• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن کا حصہ نہیں مانتے تھے کیا یہ صحیح ھے؟

شمولیت
جنوری 13، 2013
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
64
کیا موذتین قرآن کریم کاحصہ نہیں ؟​
السلام علیکم: میں نے سنا ھے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود معوذتین کو قرآن کا حصہ نھیں مانتے تھے کیا یہ صحیح ھے؟ براے کرم اسکا مدلل جواب لکھنے کی زحمت گوارا کریں ـ (سائل: حنیف خان)
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
از: الطاف الرحمن الرحمن ابوالکلام

بسم اللہ والصلاة والسلام على رسول الله اما بعد:
سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن میں راسخ کرنے اور اپنا عقیدہ بنانے کی ہے : صحابہ کی عدالت بالاتفاق مسلم ہے ، سب کے سب رضی اللہ عنهم ورضوا عنہ ہیں. اور قرآن مجید کے کسی بهی حصہ کا یا آیت کا بالقصد انکار کفر ہے، اور یہ چیز ایک جیل القدر صحابی سے بعید تر بلکہ ناممکن ہے. شاید ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اسی نظرے کو بنیاد بنا کر شعیوں اور رافضیوں کا طبقہ آپ رضی اللہ عنہ کو شب وشتم کرنے نیز کفریہ فتوی صادر کرنے میں کسی بهی قسم کا تامل نہیں کرتا. ویسے تو وہ سبهی صحابہ کو (نعوذبااللہ )مجروح ، دین حق سے دور اور مرتد گرداننے کے عادی ہیں . جبکہ اس طرح کا اقدام واضح کفر کی طرف اشارہ ہے. لہذا کسی صحابی رسول کی طرف اس طرح کی بات منسوب کی جائے اس وقت ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان کی دفاع کریں کیوں دین کو نقل کرنے والے اصل وہی فداکاران رسول ہیں ، گویا انہیں کمزور ثابت کرنا اسلام کی نییاد کو کمزور کرنا ہے، ان کی مضوتی اور ثبات قدمی کا قران وسنت سے منصوص مطلوبہ عقیدہ رکهنا اپنے اندر دین اسلام کو راسخ کرنا ہے.
اب ذرا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مختصر یوں پڑهتے ہیں : کہ آپ جلیل القدر سابقین صحابہ کی فہرست سے ہیں قاری قرآن نیز علم کے برتن ہیں. آپ کا شمار ان چار عظیم صحابہ میں ہوتا ہے جن سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن مجید سیکهنے اور حاصل کرنے کی لوگوں کو ترغیب دی تهی. صحیح مسلم وغیرہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ''خذوا القرآن من أربعة: من ابن أم عبد، ومعاذ بن جبل، وأبي بن كعب، وسالم مولي أبي حذيفة'' اور آپ ہی کی وہ شخصیت ہے جو آخری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورہ قرآن میں موجود تهی. ابن عباس رضي الله عنه نے صحابہ کرام سے قرات قرآن کے بارے میں پوچهتے ہیں کہ دونوں قرات میں سے آخری قرات کون سی ہے؟ (یعنی وہ قرات جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا) جواب ملا قراءة زید . آپ (ابن عباس نے کہا) یہ جواب درست نہیں. پهر خود کہنے لگے :
"ان رسول اللہ صلي الله عليه وسلم كان يعرض القرآن كل سنة علي جبريل عليه السلام فكما كانت السنة التي قبض فيها عرضه عليه عرضتين فكانت قرأة ابن مسعود آخرهن. (رواہ الحاکم وصححہ ووافقہ الذهبی) وقال الجزري في النشر: ولا شك أن القرآن نسخ منه وغير فيه في العرضة الأخيرة فقد صح النص بذلك عن غير واحد من الصحابة، وروينا بإسناد صحيح عن زر بن حبيش قال: قال لي ابن عباس أي القراءتين تقرأ؟ قلت: الأخيرة، قال: فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعرض القرآن على جبريل عليه السلام في كل عام مرة قال: فعرض عليه القرآن في العام الذي قبض فيه النبي صلى الله عليه وسلم مرتين، فشهد عبد الله ـ يعني ابن مسعود ـ ما نسخ منه وما بدل، فقراءة عبد الله الأخيرة. اهـ. وقال ابن حجر في الفتح: إن بن مسعود قال: لو أعلم أحدا تبلغنيه الإبل أحدث عهدا بالعرضة الأخيرة مني لأتيته أو قال لتكلفت أن آتيه وكأنه احترز بقوله تبلغنيه الإبل عمن لا يصل إليه على الرواحل، إما لكونه كان لا يركب البحر فقيد بالبر، أو لأنه كان جازما بأنه لا أحد يفوقه في ذلك من البشر فاحترز عن سكان السماء. اهـ.
رہی ابن مسعود کی طرف منسوب بسند صحیح وہ روایات جس میں آپ کی طرف سے معوذتین کو قرآن کی سورت کہنے کے بجائے کلمہ دعا کہنا ثابت ہے. اس پر ایک نظر ڈال کر مسئلہ کو حل کرنے کی راہ اختیار کرتے ہیں.


  • 1. عن عبد الرحمن بن يزيد قال : رأيت عبدالله يحك المعوذتين ، ويقول : لمَ يزيدون ما ليس فيه ؟[أخرج هذه الرواية الطبراني في الكبير 9/268]
  • 2. وفي رواية قال : لا تخلطوا فيه ما ليس منه .[الطبراني في الكبير ، وعبدالله في زوائد المسند 129-130]
  • 3۔ وفي رواية عنه : أنه كان يحك المعوذتين من المصحف ،يقول : ليستا من كتاب الله .[الطبراني في الكبير ]
  • 4. عَنْ زِرٍّ قَالَ سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ قُلْتُ : يَا أَبَا الْمُنْذِرِ ؛ إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ أُبَيٌّ : سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي : قِيلَ لِي فَقُلْتُ قَالَ : فَنَحْنُ نَقُولُ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . رواه البخاري (4692 ، 4693) .
  • 5. في البخاري ( 4692و4693ط البغا ) و الإمام أحمد ( 5/129-130) و الحميدي (374) و غيرهم من طريق زر بن حبيش قال قلت لأبي بن كعب ان بن مسعود كان لا يكتب المعوذتين في مصحفه فقال أشهد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخبرني ان جبريل عليه السلام قال له قل أعوذ برب الفلق فقلتها فقال قل أعوذ برب الناس فقلتها فنحن نقول ما قال النبي صلى الله عليه وسلم و اللفظ لأحمد .و له ألفاظ أخرى مختصرة و قريبة من الذي سقناه .

☑ یاد رہے کہ اس کا جواب علماء امہ دو طرح سے دیتے ہیں :
  • 1 : جنہوں نے اس طرح کی جملہ روایات کو کذب وافترا پر مبنی موضوع ،منگهڑت اور غیر صحیح قرار دیا ہے. ان میں قابل ذکر ابن حزم اور امام نووی رحمهما اللہ ہیں . پیش ہے امام نووی کا قول ملاحطہ فرمائیں: قال النووي في المجموع (3\350): أجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة وسائر السور الكتوبة في المصحف قرآن، وأن من جحد شيئاً منه كفر، وما نقل عن ابن مسعود في الفاتحة والمعوذتين باطل ليس بصحيح عنه قال ابن حزم في أول كتابه المجاز هذا كذب على ابن مسعود موضوع، وإنما صح عنه قراءة عاصم عن زر عن ابن مسعود، وفيها الفاتحة والمعوذتان. انتهى. (انظر لکلام ابن حزم: المحلی: 1/13)
  • 2: دوسرے گرہ نے ان روایت کو سندا صحیح مانتے ہوئے مدافعانہ جواب دینے کی کوشش کی ہے. یہ ان کی طرف سے ہر صورت اجتہاد تها شاید انہیں نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کی طرف سے دعا کے علاوہ قران کریم کی سورت ہونے پر کوئی دلیل حاصل نہ ہوسکی تهی ، لہذا اپنے علم کی بنیاد پر ایسا فیصلہ لئے رہے ہوں، جیسا کہ طبرانی (9152) کی روایت اس بات پر صاف دلالت کرتی ہے .
عن علقمہ عن عبدالله رضي الله عنه انہ کان یحک المعوذتین من المصاحف ویقول: '' انما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان یتعوذ بهما ولم یکن یقراهما''.
کیونکہ ابن مسعود نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت نماز معوذتین پڑهتے ہوئے نا سنا تها لہذا اس نظریہ کے مرتکب ہوئے ،جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اس سے رجوع کرلیا .
ہم اس باب میں امام زرقانی کی سب سے احسن عبارت نقل کرتے ہیں.
قال الزرقانی: يحتمل أن إنكار ابن مسعود لقرآنية المعوذتين والفاتحة على فرض صحته, كان قبل علمه بذلك فلما تبين له قرآنيتهما بعد تم التواتر وانعقد الإجماع على قرآنيتهما كان في مقدمة من آمن بأنهما من القرآن، قال بعضهم: يحتمل أن ابن مسعود لم يسمع المعوذتين من النبي صلى الله عليه وسلم ولم تتواترا عنده فتوقف في أمرهما، وإنما لم ينكر ذلك عليه لأنه كان بصدد البحث والنظر والواجب عليه التثبت في هذا الأمر. اهـ.
اسی لئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف بسند صحیح منسوب صحیفہ میں آج تک معوذتین موجود ہے. امام زرقانی لکهتے ہیں: ولعل هذا الجواب هو الذي تستريح إليه النفس، لأن قراءة عاصم عن ابن مسعود ثبت فيها المعوذتان والفاتحة وهي صحيحة ونقلها عن ابن مسعود صحيح وكذلك إنكار ابن مسعود للمعوذتين جاء من طريق صححه ابن حجر، إذا فليحمل هذا الإنكار على أولى حالات ابن مسعود جمعا بين الروايتين، وإن سلمنا أن ابن مسعود أنكر المعوذتين وأنكر الفاتحة بل أنكر القرآن كله فإن إنكاره هذا لا يضرنا في شيء، لأن هذا الإنكار لا ينقض تواتر القرآن ولا يرفع العلم القاطع بثبوته القائم على التواتر.
ابن مسعود رضي الله عنه نے ان دونوں سورتوں کو منزل من اللہ ہونے کا انکار نہیں کئے تهے بلکہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی شکل میں آیا ہوا دعا خیال کرتے تهے. مزید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے اسی طرح کا اظہار بهی دیکها تها.
عند أحمد (5/130) من طریق زر بن حبیش قال زر قلت لأبي : إن أخاك يحكهما من المصحف فلم ينكر ، قيل لسفيان - يعني ابن عيينة - ابن مسعود قال نعم وليسا في مصحف ابن مسعود كان يرى رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ بهما الحسن والحسين ولم يسمعه يقرؤهما في شيء من صلاته فظن أنهما عوذتان وأصر على ظنه وتحقق الباقون كونهما من القرآن فأودعوهما إياه.
راجح : دوسرا قول ہے. واللہ اعلم
اب آپ یہ نا کہنے لگ جائیں تب تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی (نعوذبااللہ) تکفیر کرنے والے حق پر ہیں ، یا قرآن کے بارے میں بهی صحابہ کا اختلاف تها کیا؟ ( جب کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے، اور اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں اور نا ہی اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے ، کیونکہ یہ مشہود من اللہ جس کے بارے میں شک کرنا خطرے کی گھنٹی بجانا ہے) اور امام ابن حزم، امام نووی اور باقلانی کے مذکورہ شدت بهرے انکار کا کیا جواب ہے ؟؟ وغیرہ جیسے سوالوں کا جواب ذرا فرصت میں ہوکر آئے ابن حجر رحمہ اللہ سے حاصل کرتے ہیں:
آپ رحمہ اللہ سب سے پہلے ابن مسعود کے متعلق بخاری میں منقول روایت کی شرح کرتے ہوئے اس مسئلہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول آثار کا احصاء کرتے ہیں اس کے بعد ابن مسعود کے معوذتین کو قرآن کی طرف عدم منسوب کی دلیلوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں :
وقد صح عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قرأهما في الصلاة .
قلت : هو في صحيح مسلم عن عقبة بن عامر وزاد فيه ابن حبان من وجه آخر عن عقبة بن عامر فإن استطعت أن لا تفوتك قراءتهما في صلاة فافعل وأخرج أحمد من طريق أبي العلاء بن الشخير عن رجل من الصحابة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - أقرأه المعوذتين وقال له : إذا أنت صليت فاقرأ بهما وإسناده صحيح ولسعيد بن منصور من حديث معاذ بن جبل أن النبي - صلى الله عليه وسلم - صلى الصبح فقرأ فيهما بالمعوذتين .

اس کے بعد علماء کے اقوال کا تجزیہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں . وہ کس طرح؟ آؤ آپ ہی کی عبارت سے سمجهتے ہیں:
وقد تأول القاضي أبو بكر الباقلاني في كتاب " الانتصار " وتبعه عياض وغيره ما حكي عن ابن مسعود فقال : لم ينكر ابن مسعود كونهما من القرآن وإنما أنكر إثباتهما في المصحف ، فإنه كان يرى أن لا يكتب في المصحف شيئا إلا إن كان النبي - صلى الله عليه وسلم - أذن في كتابته فيه ، وكأنه لم يبلغه الإذن في ذلك ، قال : فهذا تأويل منه وليس جحدا لكونهما قرآنا . وهو تأويل حسن إلا أن الرواية الصحيحة الصريحة التي ذكرتها تدفع ذلك حيث جاء فيها : ويقول : إنهما ليستا من كتاب الله . نعم يمكن حمل لفظ كتاب الله على المصحف فيتمشى التأويل المذكور .
✏ وقال غير القاضي : لم يكن اختلاف ابن مسعود مع غيره في قرآنيتهما ، وإنما كان في صفة من صفاتهما انتهى . وغاية ما في هذا أنه أبهم ما بينه القاضي . ومن تأمل سياق الطرق التي أوردتها للحديث استبعد هذا الجمع .
وأما قول النووي في شرح المهذب : أجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة من القرآن ، وأن من جحد منهما شيئا كفر ، وما نقل عن ابن مسعود باطل ليس بصحيح ، ففيه نظر ، وقد سبقه لنحو ذلك أبو محمد بن حزم فقال في أوائل " المحلى " : ما نقل عن ابن مسعود من إنكار قرآنية المعوذتين فهو كذب باطل .
وكذا قال الفخر الرازي في أوائل تفسيره : الأغلب على الظن أن هذا النقل عن ابن مسعود كذب باطل . والطعن في الروايات الصحيحة بغير مستند لا يقبل ، بل الرواية صحيحة والتأويل محتمل ، والإجماع الذي نقله إن أراد شموله لكل عصر فهو مخدوش ، وإن أراد استقراره فهو مقبول .
وقد قال ابن الصباغ في الكلام على مانعي الزكاة : وإنما قاتلهم أبو بكر على منع الزكاة ولم يقل إنهم كفروا بذلك ، وإنما لم يكفروا لأن الإجماع لم يكن يستقر . قال : ونحن الآن نكفر من جحدها . قال : وكذلك ما نقل عن ابن مسعود في المعوذتين ، يعني أنه لم يثبت عنده القطع بذلك ، ثم حصل الاتفاق بعد ذلك .
وقد استشكل هذا الموضع الفخر الرازي فقال : إن قلنا إن كونهما من القرآن كان متواترا في عصر ابن مسعود لزم تكفير من أنكرها ، وإن قلنا إن كونهما من القرآن كان لم يتواتر في عصر ابن مسعود لزم أن بعض القرآن لم يتواتر . قال : وهذه عقدة صعبة . وأجيب باحتمال أنه كان متواترا في عصرابن مسعود لكن لم يتواتر عند ابن مسعود فانحلت العقدة بعون الله تعالى . وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ و صحبه وسلم
 
Top