• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظہور خوارج!۔

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
ظہور خوارج!۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام نہاد حامیوں میں سے ایک جماعت نے کھل کر انکے خلاف علم بغاوت بلند کردیا انکا نعرہ تھا
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ
حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے (الانعام ٥٧)۔
ان کے نزدیک اللہ کا فیصلہ جو اسکی کتاب میں موجود ہے یہ تھا۔
وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (الحجرات ٩)۔
تاوقتکہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے یعنی ترک بغاوت کرکے سمع وطاعت کا راستہ اختیار کرے۔
یہ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی گروہ کو اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنھا اور طلحہ وزبیر رضی اللہ عنھم کے گروہ کو باغی قرار دیتے تھے حالانکہ ان میں سے کوئی ایک بھی اصلا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت کا منکر نہ تھا اور رہی قصاص عثمان کے مطالبہ کی شرط تو وہ خلیفہ سوم کے باغیوں (سبائیوں) سے تحفظ کے لئے تھی اور قرآن پاک کے دئے ہوئے حق کے عین مطابق تھی۔
وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا
جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈاﻻ جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے (الاسراہ ٣٢)۔
مصالحت کی گفتگو میں عمروبن العاص نے باقاعدہ یہی آیت ابوموسٰی اشعری کے سامنے پیش کی تھی اور اللہ تعالٰی کی کتاب کے حکم ماننے کا تقاضا یہی تھا کہ جو مسلمان بیعت سے علیحدہ تھے وہ بیعت کرتے اور جسے قاتل پر اللہ نے غلبہ کا حق دیا تھا اس کا مطالبہ قصاص پورا کیا جاتا پھر اصحاب جمل تو قصاص سے پہلے ہی بیعت کے لئے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات چیت پر رضامند ہوگئے تھے اور علی رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ سے قبل بیعت چار ماہ کی مدت میں قاتلین تھے لیکن دونوں جگہ صلح ومصالحت اور انعقاد بیت کی راہ میں سبائیوں نے ہی روڑے اٹکائے لہذا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں (شیعان علی) کے خلاف خوارج کا الزام بالکل بے بنیاد تھا کہ انہوں نے قرآن کے بالک واضح اور متعین حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے خلاف عقد تحکیم کو قبول کیا ہے یہ کس طرح ممکن تھا کہ جمل اور صفین میں طرفین سے ایک لاکھ مسلمانوں کے قتل کے بعد قرآنی حکم کے برخلاف علی رضی اللہ عنہ کس طرح ثالٹی قبول کریں یا وہ اور ان کے ساتھ صحابہ واہلبیت کسی ناحق بات پر خاموش رہیں بلکہ الٹے رضامند ہوجائیں اگر ابو موسٰی اور عمرو بن العاص کی گفتگو میں ایسی کوئی دھاندلی واقع ہوئی ہوتی تو فورا دوبارہ جنگ بھڑک اٹھتی اور جنگ کے اختتام کے وقت چونکہ غلبہ علی رضی اللہ عنہ کی فوج کو حاصل تھا لہذا جنگ میں کامیابی متوقع تھی لیکن کمزور فریق کے جانب سے مصالحت کی بات چیت میں کھلی دھاندلی اور طاقتور فریق کی جانب سے صبر اور خاموشی بالکل باقابل فہم بات ہے دراصل تاریخ نویس یا تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اگر پہلے سے ہی صحابہ کو اہلبیت کا دشمن مان لے اور ان کو قرآنی تصریحات رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ آپس میں ایک دوسرے پر نہایت مہربان أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ اہل ایمان کے مقابل خود کو ہیچ سمجھنے والے رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، مطابق بالکل پکا سچا اور کامل مومن ومسلم تسلیم نہ کرے تو تاریخی واقعات کو بھی وہ گھما پھرا کر غلط معانی نکالنے کی کوشش کریگا صحابہ کرام واہلبیت سے باہر تابعین میں سے ایک بہت بڑا منظم گروہ سبائیوں کا تھا انہی میں سے بعد میں خوارج نمودار ہوئے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ کے خلاف منظم بغاوت کی اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو علانیہ کافر ومرتد قرار دیا انہوں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کو توڑ کر اپنی جماعت سے اپنا امیر بھی چن لیا اور انہی کے تین اشخاص نے بیک وقت عمروبن العاص، حضرت معاوریہ رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کردینے کا منصوبہ تیار کیا علی رضی اللہ عنہ کو عبدالرحمٰن بن ملجم نے تلوار کے دو ضربات سے سخت زخمی کردیا جس کے نتیجے میں وہ شہید ہوگئے اور حضرت معاویہ شید زخمی ہوکر بال بال بچ گئے عمروبن عاص اتفاق سے اس دن بیمار تھے اور صبح نماز فجر کے لئے مسجد نہ جاسکے وہ اس طرح قتل یا زخمی ہونے سے بچے خلفائے راشدین میں سے تین خلیفہ پے درپے دشمنان اسلام یہود ونصارٰی اور مجسوس کی سازش کا شکار بنے صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت صرف دو سال پانچ ماہ کی مختصر مدت تھی آپ کو اپنے بستر پر طبعی طور پر وفات نصیب ہوئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت عمروبن عاص کے باہم نزاع واختلاف کے باوجود ایک ہی گروہ کے تین اشخاص نے بیک وقت تینوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا اور ان اشخاص کا تعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گروہ سے تھا یعنی خوارج سے۔
ظہور روافض!
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خوارج کی بغاوت کے دوران شیعان علی کے نام سے ایک غالی فرقہ نمودار ہوا جو روافض کہلائے ابتداء میں شیعان علی تو وہ تھے جو جمل وصفین کی جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے موقف کے حامی تھے ااور جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے حامیوں کو عقد تحکیم کے وقت مومنین ومسلمین تسلیم کیا تھا اور صحابہ اور اہلبیت تھے لیکن خوارج نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور شیعان علی پر حکم کفر لگایا اور اُن سے قتال کا راستہ اختیار کیا تو روافض نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب مان کر مختار کل ہونے کا اعلان کردیا اور صحابہ واہلبیت سے الگ کردیا تھا اور تعلقات ترک کردئیے تھے دراصل یہ سبائی تھے جو تقیہ کر کے خود کو شیعان علی ظاہر کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس فرقہ کے لوگوں کو ظلم عظیم (شرک) سے باز رکھنے کے لئے آگ کی خندقوں میں دھکیل کر زندہ جلا ڈالنے کا حکم دیا تھا لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے روکا کہ آپ انہیں ایسی سزا نہ دیں جو اللہ نے اپنے لئے مخصوص کی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مجھے رب کا شریک ٹھہرائیں گے تو اللہ میرے ہاتھوں سے انہیں ایسی سزا دلوائے گا جو اس نے اپنے لئے مخصوص کی ہے۔
یہ خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور کا آخری فتنہ تھا کہ انہیں اپنے نام نہاد حامیوں کے ساتھ ایسا سلوک بھی کرنا پڑا وہ حامی نہ تھے بلکہ حمایت کے نام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں میں بدنام کرنے کے درپے تھے گویا یہ سبائی شیطانیت کی انتہا تھی۔
 
Top