- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
پس منظر:
عیسی علیہ السلام خود بھی پیدائشی طور پر بنی اسرائیل کے تھے جب تشریف لائے تو اس وقت بنی اسرائیل رومیوں کی بالواسطہ غلامی کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی انتہائی پستی میں گرے ہوئے تھے پس آپ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم ان معجزات کے بل بوتے پر ہی غلامی سے نجات حاصل کر لیں گے اور اپنے کرتوتوں کو درست نہیں کرنا پڑے گا جس طرح آجکل بھی انکے نقش قدم پر چلنے والے شارٹ کٹس کے چکر میں رہتے ہیں کہ محرم میں رو پیٹ لیا اور باقی سب کچھ معاف کروا لیا
لیکن عیسی علیہ السلام نے انکو کہا کہ پہلے اپنے کرتوت درست کرو چنانچہ انکے درویشوں نے بیت المقدس میں جو سود کی دکانیں کھول رکھی تھیں انکو الٹ پلٹ دیا اور بھی معاملات میں انکو درستگی لانے کا کہا جس سے انکے بڑے درویش انکے خلاف ہو گئے اور پہلے جو انکو نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ انکو سولی چڑھوانے کے درپے ہو گئے چنانچہ بادشاہ کے پاس خود اپنے بنی اسرائیل کے ایک نبی کی شکایت لگانے گئے کہ یہ ہمارے اندر بھی فساد ڈلواتا ہے اور حکومت کے ٹیکس کے خلاف بھی لوگوں کو ورغلاتا ہے پس اسکو پھانسی دو- آج بھی اہل حدیث کو گستاخ کہ کر پھانسی دلوانے کی باتیں کرتے ہیں
لیکن جو مخلص لوگ تھے وہ ان درویشوں کی باتوں میں نہ آئے اور ان کا دین پھیلتا چلا گیا حتی کہ پھانسی کی کوشش کے بعد انکو اٹھا لینے کے بعد بھی وہ کامیاب نہ ہو سکے اور دین مزید پھیلتا گیا اسکے بعد بھی انکے پیروکاروں پر جگہ جگہ ظلم کیا گیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ظلم بھی کوئی دوسرا نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے بنی اسرائیل ہی کرتے تھی جیسے شاعر کہتا ہے
رفیقوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کہ تھانوں میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
پس یہ دوسرے بادشاہوں کو جا جا کر انکے خلاف ابھارتے تھے انہیں میں سے ایک سینٹ پال تھا جس نے سنا کہ غالبا دمشق میں عیسی علیہ السلام کے پیروکار پھیل رہے ہیں تو اس طرف روانہ ہوا کہ اسکے بادشاہ کو شکایت لگا کر انکو پٹواؤں لیکن راستے میں اسنے سوچا کہ اتنے عرصے سے ہم کوشش کر رہے ہیں مگر پھر بھی یہ بڑھ رہے ہیں پس کیوں نہ بھیس بدلا جائے کیونکہ یہ کم علم اور مخلص بندے ہیں انکی محنت اور قربانیوں کو روکنا ممکن نہیں پس اگر انکے سامنے منزل تبدیل کر دی جائے تو انکی قربانی کو روکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ قربانی تو شیطان کے راستے میں ہو گی اللہ کے راستے میں تو نہیں ہو گی
اسی کے تحت اسنے عیسائی ہونے کا اعلان کر دیا اور پھر آگے انکو اس راستے کی طرف لگا دیا کہ وہ آج تک گمراہی میں گرتے چلے جا رہے ہیں
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور اور ابن سباء
بالکل اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہودیوں نے جب دیکھا کہ اسلام کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے تو ان میں سے ہی ایک سینٹ پال یعنی عبداللہ بن سباء اٹھ کھڑا ہوا اور اسنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنے پیش رو کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسنے سوچا کہ مسلمان پر فتح پانے کے لئے انکو انکی منزل سے دور کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ مخلص ہیں اور قربانی سے دریغ نہیں کریں گے پس جب انکی منزل کو گڈ مڈ کر کے شیطان کی من پسند منزل انکے سامنے رکھ دی جائے گی تو پھر انکو قربانی دینے سے روکنے کی محنت نہیں کرنی پڑے گی
ابن سباء کا طریقہ کار
قرآن کہتا ہے کہ
یعرفونھم کما یعرفون ابناءھم
یعنی یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو
پس ابن سباء یہودی بھی یہ جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ہے پس وہ یہ بھی جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما گئے ہیں کہ
ترکت فیکم امرین ن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
یعنی تم سے تمھاری منزل کبھی نہیں چھینی جا سکتی جب تک تم قرآن اور حدیث سے چمٹے رہو گے (مگر ہم کو اس پر یقین نہیں آتا)
پس اسنے اسی بات کو بنیاد بنایا کہ کسی طرح ان سے قرآن و حدیث کو چھین لیا جائے اسکے لئے اسنے دو فرقوں کی پلانٹیشن کی
1-شیعیت
پہلے پہل اسنے لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو اہم جانتے ہوئے اسکا سہارا لے کر لوگوں کو صحابہ سے متنفر کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے انکو خلافت نہ دی پھر اسی نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی تحریف کا عقیدہ بھی گھڑنا پڑا کیونکہ قرآن تو واضح صحابہ کی عظمت بتاتا تھا اور علی رضی اللہ کی ذات میں کوئی غلو والی بات نہیں بتاتا تھا پس اس نے کہا کہ صحابہ سارے منافق ہو گئے نعوذ باللہ اور ساتھ ہی قرآن بھی بدل دیا گیا
اسکا اثر یہ ہوا کہ جب قرآن بھی قابل اعتماد نہ رہا اور صحابہ کے منافق ہونے کی وجہ سے حدیث بھی قابل اعتماد نہ رہی کیونکہ ساری احادیث تو صحابہ نے ہی بیان کرنی ہیں پس آسانی سے قرآن اور حدیث دونوں سے جان چھوٹ گئی پس وہ لوگوں کو اپنی منزل سے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا
2-باطنی صوفیت
چونکہ صحابہ کی منافقت اور قرآن کی تحریف کا نظریہ بہت مشکل سے ہضم ہونے والا تھا پس اکثریت پر اثر نہ ہوا تو اسنے باقی اکثریت کو کنٹرول کرنے اور گمراہ کرنے کے لئے ایک نیا طریقہ باطنی صوفیت کا استعمال کیا اسکے لئے بھی علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو استعمال کیا گیا علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں خدا کے حلول کا عقیدہ گھڑا گیا چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اسکو پکڑنے کے لئے بھیجا مگر یہ بھاگ گیا اسکے کچھ لوگوں کو پکڑ کر آگ میں جلا دیا گیا جس کا بخاری میں ذکر ملتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو آگ کا عذاب نہ دیتا کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے پھر فتح الباری میں اسکی تفصیل بتائی کہ وہ قوم زط کے ستر بندے تھے واللہ اعلم
اسی میں ایک یہ عقیدہ میں لایا گیا کہ شریعت کے ساتھ ساتھ ایک باطنی علم بھی ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلتا ہے اور وہ کبھی ڈائریکٹ اللہ سے بھی لیا جاتا ہے اس باطنی علم کے آگے ظاہری شریعت کا علم کچھ حیثیت نہیں رکھتا پس قرآن و حدیث کی حیثیت کمزور کر دی گئی
باقی ہر ایک کی تفصیل آئندہ ان شاءاللہ
عیسی علیہ السلام خود بھی پیدائشی طور پر بنی اسرائیل کے تھے جب تشریف لائے تو اس وقت بنی اسرائیل رومیوں کی بالواسطہ غلامی کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی انتہائی پستی میں گرے ہوئے تھے پس آپ علیہ السلام کے معجزات کو دیکھ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم ان معجزات کے بل بوتے پر ہی غلامی سے نجات حاصل کر لیں گے اور اپنے کرتوتوں کو درست نہیں کرنا پڑے گا جس طرح آجکل بھی انکے نقش قدم پر چلنے والے شارٹ کٹس کے چکر میں رہتے ہیں کہ محرم میں رو پیٹ لیا اور باقی سب کچھ معاف کروا لیا
لیکن عیسی علیہ السلام نے انکو کہا کہ پہلے اپنے کرتوت درست کرو چنانچہ انکے درویشوں نے بیت المقدس میں جو سود کی دکانیں کھول رکھی تھیں انکو الٹ پلٹ دیا اور بھی معاملات میں انکو درستگی لانے کا کہا جس سے انکے بڑے درویش انکے خلاف ہو گئے اور پہلے جو انکو نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ انکو سولی چڑھوانے کے درپے ہو گئے چنانچہ بادشاہ کے پاس خود اپنے بنی اسرائیل کے ایک نبی کی شکایت لگانے گئے کہ یہ ہمارے اندر بھی فساد ڈلواتا ہے اور حکومت کے ٹیکس کے خلاف بھی لوگوں کو ورغلاتا ہے پس اسکو پھانسی دو- آج بھی اہل حدیث کو گستاخ کہ کر پھانسی دلوانے کی باتیں کرتے ہیں
لیکن جو مخلص لوگ تھے وہ ان درویشوں کی باتوں میں نہ آئے اور ان کا دین پھیلتا چلا گیا حتی کہ پھانسی کی کوشش کے بعد انکو اٹھا لینے کے بعد بھی وہ کامیاب نہ ہو سکے اور دین مزید پھیلتا گیا اسکے بعد بھی انکے پیروکاروں پر جگہ جگہ ظلم کیا گیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ ظلم بھی کوئی دوسرا نہیں کرتا تھا بلکہ اپنے بنی اسرائیل ہی کرتے تھی جیسے شاعر کہتا ہے
رفیقوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کہ تھانوں میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
پس یہ دوسرے بادشاہوں کو جا جا کر انکے خلاف ابھارتے تھے انہیں میں سے ایک سینٹ پال تھا جس نے سنا کہ غالبا دمشق میں عیسی علیہ السلام کے پیروکار پھیل رہے ہیں تو اس طرف روانہ ہوا کہ اسکے بادشاہ کو شکایت لگا کر انکو پٹواؤں لیکن راستے میں اسنے سوچا کہ اتنے عرصے سے ہم کوشش کر رہے ہیں مگر پھر بھی یہ بڑھ رہے ہیں پس کیوں نہ بھیس بدلا جائے کیونکہ یہ کم علم اور مخلص بندے ہیں انکی محنت اور قربانیوں کو روکنا ممکن نہیں پس اگر انکے سامنے منزل تبدیل کر دی جائے تو انکی قربانی کو روکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ قربانی تو شیطان کے راستے میں ہو گی اللہ کے راستے میں تو نہیں ہو گی
اسی کے تحت اسنے عیسائی ہونے کا اعلان کر دیا اور پھر آگے انکو اس راستے کی طرف لگا دیا کہ وہ آج تک گمراہی میں گرتے چلے جا رہے ہیں
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور اور ابن سباء
بالکل اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہودیوں نے جب دیکھا کہ اسلام کو روکنے کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے تو ان میں سے ہی ایک سینٹ پال یعنی عبداللہ بن سباء اٹھ کھڑا ہوا اور اسنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنے پیش رو کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے اسنے سوچا کہ مسلمان پر فتح پانے کے لئے انکو انکی منزل سے دور کرنا لازمی ہے کیونکہ یہ مخلص ہیں اور قربانی سے دریغ نہیں کریں گے پس جب انکی منزل کو گڈ مڈ کر کے شیطان کی من پسند منزل انکے سامنے رکھ دی جائے گی تو پھر انکو قربانی دینے سے روکنے کی محنت نہیں کرنی پڑے گی
ابن سباء کا طریقہ کار
قرآن کہتا ہے کہ
یعرفونھم کما یعرفون ابناءھم
یعنی یہودی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو
پس ابن سباء یہودی بھی یہ جانتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ہے پس وہ یہ بھی جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما گئے ہیں کہ
ترکت فیکم امرین ن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
یعنی تم سے تمھاری منزل کبھی نہیں چھینی جا سکتی جب تک تم قرآن اور حدیث سے چمٹے رہو گے (مگر ہم کو اس پر یقین نہیں آتا)
پس اسنے اسی بات کو بنیاد بنایا کہ کسی طرح ان سے قرآن و حدیث کو چھین لیا جائے اسکے لئے اسنے دو فرقوں کی پلانٹیشن کی
1-شیعیت
پہلے پہل اسنے لوگوں میں علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو اہم جانتے ہوئے اسکا سہارا لے کر لوگوں کو صحابہ سے متنفر کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے انکو خلافت نہ دی پھر اسی نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کی تحریف کا عقیدہ بھی گھڑنا پڑا کیونکہ قرآن تو واضح صحابہ کی عظمت بتاتا تھا اور علی رضی اللہ کی ذات میں کوئی غلو والی بات نہیں بتاتا تھا پس اس نے کہا کہ صحابہ سارے منافق ہو گئے نعوذ باللہ اور ساتھ ہی قرآن بھی بدل دیا گیا
اسکا اثر یہ ہوا کہ جب قرآن بھی قابل اعتماد نہ رہا اور صحابہ کے منافق ہونے کی وجہ سے حدیث بھی قابل اعتماد نہ رہی کیونکہ ساری احادیث تو صحابہ نے ہی بیان کرنی ہیں پس آسانی سے قرآن اور حدیث دونوں سے جان چھوٹ گئی پس وہ لوگوں کو اپنی منزل سے دور کرنے میں کامیاب ہو گیا
2-باطنی صوفیت
چونکہ صحابہ کی منافقت اور قرآن کی تحریف کا نظریہ بہت مشکل سے ہضم ہونے والا تھا پس اکثریت پر اثر نہ ہوا تو اسنے باقی اکثریت کو کنٹرول کرنے اور گمراہ کرنے کے لئے ایک نیا طریقہ باطنی صوفیت کا استعمال کیا اسکے لئے بھی علی رضی اللہ عنہ کی ذات کو استعمال کیا گیا علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں خدا کے حلول کا عقیدہ گھڑا گیا چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اسکو پکڑنے کے لئے بھیجا مگر یہ بھاگ گیا اسکے کچھ لوگوں کو پکڑ کر آگ میں جلا دیا گیا جس کا بخاری میں ذکر ملتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو آگ کا عذاب نہ دیتا کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے پھر فتح الباری میں اسکی تفصیل بتائی کہ وہ قوم زط کے ستر بندے تھے واللہ اعلم
اسی میں ایک یہ عقیدہ میں لایا گیا کہ شریعت کے ساتھ ساتھ ایک باطنی علم بھی ہوتا ہے جو سینہ بہ سینہ چلتا ہے اور وہ کبھی ڈائریکٹ اللہ سے بھی لیا جاتا ہے اس باطنی علم کے آگے ظاہری شریعت کا علم کچھ حیثیت نہیں رکھتا پس قرآن و حدیث کی حیثیت کمزور کر دی گئی
باقی ہر ایک کی تفصیل آئندہ ان شاءاللہ