عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
67:خلافِ قرآن
موصوف کبھی یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت کے خلاف ہے مثلا اعادہ روح والی روایت اوپر نقل کردہ آیات کے خلاف ہے اور حدیث قرع نعال آیت انک لا تسمع الموتیٰ کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔مگر اصل بات یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں کیونکہ احادیث تو قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہوا کرتی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآن کریم کے اصل شارح اور مفسر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کس طرح قرآن کریم کی خلاف ہو سکتی ہے ۔خود موصوف لکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کی بتیین ‘تشریح و تائید کے لئے بھیجے گئے تھے اس کو جھٹلانے کئے لئے تو نہیں۔
’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلھم یتفکرون‘‘۔(النحل ۴۴)
اور ہم نے یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اس کی تشریح اور توضیح کرتے جائیں جو ان کے لئے اتارا گیا ہے اور لوگ غور و فکر کریں۔(النحل ۴۴ ) (عذاب قبر ص۱۸) اصل بات یہ ہے کہ جس طرح بھینگے کو ایک کے دو نظر آتے ہیں اور ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا وسوجھتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص ایک نظریہ قائم کر لیتا ہے تو اسے ہر حدیث ہی قرآن کریم کے خلاف معلوم ہوتی ہے جیسا کہ دور ماضی میں خوارج نے اپنا ایک نظریہ قائم کر لیا تھا اور وہ ہر حدیث پر اعتراض کرتے تھے اور اسے قرآن کریم کے خلاف سمجھتے تھے اور اس پر مستزادیہ کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے توحیدی اور کتاب اللہ کے ماننے والے بھی سمجھتے تھے ۔حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب ایک قوم نکلے گی جن کی نماز کے مقابلے میں تم اپنی نماز کو حقیر سمجھو گے ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے ۔وہ قرآن پڑھیں گے ۔جو ان کی ہنسلی سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ‘ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جائے اور اس پر کہیں بھی خون کا نشان نہ ہو ۔ان میں ایک سیاہ فارم شخص ہو گا جس کا ایک بازو مثل عورت کے پستان ہو گا ۔ان کی علامت یہ ہو گی کہ وہ سر منڈاتے ہوں گے اگر میں نے ان کو پایا تو میں ان کو اس طرح ہلاک کرڈالوں گا جس طرح عادو ثمور ہلاک کر دئیے گئے ۔وہ ایسے وقت میں نکلیں گے جب مسلمین میں اختلاف ہو گا اور وہ دو جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گے ان کو مسلمانوں کی وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہو گی۔(بخاری و مسلم)
چنانچہ جناب علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ لوگ نکلے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مقابلہ کیا اور انہیں قتل کیا ۔(بخاری و مسلم)
موجودہ دور میں منکرین حدیث نے احادیث کو خلاف قرآن کہہ کر ان کا انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے اہل قرآن بھی کہتے ہیں ۔ذیل میں ہم قرآن کریم کی چند ایسی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں جو بظاہر ایک دوسرے کے خلاف معلوم ہوتی ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔
۱۔
’’ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ‘‘
’’ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔(النور ۔۳)
جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)’’ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔(النور ۔۳)
قرآن کریم میں زانی مرد اور زانیہ عورت کے لئے مطلق سو کوڑًں کی سزا کا بیان ہوا ہے اور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رحم کا کہیں تذکرہ نہیں لیکن احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کو رحم کیا جائے اور غیر شادی شدہ مرد و عورت کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی ۔بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے ۔کیونکہ قرآن کریم نے تو کہیں بھی رحم کا تذکرہ نہیں کیا۔یہی وجہ ہے موجود ہ دور میں منکرین حدیث نے رحم کی خلاف قرآنقرار دے کر مانے سے انکار کر دیا ہے۔اس مسئلہ پر آج کل خوب علمی بحثیں ہو رہی ہیں ۔یہاں تک کہ شرعی عدالتوں میں بھی بحث جاری ہے۔
’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے یافسق ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔
جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’ ہر کو نچلی والا درندہ (یعنی جو دانتوں سے شکار کرے )حرام ہے۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کونچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے (کو کھانے) سے منع فرمایا ہے‘‘۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ صرف چار چیزیں ہی اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں اور ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں مثلا گدھا ‘کتا بھیڑیا‘گیدڑ ‘لومڑی ‘چیل ‘گدھ وغیرہ مگر احادیث بتا رہی ہیں کہ ان چار چیزوں کے علاوہ بھی گھریلو گدھا کو نچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے بھی حرام ہیں۔یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہ قرآن کریم میں دو زندگیوں یعنی دنیا کی زندگی اور قیامت کے دن کی زندگی کا ہی تذکرہ موجود ہے اور قبر کی زندگی کا کوئی واضح تذکرہ نہیں ملتا البتہ احادیث میں اس برزخی زندگی کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے۔
اسی طرح حدیث میں ہے کہ دو مردے اور دو خون حلال ہیں ۔چنانچہ جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’ ہمارے لئے دو مردے اور دو خون حلال کئے گئے یعنی مچھلی ‘ٹڈی اور جگر اور تلی‘‘۔(مسند احمد ۔ابن ماہ ۔دارقطنی۔حدیث جید التعلیقات الالبانی جلد ۲ ص۱۲۰۲مشکوٰۃ ص۳۶۱)
قرآن کریم میں چار مقامات پر کمال ہصر کے ساتھ چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے جن میں مردہ اور خون بھی شامل ہیں مگر یہ حدیث بتا رہی ہے کہ دو مردے اور دو خون ایسے بھی ہیں جو حلال ہیں ۔موصوف کے نظرئیے کے مطابق کسی قسم کا کوئی مردہ اور خون حلال نہیں ہو سکتا مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ بھی ان مردہ چیزوں اور خون کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں معلوم نہیں کہ وہ اس نص صریح کی خلاف ورزی کیسے کر رہے ہیں؟
اس موقع پر ہم ایک حدیث کو نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں:۔
جناب مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خبردار! بیشک مجھے قرآن کریم بھی دیا گیا ہے اور اسی کے مثل اس کے ساتھ (حدیث بھی دی گئی ہے) خبردار!عنقریب ایک پیٹ بھرا شخص اپنے چھپر کٹ میں (تکیہ لگائے بیٹھا ہو گا اور )کہے گا کہ اس قرآن کو لازم جانو۔پس جو چیز تم قرآن میں حلا ل پاؤ اس کو حلال سمجھو اور جس کو قرآن میں تم حرام پاؤاس کو حرام سمجھو اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ حرام کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اسی کی مانند ہے جس کو حرام کیا اللہ تعالیٰ نے خبردار تمہارے لئے پالتو گدھا حرام ہے اور اسی طرح کونچلی رکھنے والا ہر درندہ بھی حرام ہے ……۔(ابو دائو بسند ۔صحیح التعلقات الالبانی جلد ۱ ص۵۸ مشکوٰۃ ص۲۹)
’’ اور جب تم لوگ (کافروں سے جہاد کے) سفر کے لئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار (قصر) کر دو۔ جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔
جناب انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں ۔(بخاری ومسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)
جناب حارثہ بن دہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو منی میں دو رکعتیں پڑھائیں اس حال میں کہ ہم بہت سے آدمی تھے اور امن کی حالت میں تھے ۔(بخاری و مسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)
قرآن کریم کی اس آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ قصر صرف ’’خوف‘‘ کے وقت جائز ہے ۔چنانچہ خارجیوں اور کچھ ظاہریوں نے اس آیت کا یہی مطلب سمجھ کر امن کی حالت میں قصر کرنے کو قرآن کریم کے خلاف سمجھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہی تھا کہ وہ ہر سفر میں قصر کیا کرتے تھے اور جیسا کہ اوپر نقل کردہ احادیث بھی اس کی وضاحت کرتی ہیں ۔جناب یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا ‘کیا وجہ ہے کہ لوگ اب تک سفر میں قصر کئے جا رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے ۔اور جب تم لوگ سفر کے لئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں قصر کرو جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہیں کافر ستائیں گے اور آج خوف کی یہ حالت باقی نہیں رہی؟ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس چیز سے آپ کو تعجب ہوا ہے خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔آپ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔(مسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)
آپ نے دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تک کو اس آیت کے ظاہر سے دھوکہ ہوا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ان کو اطمینان ہوگیا ۔اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ نہیںجناب یہ احادیث اس آیت کے خلاف ہیں لہذا انہیں تسلیم کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو ایسے شخص کو سمجھانا ہمارے بس کی بات نہیں۔
جناب یزید الفقیر رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات (یعنی مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا) راسخ ہو گئی تھی۔چنانچہ (ایک مرتبہ) ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج کے ارادہ سے نکلے کہ (حج کے بعد)پھر لوگوں پر نکلیں گے ۔(یعنی ان میں اپنا مذہب پھیلائیں گے) جب ہمارا گزر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے ہوا تو ہم نے دیکھا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنارہے ہیں ۔انہوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا میں نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ تم کیا حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ’’ ان ک من تدخل النار فقد اخزیتہ وکلما ارادو ان یخرجو منھا اعیدو فیھا‘‘۔ (اے ہمارے پروردگار) ـجس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو تو نے اس کو رسوا کر دیا اور (فرماتا ہے) جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں ڈال دیے جائیں گے ۔اب (قرآن کریم کی ان آیات کے ہوتے ہوئے) تم کیا کہتے ہو؟ جناب جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ۔میں نے جواب دیا جی ہاں ۔انہوں نے کہا تو پھر تم نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے متعلق سنا ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں عا فرمائے گا۔ میں نے کہا ہاں ۔جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو پھر یہ وہی مقام محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم سے جسے چاہے گا نکالے گا ۔اس کے بعد انہوں نے پل صراط پر سے گزرنے کا تذکرہ کیا اور مجھے ڈر ہے کہ اچھی طرح یہ چیز مجھے یاد نہ رہی ہو۔مگر یہ کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ جہنم میں ڈالے جانے کے بعد پھر اس سے نکالے جائیں گے اور اس طرح نکلیں گے جیسا کہ آنبوس کی لکڑیاں (جل بھن کر) نکلتی ہیں پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو نکلیں گے ۔یہ سن کر ہم وہاں سے نکلے اور کہنے لگے ہلاکت ہو تمہارے (خارجیوں ) کے لئے کیا یہ شیخ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ سکتا ہے ۔(ہر گز ایسا نہیں ) چنانچہ ایک شخص کے علاوہ ہم سب خارجیوں کی بات سے پھر گئے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)
خارجی قرآن کریم کی ان آیات سے استدلال کر کے سمجھتے تھے کہ جو شخص جہنم میں داخل کر دیا گیا وہ جہنم سے نہیں نکل سکتا حالانکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ جہنم سے نکالیں جائیں گے جیسا کہ بہت سی احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ احادیث قرآن کریم کی ان آیات کی وضاحت اور تشریح کرتی ہیں اور قرآن کریم کے خلاف نہیں ہیں جیسا کہ خوارج اور منکرین حدیث نے سمجھ رکھا ہے ۔
جناب عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے تقدیدر کے انکار کا پہلو نکلتا ہے تو عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی پڑھیں تھیں اور وہ ان کی صحیح تاویل جانتے تھے جب کہ تم اس سے بے خبر ہو۔(ابو دائود مع عون المعبود جلد ۴ ص۳۲۵)
مطلب یہ ہے کہ آج اگر تمہیں قرآن کریم کی بعض آیات کے ظاہر سے دھوکہ ہو رہا ہے اور تم انہیں احادیث کے خلاف سمجھ رہے ہوتو یہ تمہارے ذہن کی کجی اور ٹیڑ ہے ورنہ کبھی احادیث بھی بھلا قرآن کریم کے خلاف ہو سکتی ہیں۔