محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۰ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۲۳۰
بلغن اجلھن سے مراد اس زمانۂ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے، کیوں کہ وقت گزرجانے کے بعد تواسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا۔تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے۔ جیسے فرمایا:
حَتیّٰ تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
اس صورت میں دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔
اسلام نے یہ سختی اس لیے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبۂ غیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشئوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں۔ یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنادیا ہے ۔ مردوعورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ۔
مثلاً یہ فرمانا کہ:
فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ
اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے۔
اَلطَّلاَق مرتٰن کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے۔ پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ الطلاق ابغض المباحاتکہ طلاق بدترین جواز ہے۔ بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ۔ ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے توپھرظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دے دے اور عورت پھر نکاح پر راضی ہو توپھر رشتہ ٔ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ورنہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں۔
پھراگر دوسری طلاق کے بعد بھی وہ اس کو طلاق دے چکا تو اس کے بعد وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں ہے ، جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔پھر اگر وہ (بھی) اس کو طلاق دے ڈالے تو ان دونوں کا پھرمل جانا گناہ نہیں ہے ۔ اگر وہ خیال کریں کہ خدا کے قواعد ٹھیک رکھ سکیں گے۔ یہ اللہ کے قواعد ہیں جنھیں وہ جاننے والوں کے لیے بیان کرتا ہے۔۱؎ (۲۳۰)
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ جب عدت میں رجوع کی گنجائش ہو تو اس وقت دوہی صورتیں ہیں۔ یاتوحقوق زوجیت ادا کیاجائے اور پھرانھیں باقاعدہ شرافت کے ساتھ الگ کردیاجائے۔ انھیں محض دکھ دینے کے لیے بار بار رجوع کرنا جیسے جاہلیت کے زمانہ میں عرب کرتے تھے، ناجائز ہے ، کیوں کہ نکاح ایک مقدس عہد ہے جس کی رعایت حتی الوسع ضروری ہے اور جب آدمی مجبور ہی ہوجائے تو پھرالگ ہوجائے مگرتکلیف نہ دے، اس لیے کہ یہ اخلاق وتقویٰ کے خلاف ہے ۔طلاق کے بعد مراجعت کا قانون
بلغن اجلھن سے مراد اس زمانۂ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے، کیوں کہ وقت گزرجانے کے بعد تواسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا۔تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے۔ جیسے فرمایا:
حَتیّٰ تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
اس صورت میں دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔
اسلام نے یہ سختی اس لیے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبۂ غیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشئوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں۔ یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنادیا ہے ۔ مردوعورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ۔
مثلاً یہ فرمانا کہ:
فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ
اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے۔
اَلطَّلاَق مرتٰن کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے۔ پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ الطلاق ابغض المباحاتکہ طلاق بدترین جواز ہے۔ بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ۔ ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے توپھرظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دے دے اور عورت پھر نکاح پر راضی ہو توپھر رشتہ ٔ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ورنہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں۔