• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عثمان بن مظعون سلف صالح

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ محترم اس روایت کی تحقیق اور ترجمہ درکار ہے


المنتقى شرح موطأ مالك - كتاب الجنائز - باب جامع الجنائز


عن عائشة ( قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لما مات عثمان بن مظعون ) بالظاء المعجمة ابن حبيب بن وهب بن حذافة القرشي الجمحي ، أسلم قديما وهاجر إلى الحبشة الهجرة الأولى . وروى ابن شاهين والبيهقي عنه قلت : " يا رسول الله إني رجل تشق علي الغربة في المغازي فتأذن لي في الخصاء فأختصي ، فقال : لا ولكن عليك يا ابن مظعون بالصوم " . وفي الصحيحين عن سعد بن أبي وقاص : " رد النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم على عثمان بن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا " . توفي بعد شهوده بدرا في السنة الثانية من الهجرة ، وهو أول من مات بالمدينة من المهاجرين ، وأول من دفن منهم بالبقيع ( ومر بجنازته ) عليه ( ذهبت ولم تلبس ) بحذف إحدى التاءين ، ولابن وضاح : تتلبس بتاءين ( منها ) أي الدنيا ( بشيء ) كثير ; لأنه تلبس بشيء منها لا محالة ، وفيه مدح الزهد في الدنيا ، وذم الاستكثار منها ، والثناء على المرء بما فيه . وروى الترمذي عن عائشة : " قبل النبي - صلى الله عليه وسلم - عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي وعيناه تذرفان ، فلما توفي ابنه إبراهيم قال : الحق بسلفنا الصالح عثمان بن مظعون " .
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,567
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم اس روایت کی تحقیق اور ترجمہ درکار ہے
المنتقى شرح موطأ مالك - كتاب الجنائز - باب جامع الجنائز
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ عبارت جو آپ نے لکھی ہے یہ ۔۔ المنتقی شرح مؤطا ۔۔ کی نہیں ، بلکہ علامہ الزرقانی المصری (المتوفی 1122ھ ) کی شرح کی ہے ؛

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن عائشة ( قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لما مات عثمان بن مظعون ) بالظاء المعجمة ابن حبيب بن وهب بن حذافة القرشي الجمحي ، أسلم قديما وهاجر إلى الحبشة الهجرة الأولى . وروى ابن شاهين والبيهقي عنه قلت : " يا رسول الله إني رجل تشق علي الغربة في المغازي فتأذن لي في الخصاء فأختصي ، فقال : لا ولكن عليك يا ابن مظعون بالصوم " . وفي الصحيحين عن سعد بن أبي وقاص : " رد النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم على عثمان بن مظعون التبتل ولو أذن له لاختصينا " . توفي بعد شهوده بدرا في السنة الثانية من الهجرة ، وهو أول من مات بالمدينة من المهاجرين ، وأول من دفن منهم بالبقيع ( ومر بجنازته ) عليه ( ذهبت ولم تلبس ) بحذف إحدى التاءين ، ولابن وضاح : تتلبس بتاءين ( منها ) أي الدنيا ( بشيء ) كثير ; لأنه تلبس بشيء منها لا محالة ، وفيه مدح الزهد في الدنيا ، وذم الاستكثار منها ، والثناء على المرء بما فيه . وروى الترمذي عن عائشة : " قبل النبي - صلى الله عليه وسلم - عثمان بن مظعون وهو ميت وهو يبكي وعيناه تذرفان ، فلما توفي ابنه إبراهيم قال : الحق بسلفنا الصالح عثمان بن مظعون "
ترجمہ :
علامہ الزرقانی مؤطا کی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ، جو سیدہ عائشہ صدیقہ سے منقول ہے کہ :
«قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ وَمُرَّ بِجَنَازَتِهِ ذَهَبْتَ وَلَمْ تَلَبَّسْ مِنْهَا بِشَيْءٍ»
یعنی سیدہ فرماتی ہیں : جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور ان کا جنازہ نبی کریم ﷺ کے قریب سے گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا :عثمان اس دنیا سے چلے گئے ،لیکن اس دنیا سے کچھ نہیں لیا ،))
اس کی شرح کرتے ہوئے زرقانی لکھتے ہیں :
‘‘ سیدنا عثمان بن مظعون ؓ بن حبیب قریشی جمحی ہیں ، دعوت اسلام کے اوائل میں اسلام قبول کیا ،اور پہلی ہجرت حبشہ میں ہجرت بھی کی ،
ابن شاہین اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے کہ :عثمان بن مظعون فرماتے ہیں میں جناب رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ : جہاد میں مجھ پر مجرد رہنا بہت بھاری گزرتا ہے۔ یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھ کو خصی ہونے کے بارے میں اجازت دیتے ہیں تاکہ میں خصی ہو جاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں اے ابن مظعون ! نہیں ،بلکہ تم روزے رکھا کرو (اس سے شہوت کنٹرول رہتی ہے)
جیسا صحیحین میں ہے :
سعد بن وقاص کہتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن مظعون کو منع فرمادیا تھا اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خصی ہونے کی اجازت مرحمت فرماتے تو ہم خصی ہوجاتے، (اور کبھی نکاح کا سوچتے بھی نہیں )
زرقانی آگے لکھتے ہیں کہ :
سیدنا عثمان بن مظعون ؓ معرکہ بدر میں شریک ہوئے ، اور بدر کے بعد اسی سال سنہ 2ہجری فوت ہوگئے ،
وہ مہاجرین میں سب سے پہلے مدینہ منورہ فوت ہونے والے اور بقیع قبرستان میں دفن ہونے والے صحابی تھے ،
اور اس حدیث میں جو فرمایا کہ :
( ذهبت ولم تلبس ) عثمان چلے گئے اور دنیا سے کچھ نہیں لیا ’’
اس کا مطلب ہے ‘‘ کثرت سے متاع دنیا اکٹھی نہیں کی ، بس وقت گزارنے کیلئے جو مطلوب ہوتی ہے اسی پر اکتفا کیا ’’
اس حدیث سے دنیا سے بے رغبتی کا درس ملتا ہے ، اور کثرت مال و متاع کی حرص کی مذمت ثابت ہوتی ہے ۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی بندہ میں جو خوبی ہو اس پر اس کی تعریف کرنی چاہیئے ،
اور امام ترمذی ؒ نے روایت کیا ہے کہ :
ام المؤمنين عائشہ رضي الله عنہا کہتي ہيں کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضي الله عنہ کا بوسہ ليا - وہ انتقال کر چکے تھے - آپ رو رہے تھے ۔ يا (راوي نے) کہا: آپ کي دونوں آنکھيں اشک بار تھيں۔ (سنن الترمذی ۹۸۹ ، وقال
حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
اور امام طبرانی ؒ نے روایت کیا ہے کہ :
عن الأسود بن سريع قال:
«لما مات عثمان بن مظعون أشفق المسلمون عليه، فلما مات إبراهيم بن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: " الحق بسلفنا الصالح: عثمان بن مظعون "».
(رواه الطبراني، ورجاله ثقات مجمع الزوائد ) جب سیدنا عثمان بن مظعون فوت ہوئے تو لوگوں کو ان کے متعلق اندیشے تھے ، ( جب کچھ عرصہ بعد )
جب نبی کریم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ہمارے آگے جانے والے بہترين اور نیک سلف یعنی عثمان بن مظعون سے جاملو (جس سے ان کا جنتي ہونا ثابت ہوگيا )

محمد اســـــــــــــــحاق سلفی
 
Top