• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عجیب و غریب واقعات

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -


الله تبارک و تعالیٰ نے اس دنیا کا جو نظام بنایا ہے - اس میں اکثرو بیشتر ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں الله کی ایسی حکمتیں اور راز ہوتے ہیں جو انسان کی ظاہری آنکھ اورعقل سے پوشیدہ ہوتے ہیں -اگرچہ معجزات اور انبیاء کی آمد کا سلسلہ تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی رحلت کے بعد ہی ختم ہو چکا- لیکن اب بھی الله کی قدرت سے ایسے واقیعات کا رونما ہونا جاری ہے جو انسانی عقل سے ماورا ہوتے ہیں- ایک طرف بہت سے توہم پرست لوگ ایسے واقعیات کو مذہبی رنگ دے دیتے ہیں جن کے نتیجے میں غلط نظریات و بدعات جنم لیتی ہیں - تو دوسری طرف ملحد قسم کے لوگ اپنے ناقص عقل کو بروے کار لا کر ان واقعات کی مختلف سائنسی توجیہات پیش کرتے رہتے ہیں - لیکن کوئی بھی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتا - یہ اللہ کی ذات جانتی کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے - یہاں انہی میں سے کچھ ایسے واقعات جو پھچلی چند صدیوں یا سالوں میں پیش آے ان کا ذکر کیا گیا ہے - اب یہ لوگوں پر ہے کہ وہ اس کی کیا توجیحات پیش کرتے ہیں-

١-ویدانتیوں میں وجدان کی قوت حاصل کرنے کے لئے سانس روکنے کا ایک طریقه اختیار کیا جاتا ہے- ١٨٣٧ میں لاہور (جو اس وقت ہند کا علاقہ تھا) میں رنجیت سنگھ کی حکمرانی تھی - یہاں ایک یوگی تھا جس کا نام ہری داس تھا -رنجیت سنگھ کے حکم پر اس ہری داس کے ناک مونہ ، اور آنکھوں پر موم لگا کر اور کفن میں اچھی طرح لپیٹ کر اس کو ایک قبر میں دفن کردیا گیا -اور قبر کے گرد سپاہیوں کا پہرہ لگا دیا گیا جو ہمہ وقت وہاں پر موجود رہتے تھے - چالیس دن گزرنے کے بعد جب اس ہری داس کی قبر کھودی گئی اور اس کو نکال کر کفن ہٹایا اور مونہ، ناک اور آنکھوں سے موم صاف کیا گیا تو ہری داس سانس لے کر اٹھ بیٹھا - وہاں پر موجود لوگ یہ دیکھ کر ششرد رہ گئے - سائنس کہتی ہے کہ چاہے کوئی کتنی ہی سانس روکنے کی مشق کرلے- ایک انسان زیادہ سے زیادہ ٢٠ گھنٹے اپنا سانس روک سکتا ہے اس سے زیادہ سانس نہیں روکا جا سکتا-

٢- بھارت امرہویہ میں شاہ ولایت نامی بزرگ کا مزار ہے - اس مزار کے ارد گرد بڑی تعداد میں زہریلے بچھو پاے جاتے ہیں- لیکن یہ بچھو حیرت انگیز طور پر وہاں پر آنے والے زائرین کو نہیں کاٹتے- اگر کوئی ان بچھوں کو اپنی ہتھیلی پر اٹھا لے تب بھی یہ اس زائر کو کچھ نہیں کہتے- حتّی کہ اگر کوئی باہر سے زہریلا بچھو اٹھا لاے اور مزار پر چھوڑ دے - تووہ بچھو بھی کسی کو نہیں کاٹتا-

٣-گجرات (پاکستان) کے ایک قصبے جلال پور جٹاں میں سن ١٩٥٠ کی دہائی میں ایک ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا -قصبے میں ایک بزرگ قاضی عبدلحکیم کا دربار تھا - آپ کے ارادت مند دور دور تک پھیلے ہوے تھے- اور ہمہ وقت قاضی صاحب کی خدمت عالیہ میں موجود رہتے تھے- ایک سال برسات کا موسم شروع ہوا لیکن اس علاقے میں بارش کا نام و نشان نہ تھا - خشک سالی سے لوگ از حد پریشان تھے - مسلمان اس موقع پر سنّت نبوی کے مطابق نماز استسقاء ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں الله بارش برسا دیتا ہے - لیکن مقامی لوگوں کے باربار نماز استسقاء ادا کرنے کے باوجود نتیجہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا- مذکورہ بزرگ ایک دن اپنا دربار سجاے بیٹھے تھے کہ سات آدمی جو قاضی صاحب کے پیرو مرشد تو نہیں تھے لیکن اسی قصبے سے تعلق رکھتے تھے - ان کے حجرے میں داخل ہوے اور سلام کرنے کے بعد قاضی صاحب سے کہا - "یا حضرت کیا آپ اپنے ٹھنڈے کمرے سے باہر آنے کی تکلیف کریں گے اور دیکھیں کہ گرمی کی شدت اتنے دن سے کیا تماشا پیش کررہی ہے؟؟- ہمّت ہے تو اپنی کرامات کا زور دکھائیں" - قاضی عبدلحکیم نے جواباً کہا - کہ آپ مجھ سے دعا کی درخواست کرنے کے بجاے گلی کے کتوں سے بارش کی دعا کی درخواست کریں - شاید کہ مسلہ حل ہوجائے- وہ سات افراد یہ سن کر بڑے برافروختہ ہوے اور قاضی صاحب سے کہا - کہ حضرت ہم کتوں کی بولی نہیں جانتے اگر آپ جانتے ہیں تو آپ ہی کتوں سے بارش کی درخواست کریں- قاضی صاحب نے جواباً کہا - اگر آپ سات افراد کتوں کی دعا سننا چاہتے ہیں تو صبح یہاں حجرے کا باہر آمجود ہوں- وہ سات افراد قاضی صاحب کی بات پر ٹھٹہ کرتے ہوے چلے گئے اور ان سے کہہ گئے کہ ہم دیکھ لیں گے کہ کتے کیسے دعا کرتے ہیں-

اب قاضی صاحب نے خانقاہ کی ناظمین کو حکم دیا کہ راتوں رات بہت سارا حلوہ تیار کیا جائے اور ڈھاک کےدو تین سو پیالے منگوا کر حلوہ ان میں سجایا جائے- کہ کتوں نے صبح آنا ہے - خانقاہ کے لوگ حیران و پریشان ساری رات حلوہ پکاتے رہے- صبح ہوئی تو یہ قصّہ سارے قصبے میں مشہور ہو چکا تھا کہ قاضی صاحب کتوں سے دعا کروانے والے ہیں- قصبے کے لوگ صبح سویرے ہی حجرے کے پاس جمع ہونا شروع ہو گئے - وہ سات افراد جو قاضی صاحب کو پیچھلے دن چیلنج کرکے گئے تھے وہ بھی آن موجود ہوے - گرمی اپنے جوبن پر تھی - خدمت گزار گلیوں کی صفائی کے بعد ڈھاک کے حلوہ بھرے پیالے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھنا شروع ہو گئے - وہ ابھی اس کام سے فارغ ہوے ہی تھے کہ مجمع میں ایک سراسیمگی پھیل گئی کہ کوئی انہونی بات ہونی والی ہے - ہر بندہ اپنی جگہ دم بخود تھا - اچانک ایک گلی سے ایک کالے رنگ کا کتا نمودار ہوا - اس کے پیچھے بیس بائیس کتوں کی ایک لمبی قطار تھی - تمام کتے قطار بنا کر قاضی صاحب جو اپنے حجرے کے باہر بیٹھے ہوے تھے ان کے پاس اکر چپ چاپ بیٹھ گئے- قاضی صاحب نے اپنا ہاتھ بلند کیا تا کہ مجمع کے لوگ کسی بھگدڑ کا مظاہرہ نہ کریں- کتوں کا لیڈر "کالا کتا" قاضی صاحب کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا جیسے حکم کا غلام ہو- قاضی صاحب نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور پھر با آواز بلند کہا " تمام کتے جائیں اور حلوہ کھائیں" - کتوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور تین تین کی ٹولیوں میں بٹ گئے اور بغیر کسی "کتا پن" کا مظاہرہ کیے حلوہ کھانے میں مصروف ہوگئے - قصبے کے ہر شخص کے بشمول ان سات نوجوانوں کے حواس رخصت تھے- سب دم بخود تھے کہ پتا نہیں اب کیا ہوتا ہے- کتے جب تمام حلوہ چٹ کر گئے تو قاضی صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوے اور بلند آواز سے کہا کہ " اب کتے الله سے ابر رحمت کی دعا کریں" - کتوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر عجیب و غریب انداز میں رونا شروع کردیا- ان کی اس عجیب و غریب غراہٹ سے وہاں پر موجود لوگوں کے دل بیٹھے جا رہے تھے - تھوڑی دیر غرانے کے بعد کتے قطار بنا کر واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوگئے- اب قاضی عبدلحکیم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کردیے اور ساتھ ہی لوگوں نے بھی ہاتھ بلند کردیے اور گڑگڑا کر الله کے حضور گریہ کرنے لگے- تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آسمان پر ایک گہری گھٹا چھا گئی - اورپھ رزبردست بارش شروع ہو گئی -

٤-پچھلی صدی جو بیسویں صدی کہلاتی ہے ١٩٣٠- ١٩٣١ کے اوائل میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو دینی فکر و فہم رکھنے والے افراد کے لئے تو اہم تھا ہی لیکن عام انسانوں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی خاص اہمیت اختیار کر گیا- اس وقت کے عراق کے شاہ ، شاہ فیصل اول کو خواب میں صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کی زیارت ہوئی جنہوں نے شاہ سے فرمایا کہ میرے اور میرے ساتھی کی قبروں میں پانی آ رہا ہے- ہمیں یہاں سے منتقل کرو - ان کے ساتھی صحابی رسول حضرت جابر بن عبدللہ رضی الله عنہ تھے -دونوں کی قبریں دریا دجلہ کے کنارے تھیں- حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ احد کے موقع پر مسلمان عورتوں کے نگران تھے اور صحابی حضرت جابر بن عبدللہ مشہور صحابی رسول حضرت عبدللہ بن جابر رضی الله عنہ کے بیٹے تھے اور بیت رضوان اور حجہ الودع کے موقع پر نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے ساتھ موجود رہے -غرض شاہ فیصل اول نے اسی وقت مفتی اعظم سے مشوره کیا - جنہوں نے فتویٰ دیا کہ ہمیں ان صحابہ کے اجسام محفوظ جگہ پر منتقل کردینے چاہیئں - فوری طور پر اس وقت عراق کے وزیراعظم نوری السید پاشا سے رابطہ کیا گیا- جنہوں قبر کشائی کی منظوری دے دی - لیکن وزیر اعظم نے محکمہ تعمیرات کو پہلے اس بات کی تصدیق کے لئے بھیجا کہ آیا واقعی دونوں اصحاب کی قبروں میں پانی رس رہا ہے یا نہیں - تصدیق ہو گئی کہ دونوں قبروں کے گرد دریا دجلہ کا پانی رس رہا تھا- تصدیق ہونے پر حکام کی طرف سے یہ اعلان کردیا گیا کہ دونوں اصحاب رسول کی فوری قبر کشائی کی جائے گی - جو زیارت کرنا چاہے آ سکتا ہے - یہ حج کا زمانہ تھا اس لئے دوسرے مسلم ممالک کے حکام اور لوگوں نے درخواست کی کہ قبرکشائی حج کے اختتام پر کی جائے- جسے حکام نے قبول کیا اور طے پایا کہ حج کے فوراً بعد ان جلیل القدر صحابہ کی قبر کشائی کا عظیم کام شروع کیا جے گا - حج گذرتے ہی دونوں اصحاب رسول کی قبر کشائی شروع ہو گئی - اس وقت کی خبروں کے مطابق تقریبآ پانچ لاکھ نفوس کا مجمع ان صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی زیارت کرنے کے لئے جمع تھا - جن میں مشہور مسلم ممالک کے فرماروان سمیت غیر مسلم ممالک کے مندوبین بھی موجود تھے- قبریں کھولی گئیں - دونوں اصحاب رسول کے اجسام حیرت انگیز طور پر کفن سمیت محفوظ تھے صرف کفن کا کپڑا بوسیدہ ہوا تھا -وہاں موجود لوگوں کا بیان تھا کہ اصحاب رسول کی آنکھیں نیم وا تھیں- اور ان دونوں اصحاب کی آنکھوں میں ایک عجیب پرسرار چمک تھی کہ دیکھنے والا زیادہ دیر ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ نہیں پاتا تھا- خبروں کے مطابق وہاں پر موجود ایک یہودی جرمن ڈاکٹرنے اپنے اوراپنے ساتھ اور بہت سے دوسرے غیر مسلم مندوبین کے ساتھ مفتی اعظم کے ہاتھ پر یہ کہہ کراسلام قبول کرلیا کہ "جس خدا کے نبی کے اصحاب کی آنکھوں کی چمک تیرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی- وہ نبی خود کیا چیز ہوگا "- بعد میں دونوں اصحاب رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ اور حضرت جابر بن عبدالله رضی الله عنہ کو احترام کے ساتھ موجودہ سلمان پارک میں حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا - یہ دور جدید کا ایسا واقعہ ہے کہ ملحد لوگ بھی اس کی کوئی سائنسی توجیہ پیش نہیں کرپاتے کہ اتنا عرصۂ گزرنے کے باوجود ان پاک ہستیوں کے اجسام اپنی قبروں میں جوں کے توں تھے اوران کو مٹی نہیں کھا سکی- ایسا محسوس ہو رہا تھا جسے ابھی اس دانی فانی سے کوچ کیا ہے-

٥-یہ بات بھی قبل ذکر ہے کہ غیر مسلموں بھی چند ایک ایسے واقعات سننے کو ملے ہیں کہ ان کی لاشیں عرصۂ دراز بعد قبروں سے نکالی گئیں تو وہ محفوظ ملیں -بدنام زمانہ شاعر لارڈ بیزان کی لاش طویل عرصے بعد قبر سے نکالی گئی لیکن وہ بلکل محفوظ تھی - فرانس کی مشہور راہبہ ربان کیتھرین کی لاش اس کے مرنے کا ٥٦ سال بعد قبر سے نکالی گئی تو حیرت انگیز طور پر صحیح سالم تھی-

اس کے علاوہ بھی دنیا میں ایسے حیرت انگیز وا قیعات واقتاً فواقتاً ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں کہ جن کی عقلی دلیل انسان کے بس کی بات نہیں- یہ الله رب العزت کی قدرت کاملہ اور مشیت ہے اور اس کے راز وہی جانتا ہے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
معقول و درایۃ کا سبق طاق نسیاں ہوا ،
اور ماوراء العقل جہاں کے مناظر منکشف ہونے لگے
سراج نے کیا عجب کہا ہے ع

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی


کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
معقول و درایۃ کا سبق طاق نسیاں ہوا ،
اور ماوراء العقل جہاں کے مناظر منکشف ہونے لگے
سراج نے کیا عجب کہا ہے ع

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی


کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراج کو
نہ خطر رہا، نہ حذر رہا، جو رہی سو بے خطری رہی

یہ واقعیات قرآن و حدیث نہیں کہ جن پر ایمان لانا واجب ہو- صرف ایک مشاہدہ کے طور پر بیان کیے گئے-
 

حسیب

رکن
شمولیت
فروری 04، 2012
پیغامات
116
ری ایکشن اسکور
85
پوائنٹ
75

ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز لڑکی۔ جس کے مطابق وہ پہلے بھی اس دنیا میں آچکی ہے

یہ ایک سچی کہانی ہے جس پر بہت سے ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے ۔ لیکن جواب دینے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کے متعلق انٹرنیٹ پر کافی مواد موجود ہے ۔ جہاں سے اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔

شانتی دیوی کا دعوی ہے کہ وہ اس دنیا میں دوسری مرتبہ آئی ہے۔ سائنسدان جنہوں نے اس کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا ہے اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ وہ شانتی کی کہانی کو صحیح گردانتے ہیں لیکن اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔

شانتی دیوی کے والدین دہلی میں رہائش پذیر ہیں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شانتی دیوی 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔ بچپن میں وہ عام بچوں کی طرح زندگی بسر کرتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ فضاء میں غیر مرئی انسانوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے پہلی بار اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی بسر کر چکی ہے اور اس نے متھرا میں اپنے مکان کا محلِ وقوع بھی بتایا جہاں وہ اپنا پہلا جنم گزار چکی تھی۔

شانتی کی ماں نے جب اپنے خاوند کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو وہ اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس سے کئی قسم کے سوالات پوچھے۔ جب لڑکی نے اپنی پوری کہانی بیان کی تو ڈاکٹروں نے اس انوکھے معمے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

اگر یہ فرض کر لیا جاتا کہ اس کی دماغی حالت خراب ہے تو یہ ایک غیر معمولی اور انوکھا کیس تھا اور اگر وہ بقائمی ہوش و حواس تھی تو یہ ایک قصہ تھا جس کی سائنسی توضیع ناممکن تھی اور ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو نصیحت کی کہ وہ لڑکی سے برابر پوچھ گچھ کرتا رہے اور اگر وہ اپنے دعوے پر بد ستور قائم رہے تو اسے دوبارہ پیش کیا جائے۔

شانتی دیوی اپنے دعوے پر بدستور قائم رہی اور اس کی کہانی میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔اس کے والدین اپنی بیٹی کی ان باتوں سے حیران تھے۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی بیٹی کا دماغ چل گیا ہے۔جب وہ نو برس کی ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنا پہلا جنم متھرا میں گزار چکی ہے جہاں اس کی شادی بھی ہوئی تھی اور اس کے دو بچے بھی پیدا ہوئے تھے اس نے اپنے دونوں بچوں کے نام بھی بتائے اور یہ دعوی بھی کیا کہ ان دنوں اس کا نام لُدگی تھا اس کے والدین اس انکشاف پر محض مسکرا دئیے۔

ایک شام جب اس کی ماں اور شانتی رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں دروازے پر دستک ہوئی۔شانتی دوڑی دوڑی دروازے کی طرف گئی اور جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو اس کی ماں کو تشویش لاحق ہوئی اور وہ شانتی کو دیکھنے کے لئے دروازے کی طرف آئی جہاں شانتی سیڑھیوں پر کھڑے ایک شخص کو گھور رہی تھی۔

9 سالہ شانتی نے کہا۔ ماں یہ میرے خاوند کا چچا زاد بھائی ہے جو متھرا میں ہمارے مکان کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ اجنبی واقعی متھرا میں رہائش پذیر تھا اور وہ شانتی کے باپ کے ساتھ کاروباری سلسلہ میں ملاقات کرنے آیا تھا۔ اس نے شانتی کو تو نہ پہچانا البتہ اتنا کہا کہ اس کے چچا زاد بھائی کی بیوی کا نام لُدگی ہی تھا اور وہ 10 سال پہلے اپنے بچے کی پیدائش کے وقت مر گئی تھی۔

اس کے پریشان حال والدین نے اجنبی کو جب شانتی کی پوری کہانی سنائی تو وہ اس بات پر رضامند ہو گیا کہ وہ اپنے چچازاد بھائی کو متھرا سے دہلی لائے گا اور یہ معلو م کرنے کی کوشش کرے گا کہ شانتی اسے پہچانتی بھی ہے یا نہیں۔

شانتی کو اس منصوبے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ لیکن جب اجنبی کا چچا زاد بھائی یعنی شانتی کا مفروضہ شوہر آیا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور اس نے بتایا وہ اس کا خاوند ہے۔ اس کا یہ خاوند اس کے باپ کے ساتھ اعلی حکام کے پاس گیا۔جہاں اس نے لڑکی کی عجیب و غریب کہانی بیان کی۔

چنانچہ حکومتِ ہند نے سائنسدانوں کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دی تاکہ اس انوکھے معمہ کو حل کیا جا سکے جو ان دنوں قومی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔
کیا وہ لُدگی کا دوسرا جنم تھا؟۔ سائنسدان یہ معلوم کرنے کے لئے اسے متھرا لے گئے جب وہ گاڑی سے اتری تو اس نے اپنے مفروضہ خاوند کی ماں اور بہن کی صحیح صحیح نشاندہی کر دی اور اس نے نشاندہی کے علاوہ ان کے نام بھی بتا دئیے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے ان کے ساتھ متھرا کی مقامی زبان میں گفتگو کی۔ حالانکہ اسے صرف ہندی زبان سکھائی گئی تھی۔حیران و پریشان سائنسدانوں نے اس کا معائنہ جاری رکھا۔

انہوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گاڑی پر بٹھایا وہ تمام راستے میں ڈرائیور کو صحیح صحیح ہدائتیں دیتی رہی۔ وہ جس جگہ سے بھی گزری اس کے صحیح کوائف بتاتی رہی آخر کار اس نے ڈرائیور کو ایک تنگ گلی کے سرے پر رکنے کے لئے کہا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ رہتی تھی۔ جب اس کی آنکھوں کی پٹی کھولی گئی تو اس نے ایک آدمی کو مکان کے باہر حقہ پیتے دیکھا جس کی بابت اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس کا سسر ہے اور وہ حقیقتا اس کے مفروضہ خاوند کا باپ تھا۔ شانتی نے اپنے دونوں بچوں کو بھی پہچان لیا لیکن وہ اپنے اس بچے کو نہیں پہچان سکی جس کے طفیل اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ یعنی تیسرے بچے کو۔
اب یہ معمہ زیادہ الجھ گیا۔ کیونکہ شانتی کے والدین اس کو کبھی اس گاؤں میں آج تک نہیں لے کر آئے تھے۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہو گئے کہ شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی لیکن حیران کن حد تک متھرا کی زندگی کے متعلق جانتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ انہیں اس کہانی کی صداقت پر ذرہ بھر بھی شک نہیں لیکن وہ آج تک اس کہانی کی تشریح نہیں کر سکے۔شانتی دیوی اس کے بعد دہلی میں رہتی رہی اور سرکاری ملازمت کرتی رہی ۔ اس کی یہ عجیب و غریب کہانی حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1958 میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اپنے ماضی سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے حال سے مطمئن ہے۔ شانتی دیوی کی کہانی ایک ایسے معمے کا زندہ ثبوت ہے جسے سائنس حل نہیں کر سکے تھے۔

آپ اس کہانی کے بارے میں کیا کہتے ہیں کیونکہ جہاں تک بات ہے دوسرے جنم کی تو اسلام تو اس کی نفی کرتا ہے اور یہ دوسرے جنم کا ذکر تو ہندؤؤں میں یا قدیم مصر کے لوگوں میں یا کچھ اور مذاہب میں ہی ملتا ہے۔

حوالہ
http://creative.sulekha.com/the-case-of-shanti-devi_98870_blog

اگر اس کہانی کو سچ مان لیا جائے ۔ تو آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا اس میں کوئی جنات کا کردار ہو سکتا ہے یا کوئی روحانی قوت یا شیطانی قوت اس میں کارفرما ہے۔؟؟
اپنے جوابات سے ضرور آگاہ کریں۔​
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز لڑکی۔ جس کے مطابق وہ پہلے بھی اس دنیا میں آچکی ہے

یہ ایک سچی کہانی ہے جس پر بہت سے ڈاکٹرز اور سائنس دانوں نے تحقیق کی ہے ۔ لیکن جواب دینے سے قاصر رہے ہیں۔ اس کے متعلق انٹرنیٹ پر کافی مواد موجود ہے ۔ جہاں سے اس بات کی تصدیق ہو سکتی ہے۔

شانتی دیوی کا دعوی ہے کہ وہ اس دنیا میں دوسری مرتبہ آئی ہے۔ سائنسدان جنہوں نے اس کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا ہے اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ وہ شانتی کی کہانی کو صحیح گردانتے ہیں لیکن اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔

شانتی دیوی کے والدین دہلی میں رہائش پذیر ہیں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شانتی دیوی 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔ بچپن میں وہ عام بچوں کی طرح زندگی بسر کرتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ فضاء میں غیر مرئی انسانوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے پہلی بار اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی بسر کر چکی ہے اور اس نے متھرا میں اپنے مکان کا محلِ وقوع بھی بتایا جہاں وہ اپنا پہلا جنم گزار چکی تھی۔

شانتی کی ماں نے جب اپنے خاوند کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو وہ اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس سے کئی قسم کے سوالات پوچھے۔ جب لڑکی نے اپنی پوری کہانی بیان کی تو ڈاکٹروں نے اس انوکھے معمے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔

اگر یہ فرض کر لیا جاتا کہ اس کی دماغی حالت خراب ہے تو یہ ایک غیر معمولی اور انوکھا کیس تھا اور اگر وہ بقائمی ہوش و حواس تھی تو یہ ایک قصہ تھا جس کی سائنسی توضیع ناممکن تھی اور ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو نصیحت کی کہ وہ لڑکی سے برابر پوچھ گچھ کرتا رہے اور اگر وہ اپنے دعوے پر بد ستور قائم رہے تو اسے دوبارہ پیش کیا جائے۔

شانتی دیوی اپنے دعوے پر بدستور قائم رہی اور اس کی کہانی میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا۔اس کے والدین اپنی بیٹی کی ان باتوں سے حیران تھے۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی بیٹی کا دماغ چل گیا ہے۔جب وہ نو برس کی ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنا پہلا جنم متھرا میں گزار چکی ہے جہاں اس کی شادی بھی ہوئی تھی اور اس کے دو بچے بھی پیدا ہوئے تھے اس نے اپنے دونوں بچوں کے نام بھی بتائے اور یہ دعوی بھی کیا کہ ان دنوں اس کا نام لُدگی تھا اس کے والدین اس انکشاف پر محض مسکرا دئیے۔

ایک شام جب اس کی ماں اور شانتی رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں دروازے پر دستک ہوئی۔شانتی دوڑی دوڑی دروازے کی طرف گئی اور جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو اس کی ماں کو تشویش لاحق ہوئی اور وہ شانتی کو دیکھنے کے لئے دروازے کی طرف آئی جہاں شانتی سیڑھیوں پر کھڑے ایک شخص کو گھور رہی تھی۔

9 سالہ شانتی نے کہا۔ ماں یہ میرے خاوند کا چچا زاد بھائی ہے جو متھرا میں ہمارے مکان کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ اجنبی واقعی متھرا میں رہائش پذیر تھا اور وہ شانتی کے باپ کے ساتھ کاروباری سلسلہ میں ملاقات کرنے آیا تھا۔ اس نے شانتی کو تو نہ پہچانا البتہ اتنا کہا کہ اس کے چچا زاد بھائی کی بیوی کا نام لُدگی ہی تھا اور وہ 10 سال پہلے اپنے بچے کی پیدائش کے وقت مر گئی تھی۔

اس کے پریشان حال والدین نے اجنبی کو جب شانتی کی پوری کہانی سنائی تو وہ اس بات پر رضامند ہو گیا کہ وہ اپنے چچازاد بھائی کو متھرا سے دہلی لائے گا اور یہ معلو م کرنے کی کوشش کرے گا کہ شانتی اسے پہچانتی بھی ہے یا نہیں۔

شانتی کو اس منصوبے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ لیکن جب اجنبی کا چچا زاد بھائی یعنی شانتی کا مفروضہ شوہر آیا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور اس نے بتایا وہ اس کا خاوند ہے۔ اس کا یہ خاوند اس کے باپ کے ساتھ اعلی حکام کے پاس گیا۔جہاں اس نے لڑکی کی عجیب و غریب کہانی بیان کی۔

چنانچہ حکومتِ ہند نے سائنسدانوں کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دی تاکہ اس انوکھے معمہ کو حل کیا جا سکے جو ان دنوں قومی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔
کیا وہ لُدگی کا دوسرا جنم تھا؟۔ سائنسدان یہ معلوم کرنے کے لئے اسے متھرا لے گئے جب وہ گاڑی سے اتری تو اس نے اپنے مفروضہ خاوند کی ماں اور بہن کی صحیح صحیح نشاندہی کر دی اور اس نے نشاندہی کے علاوہ ان کے نام بھی بتا دئیے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے ان کے ساتھ متھرا کی مقامی زبان میں گفتگو کی۔ حالانکہ اسے صرف ہندی زبان سکھائی گئی تھی۔حیران و پریشان سائنسدانوں نے اس کا معائنہ جاری رکھا۔

انہوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گاڑی پر بٹھایا وہ تمام راستے میں ڈرائیور کو صحیح صحیح ہدائتیں دیتی رہی۔ وہ جس جگہ سے بھی گزری اس کے صحیح کوائف بتاتی رہی آخر کار اس نے ڈرائیور کو ایک تنگ گلی کے سرے پر رکنے کے لئے کہا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ رہتی تھی۔ جب اس کی آنکھوں کی پٹی کھولی گئی تو اس نے ایک آدمی کو مکان کے باہر حقہ پیتے دیکھا جس کی بابت اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس کا سسر ہے اور وہ حقیقتا اس کے مفروضہ خاوند کا باپ تھا۔ شانتی نے اپنے دونوں بچوں کو بھی پہچان لیا لیکن وہ اپنے اس بچے کو نہیں پہچان سکی جس کے طفیل اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ یعنی تیسرے بچے کو۔
اب یہ معمہ زیادہ الجھ گیا۔ کیونکہ شانتی کے والدین اس کو کبھی اس گاؤں میں آج تک نہیں لے کر آئے تھے۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہو گئے کہ شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی لیکن حیران کن حد تک متھرا کی زندگی کے متعلق جانتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ انہیں اس کہانی کی صداقت پر ذرہ بھر بھی شک نہیں لیکن وہ آج تک اس کہانی کی تشریح نہیں کر سکے۔شانتی دیوی اس کے بعد دہلی میں رہتی رہی اور سرکاری ملازمت کرتی رہی ۔ اس کی یہ عجیب و غریب کہانی حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1958 میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اپنے ماضی سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے حال سے مطمئن ہے۔ شانتی دیوی کی کہانی ایک ایسے معمے کا زندہ ثبوت ہے جسے سائنس حل نہیں کر سکے تھے۔

آپ اس کہانی کے بارے میں کیا کہتے ہیں کیونکہ جہاں تک بات ہے دوسرے جنم کی تو اسلام تو اس کی نفی کرتا ہے اور یہ دوسرے جنم کا ذکر تو ہندؤؤں میں یا قدیم مصر کے لوگوں میں یا کچھ اور مذاہب میں ہی ملتا ہے۔

حوالہ
http://creative.sulekha.com/the-case-of-shanti-devi_98870_blog

اگر اس کہانی کو سچ مان لیا جائے ۔ تو آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا اس میں کوئی جنات کا کردار ہو سکتا ہے یا کوئی روحانی قوت یا شیطانی قوت اس میں کارفرما ہے۔؟؟
اپنے جوابات سے ضرور آگاہ کریں۔
السلام و علیکم و رحمت الله -

واقعہ دلچسپ ہے لیکن مجھے یہ "نظریہ آواگون" کا کیس لگتا ہے - نظریہ آواگون ہندووں کے بدھ مت لوگوں کا تخلیق کرہ نظریہ ہے جس میں ایک انسان کئی مرتبہ جنم لیتا ہے-

جہاں تک دین اسلام میں پھچلی زندگی کا تصور ہے تو یہ قرآن سے ثابت ہے- لیکن انسانوں کے لئے اس دنیاوی زندگی میں اس کا ادراک ممکن نہیں - جیسا کہ قران میں بھی دنیا میں انسان کی پیدائش سے پہلے ایک زندگی کا تصور ملتا ہے- حتیٰ کہ انسانوں کا اپنی پیدائش سے پہلے الله رب العزت کی سامنے اقرار تجدید ایمان کا ذکر بھی موجود ہے-

وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ سوره الاعراف ١٧٢

اور جب تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان کی جانوں پر اقرار کرایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار کرتے ہیں- کبھی قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر نہیں تھی-

اب الله رب العزت نے یہ اقرا ہم انسانوں سے کب اور کیسے لیا ؟؟- اس کی تصدیق کوئی انسان اپنی زندگی میں اپنے ادراک اور حواس کے ذریے یا اپنے دماغ پر زور دے کر نہیں کرسکتا - البتہ قیامت کی دن یہ اقرارا ور تجدید ایمان کا واقعہ جو انسان کی اپنی پیدائش سے پہلے پیش آیا- الله تبارک وتعالیٰ تمام انسانیت کے سامنے پیش کرے گا تا کہ حجت اتمام ہو جائے- (واللہ اعلم)
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
نظریہ آوا گون کی بجائے اگر اس میں جناتی کردار کو شامل کیا جائے تو زیادہ معقول ہے کیونکہ جنات کسی پر حاوی ہو کر اس کو فوری معلومات بہم پہنچا سکتے ہیں جبکہ ایسی چیزوں پر بہت کم لوگوں کا عقیدہ قائم ہوتا ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
نظریہ آوا گون کی بجائے اگر اس میں جناتی کردار کو شامل کیا جائے تو زیادہ معقول ہے کیونکہ جنات کسی پر حاوی ہو کر اس کو فوری معلومات بہم پہنچا سکتے ہیں جبکہ ایسی چیزوں پر بہت کم لوگوں کا عقیدہ قائم ہوتا ہے۔
یہ بات ممکنات میں سے ہے کوئی جناتی کردار شامل ہو- لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت رکھتی ہے کہ جنّات (شیاطین) کی دی گئی معلومات احادیث نبوی کے مطابق سو ١٠٠ فیصد درست نہیں ہوتی - وہ آسمان پر جو فرشتوں کی باتیں سنتے ہیں اس میں کچھ سچ اور کچھ جھوٹ ملا کر کاہنوں اور گمراہ لوگوں پر اترتے ہیں- جب کہ مذکورہ واقعہ میں جس لڑکی کا ذکرکیا گیا ہے وہ اپنے گزرے ماضی یا پچھلی زندگی کے متعلق سو فیصد درست بتاتی ہے - اس کی اصل حقیقت الله ہی بہتر جانتا ہے (واللہ اعلم)-
 
Top