• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق کے بعد مراجعت کا قانون۔ + آیات اللہ سے استہزاء (یعنی مروجہ حلالہ)۔ تفسیر السراج۔ پارہ:2

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَہٗ۝۰ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللہِ۝۰ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝۲۳۰
پھراگر دوسری طلاق کے بعد بھی وہ اس کو طلاق دے چکا تو اس کے بعد وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں ہے ، جب تک کہ وہ اس کے سوا کسی دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرلے۔پھر اگر وہ (بھی) اس کو طلاق دے ڈالے تو ان دونوں کا پھرمل جانا گناہ نہیں ہے ۔ اگر وہ خیال کریں کہ خدا کے قواعد ٹھیک رکھ سکیں گے۔ یہ اللہ کے قواعد ہیں جنھیں وہ جاننے والوں کے لیے بیان کرتا ہے۔۱؎ (۲۳۰)
طلاق کے بعد مراجعت کا قانون
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ جب عدت میں رجوع کی گنجائش ہو تو اس وقت دوہی صورتیں ہیں۔ یاتوحقوق زوجیت ادا کیاجائے اور پھرانھیں باقاعدہ شرافت کے ساتھ الگ کردیاجائے۔ انھیں محض دکھ دینے کے لیے بار بار رجوع کرنا جیسے جاہلیت کے زمانہ میں عرب کرتے تھے، ناجائز ہے ، کیوں کہ نکاح ایک مقدس عہد ہے جس کی رعایت حتی الوسع ضروری ہے اور جب آدمی مجبور ہی ہوجائے تو پھرالگ ہوجائے مگرتکلیف نہ دے، اس لیے کہ یہ اخلاق وتقویٰ کے خلاف ہے ۔

بلغن اجلھن سے مراد اس زمانۂ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے، کیوں کہ وقت گزرجانے کے بعد تواسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا۔تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرلے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے۔ جیسے فرمایا:
حَتیّٰ تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
اس صورت میں دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔
اسلام نے یہ سختی اس لیے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبۂ غیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشئوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں۔ یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنادیا ہے ۔ مردوعورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ۔
مثلاً یہ فرمانا کہ:
فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ
اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے۔
اَلطَّلاَق مرتٰن کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے۔ پھرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ الطلاق ابغض المباحاتکہ طلاق بدترین جواز ہے۔ بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ۔ ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے توپھرظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دے دے اور عورت پھر نکاح پر راضی ہو توپھر رشتہ ٔ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ورنہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِكُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۝۰۠ وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللہِ ھُزُوًا۝۰ۡ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۲۳۱ۧ
عورتوں کو طلاق دو۔پھروہ اپنی عدت کو پہنچیں تو انھیں خوبی کے ساتھ روک لو یا خوبی کے ساتھ چھوڑدو اور ان کو ایذا دینے کے لیے نہ روکو۔کہ ان پرزیادتی کرو اور جس نے یہ کیا اس نے اپنی جان پر ظلم کیا اور خدا کی آیتوں کو ٹھٹھا نہ بناؤ اور خدا کا فضل جو تم پر ہے ،یاد کرو اور اس چیز کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے جس سے وہ تم کو سمجھاتا ہے اوراللہ سے ڈرو اورجانو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔۱؎(۲۳۱)
آیات اللہ سے استہزاء
۱؎ ان آیات میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو استخفاف واستہزاء کی صورت میں نہ بدل دینا چاہیے۔ جاہلیت میں عرب طلاق دے دیتے اور بعد میں کہتے کہ میں تو محض مذاق کررہا تھا۔ یہ ممنوع ہے ۔ آج کل بھی تحلیل کے لیے جو حیلے تراشے جاتے ہیں، وہ نہایت مضحکہ خیز ہیں اور ان سے شریعت غرّا کی توہین ہوتی ہے ۔حضورﷺ نے حلالہ سے منع کیا ہے اور محلل کو ملعون قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ اللہ کی حدود کی توہین نہیں کی جاسکتی۔ بعض لوگ درخت سے ،مرغے سے اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے نکاح کردیتے ہیں اور بعد میں کہتے ہیں کہ اب تحلیل کا مقصد پورا ہوگیا ہے حالانکہ یہ شریعت اسلامیہ سے محض مذاق ہے۔

اسلام جو ہمہ حکمت وموعظت ہے اور جس کی کوئی بات فلسفہ ولم سے خالی نہیں۔ ہرگز اس نوع کی باتوں کا متحمل نہیں۔ یہ بالکل وہی مرض ہے جویہودیوں میں پایاجاتاتھا۔اس سے نصوص کا احترام اٹھ جاتاہے اور بدعملی والحاد پھیلتاہے۔اعاذنا اللہ منھا۔
 
Top