• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق، خلع اور اثرات (حصہ اول)

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
طلاق، خلع اور اثرات (حصہ اول)
رئیس فاطمہ، 3 گھنٹے پہلے

چند دن قبل سپریم کورٹ کے حوالے سے ایک خبر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ سپریم کورٹ میں میاں بیوی نے طلاق کے لیے درخواست دی جس میں شوہر نے بیوی کو دو طلاقیں دے دی تھیں، بیوی نے بچوں کی حوالگی سے کیس دائر کیا ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ دو طلاقیں دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اگر دو طلاقوں کے بعد بھی بیوی اور شوہرصلح کر لیں اور باہمی رضامندی سے بس جائیں تو دو طلاقیں ختم ہو جاتی ہیں۔


اس خبر نے اپنی طرف اس لیے متوجہ کیا کہ کورٹ نے فوری فیصلہ نہیں دیا بلکہ فریقین کو سوچنے کی مہلت دی کیونکہ علیحدگی صرف میاں بیوی کے درمیان نہیں ہوتی بلکہ بچے رُل جاتے ہیں۔ میاں بیوی میں اکثر بچوں کی تقسیم پر جھگڑا ہوتا ہے جو ماں کے پاس ہوتے ہیں وہ باپ کو ترستے ہیں اور جو باپ کے پاس رہ جائیں وہ ماں کی ممتا سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر اس گھر کی کہانی ہے جہاں میکے والوں نے ذرا ذرا سی بات پر بیٹیوں کو گھر بٹھا لیا یا دامادوں کو مسلسل دباؤ میں رکھا اور بات بات پر طلاق کا مطالبہ۔ جب لڑکی کے گھر والے ہر وقت اس سے کہتے رہیں کہ ’’کسی کے دباؤ میں مت آنا، ہم ہیں نا تمہارے پیچھے‘‘ بعض اوقات لڑکی کے ماں باپ داماد کے والدین کو بھی برا بھلا کہنے اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔

ہوتا یوں ہے کہ اکثر لڑکے کے والدین معاملات بھانپ کر اور اپنے بیٹے کی بے بسی دیکھ کر خاموشی اختیارکر کے گوشہ نشین ہو جاتے ہیں تاکہ بیٹے کا گھر آباد رہے۔ وہ ہر صورت میں اپنے بیٹے اور اس کے بچوں کی بھلائی چاہتے ہیں۔ ایسے میں لڑکی اور شیر ہو جاتی ہے اور شوہر پر طلاق کا بار بار مطالبہ کر کے اسے ذہنی دباؤکا شکار اس حد تک بنا دیتی ہے کہ بعض اوقات نہایت خطرناک صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ چند دن پہلے ہی کی خبر ایکسپریس ہی میں پڑھی تھی کہ ایک سرکاری ملازم نے روز روزکے جھگڑوں سے تنگ آکر پہلے اپنے پانچ بچوں کو گولی ماری اور پھر خود کو اسی پستول کی گولی سے ختم کر لیا۔ اب بیوی میکے میں ماں باپ کے سینے پہ مونگ دلنے کے لیے شوق سے رہے۔

لیکن ہمارا موضوع اس وقت وہ گھرانے ہیں جہاں عموماً بیوی اور اس کے میکے والوں کی طرف سے طلاق یا خلع کا مقدمہ کورٹ میں داخل کیا جاتا ہے۔ علیحدگی کے وقت میکے والوں کی محبت طلاق دلوانے میں بہت موثر ثابت ہوتی ہے۔ بچے یا تو کسی ایک فریق کے پاس رہ جاتے ہیں یا دونوں میں بٹ جاتے ہیں۔ عموماً ابتدا میں لڑکی کے والدین بالخصوص بھائی بہت آگے آتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ محبت کا عارضی جذبہ کم ہوتا جاتا ہے، بہن اور اس کے بچے بوجھ لگنے لگتے ہیں، تب لڑکی کی آنکھیں کھلتی ہیں اور پچھتاوؤں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ لڑکی اگر پڑھی لکھی ہے تو ملازمت ڈھونڈنے نکل پڑتی ہے، لیکن اس کے برعکس ہو تو اسے میکے میں ملازمہ بن کے رہنا پڑتا ہے۔ بچے الگ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جب بھی طلاق اور خلع کے معاملات آتے ہیں ، فریقین کو خصوصاً بیوی کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماموں یا نانا باپ کا نعم البدل نہیں ہوسکتے، لیکن ہر معاملے میں نانا، نانی، ماموں، پھوپھیاں اور لڑکی کی خالائیں گھر بگاڑنے اور اپنی فتح کا جشن منانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ لڑکے والے اگر زبردست ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا گر جانتے ہیں تو گھر بسے رہتے ہیں، لیکن جہاں جہاں بھی لڑکی کے میکے والے حاوی ہوتے ہیں، وہاں معاملات لڑکے کے لیے بہت خراب ہو جاتے ہیں۔

ایک طرف بچوں کی خاطر اسے بدتمیز بیوی، ہلاکو خان جیسی ساس اور سسر سے واسطہ پڑتا ہے، وہیں وہ اوچھے ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر والدین کو جیتے جی چھوڑنے پر اس حد تک مجبور ہو جاتا ہے کہ والدین کے فون نمبر پر بھی ریجیکٹ کال کا کوڈ لگا دیتا ہے، یا بیوی خود لگا دیتی ہے اور شوہرکو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ بیوی اور سسرالی عزیزوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو کر انھی کا ہم خیال بن جاتا ہے اور بدظن ہو کر یہ بات دل میں بٹھا لیتا ہے کہ ’’اس کی ماں اس سے بالکل محبت نہیں کرتی، اسی لیے تو وہ فون نہیں کرتیں، نہ سالگرہ کی مبارکباد، نہ بچوں کی خیریت دریافت کرنا‘‘ لیکن ایسا شریف پڑھے لکھے اور خاندانی مرد کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ماں کی گود کی تربیت کا پروردہ ہے۔ شرافت کو کمزوری سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس طرح گھر بچتے ہیں۔ بچے جب اس ماحول میں پلتے ہیں تو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے تو اپنا فرض بہت اچھی طرح نبھایا، مجھے امید ہے کہ تین بچے ماں باپ میں تقسیم ہونے سے بچ گئے ہوں گے، لیکن ساتھ ہی میری ان وکلا حضرات سے بھی اپیل ہے کہ طلاق کے کیس لیتے وقت محض اپنی وکالت چمکانے کے بجائے انسانی جذبوں اورانسانیت کو مدنظر رکھیں۔ طلاق اورخلع کے معاملات میں کوئی بھی وکیل کیس جیتنے اور فیس کھری کرنے کے بجائے فریقین میں صلح کرانے کی کوشش کرے اور بیوی کو تمام نشیب وفراز سمجھائے۔ کوئی مانے نہ مانے خصوصاً وہ NGO اور ادارے جو عورت کی آزادی کی آڑ میں ان کے گھر تباہ کررہی ہیں، میں یہی کہوں گی کہ گھر بنانے میں عورت کا حصہ 70 فیصد ہے۔

مرد کما کر لاتا ہے، سکون بھی چاہتا ہے۔ ایسے میں بیوی اگر جھوٹ موٹ ڈپریشن کا بہانہ کر کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کر دے تو شریف شوہرکا کیا حال ہو گا۔ وہ بھی ایسا جس کے ماں باپ، بہن بھائی کوئی نہ ہو۔ میں یہ نہیں کہتی کہ زبردستی کسی کو باندھ کر رکھا جائے، لیکن عورتوں کو طلاق یا خلع کے مطالبے سے پہلے ان باتوں پہ ضرور سوچ لینا چاہیے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے اور چیف جسٹس نے جس کی ہدایت کی ہے۔

گھر بنانے کے لیے زیادہ قربانی عورت ہی کو دینی پڑتی ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ زیادہ پرسکون ماحول اور سلیقہ مند گھر وہ ہوتے ہیں جہاں خاتون خانہ بھی کوئی ملازمت کر رہی ہو۔ البتہ زیادہ تر گھرکی بربادی شوہر کو پریشان کرنے کے واقعات گھریلو خواتین کے خراب رویے سے جڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وقت وافر ہوتا ہے۔ میاں گئے دفتر، بچے گئے اسکول، کام والی کام کر کے چلی گئی، اب کیا کریں؟ اٹھاؤ فون، اماں جان سے ملاؤ، سسرال کی غیبت کرو، شوہرکو الو بنانے اور اپنے قبضے میں لینے کے گر سیکھو۔ ویسے تو یہ کام ٹی وی ڈرامے بہت اچھی طرح کررہے ہیں، لیکن گھریلو خواتین میں ایسی بھی ہیں جو شوہرکی کم آمدنی اور بچوں کی خاطرگھر پہ سلائی کر رہی ہیں، بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی ہیں اور نہ صرف اپنا گھر اچھی طرح چلا رہی ہیں بلکہ اپنا مقام بھی بنا رہی ہیں۔

بچوں کی اچھی تربیت بھی کر رہی ہیں چونکہ یہ ملازمت پیشہ خواتین مصروف زیادہ رہتی ہیں، اس لیے ان کے پاس میکے اور سہیلیوں کو لمبے لمبے فون کرنے اور غیبت کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی میں ایک ڈسپلن ہوتا ہے، جو خود بخود ان کے بچوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ طلاقیں اور خلع جن عورتوں نے لی ہیں، ان کی زندگی میں بعد میں کیا ہوا۔ اور آج وہ کیوں اس دن کو کوس رہی ہیں، جب ماں اور بھائیوں کے دباؤ میں آ کر اپنا گھر چھوڑا تھا۔ اس کی چند مثالیں معہ ان کے پچھتاوؤں بھری زندگی کے اگلے کالم میں دوں گی۔

(جاری ہے)

ح
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
طلاق، خلع اور اثرات (آخری حصہ)
رئیس فاطمہ
3 گھنٹے پہلے

طلاق کے منفی اثرات سب سے زیادہ بچوں پر پڑتے ہیں۔ آہستہ آہستہ بچے احساس کمتری کا شکار تو ہوتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ ماں اور باپ دونوں متنفر بھی ہو جاتے ہیں۔ بیس سال پہلے ایک خاتون محض اس لیے طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہیں کہ ان کے شوہر کو بیوی کا آئے دن میکے جانا پسند نہیں تھا، بات معقول تھی، مگر انا اور خودمختاری کا جھنڈا بلند کر کے محترمہ میکے آ بیٹھیں، باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ والدہ، بہو بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔

یہ بھی اپنے ایک سالہ بیٹے کو لے کر میکے آ گئیں۔ والدہ اور بھائی نے بجائے سمجھانے کے الٹا شاباشی دی۔ میاں اور ساس کئی بار لینے آئے تو الگ گھر کا مطالبہ کر دیا، جسے شوہر نے مسترد کر دیا اور ماں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہ دو بہن بھائی تھے۔ بہن نے بھی بھاوج کو منانے کی کوشش کی، لیکن محترمہ کسی طرح راضی نہ ہوئیں۔ انھیں یہ گمان تھا کہ چونکہ ان کا شوہر بچے سے بہت محبت کرتا تھا اس لیے ہر جائز و ناجائز بات مان لے گا۔ لیکن اس نے بوڑھی ماں کو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا۔ چھ ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

ماں نے بیٹے سے کہا کہ وہ الگ گھر لے لے اور انھیں اسی گھر میں رہنے دے، جہاں انھوں نے چالیس سال گزارے اور جہاں سے ان کے شوہر کا جنازہ اٹھا۔ لیکن بیٹے نے صاف انکار کر دیا۔ پھر جب کورٹ سے اسے خلع کا نوٹس ملا تو اس نے فوراً طلاق دے دی۔ بچہ ماں کے پاس ہی رہا۔ باپ ہر ماہ ایک مخصوص رقم بیٹے کے اخراجات کے لیے ادا کرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد محترمہ کے بھائی بھاوج کا رویہ بدلنے لگا۔ اسی دوران ایک رشتہ آیا ایسے شخص کا جس کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا، بچہ کوئی نہیں تھا۔ لیکن شرط یہ تھی کہ محترمہ اپنے بچے کو ساتھ نہیں رکھیں گی۔ لہٰذا بیٹا جس کا نام فرخ تھا وہ نانی اور ماموں کے پاس رہا اور والدہ گھر بس کر رخصت ہوئیں۔

ادھر فرخ کی ہر بات پوری کی جاتی تھی، اسے نانی نے بہت لاڈ سے پالا۔ کوئی اسے کچھ نہیں کہتا تھا کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے اکیلا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شدید احساس محرومی کا شکار ہو گیا۔ کرکٹ کا شوقین تھا، جان بوجھ کر بیٹنگ بہت جارحانہ انداز میں کرتا۔ آئے دن لوگوں کے گھروں کے اور گاڑیوں کے شیشے ٹوٹتے، اب اس کی پٹائی بھی ہونے لگی تھی۔ لیکن اس کی خودسری بڑھتی جا رہی تھی۔

باپ نے تو بالکل ہی ناتا توڑ لیا تھا کہ ماں اور نانی نے باپ کے خلاف بہت زہر بھر دیا تھا۔ لہٰذا باپ ملنے بھی آتا تو فرخ کا رویہ نہایت جارحانہ ہوتا تھا۔ وہ اس حد تک خودسر ہو گیا تھا کہ جس بات سے منع کیا جائے وہی کرتا تھا۔ ماں سے نفرت کرنے لگا تھا۔ جب ماں اپنی بیٹی جو دوسرے شوہر سے تھی لے کر آتی تو وہ گھر سے چلا جاتا تھا۔ اور پھر ایک دن، احساس محرومی اور مایوسی کا شکار فرخ اپنی جان سے کھیل گیا۔

ایک لیکچرر کی شادی خاصی بڑی عمر میں ہوئی۔ جہاں رشتہ ہوا اس شخص کی آمدنی بہت زیادہ نہیں تھی۔ پانچ ماہ خیریت سے گزر گئے، چھٹے مہینے میں جب وہ ماں بننے والی تھیں، الگ گھر کا مطالبہ کر دو کہ بیوہ نند ساتھ رہتی تھیں۔ ماموں سارا خرچہ اٹھاتے تھے۔ نند کا بیٹا پڑھنے میں بہت ہوشیار تھا۔ ماموں نے بیوہ بہن اور بھانجے کی خاطر بہت دیر میں شادی کی۔ کہاں تو یہ محبت کہ گھر کی اوپری منزل بہن اور بھانجے کو دے دی۔ بہن بھی کسی اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ لیکن شادی کے چند ہفتوں بعد ہی لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔

ایک بیٹا ہوا اور موصوفہ میکے جا بیٹھیں جہاں لوگوں نے بجائے سمجھا بجھا کر گھر بھیجنے کے، طلاق لینے کا مشورہ دیا۔ اس صورتحال میں بہن نے بھائی کا گھر چھوڑ دیا کیونکہ بھائی کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا تھا۔ بہرحال اتنا ضرور ہوا کہ بھائی فارغ اوقات میں جو ٹیوشن پڑھاتے تھے اس میں سے کرائے کی رقم بہن کو دے دیتے تھے۔ لیکن بیوی پھر بھی آنے پر راضی نہ ہوئیں اور صاف کہہ دیا کہ وہ گریڈ 17 کی آفیسر ہیں اور میاں ایک کمپنی میں سپروائزر۔ انھیں میاں کا تعارف کراتے شرم آتی ہے۔ نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔ لیکن نقصان کس کا ہوا؟

موصوفہ کو یقین تھا کہ دوسری شادی ان کے کسی ہم پلہ سے ضرور ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک صاحب نے انھیں خاصے سبز باغ دکھائے تھے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ وہ صاحب پہلے سے شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔ شادی تو محترمہ نے کر لی، لیکن سارے اخراجات وہ خود اپنے اور اپنے بیٹے کے اٹھاتی تھیں۔ شوہر نے پہلی بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کی تھی، دن میں کسی وقت آ جاتے تھے، لیکن رات کو کبھی نہیں رکے۔ اس عرصے میں وہ ایک بچی کی ماں بھی بن چکی تھیں۔ بچی پانچ مہینے کی تھی کہ شوہر کے گھر والوں کو شادی کا پتہ چل گیا، زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ سارا خاندان پہلی بیوی کے ساتھ تھا۔ دباؤ بہت بڑھا تو انھیں دوسری بیوی کو طلاق دینی پڑی۔

اب وہ ملازمت کر رہی ہیں اور اکیلی بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہیں، والدین کے ساتھ رہنا ممکن نہیں کیونکہ چار کمروں کے گھر میں ان کی جگہ نہیں بنتی۔ ساتھ ہی بیٹا بہت سرکش ہوگیا ہے۔ وہ باپ کے پاس جاتا ہے، رہتا ہے، لیکن باپ بھی دوسری بیوی کی وجہ سے اسے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ نتیجہ یہ کہ بیٹا بے چارہ نہ ادھر کا رہا نہ اُدھر کا۔ ایک خاندان میں طلاق صرف اس لیے ہو گئے کہ میاں آؤٹنگ پہ لے کر نہیں جاتے تھے۔ جب کہ بیوی کے فیس بک (facebook) فرینڈز ہر دوسرے تیسرے دن باہر جاتے موج اڑاتے اور انٹرنیٹ پہ حال احوال سناتے۔

وہ ہر روز میاں پہ زور ڈالتیں، لیکن شوہر مجبور تھے وہ مہینے میں ایک بار تو یہ عیاشی افورڈ کر سکتے تھے، لیکن ہر ہفتے نہیں۔ لیکن انٹرنیٹ پہ بنا چیٹ گروپ ہر وقت انھیں اپنی دعوتوں اور مزے اڑانے کی ترغیب دیتا۔ چیٹنگ ہی کے دوران ایک معاشقہ بھی وجود میں آ گیا، روز محبت بھرے میسج اور معنی خیز اشعار انھیں ملنے لگے، پھر باقاعدہ اظہار عشق ہوا۔ بات بہت زیادہ آگے بڑھی اور محترمہ نے شوہر کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا۔

نتیجہ طلاق کی صورت میں برآمد ہوا۔ لیکن عدت پوری کرنے کے بعد جب انھوں نے اپنے دوست سے رابطہ کرنا چاہا تو مطلوبہ فون نمبر بند تھا۔ گھر کا پتہ بھی غلط تھا۔ اب وہ ایک جگہ ملازمت کر رہی ہیں اور پچھتاوؤں کی آگ میں جل رہی ہیں۔ والدین نے بھی دھتکار دیا ہے۔ بہت پریشان ہیں اور کسی رشتے کی تلاش میں ہیں۔ زندگی تو اجڑ گئی، رہی سہی عزت بھی گئی۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا۔

کاش طلاق لینے اور دینے سے پہلے فریقین سوچ بچار ضرور کریں، اگر بچے ہیں تو ان کے متعلق ضرور سوچنا چاہیے۔ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کی شخصیت بری طرح بکھر جاتی ہے۔ عموماً طلاقوں اور خلع کے واقعات میں لڑکی کے میکے والے زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ شوہر دوسری شادی کے چکر میں بھی پہلی بیوی سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔

آج کل شادی شدہ مردوں کی طرف دوسری شادی کی یلغار زیادہ ہوتی نظر آرہی ہے۔ کیونکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔ ایسے ہی حضرات کی طرف غیر شادی شدہ خواتین کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے جو کبھی ان کی کولیگ ہوتی ہیں یا سوشل میڈیا کے ذریعے ان کی زندگی میں داخل ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ عموماً ایسی شادیوں کا بہت بھیانک ملتا ہے۔ افسوس کہ سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں۔

ح
 
Top