی مجلس ہو، کوئی ’دینی محفل‘ ہو، ’آپس کی گفتگو‘ ہو، تو اتنی خیر زمانے میں ضرور باقی ہے کہ اِن موضوعات پر بھی زبان ساتھ دے لے! میاں اِس ’’خدا کے حق‘‘ پر ’گھر‘ میں بات کرلیا کریں، مگر سرِعام؟ پبلک کے سامنے؟ شرک اور توحید کا مسئلہ؟! ملت کے دستور کی بات؟! نہیں بھائی!

بہرحال کچھ شک نہیں کہ یہ ایک بڑا فتنہ تھا جس کو خدا نے ہم سے ٹال دیا۔ آنکھیں کھلی رکھیے۔ اس قوم کو سبوتاژ کرنے کا وہ پورا نقشہ آپ کے سامنے ہو جو اِس وقت آپ کے چاروں طرف بپا ہے تو دارالحکومت میں ایک بڑی کھلبلی واقعتاً معنی خیز ہوتی اور ایسی کسی ہڑبونگ کے نتیجے میں بلاشبہ یہاں بہت کچھ ہوسکتا تھا۔ اصل توجہ آپ اس بات پر کریں کہ اس قوم کے تلے سے زمین چاروں طرف کھول رہی ہے۔ آپ کے پاس جو کچھ ایٹمی اثاثے پڑے ہیں، وہ ان کا لازماً کچھ کرکے جانا چاہتے ہیں۔ خدانخواستہ، یہاں عالم صلیب کوئی کاری ضرب لگانے کو ہے۔ ہندو گدھ حصہ بٹانے کےلیے پر تول رہا ہے۔ کچھ حیرت انگیر واقعات کا امکان افق پر واضح ہے۔ ہم خدا سے اچھی ہی امید رکھتے ہیں مگر حالات کو دیکھیں تو یہ خدشہ بہرحال پایا جاتا ہے اور بہت سے پکوان ایسے پکائے جاچکے ہیں جنہیں ہمارے گلے سے نیچے اتارنے کیلئے یکایک اتنا سا ڈرامہ بھی کافی ہو جتنا اسحاق ترکھان عرف طاہر القادری۔

(۱) اس شخص کے صرف یہ دو ویڈیو دیکھ لیجئے، اور اس کے بعد بتائیے کہ ہمارے داعیانِ دین کے حق میں قوم کو اس کے اِس شرک سے خبردار کرنا زیادہ ضروری تھا یا اس کی سیاسی بےقاعدگیوں سے؟

18 January 2013 03:44 | Facebook
18 January 2013 03:28 | Facebook

خصوصاً پہلا ویڈیو، جس میں یہ عیسائیوں، ہندوؤں، سکھوں اور بدھوں کے ساتھ شامل ’مجلسِ ذکر‘ کی قیادت فرمارہا ہے اور نہ صرف یہ کہتا ہے کہ ’ہم سب اپنے اپنے طریقے سے اُسی ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں‘ بلکہ ہر دھرم کو مائیک پر لا کر کہتا ہے کہ اپنے اپنے طریقے سے اُس (’ایک‘) خدا کو پکار کر دکھائیں، جس پر لبیک کہتے ہوئے عیسائی اپنے مذہب کی نمائندگی میں بار بار ‘Jesus, Jesus, Jesus’ کو پکارتا ہے اور آخر میں ایک بار Father God کو پکارتا ہے۔ خدا را! یہ بات بہت پیچھے رہ گئی کہ اِس آدمی کے شرک کو ’وہابی بریلوی‘ تناظر میں دیکھا جائے، یہ شخص تو مسلم، عیسائی، ہندو اور بدھ ملتوں کا فرق ملیامیٹ کرنے جارہا ہے؛ اس کی دعوت ہے کہ یہ سب ’ایک‘ خدا کے عبادت گزار ہیں؛ بتائیے شرک کہاں رہ گیا! مسلمان معاشرے میں کب کسی زندیق نے ملتوں کا فرق ملیامیٹ کرنے کی یوں کھلم کھلا دعوت دی ہوگی؟​
 
Top