• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظالموں کا انجام اور ظالموں سے ہم کیسے بچیں؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم



ظالموں کا انجام

اور ظالموں سے ہم کیسے بچیں؟​





ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

برادران اسلام!

آج ہرطرف ظلم کا بازار گرم ہےاور پورا سماج ظلم وزیادتی کی آگ میں جھلس رہی ہے،ہرطاقتور کمزور کے اوپر ظلم کرنا اپنا حق سمجھ رہا ہے،برسراقتدار حکومت اپنے پاور کے نشے میں چور ہرطرح کے ظلم وزیادتی کے ہتھکنڈے کو اپنانےکو اپنا حق سمجھ رہی ہے،اونچی ذات والے نیچی ذات والوں کے اوپر ظلم وزیادتی کرنے کو تو اپنا موروثی حق سمجھنے لگے ہیں اور تو اور ہےگھریلو معاملات ہو یا پھر خاندانی معاملات ،میاں بیوی کے اختلاف کا مسئلہ ہو یا پھرساس بہو کے جھگڑے ہوں ،بھائی بھائی کے وراثت کا مسئلہ ہویا پھر سماج ومعاشرے کے افراد کے مابین لڑائی جھگڑا کا مسئلہ ہو،انفرادی مسئلہ ہو پھر اجتماعی مسئلہ ہر جگہ آپ کو ظلم وزیادتی نظر آئے گی اور ہر انسان ان ظلم وزیادتی کو دیکھ کر بلااختیار یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ ہم تو مجبور ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟اور ظالم یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ جو چاہے کرے،جس پر چاہے ظلم کے پہاڑ ڈھائے ،جس کی چاہے عزت نیلام کرے،جس کو چاہے قتل کردے،جس کو چاہے بے گھر کردے،جیسا چاہے ویساقانون نافذ کر دے،جس کو چاہے اس کو دیش دروہ قرار دے اور جس کو چاہے اس کو دیش واسی قرار دےاس سے کوئی پوچھنے والا نہیں!اس کی کوئی پکڑکرنے والا نہیں! اس کو کوئی سزادینے والا نہیں!

کاش! کہ ظالم کو کوئی اس بات کی خبر دے دے کہ ظلم ایک ایسا گناہ ہے جو رب العزت کو کسی بھی حال میں پسند نہیں!رب کو یہ بات قطعا پسند نہیں کہ کوئی انسان کسی انسان کے اوپر ظلم کرے بلکہ رب العزت نےتو خود اپنے آپ پر بھی یہ لازم کرلیا ہے کہ دنیا میں کوئی انسان کتنا بڑا گناہگاروبدکار ہی کیوں نہ ہو،بڑاسے بڑا کافروملحد وزندیق ہی کیوں نہ ہو وہ کسی کے اوپر ظلم نہیں کرے گاجیسا کہ فرمان باری تعالی ’’ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ‘‘ اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔(فصلت:46)اور حدیث قدسی کے اندر بھی رب العزت نے اپنے محبوب کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ ’’ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا ‘‘ اے میرے بندو! میں نے خود اپنے آپ پر بھی ظلم کو حرام کررکھا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قراردیا ہےلہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔(مسلم:2577)دیکھا اور سنا میرے دوستوآپ نے کہ یہ ظلم وزیادتی ایک ایسی چیز ہے جو رب بھی اپنے بندو ں پر کرنا پسند نہیں کرتا ہے تو ذرا سوچئے جو لوگ بھی لوگوں پر ظلم وزیادتی کرتے ہیں وہ اللہ کی پکڑ اور اللہ کے عذاب وسزا سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ تاریخ کے اوراق اور قرآن کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ آج تک کوئی بھی ظالم اللہ کی پکڑ اور اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکا،کیسے کیسے جابر وظالم حکمراں پیدا ہوئے،کیسی کیسی طاقتور قومیں پیدا کی گئیں تھی جن میں سے ایک قوم کے بارے میں رب نے کہا کہ ’’ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ‘‘قوم عاد کی مانند کوئی بھی قوم ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی ۔(الفجر:8) ایسی ایسی طاقتور قوموں اور فرعون جیسے طاقتور بادشاہوں نے بھی جب ظلم وزیادتی کا بازار گرم کیا تو ’’ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ‘‘ بالآخر تمہارے رب نے ان سب پر عذاب کا کوڑا برسایا (الفجر:13) اور رب العزت نے اپنے عذاب کا ایسا کوڑا برسایا کہ ہرطرح کی شان وشوکت اور طاقت وقوت رکھنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکے ،آج جب ظالموں کو ڈھیل ملی ہوئی ہے تو وہ اس کی اپنی ہوشیاری سمجھ رہے ہیں اور عقلمندی کا نام دے رہے ہیں مگر انہیں اس بات کا قطعا اندازہ نہیں ہے کہ جب ظالموں کی پکڑ ہوتی ہے تو پھر انہیں سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی جاتی ہے جیسا کہ ہمارے اورآپ کے آقا محبوب خداﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ‘‘ بے شک اللہ تعالی ظالموں کو دنیا میں چند روزمہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اس کو پکڑتا ہے تو اس کو چھوڑتا نہیں ہے ،یہ کہہ کر آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ ’’ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ‘‘ تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے کہ جب وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے تو بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہوتی ہے۔(ھود:102،بخاری:4686،مسلم:2583)



برادران اسلام!

آئیے سب سے پہلے ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ظلم کرنے والے لوگوں کا انجام کیا اور کیسا ہوتا ہے؟

(1) ظالموں کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے:

ظالم ایک ایسا انسان ہوتا ہے جس سے رب العزت نفرت کرتا ہے اور کسی بھی صورت میں ظالموں کو رب العالمین پسند نہیں کرتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ‘‘ اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے۔(آل عمران:57) ایک دوسری جگہ اللہ رب العزت نے فرمایا ’’ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ‘‘بے شک اللہ تعالی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ہے۔ (الشوری:40)

(2) ظالموں کی ہلاکت یقینی ہے:

ظلم کرنے والے اپنے شان وشوکت اور طاقت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پکڑنے والا نہیں،ہمیں کوئی سزا دینے والا نہیں،ہم سے کوئی انتقام لینے والا نہیں،ہم جیسا اور جس طرح سے چاہیں قانون بنائیں ،ہم جس کو چاہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیں اور جس کو چاہیں اس کو باعزت بری کردیں،ہم جس پر چاہیں اس پر بلڈوزر چلادیں اور جس کوچاہیں اس کو پھولوں کا ہار پہنادیں ہم سے کوئی پوچھ تاچھ کرنے والا نہیں! مگر وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں ایک ذات ایسی بھی ہے جو ظالموں کوکبھی معاف نہیں کرتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ ‘‘اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ،تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو ہی غارت کردیں گے۔ (ابراہیم:13)

(3) ظالموں کو دنیا میں ضرور سزا ملتی ہے:

ظلم ایک ایسا جرم ہے جس کو انجام دینے والا دنیا میں ہی ظلم کے برے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے،کتنےہی ایسے ظالم ہیں جن کو رب ذوالجلال والاکرام نے لوگوں کے لئے نشان عبرت بنادیااور کیسی کیسی بستیوں اور سوپرپاورطاقتوں کولوگوں پر ظلم وستم کرنے کی وجہ سے ہی رب ذوالجلال والاکرام نےان کو صفحۂ ہستی سے مٹاکرنشان عبرت بنادیا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها وَهِيَ ظالِمَةٌ فَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ ‘‘بہت سی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے نیست ونابود اورتہ وبالا کردیا اس لئے کہ وہ ظالم تھے پس وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی ہوئی پڑی ہیں اور بہت سے آباد کنوئیں بیکار پڑے ہیں اور بہت سے پکے اور بلند محل ویران پڑے ہیں۔(الحج:45)میرے دوستو! ظالموں کو دنیا میں ہی ضرور بالضرور سزادی جاتی ہے اس بات کی خبردیتے ہوئے سرورکونینﷺ نے فرمایا ’’ مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ ‘‘ یعنی کہ اللہ تعالی دنیا میں کسی گناہ کی سزا اتنی جلدی نہیں دیتا جتنی جلدی ظلم اور قطع رحمی کی سزا دیتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ایسے آدمی کے لئے آخرت کا عذاب بھی باقی رکھتا ہے۔(ابن ماجہ:4211،ترمذی:2511،ابوداؤد:4902 و صححہ الالبانی ؒ) بلکہ بعض روایتوں کے اندر اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ظالموں کو موت سے پہلے پہلے ان کے ظلم وستم کی سزا ضرور بالضرور دی جاتی ہے جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہے ’’ كُلُّ ذُنُوبٍ يُؤَخِّرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا الْبَغْيَ وَعُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ أَوْ قَطِيعَةَ الرَّحِمِ يُعَجِّلُ لِصَاحِبِهَا فِي الدُّنْيَا قَبْلَ الْمَوْتِ ‘‘ کہ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالی جس کی چاہے سزا کو قیامت کے دن تک کے لئے مؤخر کردے سوائے ظلم اور والدین کی نافرمانی یا پھر قطع رحمی کے،ان گناہوں کے مرتکب کو اللہ تعالی دنیا میں ہی بہت جلد سزا دیتا ہے۔(صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:591)

(4) ظالم کے حق میں مظلوم کی بددعا ضرور بالضرور قبول کی جاتی ہے:

میرے دوستو! ظالم جہاں ایک طرف دنیا میں ہی اللہ کے عذاب سے دوچار ہوتا ہے وہیں پر دوسری طرف ظالموں کو مظلوموں کی بددعا بھی لگ جاتی ہے اور مظلوم کی فریاد اس تیر کی طرح ہوتی ہے جس سے ظالم کبھی بچ نہیں سکتا ہے کیونکہ مظلوموں کی آہ ونالہ کو رب کریم فورا قبول کرلیتا ہے جیسا کہ حبیب کائنات ومحبوب خداﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو!’’ اِتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ ‘‘مظلوم کی آہ وبددعا سے بچو کیونکہ مظلوم اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔(بخاری:2448،مسلم:19)رب کریم کا عدل وانصاف دیکھئے کہ مظلوم کافرومشرک وبدکاراور فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو مگر اس کی فریاد کو شرف قبولیت سے بخشتا ہے جیسا کہ سرورکونینﷺ نے فرمایا ’’ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ مُسْتَجَابَةٌ وَإِنْ كَانَ فَاجِرًا فَفُجُورُهُ عَلَى نَفْسِهِ ‘‘ مظلوم کی آہ ونالہ کو ضرور بالضرور شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے گرچہ مظلوم گناہگار فاسق وفاجر اور کافر ہی کیوں نہ ہو اگر مظلوم فاسق وفاجر اور کافر ہے تو اس کے فسق وفجور اور کفر کا وبال اسی کے اوپر ہوگا مگر اس کی آہ سنی جائے گی۔(الصحیحۃ :767،احمد:8795،12549)

پیارے پیارے اسلامی بھائیواور بہنو!مظلوم کی بددعا ظالم پرکیسے اثر کرتی ہے آئیے میں آپ کو ایک سچا واقعہ سناتاہوں تاکہ آپ کو یقین کامل ہوجائے کہ مظلوم کی آہ سے کوئی بھی ظالم بچ نہیں سکتا ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ سعید بن زیدؓبن عمروبن نفیل جو کہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اور سیدنا عمربن خطابؓ کے بہنوئی بھی ہیں ان کے خلاف ایک عورت اروی بنت اوس نے مدینہ کے حاکم مروان بن حکم کے دربار میں یہ شکایت کی کہ سعید بن زیدؓ نے اس کی زمین کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا ہے،مروان نے آپؓ کو بلایا اور اس بارے میں جب پوچھ تاچھ کی تو سعید بن زیدؓ نے کہا کہ اے مروان میں اروی کی زمین پر کیسے قبضہ جما سکتا ہوں جب کہ میں نے خود اپنے محبوب جناب محمد عربی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ مَنْ أخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ ‘‘جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلماً کسی کی دبالی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا،یہ سن کر مروان نے کہا کہ بس بس! اس کے بعد آپ سے اور کوئی دلیل نہیں مانگوں گا ،معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا جب اروی بنت اوس نے ان کو باربار ستایا تو انہوں نے اللہ کے حضور یہ کہہ کر بددعا کردی کہ ’’ أَللّٰهُمَّ إِنْ كَانَتْ كَاذِبَةً فَأَعْمِ بَصَرَهَا وَاجْعَلْ قَبْرَهَا فِي دَارِهَا ‘‘ اے اللہ اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو تو اسے اندھاکردے اور اس کے گھر میں ہی اس کی قبر کو بنادے ،میرے دوستو! راویٔ حدیث محمد کے والد محترم زیدؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اروی اندھی ہوگئی تھی اور وہ دیوارو ں کو ٹٹول ٹٹول کر چلاکرتی تھی اورکہا کرتی تھی کہ مجھے سعید بن زیدؓ کی بددعا لگ گئی ہے ،پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اپنی ہی زمین میں موجود کنویں کے پاس سے گذررہی تھی کہ اس میں گرگئی اور وہی کنواں اس کی قبر بن گیا،اور یہی وہ زمین تھی جس کے بارے میں اس نےمروان سے سعیدبن زیدؓ پر جھوٹا مقدمہ درج کیاتھا۔(بخاری:3198،مسلم:1610)سچ فرمایا ہے حبیب کائناتﷺ نے کہ ’’ ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ يُسْتَجَابُ لَهُنَّ لَا شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْمَظْلُومِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ ‘‘ تين قسم كي دعائیں ایسی ہیں جن کے قبول ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہے نمبر ایک مظلوم کی آہ ،نمبر دو مسافر کی دعا اور نمبر تین اولاد کے حق میں والد کی دعا۔(ابن ماجہ:3862،قال الالبانیؒ: اسنادہ حسن) کسی شاعر نے کیا ہی خوب ترجمانی کی ہے:

مظلوم کے دل کا ہر نالہ تاثیر میں ڈوبا ہوتا ہے

ظالم کو کوئی جاکر دے خبر، انجام ستم کیا ہوتا ہے​

(5) ظالم ملعون ہوتاہے:

ظلم ایک ایسا گناہ ہے جس کو انجام دینے والا دنیا وآخرت میں ہر آن اور ہرلمحہ رب ذوالجلال والاکرام کے لعنت کا مستحق بنا رہتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ‘‘ خبردار!یاد رکھ لو! کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے۔(ھود:18) اسی طرح سے ظالموں پر آخرت میں بھی لعنتیں هي لعنتيں نازل کی جائیں گی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے رب نے ارشاد فرمایا کہ ’’ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ‘‘جس دن ظالموں کو ان کی معذرت ،حیلے وبہانے کچھ نفع نہ دے گی اور ان ظالموں کے لئے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لئے براگھر ہوگا۔(المؤمن:52)







(6) ظالم کو کبھی ہدایت نہیں ملتی ہے:

میرے دوستو! قرآن ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ ظالم کو کبھی بھی سیدھے راستے کی توفیق نہیں ملتی ہے،ظالم کبھی بھی اپنے عقل کا صحیح استعمال نہیں کرتا ہے ،قرآن مجید کے اندر رب العالمین نے جگہ جگہ پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ’’ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ‘‘ اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے ۔(آل عمران:86) ایک دوسری جگہ پر قرآن نے تاکید کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ‘‘ بے شک کہ اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔(الانعام:144)یقینا ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی ہے اب ذرا دیکھئے کہ ظالم فرعون کو ہدایت نہ ملی مگر اس کی بیوی سیدہ آسیہ کو ہدایت مل گئیں اور وہ کامیاب ہوگئیں۔

(7) ظالم کو کبھی کامیابی نہیں ملتی ہے:

برادران اسلام!آج ہمارے ملک میں ظلم اپنے انتہا پر ہے ،طاقت وقوت کے نشے میں چور ظالم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم جیسا چاہیں ویسا قانون نافذکردیں ،ظالم یہ سمجھ رہاہے کہ ہم سے زیادہ کوئی عقلمند اور ہوشیار نہیں، آج ظالم اپنے آپ کو بہت ہوشیار اورچالاک سمجھ رہا ہے ،ظالم لوگوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاکر ،طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے اقلیتوں کے حقوق کو غصب کرکے ،کمزوروناتواں طبقوں کے حقوق کو مارکر ظالم اپنی سیاسی کرسی کو چمکانا چاہتا ہے اور وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ جو بھی کررہا ہے وہ بہت اچھا کررہا ہے، آج ظالم اس بات سے بہت خوش ہورہاہے کہ اس کاہرآئیڈیا اور ہرپلان کامیاب ہوتاجارہاہے

مگر یاد رکھ لیں کہ ظالم لاکھ کوشش کرلیں ،ہزارجتن کرلیں مگر ظالم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے جیسا کہ رب کریم ورحیم نے اپنے کلام پاک میں کئی جگہ پر یہ اعلان کردیا ہے کہ ’’ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ‘‘ اے لوگو!یادرکھ لو ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔(الانعام:21،یوسف:23)میرے دوستو! قرآن اورتاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یقینا ظالم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے مثال کے طور پر آپ فرعون ہی کی بات لے لیجئے اس نے اپنی حکومت کو بچانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ،بنی اسرائیل پر کیا کچھ ظلم نہیں ڈھایا ،لاکھوں اور اربوں بچوں کو قتل کیا مگر پھر بھی موسی علیہ السلام کے ہاتھوں غرق آب ہوکر نشان عبرت بن گیا،اسی طرح سے دوسری مثال لے لیجئے عزیزمصر کی بیوی نے سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنے جھانسے میں پھنسانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ،سیدنایوسف علیہ السلام کو قید خانے میں ڈالوادیا مگر پھر بھی اسے کامیابی نہ ملی اور وہ خود ذلیل ورسوا ہوئی اور حضرت یوسف علیہ السلام اتنے معجزز ومکرم بنے کہ ان کے قدموں میں پوری ملک کی بادشاہت آگئی ،یقینا ظالم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔



(8) ظالم کو ظالم کے ذریعے ہی ہلاک وبرباد کیا جاتا ہے:

میرے پیارے پیارے بھائیو اور بہنو!ظالم کا ایک بھیانک او رخطرناک انجام یہ بھی ہے کہ ظالم کتناہی طاقتور کیوں نہ ہو! ظالم کتنا ہی ہوشیاراور چالاک کیوں نہ ہو!ظالم کی پہنچ اوپر تک ہی کیوں نہ ہو !ظالم کی حمایت میں پوری دنیا ہی کیوں نہ کھڑی ہو مگر یہ قدرت کا اٹل قانون ہے کہ ایک ظالم کو ہلاک وبرباد کرنے کے لئے ایک اور ظالم کو اس کے اوپر مسلط کردیا جاتا ہےسنئے قرآن کے اندر رب العزت کا اعلان ’’ وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‘‘ کہ اور اسی طرح سے ہم ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں کہ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر مسلط کردیتے ہیں اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔(الانعام:129)

(9) ظالم کی آخرت تباہ وبرباد ہوجاتی ہے:

میرے دوستو!ظالم جہاں دنیا کے اندر طرح طرح کے عذاب وسزا سے دوچار ہوتا رہتا ہے وہیں پر دوسری طرف ظالموں کی آخرت بھی برباد ہے،کل قیامت کے دن ہرظالم سے اس کے ظلم کا بدلہ کس طرح سے لیا جائے گا آئیے اس بارے میں ایک پیاری سی حدیث سنتے ہیں سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حبیب کائنات ﷺ نے بیان فرمایا کہ ’’ مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ اليَوْمَ قَبْلَ أَنْ لاَ يَكُونَ دِينَارٌ وَلاَ دِرْهَمٌ ‘‘ اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی اورطریقے سے ظلم کیا ہو تو اسےچاہئے کہ آج ہی اس دن کے آنے سے پہلے پہلے معافی وتلافی اور رفع دفع کرلے جس دن دینار ودرہم نہیں ہوں گے ’’ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ ‘‘ بلکہ اگر اس کاکوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہوں گے تو اس مظلوم کی برائیاں اس کے اوپر ڈال دی جائے اور پھر اسے جہنم کے اندر پھینک دیا جائے گا۔(بخاری:2449)

برادران اسلام!

ظلم وظالم کا انجام جاننے کے بعد اب آئیے ہم آپ کو اس بارے میں کچھ اہم باتیں بتاتے ہیں کہ جب ہرطرف ظلم وستم کا بازار گرم ہے تو ہم اپنے آپ کوظالموں سے کیسے بچائیں ؟

(1) ظالم ومظلوم کی مدد کیجئے:

اگر ہم سب خود اپنے آپ کو اورپورے سماج ومعاشرے کو ظالموں کے ظلم وستم سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر سب سے پہلے ہم سب کو ظالم ومظلوم کی مدد کرنی پڑے گی،اب آپ کے ذہن ودماغ میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ مظلوم کی مدد تو ہم کرسکتے ہیں مگر ظالم کی مدد کیسے کریں تو پھر یہ حدیث سنئے سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ عدل وانصاف کے پیکررحمۃ للعالمین ﷺ نے فرمایا ’’ أُنْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ‘‘ کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا پھر مظلوم،صحابۂ کرامؓ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ’’ هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا ‘‘ ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں لیکن ظالم کی مدد کس طرح سے کریں؟ توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ ‘‘ تم اسے ظلم کرنے سے روکو اور بخاری کے اندر یہ الفاظ ہیں کہ ’’ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ ‘‘ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے ظلم نہ کرنے دو۔(بخاری:2444،احمد:13079)سماج ومعاشرے کی حالتوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ لوگ مظلوم کی مدد کرنے کے بجائے اور ظالم کو ظلم سے روکنے کے بجائے ظالم ہی کی مدد کرتے ہیں اور ظالموں کواور زیادہ ظلم کرنے پر اکساتے ہیں جب کہ رب ذوالجلال والاکرام کاحکم یہ ہے کہ اے لوگوں تم ظلم کے کاموں میں کبھی بھی ایک دوسرے کی مددنہ کرو، فرمان باری تعالی ہے’’ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ‘‘ كه نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم وزیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیا کرو۔(المائدہ:2)یاد رکھ لیجئے ظالم کی تھوڑی مدد بھی ظلم کو بڑھاوا دینا اور ظلم کی نصرت وحمایت ہے اسی لئے ظالموں کی مدد آپ کسی بھی حال میں نہ کیا کریں ورنہ ظالموں کا جوانجام ہے وہی انجام ظالموں کی مدد کرنے والوں کا بھی ہوتا ہے، میرے دوستو!ظالموں کی مدد کیسے اور کس طرح سے ہوسکتی ہے اس بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ،امام ذہبیؒ نے کتاب الکبائر میں یہ لکھا ہے کہ ایک درزی سفیان ثوریؒ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں بادشاہوں کے کپڑے سیتاہوں تو کیا میں بھی ظالموں کے مددگار میں شامل ہوں؟تو حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا کہ تو خودظالموں میں سے ہے ،ظالموں کے مددگار تو وہ لوگ ہیں جو تجھے سوئی اور دھاگا بیچتے ہیں۔اللہ کی پناہ۔اسی لئے میر ےدوستو!ظالموں کی کبھی حمایت نہ کرنا ورنہ اللہ کی گرفت میں آجاؤگے۔

(2)توحید کو اپنانا اور شرک سے باز آجانا:

آج جو امت مسلمہ کے اوپر ظالموں کو مسلط کردیا گیا ہے وہ دراصل مسلمانوں کی اکثریت کے اعمال ہیں کہ امت مسلمہ کی اکثریت نے توحید کوچھوڑکرشرک وکفر کو اپنا مشعل راہ بنالیا ہے،آج ہرآئے دن طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے مسلمانوں کے اوپر جوظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،جگہ جگہ پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہاہے،وقتافوقتا ہندی مسلمانوں کو ملک سے نکال دئے جانے کی دھمکی بھی دی جارہی ہے مگر امت مسلمہ کی بے حسی دیکھئے کہ عقل کے ناخن لینے کے بجائے اور اپنے اعمال وکردار کوبدلنے کے بجائے اس کا دوشی دوسروں کو قراردے کر اپنے آپ کو کمزور اور حقیر اور مظلوم سمجھ رہا ہے حالانکہ رب کریم ورحیم نے برسوں پہلے یہ اعلان کردیا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تمہیں اپنے ملک میں ظالموں کے ظلم سے بچنا ہے اور اپنے ملک میں چین وسکون سے رہنا ہے تو پھر تم دو کام کرو توحید کو اپنالو اور شرک کو چھوڑ دو ہم تمہیں دوانعام واکرام سے نوازیں گے سنئے اللہ کیا کہہ رہا ہے’’ أَلَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ ‘‘ کہ جو لوگ ایمان لائے اور پھر اپنے ایمان کوشرک وکفر سے بچاکے رکھا تو ایسے لوگوں کے لئے ہی امن ہے اور ایسے لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔(الانعام:82)دیکھا اور سنا میرے دوستو اور پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو! رب کا وعدہ ہےکہ اگر تمہیں اپنے ملک میں امن وامان سے رہنا ہے اور ظالموں کے ظلم وستم سے بچناہے تو پھرتم سب خالص مؤحد بن جاؤ میں تمہیں امن وامان سے بھی رکھوں گااور ہدایت سے بھی نوازوں گا۔

(3) دین کی نشرواشاعت اور دعوت وتبلیغ کرنا:

برادران اسلام!اگر ہم ظالموں کے ظلم وستم سے بچنا چاہتے ہیں تو پھرہم سب اپنے دین کی نشرواشاعت اور دین کی تبلیغ کرنا شروع کردیں کیونکہ آج جو ہم امت مسلمہ کے اوپر ظالموں کی مسلط کردیا گیا ہے اس کا ایک سب سے بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانوں نے دین کو پس پشت ڈال دیا ہے،ہم نے دین کی نشرواشاعت اور دین کی تبلیغ کو عام کرنا چھوڑدیا ہے اورجب ہم مسلمانوں نے اللہ کے پیغام کو لوگوں تک نہیں پہنچایا تو رب ذوالجلال والاکرام نے ظالموں کو ہم پر مسلط کردیا ہے،اور یہ بات یاد رکھ لیں!ظالموں کےظلم وستم کو ہم سے اس وقت تک نہیں ہٹایاجائے گا جب تک کہ ہم سب اللہ کے دن کی نشرواشاعت نہ کرنا شروع کردیں ،جب تک ہم اللہ کے سچے دین کی نشرواشاعت ودعوت وتبلیغ کا کام نہیں کریں گے تب تک ہماری کوئی مدد نہیں کی جائے گی ، فرمان باری تعالی ہے:’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ‘‘ کہ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مددکروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بھی رکھے گا۔(محمد:7)یاد رکھ لیجئے یہ دین اسلام ہے تو ہم ہے جو یہ دین نہیں تو ہم بھی نہیں اور یہ کائنات بھی نہیں ، کیا ہی خوب کہا ہے شاعرمشرق علامہ اقبال نے:

قوم مذہب سے ہے،مذہب جو نہیں ،تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں،محفل انجم بھی نہیں​

میرے دوستو!کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کو ذلیل وخوار کیا جارہاہے،مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں ،مسلمانوں کو ملک سے نکال دئے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں،صرف مسلمانوں پرہی جگہ جگہ پر طرح طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں مگر یہ کمبخت مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا کسی غیبی امداد کے انتظار میں ہے ،خبردار ہوجاؤ ! جب تک ہم سب اللہ کے دین کی تبلیغ نہیں کریں گے تب تک اللہ ہماری مدد نہیں کرے گا،کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارے خلاف طرح طرح کے بل وقانون پاس کئے جانےکے رائے ومشورے ہورہے ہیں اور ہم مسلمان رب کے دین کی نشرواشاعت ودعوت وتبلیغ کرنے کے بجائے اپنے اپنے مسلک ومشرب کی نشرواشاعت میں سرگرداں اور ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔

اے ہندی مسلمانو! اب بھی وقت ہے اللہ کے دین کی دعوت وتبلیغ کرنا شروع کردو رب کی مدد تمہارے لئے انتظارکھڑی ہے،سنئے رب کا وعدہ’’ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ‘‘ جو الله كي مدد كرے گا اللہ بھی اس کی ضروربالضرور مدد کرے گا۔(الحج:40)فرمان مصطفیﷺ بھی یادرکھ لیں کہ جب تک ہم دین کی نشرواشاعت نہیں کریں گے تب تک هم لاكھ کوشش کرلیں ،ہزارہا مرتبہ ہم دعا کرلیں ،گڑگڑا لیں مگراس طر ح کے عذاب کو اللہ ہمارے اوپر سے نہیں ہٹائے گا جیسا کہ حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :’’ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ ‘‘ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !تم ضرور بالضرورنیکی کا حکم دو اور ضروربالضرور برائی سے روکو،یا قریب ہے کہ اللہ تعالی اپنی طرف سے تمہارے اوپر عذاب نازل فرمائے ،پھر تم اس سے دعائیں مانگوگے تو وہ تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں کرے گا۔(ترمذی:2169 وقال الالبانیؒ:اسنادہ حسن)

(4) صبر اور نماز کو لازم پکڑ نا:

میرے دوستو! اگر ہم سب ظالموں کے ظلم وستم سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر صبر ونماز کو لازم پکڑلیں ، آج امت مسلمہ کے پاس نہ تو صبر ہے اور نہ ہی نماز ہے ،کتنے افسوس کامقام ہے کہ آج اگر کوئی مسئلہ ہوجائے تومسلمان سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لئے نکل جاتا ہے،طرح طرح کے جلسے جلوس کرتا ہے مگر نمازوں کی پابندی نہیں کرتا ہے، بھلابتلائیے کہ اللہ کی مدد کیسے ملے گی؟ظالموں سے چھٹکارا کیسے ملے گا؟ہماری شریعت نے ہمیں باربار اس بات کی تلقین کی کہ اے مسلمانو!یاد رکھ لو!اپنے ہرمعاملے میں صبر سے کام لو!صبرکرنے والوں کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے!اللہ صبرکرنے والوں سے محبت کرتا ہے !مگر افسوس آج ان باتوں پر غیر عمل پیرا ہوکر کامیاب ہورہے ہیں مگرہم مسلمان ان سب باتوں سے کوسوں دور ہیں،تھوڑی تھوڑی باتوں پر اتاؤلے ہوجانااوربھڑک جانایہ آج کل کے مسلمانوں کا شیوہ اور وطیرہ ہے، بھلابتلائیے کہ رب کی مدد کیسے حاصل ہوگی،رب نے تو اعلان کردیا ہے کہ اے لوگو!صبر اور نماز کے ذریعے تم میری مدد حاصل کرسکتے ہو فرمان باری تعالی ہے’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ‘‘ اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعے مدد چاہو،اللہ تعالی صبرکرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔(البقرۃ:153)آپ ﷺ کی بھی یہی عادت مبارکہ تھی کہ جب کبھی بھی کوئی پریشانی آجاتی تو آپ سیدھا مسجد کا رخ کرتے اور نماز میں مشغول ہوجاتے جیسا کہ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى ‘ ‘ نبی کریمﷺ کو جب کبھی بھی کوئی غم وپریشانی لاحق ہوجاتی تو آپ نماز پڑھنے میں مصروف ہوجاتے تھے۔(ابوداؤد:1319،قال الالبانیؒ:اسنادہ حسن)آج ہم مسلمانوں کی حالت اس کے برعکس ہےکہ ہر کام کرنے کے لئے تیار ہیں مگرصبر ونماز کو اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔بھلا اللہ ہماری مدد کیسے کرے گا۔

(5) تقوی اختیار کریں:

برادران اسلام! آج جو یہ ظالم ہمارے اوپر مسلط ہوگئے ہیں اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر اللہ کا ڈر وخوف نہیں ہے،ہم ظالموں سے تو ڈرتے ہیں مگر اپنے رب سے جو شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے اس سے ذرا بھر بھی خوف نہیں کھاتے ہیں،ہمارے دلوں میں نہ تو اسلام کا پاس ولحاظ ہے اور نہ ہی اپنے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ،ہم ہر معاملے میں یہی کہتے ہیں کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا!کل کس نے دیکھا ہے!جیسا سب کے ساتھ ہوگا ویسا ہمارے ساتھ ہوگا!اللہ ہے!اس طرح کی باتیں کہنے میں ہم بہت آگے آگے رہتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم کیسے ہیں؟ہمارے دلوں میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کا کتنا مقام ہے؟ہمارے دلوں میں اسلام کا کتنا پاس ولحاظ ہے؟ہم اسلام کے کتنے پابند ہیں؟

میرے دوستو! آج آپ یہ پیغام لے کر جائیں کہ جب تک ہم سب اللہ کے نہیں ہوجائیں گے تب تک یہ ظلم وستم کے بادل ہم سے نہیں ہٹیں گے،جب تک ہمارے دلوں میں اللہ کا ڈر وخوف پیدا نہیں ہوگا تب تک یہ ظالم ہمارے اوپر مسلط رہیں گے،پہلے ہم سب اپنے اپنے دلوں میں تقوی وللہیت کو پیدا کریں رب یہ وعدہ کررہاہے:’’ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ‘‘ اور جو شخص اللہ تعالی سے ڈرے گا اللہ اس کے ہرکام میں آسانی پیدا کردے گا۔(الطلاق:2)اے ہندی مسلمانو! ذرا رب کے پیغام پر غور کرو کہ رب تم سے کیا کہہ رہا ہے کہ اگر تم یکساں سول کوڈ سے پریشان ہواور ظالموں کے طرح طرح کے ہتھکنڈے سے ڈر وخوف میں مبتلا ہو اور اپنے وجود کے لئے پریشان ہو تو ایک بار اپنے رب سے لو لگا کرتو دیکھو یہ ساری پریشانیاں ایک لحظے میں ختم ہوجائے گی،ظالموں کا ظلم وستم تم سے ہٹادیا جائے گااور ہر طرف امن ہی امن ہوگا سنئے فرمان باری تعالی کو ’’ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‘‘ اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے پکڑ لیا۔(الاعراف:96)دیکھا اور سنا آپ نے کہ جب ہم نے دین اسلام سے منہ موڑلیا،اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات سے جی چراناشروع کردیا تو اللہ نے ہماری کرتوتوں کی وجہ سے ان ظالموں کو ہمارے اوپر مسلط کردیا ہے ورنہ اگر آج بھی اور اب بھی ہم ایمان وتقوی والے بن جائیں تو رب کی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے ہمارے اوپر ٹھیک ویسے ہی کھول دئے جائیں گے جیسے کہ خیرالقرون کے ادوار میں کھول دئے گئے تھے۔

(6)ایمان وعمل صالح کو اختیارکریں:

برادران اسلام! آج ہم سب ظالموں کے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے پریشان ہیں،ہرکوئی ہمیں ہی نشانہ بنا رہا ہے،ہرآئے دن ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں،باربار ہمیں ہی اپنے ملک سے بے دخل کئے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ پچھلے کچھ سالوں سے ہم سب ڈروخوف کے سائے میں جی رہے ہیں اور یہ سب ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ورنہ رب نے تو ہم سے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ تم نیک اعمال کرنے لگ جاؤ ہم تمہیں ظالموں کےظلم وستم سے بچا کر امن وامان سے رکھیں گےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ‘‘ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرماچکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایاتھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جمادے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرماچکاہے اور ان کے اس خوف وخطر کو وہ امن وامان سے بدل دے گا۔(النور:55)میرے پیارے پیارے بھائیو اور بہنو !رب کے وعدے کو ذراغور سے سنو کہ رب نے امن وامان پانے کے لئے ایمان وعمل صالح کی شرط لگارکھی ہے یہی وجہ ہے کہ جب سے ہم مسلمان ایمان وعمل صالح میں کمزور ہوئے تب سے ہی اللہ نے ہماری امن کو خوف سے،عزت کو ذلت سے بدل دیا ہے،سن لیجئے آج بھی اگر ہم اپنی حالتوں کو بدل لیں تو رب العالمین ہماری تمام حالتوں کو بدل دے گاجیسا کہ وعدۂ الٰہی ہے،مگر ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اللہ ہماری حالتوں کو بدل دے پھر ہم اپنی حالت بدل لیں گے تو سنئے ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ ہم سب اپنی حالتوں کو نہ بدلیں اور اللہ ہماری حالتوں کو بدل دے گا ،فرمان باری تعالی ہے’’ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ‘‘كسي قوم کی حالتوں کو اللہ تعالی اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کےدلوں میں ہے۔(الرعد:11)اسی آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا​

میرے دوستو!کیا آپ نے کبھی ایسا دیکھا اور سنا کہ کھیت میں بیج بوئے بغیر ہی اناج وغلہ نکل آئے ہوں!آپ آم کا درخت لگائیں گے تو پھل کھائیں گے اسی لئےہم اپنی حالتوں کو بدلیں اللہ ہماری حالتوں کو بدل دے گا۔

(7) استغفار کو لازم پکڑ لیں:

میرے دوستو! اگر ہم ظالموں کے ظلم وستم سے اور ہرطرح کے دنیاوی آفتوں اور بلاؤں سے اپنے آپ کو اگر بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہم سب توبہ استغفار کو لازم پکڑ لیں کیونکہ قرآن میں رب نے یہ وعدہ کررکھا ہے کہ استغفار کرنے والوں کو اللہ رب العالمین ہلاک وبرباد نہیں کرتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ‘‘ اور الله ان كو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں۔(الانفال:33)صرف یہی نہیں بلکہ رب العالمین نے تو یہ بھی وعدہ کررکھا ہے کہ اے لوگوں تم استغفار کو لازم پکڑلو میں تمہاری دنیاوی حالتوں کو بدل دوں گا،تمہیں ہرطرح کے عیش وآرام سے نوازوں گا سنئے اللہ کا اعلان’’ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ ‘‘كه اے لوگو! تم سب استغفار کو لازم پکڑ لواور بس اسی ایک اللہ کے ہوکررہ جاؤ تو وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان زندگی دے گا اور ہرزیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔(ھود:3)

(8) اللہ پربھروسہ رکھیں:

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!آپ ظالموں کے ظلم وستم سے نہ گھبرائیں بلکہ اللہ سے تعلق جوڑیں اور اللہ پر یہ کامل یقین وبھروسہ رکھیں کہ اللہ ہمیں ضائع وبرباد نہیں کرے گاکیونکہ جو لوگ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اللہ ان کے لئے کافی ہوجاتا ہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ‘‘اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوجائے گا ،اللہ تعالی اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا،اللہ تعالی نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے۔(الطلاق:3)

(9) اتحاد واتفاق کو اپنائیں :

میرے دوستو!آج جو ظالم ہم مسلمانوں کو اوپر اتنا دلیر ہوگیا ہے اس کا ایک سبب مسلمانوں کا آپسی اختلاف وانتشار ہے،ظالموں کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایک اللہ اور ایک رسول کو ماننے والی قوم آج آپسی مسلکی اختلاف میں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہے،ظالموں کو یہ بات بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہم کچھ بھی کرلیں ،ان مسلمانوں کے اوپر جتنا ظلم ڈھانا ہے ڈھالیں یہ ایک دوسرے کی مدد کے لئے کبھی نہیں اٹھیں گےکیونکہ اختلاف وانتشار نے انہیں بزدل بنادیا ہےاور یقینا آج اس روئے زمین پرامت مسلمہ سے زیادہ بزدل کوئی قوم نہیں ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب آپسی اختلاف وانتشار ہے ، فرمان باری تعالی ہے’’ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ‘‘اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ تم بزدل بن جاؤگےاور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی یعنی تمہارا رعب ودبدبہ جاتارہے گا اور صبروسہار رکھو،یقینا اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔(الانفال:46)سن لیجئے! جب تک مسلمان اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد نہیں ہوں گے تب تک ظلم وستم کا یہ سلسلہ چلتارہے گااور مسلمان ذلیل وخوار اور مظلوم بن کر زندگی گذارنے پر مجبور رہیں گے،علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے:

متحد ہوتو بدل ڈالو نظام گلشن

منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو​

(10) دعاؤں کا اہتمام کریں :

برادران اسلام! اگر ہم ظالموں سے بچنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم بیان کی گئی باتوں پر عمل کریں ،اللہ سے رشتہ جوڑیں،شریعت پر دل وجان سے عمل پیرا ہوجائیں ،اپنے محبوب ﷺ کی سنتوں کو حرزجاں بنالیں ،اپنے اخلاق وکردار میں تبدیلی لائیں اور پھر ساتھ میں رب العالمین سے دعائیں بھی کیاکریں کہ وہ ہم سب مسلمانوں کو ظالموں کے ظلم وستم سے محفوظ رکھیں ،اب آئیے ہم آپ کو قرآن وحدیث سے کچھ ایسی دعائیں بتاتے ہیں جس کو پڑھ کر ہم سب ظالموں سے بچ سکتے ہیں:

(1)اگر آپ ظالموں سے بچنا چاہتے ہیں تو اس چھوٹی سی دعا کا اہتمام ضروربالضرور کیا کریں کیونکہ یہ ایک ایسی دعا ہے جس کی برکت سے ایک بچے کو کئی مرتبہ مارنے کی کوشش کی گئی مگر کوئی اسے مارنہ سکے،جب جب لوگ اس بچے کو مارنے کی کوشش کرتے تب تب یہ بچہ یہی دعا پڑھتا جس کی وجہ اس کے دشمن ہلاک وبرباد ہوجاتے اور اس بچے کو اللہ بچا لیتا تھا۔(مسلم:3005) تو اگر ہم بھی اس دعا کو اپنے ظالم دشمنوں کے خلاف لازم پکڑیں گے تو اللہ ہمیں بھی بچا لے گا اور وہ دعا ہے ’’ أَللّٰهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ ‘‘اے اللہ تو جس طرح سے چاہے تو مجھے ان کی طرف سے کافی ہوجا۔(مسلم:3005)

(2) اگر ساری دنیا آپ کے خلاف ہوجائے اور ہرکوئی آپ کو مارنے کی کوشش کرنے لگ جائے تو پھر آپ ایک اور چھوٹی سی دعا کو لازم پکڑ لیں،اس دعا کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف پوری دنیا ہوگئی تھی اور ان کو آگ کے حوالے کردیا گیا تھا تو انہوں نے اسی دعا کو لازم پکڑاتھا جس کا نتیجہ تھا کہ آگ بھی ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک بال بھی بیکا نہ کرسکی اور وہ دعا ہے ’’ حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ‘‘ ہمارے لئے تو بس ایک اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا بگڑی بنانے والا ہے۔(آل عمران:173،بخاری:4563)

(3)میرے دوستو!اگرآپ کو کبھی کسی دشمن کا ڈر وخوف ہو تو آپ اس دعا کولازم پکڑلیں اللہ آپ کی ضروربالضرور حفاظت کرے گا ،سیدنا ابوموسی اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیٔ اکرم ومکرمﷺ کو کسی قوم سے کوئی اندیشہ لاحق ہوتا تو آپﷺ اس طرح سے دعاکیا کرتے تھے’’ أَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ ‘‘ کہ اے اللہ!ہم تجھے ان دشمنوں کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔(ابوداؤد:1537 وقال الألبانیؒ: اسنادہ صحیح)

(4) برادران اسلام! وقت وحالات اور طرح طرح کے جانی ومالی حادثات نے آج ماحول ایسا بنادیا ہے کہ اگر ہم گھر سے باہر نکلیں تو گھرواپس ہونے تک ڈروخوف میں مبتلا رہتے ہیں،ہروقت اور ہرآن وہرلمحہ ہم سب ایک ڈروخوف کے سائے میں زندگی گذار رہے ہیں ،لہذا ایسی صورت میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم آپﷺ کی بتلائی ہوئی اس دعاکولازم پکڑ لیں جو دعاآپﷺ اپنے گھر سے نکلنے کے وقت یا پھر اکثر وبیشتر پڑھاکرتے تھے،جس کے اندر اسی بات کی التجا ہے کہ اے اللہ تو مجھے مظلوم ہونے سے بچاکے رکھنا جیسا کہ ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب کبھی بھی آپﷺ اپنے گھر سے نکلتے تو آپﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے’’ أَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْهَلَ أَوْ يُجْهَلَ عَلَيَّ ‘‘ کہ اے اللہ!میں اس بات سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں گمراہ ہوجاؤں یامیں کسی لغزش کا شکار ہوجاؤں،یا میں کسی پر ظلم کروں یا مجھ پر کوئی ظلم کرے،یا میں کسی سے بدتمیزی کروں یا کوئی مجھ سے بدتمیزی سے پیش آئے۔(ابن ماجہ:3884،وقال الألبانیؒ: اسنادہ صحیح) اور ایک دوسری روایت کے اندر حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ اکثر وبیشترآپﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے’’ أَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ ‘‘ کہ اے اللہ!میں تیری پناہ چاہتا ہوں محتاجی سے،قلت مال اور ذلت سے،اور تیری پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ میں ظلم کا ارتکاب کروں یا مجھ پر ظلم کیاجائے۔(ابوداؤد:1544 ،ابن ماجہ:3842،وقال الألبانیؒ: اسنادہ صحیح)

(5) برادران اسلام! اگر آپ ظالموں سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر ایک اورچھوٹی سی دعا کو لازم پکڑ لیں ’’ أَللّٰهُمَّ ۔۔۔۔۔لَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا ‘‘ کہ اے اللہ! تو ہمارے اوپر ایسے شخص کو نہ مسلط کر جو ہم پر رحم نہ کریں۔(ترمذی:3502،وقال الألبانیؒ: اسنادہ حسن)

(6) میرے دوستو!ظالموں سے بچنے کے لئے قرآن کی یہ دعا بھی آپ پڑھ سکتے ہیں ’’ رَبَّنا لَا تَجْعَلْنا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ وَنَجِّنا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكافِرِينَ ‘‘ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ان ظالموں کے لئے فتنہ نہ بنا اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافرلوگوں سے نجات دے۔(یونس:85-86) ظالمو ں سے بچنے کے لئے قرآن کی ایک اور بہترین دعا سنئے اور یاد کرلیں اور ہمیشہ پڑھا کریں ،فرمان باری تعالی ہے’’ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ‘‘ اے ہمارے رب!ان ظالموں کی بستی سے تو ہمیں نجات دے اورہمارے لئے خود اپنے پاس سے حمایتی مقررکردے اورہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔(النساء:75)



اب آخر میں رب العالمین سے یہی دعا ہے کہ اے اللہ تو اپنے فضل وکرم سے ہم مسلمانوں پر رحم فرما اور ہمیں ظالموں کے ظلم وستم سے محفوظ رکھ۔ أَللّٰهُمَّ لَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا آمین ثم آمین یا رب العالمین۔





کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 

اٹیچمنٹس

Top