محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّھَا عَلٰٓي اَدْبَارِھَآ اَوْ نَلْعَنَھُمْ كَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ۰ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًا۴۷
طمس کے معنی مٹانے کے ہیں۔ مفازۃ طامسۃ اس جنگل کو کہتے ہیں جس میں کوئی اثر ونشان نہ رہ گیا ہو۔ طمس اللہ علیٰ بصرہ سے مراد ہے خدانے اس کی بصارت کو ضائع کردیا۔
وجوہ۔ وجہ کی جمع ہے جس کے معنی چہرے کے ہیں۔ کبھی کبھی وجوہ کا اطلاق اعیان وزعماء قوم پر بھی ہوتا ہے ۔اس لیے بعض لوگوں نے اس کے یہ معنی بھی لیے ہیں کہ وقت سے پہلے پہلے ایمان لے آؤجب تمہارے اعیان ووجوہ کو ذلت وحقارت سے نکال دیاجائے اوران کی عزت خاک میں مل جائے ۔ چنانچہ عبدالرحمن بن زید کہتے ہیں کہ یہ پیش گوئی پوری ہوچکی۔ یہود قریظہ ونضیر کو ان کی بستیوں سے نکال کر اور عات وایماء میں جلاوطن کردیا گیا۔یہ معنی درست ہے مگرتھوڑے سے تکلف کے ساتھ۔ قرآن حکیم کی زبان کی شگفتگی اور سادگی ان معنوں کی زیادہ مؤید نہیں۔ اگرمقصد یہی ہوتا تو فنردھا کی بجائے فنردھم علٰی ادبارھم ہونا چاہیے تھا۔بات یہ ہے کہ قیامت کے دن جو سزائیں مقرر ہیں وہ اعمال سیئہ کے بالکل متناسب ہیں۔ دنیا میں ان لوگوں نے چوں کہ قرآن حکیم کی جانب کوئی توجہ نہیں کی، اس لیے آخرت میں ان کے چہروں کو مسخ کردیا جائے گا اورکہا جائے گا کہ یہی تمہاری عدم توجہی کی عملی سزا ہے ۔
۱؎ اس آیت میں یہود کو دعوت ایمان دی ہے اورکہا ہے قرآن حکیم سابقہ حقائق ومعارف کا مصدق ہے ۔ یہ انھیں معارف وحکم کو پیش کرتا ہے جن سے تمہارے کان آشنا ہیں۔اس لیے تم پرلازم ہے کہ اس کو مانو اور یاد رکھو، نہ مانوگے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے چہرے مسخ کردیے جائیں گے۔اے کتاب والو! جو ہم نے نازل کیا ہے ، اس پر ایمان لاؤ کہ وہ سچ بتاتا ہے تمہارے پاس والے کو پیشتر اس کے کہ ہم بہت سے مونہوں کو مٹادیں پھر ان کو ان کی پشت کی طرف پھیردیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے ہم نے ہفتے والوں پر لعنت کی تھی کہ وہ بندر بن گئے اور اللہ کا کام کیا ہوا ہے ۔۱؎ (۴۷)
طمس کے معنی مٹانے کے ہیں۔ مفازۃ طامسۃ اس جنگل کو کہتے ہیں جس میں کوئی اثر ونشان نہ رہ گیا ہو۔ طمس اللہ علیٰ بصرہ سے مراد ہے خدانے اس کی بصارت کو ضائع کردیا۔
عدم توجہی کی عملی سزا
وجوہ۔ وجہ کی جمع ہے جس کے معنی چہرے کے ہیں۔ کبھی کبھی وجوہ کا اطلاق اعیان وزعماء قوم پر بھی ہوتا ہے ۔اس لیے بعض لوگوں نے اس کے یہ معنی بھی لیے ہیں کہ وقت سے پہلے پہلے ایمان لے آؤجب تمہارے اعیان ووجوہ کو ذلت وحقارت سے نکال دیاجائے اوران کی عزت خاک میں مل جائے ۔ چنانچہ عبدالرحمن بن زید کہتے ہیں کہ یہ پیش گوئی پوری ہوچکی۔ یہود قریظہ ونضیر کو ان کی بستیوں سے نکال کر اور عات وایماء میں جلاوطن کردیا گیا۔یہ معنی درست ہے مگرتھوڑے سے تکلف کے ساتھ۔ قرآن حکیم کی زبان کی شگفتگی اور سادگی ان معنوں کی زیادہ مؤید نہیں۔ اگرمقصد یہی ہوتا تو فنردھا کی بجائے فنردھم علٰی ادبارھم ہونا چاہیے تھا۔بات یہ ہے کہ قیامت کے دن جو سزائیں مقرر ہیں وہ اعمال سیئہ کے بالکل متناسب ہیں۔ دنیا میں ان لوگوں نے چوں کہ قرآن حکیم کی جانب کوئی توجہ نہیں کی، اس لیے آخرت میں ان کے چہروں کو مسخ کردیا جائے گا اورکہا جائے گا کہ یہی تمہاری عدم توجہی کی عملی سزا ہے ۔