• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبداللہ بن المبارک اوررفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اہل حدیث نئے تناظر میں کفایت اللہ صاحب کے مراسلہ کا جواب لکھتے ہوئے اس موضوع پر بھی نگاہ پڑی اوراس تعلق سے کچھ مواد اکٹھاہوگیاتوسوچاگیاکہ جواب کاکام موخرکرکے پہلے اسی غلطی فہمی کے تعلق سے کچھ لکھاجائے جس میں اردو خواں کے علاوہ بزعم خود عالمین بھی مبتلانظرآتے ہیں۔ اگراس تحریر سے کسی کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں تو فبہااوراگرنہ بھی ہو تووماعلیناالاالبلاغ


عبداللہ بن المبارک اوررفع الیدین کے واقعہ پر ایک نظر


رفع یدین کا مسئلہ اگرچہ جزئی اورفروعی مسئلہ ہے لیکن بعض محدثین نے اس مسئلہ میں حد سے زیادہ تشدد اختیار کیا اوراس کو فرائض وواجبات تک کی جگہ دے کر رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز تک باطل قراردے دی۔جیساکہ حمیدی اوربعض دیگر روات سے منقول ہے۔
وَقَدْ رُوِيَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ وَذَهَبَ إِلَى ذَلِكَ الْحُمَيْدِيُّ فِيمَنْ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ الصَّلَاةَ فَاسِدَةٌ أَوْ نَاقِصَةٌ وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ
التمہید لابن عبدالبر9/226
اوزاعی سے منقول ہے اورحمیدی کابھی قول ہے کہ جس نے ابن عمر کی حدیث پر رفع یدین نہیں کیااس کی نماز فاسد یاناقص ہے اوربعض نے نماز لوٹانے کی بھی بات کہی ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ یہ قول دلیل سے عاری اورخالی ہے کسی چیز کا مسنون ہوناالگ شے ہے اورکسی چیز کا فرض وواجب ہوناالگ بات ہے۔ مخالف کے زعم اورزور میں سنت کو فرض وواجب قراردے دینا علمی منہج نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ابن عبدالبر ان حضرات کی رائے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
وَلَيْسَ هَذَا بِصَحِيحٍ عِنْدَنَا لِمَا ذَكَرْنَا لِأَنَّ إِيجَابَ الْإِعَادَةِ إِيجَابُ فَرْضٍ وَالْفَرَائِضُ لَا تَثْبُتُ إِلَّا بِحُجَّةٍ أَوْ سُنَّةٍ لَا مُعَارِضَ لَهَا أَوْ إِجْمَاعٍ مِنَ الْأُمَّةِ۔
اوریہ چیز ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے جیساکہ ہم نے اس کےد لائل ماقبل میں ذکرکئے۔ اس لئے اعادہ کو واجب قراردینا کسی چیز کوفرض قراردیناہے اورفرائض دلیل قطعی یاپھر ایسی سنت سے ثابت ہوتے ہیں جس کا کوئی معارض نہ ہو یااس پر امت کا اجماع ہو ۔

اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "
سنن بیہقی 2/117

اس کے ساتھ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں ترک رفع والوں پرجس غیظ وغضب کا اظہار کیاہے اس کو نرم لفظوں میں بھی کہیں تو حدود سے متجاوز ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ رفع یدین اورترک رفع یدین پر صحابہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہیں کرتے تھے ۔ اورنہ یہ عمومی طورپر علماء فقہاء اورمحدثین کا شیوہ اورطریقہ کار رہاہے کہ وہ ترک رفع کرنے والوں کو مخالف سنت کے نام سے یاد کریں یامخالفت سنت کا طعنہ دیں۔ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَقَدْ أَكْثَرَ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْكَلَامِ فِي هَذَا الْبَابِ وَأَفَرَطَ بَعْضُهُمْ فِي عَيْبِ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ وَلَا وَجْهَ لِلْإِكْثَارِ فِيهِ
التمہید لابن عبدالبر9/228
اہل علم نے اس باب میں بہت زیادہ کلام کیاہے اوران میں سے بعض نے ترک رفع کرنے والوں کے خلاف حد سے تجاوز کیاہے جب کہ اس کی کوئی ضرورت اوروجہ نہیں ہے۔

اس تعلق سے عمومی طورپر ایک قصہ اورواقعہ ابن المبارک اورامام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کابھی بیان کیاجاتاہے ۔ دورحاضر کے غیرمقلدین اس واقعہ کو خوب اچھالتے اورنمایاں کرتے ہیں اورایساسمجھتے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ بن المبارک کی جانب سے امام ابوحنیفہ پر کوئی طنز ،طعن اورتعریض تھاحالانکہ اس واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ استاد وشاگرد کے درمیان ایک قسم کی خوش طبعی تھی اوربس !


واقعہ کیاہے؟

اس واقعہ کو متعدد محدثین نے نقل کیاہے ذرا ذیل میں ان تمام پر ایک نگاہ ڈالی جائے واقعہ کی جزئیات میں اختلاف ہے۔ ہم اس اختلاف کوذراواضح کرتے ہیں کہ کس نے کیسے اورکس طورپر نقل کیاہے۔

امام بخاری نقل کرتے ہیں۔
وَلَقَدْ قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: كُنْتُ أُصَلِّي إِلَى جَنْبِ النُّعْمَانِ بْنِ ثَابِتٍ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ فَقَالَ: مَا خَشِيتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَقُلْتُ إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ قَالَ وَكِيعٌ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ كَانَ حَاضِرَ الْجَوَابِ فَتَحَيَّرَ الْآخَرُ
قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ37

عبداللہ بن احمد بن حنبل نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنِي أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْعَطَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَعْنِي ابْنَ شَبُّوَيْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ: " قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ كَأَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَطِيرَ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ: إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا، قَالَ وَكِيعٌ جَادَّ مَا حَاجَّهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ "
السنہ لعبداللہ بن احمد بن حنبل276

ابن قتیبہ لکھتے ہیں۔
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ3 أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث1/106

ابن حبان نقل کرتے ہیں
- أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي من أهل سامرا يروي عَن أبي نعيم والعراقيين حَدَّثنا عَنهُ حَاجِب بن أركين وَغَيره ثَنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق الثَّقَفِيّ ثَنَا أَحْمد بن الْوَلِيد الْكَرْخِي ثَنَا أَبُو هِشَام الرِّفَاعِي قَالَ سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ فَقَالَ يُرِيد أَن يطير فَأَجَابَهُ بن الْمُبَارك إِن يطر فِي الثَّانِيَة فَهُوَ يُرِيد أَن يطير فِي الأولى
الثقات لابن حبان8/45

امام بیہقی سنن کبری میں نقل کرتے ہیں
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ حَلِيمٍ الصَّائِغُ، بِمَرْوَ ثنا أَبُو الْمُوَجَّهِ، أَخْبَرَنِي أَبُو نَصْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْخَطَّابِ السُّلَمِيُّ، وَكَانَ رَجُلًا صَالِحًا قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ يُونُسَ، ثنا وَكِيعٌ قَالَ: " صَلَّيْتُ فِي مَسْجِدِ الْكُوفَةِ فَإِذَا أَبُو حَنِيفَةَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى جَنْبِهِ يُصَلِّي، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا رَكَعَ وَكُلَّمَا رَفَعَ، وَأَبُو حَنِيفَةَ لَا يَرْفَعُ، فَلَمَّا فَرَغُوا مِنَ الصَّلَاةِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِعَبْدِ اللهِ: يَا أَبَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، رَأَيْتُكَ تُكْثِرُ رَفْعَ الْيَدَيْنِ، أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ قَدْ رَأَيْتُكَ تَرْفَعُ يَدَيْكَ حِينَ افْتَتَحْتَ الصَّلَاةَ فَأَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ؟ فَسَكَتَ أَبُو حَنِيفَةَ " قَالَ وَكِيعٌ فَمَا رَأَيْتُ جَوَابًا أَحْضَرَ مِنْ جَوَابِ عَبْدِ اللهِ، لِأَبِي حَنِيفَةَ
سنن بیہقی 2/117


خطیب بغدادی لکھتے ہیں
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن عثمان الصفار، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن مخلد، قَالَ: حَدَّثَنَا العباس بن مُحَمَّد، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن شماس، قال: سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع، فقال أَبُو حنيفة: يريد أن يطير فيرفع يديه؟ قال وكيع: وكان ابن المبارك رجلا عاقلا، فقال ابن المبارك: إن كان طار في الأولى فإنه يطير في الثانية، فسكت أَبُو حنيفة ولم يقل شيئا
15/530تاریخ بغداد

ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
وَرُوِي عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي حَنِيفَةَ فَرَفَعْتُ يَدَيَّ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ فَلَمَّا انْقَضَتْ صَلَاتِي قَالَ لِي أَرَدْتَ أَنْ تَطِيرَ فَقُلْتُ لَهُ وَهَلْ مَنْ رَفَعَ فِي الْأُولَى يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ فَسَكَتَ
التمہید لابن عبدالبر9/299

ان کتابوں سے نقل کردہ اقتباس سے یہ بات ظاہر ہے کہ جس نے بھی نقل کیاہے روایت بالمعنی کیاہے اورہرایک نے اپنے اپنے اعتبار سے نقل کیاہے۔

واقعہ کا قدرمشترک امر یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو اڑنے سے تعبیر کیااورامام عبداللہ بن المبارک نے تکبیر تحریمہ میں رفع یدین کو بقیہ رفع یدین کے مماثل قراردے کر کہاکہ اگر وہ اڑناہے تویہ بھی اڑناہے اوراگروہ اڑنانہیں ہے تویہ بھی اڑنانہیں ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اختلاف کہاں کہاں پر ہے؟

پہلااختلاف
عبداللہ بن المبارک کونماز پڑھتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی تھی یاعبداللہ بن المبارک نے رفع یدین فی الرکوع کے بارے میں سوال کیاتھا تب یہ بات کہی تھی!
تاریخ بغداد اورثقات ابن حبان میں مذکور ہے کہ ابن مبارک نے رفع یدین کے تعلق سے امام ابوحنیفہ سے سوال کیاتھا۔جس پر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی ۔
سمعت وكيعا، يقول: سأل ابن المبارك أبا حنيفة عن رفع اليدين في الركوع
15/530تاریخ بغداد
سَمِعت وكيعا يَقُول سَأَلَ بن الْمُبَارك أَبَا حنيفَة عَن رجل يرفع يَدَيْهِ
الثقات لابن حبان8/45

دوسرااختلاف
یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب پر امام ابوحنیفہ کا ردعمل کیارہا۔
بخاری کی جزء رفع الیدین اور عبداللہ بن احمد بن حنبل وکیع سے عبداللہ بن المبارک کے جواب کی تحسین نقل کرتے ہیں۔ابن قتیبہ اور ابن حبان کی روایت میں نہ جواب کی تحسین ہے اورنہ سکوت کاذکر ہے۔بیہقی کی روایت میں سکوت کابھی ذکر ہے اورجواب کی تحسین بھی ہے۔خطیب کی روایت میں فسکت کے بعد ولم یقل شیئا کا اضافہ ہے۔ابن عبدالبر نے صرف سکوت کاذکر کیاہے۔

تیسرااختلاف
یہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک نے کیابات کہی تھی کہ ان کنت انت تصیر یاپھر ان لم اطر
یعنی جواب میں امام ابوحنیفہ کو مخاطب کیایااپنے تعلق سے بات کہی۔ یعنی جواب میں انہوں نے یہ کہا
إِنْ لَمْ أَطِرْ فِي الْأُولَى لَمْ أَطِرْ فِي الثَّانِيَةِ
جزئ رفع الیدین للبخاری
یاپھر یہ کہا
إِنْ كُنْتَ أَنْتَ تَطِيرُ فِي الْأُولَى فَإِنِّي أَطِيرُ فِيمَا سِوَاهَا
(کتاب السنۃ )
اب قبل اس کے کہ اصل موضوع پر بات کی جائے ۔ فورم پر ایک صاحب نے اس واقعہ کا جوترجمہ یاترجمانی کی ہے وہ دیکھ لیں۔


ایک بار مسجد کوفہ میں امام ابن المبارک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ۔ ابن المبارک رحمہ اللہ رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر ابن المبارک رحمہ اللہ سے کہا :
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر
” آپ نماز کی ہر تکبیر ( اس میں تسمیع بھی شامل ہے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت ) میں رفع الیدین کرتے ہیں گویا اڑنا اور پرواز کرنا چاہتے ہیں ۔ “
امام ابن المبارک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جواب میں کہا :
ان کنت انت تطیر فی الاولیٰ فانی اطیر فیما سواھا
اگر آپ تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے ارادہ پرواز و اڑان رکھتے ہوں تو میں آپ ہی کی طرح باقی مواقع میں نماز میں پرواز کرنا چاہتا ہوں ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب سے اس طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کے لیے خاموش رہے ۔ امام وکیع نے امام ابن المبارک رحمہ اللہ کے اس جواب کی بڑی تحسین و تعریف کی ۔
عبارت تو انہوں نے صرف کتاب السنۃ لعبداللہ بن احمد بن حنبل کانقل کیاہے اورترجمہ میں اپنی جانب سے یہ بڑھادیاہے کہ
اس جواب اسے طرح کی بات رفع الیدین کی بابت کہنے سے ہمیشہ کیلئے خاموش رہے۔ خاص طورپر یہ لفظ ہمیشہ توکسی بھی روایت میں نہیں ہے۔جس کی بناء پر یہ بات کہاجائے کہ موصوف نے کسی دوسری کتاب جس کا حوالہ دیاگیاہے اس سے نقل کیاہوگا۔

قابل ترجیح روایت

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام روایات میں سب سےز یادہ قابل قبول روایت کون سی ہوسکتی ہے۔
ایک بات تویہ ہے کہ ہم امام بخاری کی روایت کو ترجیح دیں لیکن امام بخاری کی عبداللہ بن المبارک سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔لہذا انہوں نے وکیع یاپھر اسحاق بن راہویہ یاپھر کسی دوسرے سے یہ بات سنی ہوگی۔اگروہ اپنے ماخذ اورمصدر کی صراحت کردیتے تو ہمارے لئے اندازہ کرناآسان تھا۔
دوسرے طرف اس کے علاوہ بقیہ دیگر محدثین ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل تین واسطوں سے یہ واقعہ نقل کرتے ہیں۔خطیب ابن حبان ،ابن عبدالبر اورزیادہ چارپانچ چھ واسطوں سے یہ روایت نقل کرتے ہیں۔
ہاں صرف ابن قتیبہ ایسے ہیں جو اس کو صرف دواسطوں یعنی ابن اسحاق اوروکیع سے روایت کرتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی ہی ہے۔اورواسطے جتنے زیادہ کم ہوتے ہیں اتنے ہی اس میں غلطیوں کا امکان کم ہوتاہے ورنہ واسطے جتنے زیادہ ہوتے ہیں اس میں حذف واضافہ کاامکان مزید بڑھ جاتاہے۔اس لحاظ سے دیکھیں تو سب سے کم واسطوں والی روایت ابن قتیبہ کی روایت ہے ۔
وَحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْحَنْظَلِيُّ، وَهُوَ ابْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ3 أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ؟ أَيُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ؟
فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ4: إِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذَا افْتَتَحَ، فَإِنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَطِيرَ إِذا خفض وَرفع.

تاویل مختلف الحدیث1/106
وکیع کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کہااس شخص کا کیاحال ہے جو ہراٹھک بیٹھک کے وقت رفع یدین کرتاہے کیاوہ اڑناچاہتاہے توعبداللہ بن المبارک نے کہاکہ اگر وہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہوئے اڑناچاہتاہے تووہ دیگر مواقع رفع یدین میں بھی اڑناچاہتاہے۔

اس روایت میں نہ امام ابوحنیفہ کی خاموشی کاذکر ہے ۔ نہ حیرانی کا ذکر ہے اورنہ ولم یقل شیئا مذکورہے۔ اسی طرح اس روایت میں اس کا بھی اضافہ ہے کہ عبداللہ بن المبارک کی نماز کو دیکھ کر انہوں نے نہیں بلکہ کسی دوسرے فرد کی نماز کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی۔

اس طرح اس باب میں تین باتیں ہوگئیں۔

1:عبداللہ بن المبارک کورفع یدین کرتے ہوئے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی
2:عبداللہ بن المبارک نے امام ابوحنیفہ سے رفع یدین کے تعلق سے سوال کیاتب انہوں نے یہ بات کہی
3:کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھتے ہوئے رفع یدین کرتے دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے یہ بات کہی

اب بات صرف اتنی ہی رہ جاتی ہے کہ قتیبہ پر جرح وغیرہ کیاگیاہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اسی کے ساتھ ان کی توثیق بھی ہوئی ہے اورخاص طورپر اس صورت میں جب کہ وہ اس کو ابن اسحق سے روایت کرتے ہیں اورابن اسحاق سے ان کو خصوصی تعلق تھا۔اوریہ روایت بھی انہوں نے ابن اسحاق سے ہی بیان کیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوحنیفہ کا رفع یدین کو طیر سے تعبیر کا مقصد کیاتھا؟

دوسری بات یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے یہ بات کس طورپر کہی تھی کیامقصد سنت کا استخفاف تھا یاپھر محض ابن مبارک سے خوش طبعی اوردل لگی تھی جس میں مذاق میں یہ بات کہی گئی۔ہمارے نزدیک امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کی یہ بات محض خوش طبعی کے طورپر تھی۔ اورعبداللہ بن المبارک نے بھی اس کو خوش طبعی سمجھ کر ہی ویساجواب دیا اورپھر عبداللہ بن المبارک کی حاضر جوابی کی تعریف کی۔

ہمارے یہ سمجھنے کی کچھ جوہات ہیں۔
عبداللہ بن المبارک ابتداء سے ہی امام ابوحنیفہ سے وابستہ تھے اوروہی ان کی ہدایت اورارتفاع حال کا ذریعہ اورشریک ذریعہ بنے۔
وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: لَوْلا أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَدْرَكَنِي بِأَبِي حَنِيفَةَ وَسُفْيَانَ لَكُنْتُ بِدْعِيًّا "(مناقب الامام ابی حنیفۃ30)
عبداللہ بن المبارک اساتذہ کاحددرجہ ادب واحترام کرتے تھے اوراس کے متعدد واقعات کتابوں میں درج ہیں کہ کس طرح انہوں نے حماد بن زید کی محفل میں طلاب حدیث کی درخواست پر جب حدیث سنائی توتمام احادیث حماد بن زید کے واسطے سے ہی سنائی۔ اسی طرح سفیان بن عیینہ کی مجلس میں یہ کہہ کرجواب دینے سے منع کردیا کہ ہم کو اکابر کی موجودگی میں کلام کرنے سے منع کیاگیاہے۔ حضرت امام مالک کی مجلس میں آئے تواپنے ادب کے ذریعہ ان کو بھی اپنامداح بنالیا۔

اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک رفع یدین کے سلسلے میں کسی سخت نظریہ کے حامل اورقائل نہ تھے بلکہ عبداللہ بن المبارک تو سفیان ثوری کے شاگردی کے زمانہ میں بھی ترک رفع پر ہی عامل تھے اور وہ رفع یدین کرناچاہتے تھے لیکن ان کو خدشہ لگارہتاتھاکہ کہیں سفیان منع نہ کردیں لہذا وہ اپنے ارادے سے باز آجاتے لیکن ایک مرتبہ پکاارادہ کرلیاکہ اب جس چیز کو حق سمجھتاہوں اس کو کیوں نہ کروں پھر وہ رفع یدین کرنے لگے جس پر سفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا۔
عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ سُفْيَانَ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَرْفَعَ يَدَيَّ إِذَا رَكَعْتُ وَإِذَا رَفَعْتُ فَهَمَمْتُ بِتَرْكِهِ وَقُلْتُ يَنْهَانِي سُفْيَانُ ثُمَّ قُلْتُ شَيْءٌ أَدِينُ اللَّهَ بِهِ لَا أَدَعُهُ فَفَعَلْتُ فَلَمْ يَنْهَنِي
(التمہید لابن عبدالبر)
دوسرے یہ غورکیجئے کہ کوفہ وہ شہر ہے جہاں کے تمام افراد ترک رفع پر عامل تھے۔چاہے سفیان ثوری ہوں امام ابوحنیفہ ہوں یاپھر وکیع بن الجراح اس واقعہ کے راوی ہوں سب کے سب ترک رفع یدین پر عامل تھے۔
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ نَصْرٍ الْمَرْوَزِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْكِتَابِ الْكَبِيرِ لَا نَعْلَمُ مِصْرًا مِنَ الْأَمْصَارِ يُنْسَبُ إِلَى أَهْلِهِ الْعِلْمُ قَدِيمًا تَرَكُوا بِإِجْمَاعِهِمْ رَفْعَ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الْخَفْضِ وَالرَّفْعِ فِي الصَّلَاةِ إِلَّا أَهْلَ الْكُوفَةِ ۔(تمہید9/213)
لہذا ابن مبارک جن کا علماء ومشائخ کا احترام ضرب المثل ہے وہ اپنے استاد کو جواب دینے میں برابری کا انداز نہیں اپناسکتے ۔ استاد وشاگرد میں یامعاصرین میں خوش طبعی کی اس طرح کی مثالیں کتابوں میں بہت مل جاتی ہیں۔
قَالَ سَعِيْدُ بنُ مَنْصُوْرٍ: قَدِمَ وَكِيْعٌ مَكَّةَ، وَكَانَ سَمِيْناً، فَقَالَ لَهُ الفُضَيْلُ بنُ عِيَاضٍ: مَا هَذَا السِّمَنُ وَأَنْتَ رَاهِبُ العِرَاقِ?! قَالَ: هَذَا مِنْ فَرَحِي بِالإِسْلاَمِ، فَأَفَحَمَهُ.
سیراعلام النبلاء7/568
سعید بن منصور کہتے ہیں کہ وکیع مکہ آئے (وکیع موٹے تھے)توان سے فضیل بن عیاض نے کہاآپ کو عراق کا راہب(عبادت گزار)کہاجاتاہے اس کے باوجود یہ مٹاپا(تعجب کی بات ہے)وکیع نے جواب دیا کہ یہ موٹاپن میرے اسلام کی خوشی کی وجہ سے ہے۔تووکیع نے یہ کہہ کر فضیل بن عیاض کو لاجواب کردیا۔
نوٹ:ہوسکتاہے کہ محض ترجمہ سےبات دوسروں کی سمجھ میں نہ آئے ۔لہذا اس جملہ کی مزید وضاحت کردوں

غم مٹاپاکا دشمن ہےچاہے وہ دین کا غم ہو یادنیا کا غم ۔توفضیل بن عیاض کاکہنایہ تھاکہ آپ کو عراق کاراہب عبادت گزار کہاجاتاہے(اور وکیع تھے بھی ایسے ہی ہمیشہ روزہ رکھتے اورایک رات میں پوراقرآن ختم کرتے تھے)یعنی فکر آخرت آپ پر بہت زیادہ ہے اس کے باوجود یہ مٹاپاکیوں تووکیع نے جواب دیاکہ فکر آخرت اپنی جگہ لیکن اللہ نے اسلام کی دولت سے نوازاہے اس کی خوشی ہی اتنی زیادہ ہے کہ دیگر افکار وحزن اس خوشی کے سامنے پھیکے پڑگئے ہیں اوراسی وجہ سے یہ مٹاپاہے۔

اس میں بھی دیکھاجاسکتاہے کہ کوئی علمی طورپر بات نہیں کی گئی ہے محض خوش طبعی سے فضیل بن عیاض نے ایک بات کہی اوراسی خوش طبعی سے اورازراہ مزاح وکیع نے جواب دیا اورفضیل بن عیاض کو خاموش کردیا۔

ہماراکہنابھی یہی ہے کہ یہی خوش طبعی امام ابوحنیفہ اورعبداللہ بن المبارک کے سوال جواب میں بھی موجود ہے۔ اوراس کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ نے ترک رفع کے حق میں دلیل سے بات کہی اورنہ ہی ابن المبارک نے۔ امام ابوحنیفہ نے کثرت رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیاکہ بار بار ہاتھوں کو اٹھارہے ہیں ایسالگتاہے کہ پرواز کی کوشش کی جارہی ہے اس پر ابن مبارک نے جواب دیاکہ پرواز کی کوشش تواول مرتبہ کے رفع یدین سے ہی شروع ہوجاتی ہے اوربقیہ رفع یدین اسی پہلے رفع یدین کے اتمام کی کوشش اورتتمہ ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جو بات خوش طبعی اورمزاح کے طورپر کہی گئی تھی اورجس میں دلیل نام کی کوئی شے خوردبین سے بھی ڈھونڈی نہیں جاسکتی اس میں کفایت اللہ صاحب ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑدیکھ رہے ہیں۔ ویسے انسان جب دل میں ایک خیال قائم کرلے توہرچیز اسی کے مطابق دکھنے لگتی ہے۔اگرواقعتایہ بات ہوتی کہ عبداللہ بن المبارک کے جواب میں ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑموجود ہوتاتوپھر خود وکیع کیوں رفع یدین پر عامل نہیں ہوگئے۔ کیاکسی بھی سیرت اورترجمہ کی کتاب میں اس کا اشارہ ملتاہے کہ وکیع نے کبھی رفع یدین کیاہو ۔اورجب یہ بات ثابت ہے کہ وکیع ترک رفع پر ہی عامل تھے جیساکہ دیگر کوفی حضرات تو پھر وکیع نے ترک رفع کے تمام دلائل کا توڑملنے کے باوجود کیوں رفع یدین شروع نہیں کردیا۔ کیااس بات سے ان کی ثقاہت وعدالت مشتبہ نہیں ہوجائے گی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام ابوحنیفہ نے یہ بات کس کے متعلق کہی تھی؟​

امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتناتشنہ رہ جاتاہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایاپھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔

اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ
بسااوقات عوام الناس حدود شرعی کا خیال نہیں رکھتے۔اورجس چیز کی جتنی حدہے اس سے بڑھاکر اس کو کرتے ہیں۔ جیساکہ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کان سے لگاناضروری سمجھتے ہیں کچھ لوگ کاندھوں سے سرتک اونچاکرلیتے ہیں۔ہاتھ باندھنے میں بھی اسی قسم کی بے اعتدالی دیکھنے کو ملتی ہے کچھ لوگ ناف کے نیچے کو مزید نیچے کردیتے ہیں اورکچھ سیدھے سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں اورکچھ لوگ وفور جوش میں سینے سے آگے بھی پہنچ جاتے ہیں تواس قسم کی تمام باتیں حدود شرعی سے متجاوز ہیں اگرکوئی سینے پر ہاتھ باندھنے والے کو یاپھر سینے سے بھی اوپر ہاتھ باندھنے کو کسی چیز سے تعبیر کرتاہے تویہ تعبیر حدود شرعی سے تجاوز کی ہوگی نہ کہ حدود شرعی کی۔ مثلاایک شخص انتہائی جلدی جلدی نماز پڑھارہاہے تواس کو نماز چور کہاجاسکتاہے تویہ جملہ نماز چور نماز کی توہین نہیں ہے بلکہ نمازی نے غیرشرعی طریقہ پر جونماز پڑھی ہے اس کو بیان کرنے کیلئے ہے۔
اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اشعار کو مثلہ کہاہے اس کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نفس اشعار کو مثلہ کرنا نہیں کہاہے کیونکہ وہ توسنت ہے لیکن لوگوں نے اس میں جوبے اعتدالیاں شروع کردی تھیں اس کو انہوں نے مثلہ سے تعبیر کیاہے۔

یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرناچاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھاتواس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہاکہ یہ پرواز تواس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھاہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھاجائے تونہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اورنہ ہی کسی چھینٹاکشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائیدوتوثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔

اوراگربات یہ ہو کہ امام ابوحنیفہ نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر یہ بات کہی تھی جیساکہ کچھ روایات میں مذکور ہے توبھی اس سلسلے میں یہ واضح رہے عبداللہ بن المبارک ابتداء میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔رفع یدین کرنے کا داعیہ پیداہوتاتھا لیکن اس خوف سے کہ سفیان ثوری منع کریں گے وہ رک جاتے تھے لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ جس چیز کو میں حق سمجھتاہوں اس کو کیوں نہ کروں۔ انہوں نے رفع یدین کرناشروع کردیا۔ اورسفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ رفع یدین کرنا نہ کرنا افضیلت کی بات ہے ۔ کفر واسلام کامعرکہ تونہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ اسی رفع یدین کے ابتداء کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ امام ابوحنیفہ کے سامنے نماز پڑھ کررفع یدین کیاہواورجب انسان کسی چیز کوابتداء میں کرتاہے تواس کی حدود کو ملحوظ نہیں رکھ پاتا۔اوراکثروبیشتر اس سے بے اعتدالی اس سے ہوجاتی ہے۔

کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں کو جتنااورجیسااٹھاناچاہئے اس سے کم یازیادہ اٹھاتاہے اورکبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ رفع یدین جتنے اورجیسے مقامات پر کرنے چاہئے اس سے بھی زیادہ مقامات پر رفع یدین کرناشروع کردے۔

اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیاتھاجیساکہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر(کتاب السنۃ)
تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ(جزء رفع الیدین)
مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ (تاویل مختلف الحدیث)

سے بھی ملتاہے کہ انہوں نے مطلقارفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہرتکبیر کے ساتھ رفع کیاجارہاہے اورہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہورہاہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ایسالگتاہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہرمقام پر رفع یدین شروع کیاتھاجس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔

واضح رہے کہ رفع یدین میں بے اعتدالی اورمستحقہ مقام کے علاوہ رفع یدین کو حدیث میں اذناب خیل شموس سے بھی تعبیر کیاگیاہے یعنی سرکش گھوڑوں کی دم سے۔ ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ لِلْكُوفِيِّينَ وَمَنْ ذَهَبَ مَذْهَبَهُمْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بن عُلَيَّةَ الْقَاضِي بِدِمَشْقَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَسِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم مالي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيَكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلِ شَمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِأَنَّ الَّذِي نَهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ لِأَنَّهُ مُحَالٌ أَنْ يَنْهَاهُمْ عَمَّا سَنَّ لَهُمْ وَإِنَّمَا رَأَى أَقْوَامًا يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ وَيَرْفَعُونَهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِ الرَّفْعِ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ وَكَانَ فِي الْعَرَبِ الْقَادِمِينَ وَالْأَعْرَابِ مَنْ لَا يَعْرِفُ حُدُودَ دِينِهِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا وَبَعَثَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلِّمًا فَلَمَّا رَآهُمْ يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ فِي الصَّلَاةِ نَهَاهُمْ وَأَمَرَهُمْ بِالسُّكُونِ فِيهَا
(التمہید 9/222)

لہذا اگرامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے رفع یدین میں بے اعتدالی کو دیکھ کر اس کو طیر سے تعبیر کیاتویہ بھی ایک لحاظ سے حدیث کی ہی موافقت ہوئی ہے۔جیساکہ حدیث میں رفع یدین میں بے اعتدالی کو" سرکش گھوڑوں کی دموں" سے تعبیر کیاگیاہے۔

یہ بھی واضح رہناچاہئے کہ امام ابوحنیفہ نے جس چیز کو طیر سے تعبیر کیاہے وہ نفس رفع یدین نہیں بلکہ کثرت رفع یدین ہے۔ جس کو بیشتر محدثین حضرات منسوخ یاحدیث ابن عمر سے مرجوح مانتے ہیں لہذا اگرمنسوخ چیز پر عمل کرنے کو امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کردیاتواس میں شور مچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں تک توہماری بحث اس بات پر تھی کہ اس روایت کا کیامطلب نکل سکتاہے اور امام ابوحنیفہ کے قول کا کیامحمل اورپہلو ہے۔ لیکن اگرعبداللہ بن المبارک سے ثابت اقوال کے تناظر میں اس روایت کو دیکھاجائے تواس کی صداقت مشتبہ نظرآنے لگتی ہے۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، قَالَ: أَخْبَرَنَا عثمان بن أَحْمَد الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم أَبُو حمزة المروزي، قال: سمعت ابن أعين أبا الوزير المروزي، قال: قال عبد الله، يعني: ابن المبارك إذا اجتمع سفيان، وأبو حنيفة فمن يقوم لهما على فتيا
)تاریخ بغداد 15/465،اسنادہ صحیح

ابن عین(عبداللہ بن المبارک کے خادم خاص )کہتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک نے کہاجب کسی مسئلہ پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہوجائیں تواس کے خلاف کون فتوی دے سکتاہے۔
أَخْبَرَنَا الحسين بن علي بن مُحَمَّد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن الرازي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن الحسين الزعفراني، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن زهير، قَالَ: حَدَّثَنَا الوليد بن شجاع، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن بن شقيق، قال: كان عبد الله بن المبارك، يقول: إذا اجتمع هذان على شيء فذاك قوي، يعني: الثوري، وأبا حنيفة
(تاریخ بغداد15/470،اسنادہ صحیح رجالہ ثقات

علی بن الحسن بن شقیق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن المبارک کہتے تھے جب یہ دونوں (ابوحنیفہ اورسفیان ثوری)کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہ مستحکم مسئلہ ہوتاہے۔
اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک سے صحیح سند سے یہ قول بھی ثابت ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کو افقہ الناس اورفقہ میں بے نظیر وبے مثال مانتے تھے اوررفع یدین کرنا نہ کرنا ایک فقہی جزئی فروعی مسئلہ ہے ۔
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحريري أن النخعي، حدثهم قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن عفان، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كريب، قال: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول.
وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن نعيم الضبي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سعيد مُحَمَّد بن الفضل المذكر، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن سعيد المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حمزة يَعْلَى بن حمزة، قال: سمعت أبا وهب مُحَمَّد بن مزاحم، يقول: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: رأيت أعبد الناس، ورأيت أورع الناس، ورأيت أعلم الناس، ورأيت أفقه الناس، فأما أعبد الناس: فعبد العزيز بن أبي رواد، وأما أورع الناس: فالفضيل بن عياض، وأما أعلم الناس: فسفيان الثوري، وأما أفقه الناس: فأبو حنيفة، ثم قال: ما رأيت في الفقه مثله

(تاریخ بغداد15/459،اسنادہ صحیح)
ابووہب محمد بن مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن المبارک سے سناوہ کہہ رہے تھے میں نے سب سے زیادہ عبادت گزار،سب سےزیادہ پرہیزگار،سب سےبڑاعالم، اورسب سے بڑافقیہہ دیکھاہے۔ سب سے زیادہ عبادت گزار تو عبدالعزیز بن ابی رواد ہیں سب سے زیادہ پرہیزگار فضیل بن عیاض ہیں اورسب سے بڑے عالم سفیان ثوری ہیں اور سب سے بڑے فقیہہ ابوحنیفہ ہیں پھر انہوں نے کہاکہ میں نے فقہ میں ان کے جیساکسی کو نہیں دیکھا۔
ان تمام اقوال کی روشنی میں دیکھاجائے توعبداللہ بن المبارک کا یہ جواب دیناہی سرے سے مشتبہ نظرآتاہے۔کیونکہ یہ روایات یہ ثابت کرتی ہیں کہ عبداللہ بن المبارک اس مسئلہ کو قوی مانتے ہیں جس پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہوں ۔رفع یدین نہ کرنے پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہیں۔ عبداللہ بن المبارک اس مسئلہ کے خلاف فتوی دینامشکل مانتے ہیں جس پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ علیھماالرحمۃ والرضوان متفق ہوں اوررفع یدین نہ کرنے پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہیں۔ عبداللہ بن المبارک سفیان ثوری کو اعلم الناس اور امام ابوحنیفہ کو افقہ الناس مانتے ہیں اوریہ مسئلہ فقہی ہے اوریہ دونوں حضرات رفع یدین نہ کرنے پر متفق ہیں۔

اوراگر طیر والی روایات کو ثابت ماناجائے تواس کا وہی مطلب ہوگا جس کا ماقبل میں ذکر کیاگیاہے۔

ایک عام مغالطہ
بعض حضرات کو کم علمی سے یہ مغالطہ لاحق ہوگیاہے کہ رفع یدین کرنا کرنا سنت کو زندہ کرناہے۔لہذ اوہ جگہ اورہرموقع پر رفع یدین کرنے کے ساتھ نہ کرنے والوں کو ترک سنت کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ یہ چیز ان کے جہل کی علامت ہے۔ سنت زندہ کرنا وہاں پر ہوتاہے جہاں پر کوئی سنت ختم ہوگئی ہو لیکن کسی مسئلہ اگرحضور سے دوطرح کےافعال منقول ہیں اوراس میں سے ایک پر عمل کیاجارہاہے تو دوسرے پر عمل کرنا سنت کو زندہ کرنا نہیں ہوگا بلکہ جو ایک پر عمل کررہاہے وہ بھی سنت پر ہی عمل ہے۔ اورسنت کو زندہ کرنے کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں سنت کے مقابلے میں کوئی بدعت رائج ہوگئی ہو تو وہاں پر سنت کو زندہ کرنے کا بڑااجر ہے لیکن جب ایک سنت کے مقام پر دوسری سنت پر عمل کیاجارہاہوتواس مسئلہ کو سنت زندہ کرنے کا عنوان دینا اور مخالفین پر ترک سنت کا طعنہ دینا درست نہیں ہے۔
حضرت شاہ اسماعیل شہید علیہ الرحمہ رفع یدین کرتے تھے۔اس کی خبر جب شاہ عبدالقادر کو پہنچی تو انہوں نے اپنی مسجد میں بلایا اورپوچھاکہ رفع یدین کیوں کرتے ہوں انہوں نے کہاکہ رفع یدین کی سنت کو زندہ کررہاہوں تواس پر شاہ عبدالقادر نے کہاکہ باباہم توسمجھتے تھے کہ توعالم ہوگیاہے ۔سنت زندہ کرنے کی بات وہاں پر ہے جہاں سنت کے مقابلے میں بدعت رائج ہو لیکن جب ترک رفع بھی سنت ہے تورفع یدین کرنا سنت کو زندہ کرنے کے زمرے میں نہیں آئےگا۔(مفہوم)
بعض حنفی علماء رفع یدین کے تعلق سے یہ کہتے رہے ہیں کہ نفل نماز یاکچھ نمازوں میں رفع یدین کرلیناچاہئے لیکن اس کا وہ فتوی نہیں دیتے بعض لوگ اس کو بھی ڈبل اسٹینڈرڈ سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جب وہ خود اس کے قائل ہیں تولوگوں کو بتاتے کیوں نہیں لیکن یہ بھی جہل کی بات ہے۔کسی چیز کا قائل ہونا الگ شے ہے اورکسی چیز کا فتوی دیناالگ بات ہے۔ فتوی میں عوام الناس کی طبعیت حالت اوران کے افتاد طبع کوملحوظ رکھاجاتاہے۔اوریہ بھی دیکھاجاتاہے کہ کہیں اس کی وجہ سے بڑامفسدہ نہ واقع ہو۔

وَسَمِعْتُ شَيْخَنَا أَبَا عُمَرَ أَحْمَدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ هَاشِمٍ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ شَيْخُنَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّأِ وَكَانَ أَفْضَلُ مَنْ رَأَيْتُ وَأَفْقَهُهُمْ وَأصَحُّهُمْ عِلْمًا وَدِينًا فَقَلَتْ لَهُ فَلِمَ لَا تَرْفَعُ أَنْتَ فَنَقْتَدِي بِكَ قَالَ لِي لَا أُخَالِفُ رِوَايَةَ ابْنِ الْقَاسِمِ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ لَدَيْنَا الْيَوْمَ عَلَيْهَا وَمُخَالَفَةُ الْجَمَاعَةِ فِيمَا قَدْ أُبِيحَ لَنَا ليس من شيم الأيمة
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ ابوعمر احمد بن عبدالملک بن ہاشم سے سناوہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے شیخ ابوابراہیم اسحاق بن ابراہیم حدیث ابن عمر کے مطابق رفع یدین کرتے تھے اورابوابراہیم ان تمام لوگوں میں سب سے بڑے فقیہہ ،صحیح دینداری اورعلم سے متصف تھے جن کو میں نے دیکھا میں نے ان سے پوچھاکہ پھر آپ اس کا فتوی کیوں نہیں دیتےہیں تاکہ ہم آپ کی اقتداء کریں۔توانہوں نے جواب دیامیں ابن قاسم کی روایت کی مخالفت نہیں کرسکتا(یہ موالک کی مشہور روایت ہے جس میں حضرت امام مالک سے تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کی تضعیف کی گئی ہے)اس لئے کہ آج جماعت ابن القاسم کی اسی رواپت عمل پیراہے اورجائز معاملات میں جماعت کی مخالفت کرنا ائمہ کے اخلاق واوصاف میں سے نہیں ہے۔
اللھم ارناالحق حقاوارزقنااتباعہ وارناالباطل باطلاوارزقنااجتنابہ
والسلام
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم

احناف کا ہر مضمون یا مراسلہ حقیقت میں صرف اپنے امام کی تعریف و توصیف پر ہی مشتمل ہوتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس مراسلہ میں الله کے نبی کی کسی سنّت کی نفی یا اثبات میں بات کی جا رہی ہو - یہی کچھ جمشید صاحب کی تحریر سے محسوس ہو رہا ہے -مجھے تو ڈر ہے کہ کسی دن احناف بھی اہل تشع کی طرح یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ اصل میں وحی الہی امام ابو حنیفہ رحمللہ پر اتر نی تھی لیکن جبریل امین علیہ سلام غلطی سے محمّد صل الله علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے (نعوزباللہ )-

احناف کا حال یہ ہے کہ صرف اپنے امام کی علم و فہم کو ثابت کرنے کے لئے لوگوں کو اس بحث میں الجھایا ہویا ہے کہ رفع یدین سنّت ہے فرض ہے یا واجب ہے یعنی کسی نہ کسی طرح اس سنّت سے جان چھڑ ا ئی جا سکے -اور اپنے امام کو سچا ثابت کیا جا سکے -جب کہ اگر الله کے نبی کی یہ سنّت اتنی ہی غیر ضروری ہے تو ان سے پوچھا جائے کہ پھر آپ نماز کے شر و ع میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ سنّت سمجھ کر کرتے ہیں واجب سجھ کر کرتے ہیں یا فرض سمجھ کر کرتے ہیں -؟؟؟ اور احناف ذرا یہ بھی بتا دیں کہ نماز میں درورد پڑھنا سنّت ہے فرض ہے یا واجب ہے ؟؟ لیکن شاید یہ درود بھی اسی لئے پڑھتے ہیں کہ ان کے امام کے نزدیک یہ واجب ہے -ورنہ دوسری صورت میں شاید نماز میں درود پڑھانا بھی اپنے اپر لازم نہ سمجھتے -یا کچھ حنفی حضرات کی طر ح کبھی پڑھ لیتے اور کبھی چھوڑ دیتے- جیسے اکثر میانہ رو احناف رفع یدین کے معاملے میں بھی کرتے ہیں -

ان عقلمند و ں سے کوئی پوچھے کہ غیر مقلدین پر تو آپ اتنا سب و شتم کرتے ہیں کہ یہ رفع یدین کے معاملے میں اتنے متشدد ہیں لیکن دوسری طرف خود کا حال یہ کہ عبدللہ بن مسعود کی روایت کو ہی حرف آخر سمجھا ہوا ہے -اور اس روایت پر سر دھڑ کی بازی لگائی ہوئی ہےکہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کی -بعد میں سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کی -لیکن یہ لوگ اب تک یہ ثابت نہیں کر سکے کے کیا یہ حدیث تمام نمازوں میں صرف پہلی رفع یدین پر دلالت کرتی ہے -اگر اس حکم میں تمام نمازیں شامل ہیں تو وتر کی نماز میں دوران نماز تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے رفع یدین کا جواز یہ لوگ کہاں سے فراہم کریں گے -کیا حنفی مذہب میں اس کی اجازت ہے ؟؟؟

آخر میں میں یہی کہوں گا کہ تقلید وہ ناسور ہے جو ہمیشہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی سنّت چھوڑنے کا موجب بنتا ہے

الله ہم سب کو اس تقلید کے ناسور سے اور اس کی گمراہی سے محفوظ رکھے (آ مین )
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
امام ابوحنیفہ نے یہ بات کس کے متعلق کہی تھی؟​

امام ابوحنیفہ نے رفع یدین کو پرواز سے تعبیر کیا اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال صرف اتناتشنہ رہ جاتاہے کہ انہوں نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیایاپھر کسی تیسرے شخص کو رفع یدین کرتے دیکھ کر اس کو پرواز سے تعبیر کیا۔

اگرکسی تیسرے شخص کی بات ہے تو یہ واضح ہے کہ


اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے اشعار کو مثلہ کہاہے اس کی توجیہہ امام طحاوی نے یہ کی ہے کہ امام ابوحنیفہ نے نفس اشعار کو مثلہ کرنا نہیں کہاہے کیونکہ وہ توسنت ہے لیکن لوگوں نے اس میں جوبے اعتدالیاں شروع کردی تھیں اس کو انہوں نے مثلہ سے تعبیر کیاہے۔

یہی توجیہہ ہم یہاں بھی کرناچاہیں گے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان نے مذکورہ شخص کو جب رفع یدین میں بے اعتدالی کرتے دیکھاتواس کو طیر یعنی پرواز سے تعبیر کیا۔عبداللہ بن المبارک نے اس پر کہاکہ یہ پرواز تواس نے تکبیر تحریمہ سے ہی شروع کررکھاہے۔ اگراس تناظر میں اس کو دیکھاجائے تونہ کسی طنز کی بات ہے نہ تعریض کی بات ہے اورنہ ہی کسی چھینٹاکشی کی بات ہے بلکہ عبداللہ بن المبارک کی یہ بات امام ابوحنیفہ کی محض تائیدوتوثیق ہی ثابت ہوتی ہے۔

اوراگربات یہ ہو کہ امام ابوحنیفہ نے عبداللہ بن المبارک کو رفع یدین کرتے دیکھ کر یہ بات کہی تھی جیساکہ کچھ روایات میں مذکور ہے توبھی اس سلسلے میں یہ واضح رہے عبداللہ بن المبارک ابتداء میں رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔رفع یدین کرنے کا داعیہ پیداہوتاتھا لیکن اس خوف سے کہ سفیان ثوری منع کریں گے وہ رک جاتے تھے لیکن بعد میں یہ سوچ کر کہ جس چیز کو میں حق سمجھتاہوں اس کو کیوں نہ کروں۔ انہوں نے رفع یدین کرناشروع کردیا۔ اورسفیان ثوری نے ان کو منع نہیں کیا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ رفع یدین کرنا نہ کرنا افضیلت کی بات ہے ۔ کفر واسلام کامعرکہ تونہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ اسی رفع یدین کے ابتداء کے بعد انہوں نے پہلی مرتبہ امام ابوحنیفہ کے سامنے نماز پڑھ کررفع یدین کیاہواورجب انسان کسی چیز کوابتداء میں کرتاہے تواس کی حدود کو ملحوظ نہیں رکھ پاتا۔اوراکثروبیشتر اس سے بے اعتدالی اس سے ہوجاتی ہے۔

کبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں کو جتنااورجیسااٹھاناچاہئے اس سے کم یازیادہ اٹھاتاہے اورکبھی بے اعتدالی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ رفع یدین جتنے اورجیسے مقامات پر کرنے چاہئے اس سے بھی زیادہ مقامات پر رفع یدین کرناشروع کردے۔

اس مقام پر کون سی بات ہوئی تھی ۔جہاں تک مجھے لگتاہے کہ انہوں نے تکبیر تحریمہ رکوع میں جاتے ہوئے اوررکوع سے اٹھتے ہوئے کے علاوہ دیگر تکبرات کے مواقع پر بھی رفع یدین شروع کیاتھاجیساکہ اس کا اشارہ امام ابوحنیفہ کے جملہ
ترفع یدیک فی کل تکبیرۃ کانک ترید ان تطیر(کتاب السنۃ)
تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ(جزء رفع الیدین)
مَا بَالُهُ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ (تاویل مختلف الحدیث)

سے بھی ملتاہے کہ انہوں نے مطلقارفع یدین نہیں بلکہ رفع یدین کی کثرت کی جانب بات کی ہے کہ ہرتکبیر کے ساتھ رفع کیاجارہاہے اورہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین ہورہاہے اسی کو انہوں نے شاید طیر سے تعبیر کیاہے۔ ہراٹھتے بیٹھے وقت رفع یدین کرنا بعض محدثین کا مسلک بھی رہاہے۔ایسالگتاہے کہ ابتداء میں عبداللہ بن المبارک نے ہرمقام پر رفع یدین شروع کیاتھاجس کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کیا۔

واضح رہے کہ رفع یدین میں بے اعتدالی اورمستحقہ مقام کے علاوہ رفع یدین کو حدیث میں اذناب خیل شموس سے بھی تعبیر کیاگیاہے یعنی سرکش گھوڑوں کی دم سے۔ ابن عبدالبر اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
وَقَدِ احْتَجَّ بَعْضُ الْمُتَأَخِّرِينَ لِلْكُوفِيِّينَ وَمَنْ ذَهَبَ مَذْهَبَهُمْ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ بِمَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بن عُلَيَّةَ الْقَاضِي بِدِمَشْقَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَسِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ الضَّرِيرُ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم مالي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيَكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلِ شَمْسٍ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ وَهَذَا لَا حُجَّةَ فِيهِ لِأَنَّ الَّذِي نَهَاهُمْ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ الَّذِي كَانَ يَفْعَلُهُ لِأَنَّهُ مُحَالٌ أَنْ يَنْهَاهُمْ عَمَّا سَنَّ لَهُمْ وَإِنَّمَا رَأَى أَقْوَامًا يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ وَيَرْفَعُونَهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِ الرَّفْعِ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ وَكَانَ فِي الْعَرَبِ الْقَادِمِينَ وَالْأَعْرَابِ مَنْ لَا يَعْرِفُ حُدُودَ دِينِهِ فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا وَبَعَثَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلِّمًا فَلَمَّا رَآهُمْ يَعْبَثُونَ بِأَيْدِيهِمْ فِي الصَّلَاةِ نَهَاهُمْ وَأَمَرَهُمْ بِالسُّكُونِ فِيهَا
(التمہید 9/222)

لہذا اگرامام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ والرضوان نے رفع یدین میں بے اعتدالی کو دیکھ کر اس کو طیر سے تعبیر کیاتویہ بھی ایک لحاظ سے حدیث کی ہی موافقت ہوئی ہے۔جیساکہ حدیث میں رفع یدین میں بے اعتدالی کو" سرکش گھوڑوں کی دموں" سے تعبیر کیاگیاہے۔

یہ بھی واضح رہناچاہئے کہ امام ابوحنیفہ نے جس چیز کو طیر سے تعبیر کیاہے وہ نفس رفع یدین نہیں بلکہ کثرت رفع یدین ہے۔ جس کو بیشتر محدثین حضرات منسوخ یاحدیث ابن عمر سے مرجوح مانتے ہیں لہذا اگرمنسوخ چیز پر عمل کرنے کو امام ابوحنیفہ نے طیر سے تعبیر کردیاتواس میں شور مچانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں تک توہماری بحث اس بات پر تھی کہ اس روایت کا کیامطلب نکل سکتاہے اور امام ابوحنیفہ کے قول کا کیامحمل اورپہلو ہے۔ لیکن اگرعبداللہ بن المبارک سے ثابت اقوال کے تناظر میں اس روایت کو دیکھاجائے تواس کی صداقت مشتبہ نظرآنے لگتی ہے۔

أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسين بن الفضل القطان، قَالَ: أَخْبَرَنَا عثمان بن أَحْمَد الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم أَبُو حمزة المروزي، قال: سمعت ابن أعين أبا الوزير المروزي، قال: قال عبد الله، يعني: ابن المبارك إذا اجتمع سفيان، وأبو حنيفة فمن يقوم لهما على فتيا
)تاریخ بغداد 15/465،اسنادہ صحیح



أَخْبَرَنَا الحسين بن علي بن مُحَمَّد المعدل، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن الرازي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن الحسين الزعفراني، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن زهير، قَالَ: حَدَّثَنَا الوليد بن شجاع، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن الحسن بن شقيق، قال: كان عبد الله بن المبارك، يقول: إذا اجتمع هذان على شيء فذاك قوي، يعني: الثوري، وأبا حنيفة
(تاریخ بغداد15/470،اسنادہ صحیح رجالہ ثقات



اس کے علاوہ عبداللہ بن المبارک سے صحیح سند سے یہ قول بھی ثابت ہے کہ وہ امام ابوحنیفہ کو افقہ الناس اورفقہ میں بے نظیر وبے مثال مانتے تھے اوررفع یدین کرنا نہ کرنا ایک فقہی جزئی فروعی مسئلہ ہے ۔
أَخْبَرَنَا الخلال، قَالَ: أَخْبَرَنَا الحريري أن النخعي، حدثهم قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن علي بن عفان، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو كريب، قال: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول.
وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن أَحْمَد بن يَعْقُوب، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن نعيم الضبي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سعيد مُحَمَّد بن الفضل المذكر، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عبد الله مُحَمَّد بن سعيد المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حمزة يَعْلَى بن حمزة، قال: سمعت أبا وهب مُحَمَّد بن مزاحم، يقول: سمعت عبد الله بن المبارك، يقول: رأيت أعبد الناس، ورأيت أورع الناس، ورأيت أعلم الناس، ورأيت أفقه الناس، فأما أعبد الناس: فعبد العزيز بن أبي رواد، وأما أورع الناس: فالفضيل بن عياض، وأما أعلم الناس: فسفيان الثوري، وأما أفقه الناس: فأبو حنيفة، ثم قال: ما رأيت في الفقه مثله

(تاریخ بغداد15/459،اسنادہ صحیح)


ان تمام اقوال کی روشنی میں دیکھاجائے توعبداللہ بن المبارک کا یہ جواب دیناہی سرے سے مشتبہ نظرآتاہے۔کیونکہ یہ روایات یہ ثابت کرتی ہیں کہ عبداللہ بن المبارک اس مسئلہ کو قوی مانتے ہیں جس پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہوں ۔رفع یدین نہ کرنے پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہیں۔ عبداللہ بن المبارک اس مسئلہ کے خلاف فتوی دینامشکل مانتے ہیں جس پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ علیھماالرحمۃ والرضوان متفق ہوں اوررفع یدین نہ کرنے پر سفیان ثوری اورابوحنیفہ متفق ہیں۔ عبداللہ بن المبارک سفیان ثوری کو اعلم الناس اور امام ابوحنیفہ کو افقہ الناس مانتے ہیں اوریہ مسئلہ فقہی ہے اوریہ دونوں حضرات رفع یدین نہ کرنے پر متفق ہیں۔

اوراگر طیر والی روایات کو ثابت ماناجائے تواس کا وہی مطلب ہوگا جس کا ماقبل میں ذکر کیاگیاہے۔

ایک عام مغالطہ
بعض حضرات کو کم علمی سے یہ مغالطہ لاحق ہوگیاہے کہ رفع یدین کرنا کرنا سنت کو زندہ کرناہے۔لہذ اوہ جگہ اورہرموقع پر رفع یدین کرنے کے ساتھ نہ کرنے والوں کو ترک سنت کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ یہ چیز ان کے جہل کی علامت ہے۔ سنت زندہ کرنا وہاں پر ہوتاہے جہاں پر کوئی سنت ختم ہوگئی ہو لیکن کسی مسئلہ اگرحضور سے دوطرح کےافعال منقول ہیں اوراس میں سے ایک پر عمل کیاجارہاہے تو دوسرے پر عمل کرنا سنت کو زندہ کرنا نہیں ہوگا بلکہ جو ایک پر عمل کررہاہے وہ بھی سنت پر ہی عمل ہے۔ اورسنت کو زندہ کرنے کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں سنت کے مقابلے میں کوئی بدعت رائج ہوگئی ہو تو وہاں پر سنت کو زندہ کرنے کا بڑااجر ہے لیکن جب ایک سنت کے مقام پر دوسری سنت پر عمل کیاجارہاہوتواس مسئلہ کو سنت زندہ کرنے کا عنوان دینا اور مخالفین پر ترک سنت کا طعنہ دینا درست نہیں ہے۔


بعض حنفی علماء رفع یدین کے تعلق سے یہ کہتے رہے ہیں کہ نفل نماز یاکچھ نمازوں میں رفع یدین کرلیناچاہئے لیکن اس کا وہ فتوی نہیں دیتے بعض لوگ اس کو بھی ڈبل اسٹینڈرڈ سمجھتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جب وہ خود اس کے قائل ہیں تولوگوں کو بتاتے کیوں نہیں لیکن یہ بھی جہل کی بات ہے۔کسی چیز کا قائل ہونا الگ شے ہے اورکسی چیز کا فتوی دیناالگ بات ہے۔ فتوی میں عوام الناس کی طبعیت حالت اوران کے افتاد طبع کوملحوظ رکھاجاتاہے۔اوریہ بھی دیکھاجاتاہے کہ کہیں اس کی وجہ سے بڑامفسدہ نہ واقع ہو۔

وَسَمِعْتُ شَيْخَنَا أَبَا عُمَرَ أَحْمَدَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ هَاشِمٍ رَحِمَهُ اللَّهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ شَيْخُنَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ كُلَّمَا خَفَضَ وَرَفَعَ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّأِ وَكَانَ أَفْضَلُ مَنْ رَأَيْتُ وَأَفْقَهُهُمْ وَأصَحُّهُمْ عِلْمًا وَدِينًا فَقَلَتْ لَهُ فَلِمَ لَا تَرْفَعُ أَنْتَ فَنَقْتَدِي بِكَ قَالَ لِي لَا أُخَالِفُ رِوَايَةَ ابْنِ الْقَاسِمِ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ لَدَيْنَا الْيَوْمَ عَلَيْهَا وَمُخَالَفَةُ الْجَمَاعَةِ فِيمَا قَدْ أُبِيحَ لَنَا ليس من شيم الأيمة

اللھم ارناالحق حقاوارزقنااتباعہ وارناالباطل باطلاوارزقنااجتنابہ
والسلام


 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
مقلدین ابو حنیفہ کبھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، لیکن آج تک میں نے جمشید بھائی کو یا کسی بھی مقلد کو امام ابو حنیفہ کی ایک بھی غلطی کی نشادہی کراتے نہیں دیکھا۔ بلکہ ان کی واضح ترین غلطیوں کا بھی قرآن و حدیث کی طرح دفاع کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے آپ کو مقلد یعنی جاہل اور بقول تقی صاحب "بندر" ماننے کے باوجود اپنے سے کئی اونچے درجے والے مجتہدین کو ہی تنقید کا نشانہ بنانے کی جرات کرتے ہیں۔ بھلا آپ ہی کے بقول ایک مجتہد کے سامنے ایک جاہل کی کیا حیثیت جو اس کی بات پر بھی غور کیا جائے۔
جمشید بھائی، جس طرح آپ نے امام اوزاعی، حمیدی، اور بخاری وغیرہ کی بلادلیل غلطیوں کی نشاندہی فرمائی ہے اسی طرح آپ سے گذارش ہے کہ امام ابو حنیفہ کی بھی کم از کم دو چار بلادلیل غلطیاں بیان فرما دیں؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اوزاعی تواس مسئلہ میں اتنے گرم ہوگئے کہ سفیان ثوری کو ملاعنہ یعنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے تک کی دعوت دے ڈالی ۔
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ رُمَيْحٍ ثنا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَرْوَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّبَرِيُّ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: اجْتَمَعَ الْأَوْزَاعِيُّ وَالثَّوْرِيُّ بِمِنًى، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لِلثَّوْرِيِّ " لِمَ لَا تَرْفَعُ يَدَيْكَ فِي خَفْضِ الرُّكُوعِ وَرَفْعِهِ؟ " فَقَالَ الثَّوْرِيُّ ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ " أَرْوِي لَكَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، [ص:118] عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُعَارِضُنِي بِيَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَيَزِيدُ رَجُلٌ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ وَحَدِيثُهُ مُخَالِفٌ لِلسُّنَّةِ " قَالَ: فَاحْمَارَّ وَجْهُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، فَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " كَأَنَّكَ كَرِهْتَ مَا قُلْتُ " قَالَ الثَّوْرِيُّ: نَعَمْ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: " قُمْ بِنَا إِلَى الْمَقَامِ نَلْتَعِنُ أَيُّنَا عَلَى الْحَقِّ " قَالَ: فَتَبَسَّمَ الثَّوْرِيُّ لَمَّا رَأَى الْأَوْزَاعِيَّ قَدِ احْتَدَّ "
سنن بیہقی 2/117
کسی محدث کو ملعون کرنے سے پہلے تھوڑی تحقیق ہی کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ کیا خوب فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، جو اس موقع پر بالکل فٹ ہوتا ہے:
قالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‏"‏ ‏.‏
آپ جیسے پڑھے لکھے شخص کو ایسی گھٹیا اور من گھڑت سند سے حجت پکڑتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے۔ اگر یہ روایت ابو حنیفہ کے بارے میں ہوتی تو ابھی تک آپ بھوال مچا چکے ہوتے اور سند کو بھی کب کا من گھڑت قرار دے چکے ہوتے لیکن کیا کریں جس سند میں ابو حنیفہ یا اس کی مخالفت نہیں ہر وہ سند درجہ صحیح تک پہنچتی ہے!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اس موضوع پر مشارکت کرنے والوں کاشکریہ
محمد علی جواد صاحب کامضمون جواب کے قابل ہی نہیں ہے
کیونکہ انہوں نے اپنے مراسلے میں ایسی کوئی بات لکھی ہی نہیں جس کا موضوع سے تعلق ہو اورجس کا جواب دیاجاسکے۔

لولی آل ٹائم نےحدیث سمرہ کی تخریج کردی شکریہ لیکن اس سے میرے موقف پر کیااثر پڑتاہے وہ سمجھ میں نہیں آیا

رضاصاحب نے صرف ایک کام کی بات یہ کی ہے کہ بیہقی کی سند پر کلام کیاہے۔
لیکن اسی کے ساتھ میرے جملے سے حسب عادت غلط مطلب کشید کرلیاہے۔
کسی محدث کو ملعون کرنے سے پہلے تھوڑی تحقیق ہی کرلیتے تو کتنا اچھا ہوتا
میں نے کس محدث کو اپنے کس جملہ سے ملعون قراردیاہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اوزاعی نے سفیان ثوری کوملاعنہ کاچیلنج کیاسفیان ثوری یہ سن کر مسکراکر رہ گئے۔ اس میں یہ کہاں مذکور ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے پر لعنت کی بھی؟
دورحاضر میں کچھ لوگوں نے عجیب وغریب طرز اوررویہ اختیار کیاہے۔وہ ہرمسئلہ میں اورہرکام میں ایک ہی طریقہ کارپر عمل کرتے ہیں جب کہ علماء وائمہ ماضین کاطریقہ کار اس کے برخلاف رہاہے۔
امام بخاری نے الجامع الصحیح لکھی تواس میں طرز کچھ اوررکھاہے الادب المفرد لکھی تواس میں طرز کچھ اورکھا۔
محدثین جو احتیاط احکام ومسائل کی احادیث میں کرتے ہیں وہ فضائل کے باب میں روانہیں رکھتے
اورجواحتیاط فضائل کے احادیث کے باب میں روارکھتے ہیں وہ واقعات وقصص میں ملحوظ نہیں رکھتے
اسی طرح کسی کے معایب کے بیان کیلئے تو قوی سند چاہئے لیکن کسی شخصیت کے فضائل کے باب میں بھی اتنی ہی مضبوط حدیث چاہئےیہ قابل تسلیم نہیں ہے۔کسی سے حسن ظن پر چاہے بغیر دلیل ہو یاغلط ہو اللہ پکڑ نہیں فرمائیں گے لیکن کسی سے بدظنی کیلئے دلیل چاہئے اورقوی عذر چاہئے۔

حافظ ذہبی کانقد رجال میں جومقام ہے اورجتنی باریک بینی سے وہ احادیث پر حکم لگاتے ہیں وہ واضح ہے اس کے باوجود وہ مناقب اورفضائل میں گڑے پڑے راویوں کی بات بھی نقل کرتے ہیں بغیر کسی نقد اورجرح کے۔

حافظ ابن حجر نے اصابہ میں ضعیف روایت سےبھی صحابیت کا اثبات کیاہے لیکن کیااس کا مطلب یہ نکالاجائے کہ ان کے نزدیک صحابہ کی تنقیص میں وارد ضعیف احادیث بھی قابل قبول ہوں گی۔

یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی نے یہ واقعہ نقل کیاباوجود اس کے کہ اس میں ضعیف ترراوی موجود ہیں اوربعض پر کذب کی تہمت بھی لگی ہے لیکن اس واقعہ پر انہوں نے کوئی کلام نہیں کیا۔ کیونکہ اس سے صرف ایک واقعہ کا اثبات ہورہاہے۔اورنہ ہی یہ سفیان ثوری اور اوزاعی کے مثالب کے باب میں ہے۔

پھرآپ نے جو الزام مجھ پر لگایاہے وہ الزام بذات خود امام بیہقی پر بھی لگے گا۔کیونکہ انہوں نے بھی یہ واقعہ نقل کیااوراس کی سند پر کوئی کلام نہیں کیا
اگرکہیں کہ سند ذکر کرنے کی وجہ سے وہ اپنے عہدے سے بری ہوگئے
توراقم الحروف بھی کہے گاکہ ماخذ کا حوالہ دے کر میں اپنی ذمہ داری سے بری ہوگیا
آپ کہیں گے کہ آپ نے اس کو اپنی بات کیلئے دلیل بنایاہے
توبعینہ یہی بات امام بیہقی نے بھی کی ہے
کہ انہوں نے اس واقعہ کو اوزاعی کے مقابلہ میں سفیان ثوری کے رفع یدین کے مسئلہ پرپیچھے ہٹ جانے کے طورپر ذکر کیاہے۔
توجوجواب آپ کا امام بیہقی کی جانب سے ہوگا وہی جواب میرابھی ہوگا
فماکان جوابکم فھوجوابناایضا

اورجہاں تک آپ کی بات امام ابوحنیفہ کی غلطیوں کی ہے توہم بھی اسی طرز پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ابھی تک اپنے کسی مضمون میں امام بخاری کوئی غلطی بیان نہیں کی۔ ابن تیمیہ کی کسی غلطی کی جانب اشارہ نہیں کیا۔ابن قیم کے مسائل پر کوئی گرفت نہیں کی۔میاں نذیر حسین صاحب کی کسی غلطی کو واضح نہیں کیا۔
ہمیں بھی ان کے دوچار مسائل جن پر گرفت ہو لکھ کر بھیج دیں۔
راقم الحروف نے بہت پہلے مجلس علماء میں ایک مراسلہ لکھاتھاجس میں کہاگیاتھاکہ ابن قیم نے ابن تیمیہ کے جن مسائل پر گرفت کی ہے نقد کیاہے ان پر کوئی صاحب روشنی ڈالیں۔
روشنی توکسی نے نہیں ڈالی لیکن کفایت اللہ صاحب ملاعلی قاری کا بیان لے کر آگئے کہ ملاعلی قاری نے ان کو کباراولیاء اللہ تسلیم کیاہے۔

بات وہ کیجئے جس کا موضوع سے تعلق ہو اورجوعلمی طرزعمل اورصنیع سے ربط رکھتاہو۔
ورنہ دوسرے بھی منہ میں زبان اورہاتھ میں قلم اورگھر میں کمپیوٹر ،کی بورڈاورنیٹ رکھتے ہیں
 
Top