• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم عرب حکومتیں اور سرداریاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عرب حکومتیں اور سرداریاں

اسلام سے پہلے عرب کے جو حالات تھے ان پر گفتگو کرتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی حکومتوں ، سرداریوں اور مذاہب واَدیان کا بھی ایک مختصر سا خاکہ پیش کر دیا جائے تاکہ ظہورِ اسلام کے وقت جو پوزیشن تھی وہ بآسانی سمجھ میں آسکے۔
جس وقت جزیرۃ العرب پر خورشیدِ اسلام کی تابناک شعاعیں ضوء فگن ہوئیں وہاں دوقسم کے حکمران تھے۔ ایک تاج پوش بادشاہ جو درحقیقت مکمل طورپر آزاد وخود مختار نہ تھے، دوسرے قبائلی سردار جنھیں اختیارات وامتیازات کے اعتبار سے وہی حیثیت حاصل تھی جو تاجپوش بادشاہوں کی تھی لیکن ان کی اکثریت کو ایک مزید امتیاز یہ بھی حاصل تھا کہ وہ پورے طور پر آزاد وخود مختار تھے۔ تاجپوش حکمران یہ تھے : شاہانِ یمن ، شاہانِ آلِ غسان (شام ) اور شاہان ِ حِیرہ (عراق) بقیہ عرب حکمراں تاجپوش نہ تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یمن کی بادشاہی

عرب عاربہ میں سے جو قدیم یمانی قوم معلوم ہوسکی وہ قوم سبا ہے اور (عراق ) سے جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان میں ڈھائی ہزار سال قبل مسیح اس قوم کا ذکر ملتا ہے، لیکن اس کے عروج کا زمانہ گیارہ صدی قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی تاریخ کے اہم ادوار یہ ہیں :
۱۳۰۰ ق م سے ۶۵۰ ق م تک کا دور :...اس دور میں شاہانِ سبا کا لقب مکرب سَبَا تھا۔ ان کا پایۂ تخت صرواح تھا۔ جس کے کھنڈر آج بھی مارب کے شمال مغرب میں پچاس کیلومیٹر کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں اور خربیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی دور میں مآرب کے مشہور بند کی بنیاد رکھی گئی ، جسے یمن کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں سلطنت سبا کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انھوں نے عرب کے اندر اور عرب سے باہر جگہ جگہ اپنی نو آبادیاں قائم کر لی تھیں۔ اس دور کے بادشاہوں کی تعداد کا اندازہ ۲۳ سے ۲۶ تک کیا گیا ہے۔
1۔۔ ۶۵۰ ق م سے ۱۵ ۱ ق م تک کا دور :...اس میں سبا کے بادشاہوں نے مکرب کا لفظ چھوڑ کر ملک (بادشاہ) کا لقب اختیار کرلیا اور صرواح کے بجائے مآرب کو اپنا دار السلطنت بنایا۔ اس شہر کے کھنڈر آج بھی صنعاء سے ۱۹۲ کیلومیٹر مشرق میں پائے جاتے ہیں۔
2۔۔ ۱۱۵ق م سے ۳۰۰ ء تک کا دور:...اس دور میں سبا کی مملکت پر قبیلہ حِمیر کو غلبہ حاصل رہا اور اس نے مآرب کے بجائے رَیدان کو اپنا پایۂ تخت بنایا۔ پھر ریدان کا نام ظفار پڑ گیا۔ جس کے کھنڈرات آج بھی شہر ''یریم'' کے قریب ایک مُدَوّر پہاڑی پر پائے جاتے ہیں۔
یہی دور ہے جس میں قوم سبا کا زوال شروع ہوا۔ پہلے نبطیوں نے شمالی حجاز پر اپنا اقتدار قائم کر کے سبا کو ان کی نو آبادیوں سے نکال باہر کیا۔ پھر رومیوں نے مصر وشام اور شمالی حجاز پر قبضہ کر کے ان کی تجارت کے بحری راستے کو مخدوش کر دیا اور اس طرح ان کی تجارت رفتہ رفتہ تباہ ہو گئی۔ ادھر قحطانی قبائل خود بھی باہم دست وگریباں تھے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ قحطانی قبائل اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کر اِدھر اُدھر پراگندہ ہو گئے۔
3۔۔ ۳۰۰ء کے بعد سے آغاز اسلام تک کا دور: ...اس دور میں یمن کے اندر مسلسل اضطراب وانتشار برپا رہا۔ انقلابات آئے ، خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی قوموں کو مداخلت کے مواقع ہاتھ آئے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یمن کی آزادی سلب ہوگئی۔ چنانچہ یہی دور ہے جس میں رومیوں نے عدن پر فوجی تسلط قائم کیا اور ان کی مدد سے حبشیوں نے حمیر وہمدان کی باہمی کشاکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ۳۴۰ ء میں پہلی بار یمن پر قبضہ کیا۔ جو ۳۷۸ ء تک برقرار رہا۔ اس کے بعد یمن کی آزادی تو بحال ہو گئی مگر ''مآرب'' کے مشہور بند میں رخنے پڑنا شروع ہوگئے۔ یہاں تک کہ بالآخر ۴۵۰ ء یا ۴۵۱ ء میں بند ٹوٹ گیا اور وہ عظیم سیلاب آیا جس کا ذکر قرآن مجید (سورۂ سبا ) میں سَیلِ عَرِم کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ بڑا زبردست حادثہ تھا۔ اس کے نتیجے میں بستیاں کی بستیاںویران ہو گئیں اور بہت سے قبائل اِدھر اُدھر بکھر گئے۔
پھر ۵۲۳ء میں ایک اور سنگین حادثہ پیش آیا۔ یعنی یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے نجران کے عیسائیوں پر ایک ہیبت ناک حملہ کر کے انہیں عیسائی مذہب چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہا اور جب وہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو ذونواس نے خندقیں کھدوا کر انہیں بھڑکتی ہوئی آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ قرآن مجید نے سورۂ بروج کی آیات میں اسی لرزہ خیز واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس واقعے کا نتیجہ یہ ہوا کہ عیسائیت ، جو رومی بادشاہوں کی قیادت میں بلادِ عرب کی فتوحات اور توسیع پسندی کے لیے پہلے ہی سے چست وچابکدست تھی ... انتقام لینے پر تُل گئی اور حبشیوں کو یمن پر حملے کی ترغیب دیتے ہوئے انہیں بحری بیڑہ مہیا کیا۔ حبشیوں نے رومیوں کی شہ پاکر ۵۲۵ ء میں اریاط کی زیر قیادت ستر ہزار فوج سے یمن پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ قبضہ کے بعد ابتدائً تو شاہ حبش کے گورنر کی حیثیت سے اریاط نے یمن پر حکمرانی کی لیکن پھر اس کی فوج کے ایک ماتحت کمانڈر - اَبرہَہَ - نے ۵۴۹ ء میں اسے قتل کر کے خوداقتدار پر قبضہ کر لیا اور شاہ حبش کو بھی اپنے اس تصرف پر راضی کرلیا۔
یہ وہی اَ بْرہَہَ ہے جس نے جنوری ۵۷۱ ء میں خانۂ کعبہ کو ڈھانے کی کوشش کی اور لشکر جرار کے علاوہ چند ہاتھیوں کو بھی فوج کشی کے لیے ساتھ لایا جس کی وجہ سے یہ لشکر اصحابِ فیل کے نام سے مشہور ہو گیا۔
صنعاء واپس آکر ابرہہ انتقال کر گیا۔ اس کی جگہ اس کا بیٹا یکسوم، پھر دوسرا بیٹا مسروق جانشین ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں اہل یمن پر ظلم ڈھانے اور انہیں مقہور وذلیل کرنے میں اپنے باپ سے بھی بڑھ کر تھے۔
اِدھر واقعۂ فیل میں حبشیوں کی جو تباہی ہوئی اس سے فائدے اٹھاتے ہوئے اہل یمن نے حکومتِ فارس سے مدد مانگی، اور حبشیوں کے خلاف عَلم بغاوت بلند کر کے سیف ذِی یَزَن حمیری کے بیٹے معدیکرب کی قیادت میں حبشیوں کو ملک سے نکال باہر کیا اور ایک آزاد وخود مختار قوم کی حیثیت سے معدیکرب کو اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔ یہ ۵۷۵ء کا واقعہ ہے۔
آزادی کے بعد معدیکرب نے کچھ حبشیوں کو اپنی خدمت اور شاہی جلو کی زینت کے لیے روک لیا لیکن یہ شوق مہنگا ثابت ہو ا۔ ان حبشیوں نے ایک روز معدیکرب کو دھوکے سے قتل کر کے ذِی یَزَن کے خاندان سے حکمرانی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گُل کردیا۔ ادھر کسریٰ نے اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے صنعاء پر ایک فارسی النسل گورنر مقرر کر کے یمن کو فارس کا ایک صوبہ بنا لیا۔ اس کے بعد یمن پر یکے بعد دیگرے فارسی گورنروں کا تقرر ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ آخری گورنر باذان نے ۶۲۸ ء میں اسلام قبول کرلیا اور اس کے ساتھ ہی یمن فارسی اقتدار سے آزاد ہوکر اسلام کی عملداری میں آگیا۔
(تاریخی مآخذ میں سنین وغیرہ کے سلسلے میں بڑے اختلا فات ہیں۔ حتیٰ کہ بعض محققین نے ان تفصیلات کو ''پہلوں کا افسانہ ''قرار دیا ہے۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

حِیرہ کی بادشاہی

عراق اور اس کے نواحی علاقوں پر کوروش کبیر (خورس یا سائرس ذو القرنین ۵۵۷ ق م - ۵۲۹ ق م ) کے زمانے ہی سے اہل فارس کی حکمرانی چلی آرہی تھی۔ کوئی نہ تھا جو ان کے مد مقابل آنے کی جرأت کرتا۔ یہاں تک کہ ۳۲۶ ق م میں سکندر مَقدونی نے دارا اوّل کو شکست دے کر فارسیوں کی طاقت توڑدی۔ جس کے نتیجے میں ان کا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور طوائف الملوکی شروع ہوگئی۔ یہ انتشار ۲۳۰ء تک جاری رہا اور اسی دوران قحطانی قبائل نے ترک وطن کر کے عراق کے ایک بہت بڑے شاداب سرحدی علاقے پر بود و باش اختیار کی۔ پھر عدنانی تارکین وطن کا ریلا آیا اور انھوں نے لَڑ بِھڑ کر جزیرۂ فراتیہ کے ایک حصے کو اپنا مسکن بنا لیا۔
ان تارکین وطن میں سے پہلا شخص جو حکمران ہوا وہ آلِ قحطان کا مالک بن فہم تنوخی تھا۔ ان کی جائے پناہ انبار میں یا انبار سے متصل تھی۔ اس کا جانشین ایک روایت کے مطابق(تاریخ طبری ۲/۵۴۰ اسی کو ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں اختیار کیا ہے۔ ۲/۲/۲۳۸۔ اوریہ کہ جذیمہ عمرو بن فہم کے بعد والی ہوا۔ جو اس کے بھائی مالک بن فہم کا بیٹا تھا۔) اسی کا بھائی عمرو بن فہم ہوا اور ایک دوسری روایت کے مطابق(یعقوبی ۱/۱۶۹۔ مسعودی ۳/۹۰۔) اس کا بیٹا جذیمہ بن مالک بن فہم ہوا ، جس کا لقب ابرش اور وضاح تھا۔
ادھر ۲۲۶ ء میں ارد شیر نے جب ساسانی حکومت کی داغ بیل ڈالی تو رفتہ رفتہ فارسیوں کی طاقت ایک بار پھر پلٹ آئی۔ ارد شیر نے فارسیوں کی شیرازہ بندی کی اور اپنے ملک کی سرحد پر آباد عربوں کو زیر کیا۔ اسی کے نتیجے میں قضاعہ نے ملک شام کی راہ لی ، جبکہ حِیرہ اور انبار کے عرب باشندوں نے باجگذار بننا گوارا کیا۔
اردشیر کے عہد میں حیرہ ، بادیۃ العراق اور جزیرہ کے ربیعی اور مُضری قبائل پر جذیمۃالوضاح کی حکمرانی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اَرد شیر نے محسوس کر لیا تھا کہ عرب باشندوں پر براہ راست حکومت کرنا اور انہیں سرحد پر لوٹ مار سے باز رکھنا ممکن نہیں۔ بلکہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ خود کسی ایسے عرب کو ان کا حکمران بنادیا جائے جسے اپنے کنبے قبیلے کی حمایت وتائید حاصل ہو۔ اس کا ایک فائد ہ یہ بھی ہوگا کہ بوقت ضرورت رومیوں کے خلاف ان سے مدد لی جاسکے گی اور شام کے روم نواز عرب حکمرانوں کے مقابل عراق کے ان عرب حکمرانوں کو کھڑا کیا جاسکے گا۔
شاہانِ حیرہ کے پاس فارسی فوج کی ایک یونٹ ہمیشہ رہا کرتی تھی ، جس سے بادیہ نشین عرب باغیوں کی سرکوبی کا کام لیا جاتا تھا۔
۲۶۸ ء کے عرصے میں جذیمہ فوت ہو گیا اور عَمرو بن عَدی بن نصر لَخمی ( ۲۶۸ ء - ۲۸۸ ء ) اس کا جانشین ہوا۔ یہ قبیلۂ لخم کا پہلا حکمران تھا اور شاپور اردشیر کا ہمعصر تھا۔ اس کے بعد قباذ بن فیروز ( ۴۴۸ ء ...۵۳۱ ء )کے عہد تک حیرہ پر لخمیوں کی مسلسل حکمرانی رہی۔ قباذ کے عہد میں مُزدَک کا ظہور ہوا۔ جو اباحیت کا علمبردار تھا۔ قباذ اور اس کی بہت سی رعایا نے مُزدَک کی ہمنوائی کی۔ پھر قباذ نے حیرہ کے بادشاہ منذر بن ماء السماء ( ۵۱۳ ء - ۵۵۴ ء ) کو پیغام بھیجا کہ تم بھی یہی مذہب اختیار کر لو۔ منذر بڑا غیرت مند تھا انکار کر بیٹھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قباذ نے اسے معزول کرکے اس کی جگہ مُزدَک کی دعوت کے ایک پیر وکار حارث بن عمرو بن حجر کِندی کو حِیرہ کی حکمرانی سونپ دی۔
قباذ کے بعد فارس کی باگ دوڑ کسریٰ نوشیرواں ( ۵۳۱ ء- ۵۷۸ ء ) کے ہاتھ آئی۔ اسے اس مذہب سے سخت نفرت تھی۔ اس نے مُزدَک اور اس کے ہمنواؤو ں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کروادیا۔ منذر کو دوبارہ حیرہ کا حکمران بنادیا اور حارث بن عمرو کو اپنے ہاں بلا بھیجا لیکن وہ بنو کلب کے علاقے میں بھاگ گیا اور وہیں اپنی زندگی گزار دی۔
منذربن ماء السماء کے بعدنُعمان بن منذر ( ۵۸۳ ء...۶۰۵ ء ) کے عہد تک حیرہ کی حکمرانی اسی کی نسل میں چلتی رہی، پھر زید بن عدی عبادی نے کسریٰ سے نعمان بن منذر کی جھوٹی شکایت کی۔ کسریٰ بھڑک اٹھا اور نعمان کو اپنے پاس طلب کیا۔ نعمان چپکے سے بنو شَیبان کے سردار ہانی بن مسعود کے پاس پہنچا اور اپنے اہل وعیال اور مال ودولت کو اس کی امانت میں دے کر کسریٰ کے پاس گیا۔ کسریٰ نے اسے قید کر دیا اور وہ قید ہی میں فوت ہوگیا۔
ادھر کسریٰ نے نعمان کو قید کرنے کے بعد اس کی جگہ ایاس بن قَبِیصہ طائی کو حیرہ کا حکمران بنایا اور اسے حکم دیا کہ ہانی بن مسعود سے نعمان کی امانت طلب کرے ، ہانی غیرت مند تھا۔ اس نے صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ اعلان جنگ بھی کردیا۔ پھر کیا تھا۔ ایاس اپنے جَلو میں کسریٰ کے لاؤ لشکر اور مرزبانوں کی جماعت لے کر روانہ ہوا اور ذِی قار کے میدان میں فریقین کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں بنو شیبان کو فتح حاصل ہوئی اور فارسیوں نے شرمناک شکست کھائی۔ یہ پہلا موقع تھا جب عرب نے عجم پر فتح حاصل کی تھی۔ (یہ بات خلیفہ بن خیاط نے اپنی مسند ص ۲۴ میں اور ابن سعد نے طبقات ۷/۷۷ میں رسول اللہﷺ سے مرفوعاً ذکر کی ہے۔)
یہ واقعہ نبیﷺ کی پیدائش کے تھوڑے ہی دنوں پہلے یا بعد کا ہے۔ آپﷺ کی پیدائش حِیرہ پر ایاس کی حکمرانی کے آٹھویں مہینہ ہوئی تھی۔
ایاس کے بعد کِسریٰ نے حِیرہ پر ایک فارسی حاکم مقرر کیا جس کا نام آزاد بہ بن ماہ بیان بن مہرابنداد تھا۔ اس نے ۶۱۴ء سے ۶۳۱ء تک سترہ سال حکومت کی۔ اس کے بعد ۶۳۲ ء میں لخمیوں کا اقتدار پھر بحال ہو گیا اور منذر بن معرور نامی اس قبیلے کے ایک شخص نے باگ دوڑ سنبھالی۔ مگر ابھی اس کو برسرِ اقتدار آئے صرف آٹھ ماہ ہوئے تھے کہ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ اسلام کا سیل رواں لے کر حیرہ میں داخل ہو گئے۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے : طبری ، مسعودی ، ابن قتیبہ، ابن خلدون ، بلادی اور ابن الاثیر وغیرہ۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شام کی بادشاہی

جس زمانے میں عرب قبائل کی ہجرت زورں پر تھی قبیلہ قضاعہ کی چند شاخیں حدود شام میں آکر آباد ہو گئیں۔ ان کا تعلق بنی سلیم بن حلوان سے تھا اور ان ہی میں ایک شاخ بنو ضجعم بن سلیم تھی ، جسے ضَجَاعِمہ کے نام سے شہرت ہوئی۔
قُضاعہ کی ایک شاخ کو رومیوں نے صحرائے عرب کے بدوؤں کی لوٹ مار روکنے اور فارسیوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنا ہمنوا بنایا اور اسی کے ایک فرد کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھ دیا۔ اس کے بعد مدتوں ان کی حکمرانی رہی۔ ان کا مشہور ترین بادشاہ زیاد بن ہبولہ گزرا ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ ضَجَاعِمہ کا دور حکومت پوری دوسری صدی عیسوی کو محیط رہا ہے۔ اس کے بعد اس دیار میں آلِ غسان کی آمد ہوئی اور ضجاعمہ کی حکمرانی جاتی رہی۔ آلِ غسان نے بنو ضجعم کو شکست دے کر ان کے سارے قلمرو پر قبضہ کر لیا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر رومیوں نے بھی آلِ غسان کو دیار شام کے عرب باشندوں کا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ آلِ غسان کا پایہ تخت دُومَۃ الجندل تھا اور رومیوں کے آلۂ کار کی حیثیت سے دیار شام پر حکمرانی مسلسل قائم رہی۔ تا آنکہ خلافت فاروقی میں ۱۳ھ میں یَرموک کی جنگ پیش آئی اور آلِ غسان کا آخری حکمران جبلہ بن ایہم حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: طبری ، مسعودی ، ابن قتیبہ ، ابن خلدون ، بلاذری ، ابن الاثیر وغیرہ۔)
(اگرچہ اس کا غرور اسلامی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور وہ مرتد ہو گیا۔ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حجاز کی امارت
یہ بات تو معلوم ہے کہ مکہ میں آبادی کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہو ا۔ آپ نے ۱۳۷ سال کی عمر پائی۔( پیدائش(مجموعہ بائیبل ) ۲۵:۱۷ تاریخ طبری ۱/۳۱۴۔ ایک دوسرے قول کے مطابق ۱۳۰ سال میں وفات پائی۔ طبری ایضاً و یعقوبی ۱/۲۲۲)​
اور تاحیات مکہ کے سربراہ اور بیت اللہ کے متولی رہے۔ آپ کے بعد آپ کے دوصاحبزادگان ... نابت پھر قَیدار، یا قیدار پھر نابت...یکے بعد دیگرے مکہ کے والی ہوئے۔ ان کے بعد ان کے نانا مضاض بن عَمرو جُرہمی نے زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس طرح مکہ کی سربراہی بنو جرہم کی طرف منتقل ہوگئی اور ایک عرصے تک انھی کے ہاتھ میں رہی۔ حضر ت اسماعیل علیہ السلام چونکہ (اپنے والد کے ساتھ مل کر ) بیت اللہ کے بانی ومعمار تھے، اس لیے ان کی اوّلاد کو ایک باوقار مقام ضرور حاصل رہا، لیکن اقتدار و اختیار میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔​
(ابن ہشام ۱/۱۱۱ - ۱۱۳ ، ابن ہشام نے اسماعیل علیہ السلام کی اوّلادمیں صرف نابت کی تولیت کا ذکر کیا ہے۔)​
پھر دن پر دن اور سال پر سال گزرتے گئے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اوّلاد گوشۂ گمنامی سے نہ نکل سکی۔ یہاں تک کہ بخت نصر کے ظہور سے کچھ پہلے بنو جرہم کی طاقت کمزور پڑ گئی اور مکہ کے افق پر عدنان کا سیاسی ستارہ جگمگانا شروع ہوا۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ بخت نَصر نے ذات عِرق میں عربوں سے جو معرکہ آرائی کی تھی اس میں عرب فوج کا کمانڈر جرہمی نہ تھا۔ بلکہ خود عدنان تھا۔ (تاریخ طبری ۱/۵۵۹ )​
پھر بخت نصر نے جب ۵۸۷ق م میں دوسرا حملہ کیا تو بنو عدنان بھاگ کر یمن چلے گئے۔ اس وقت بنو اسرائیل کے نبی حضرت یَرمیاہ تھے، ان کے شاگرد برخیا عدنان کے بیٹے مَعد کو اپنے ساتھ ملک شام لے گئے اور جب بُخت نصر کا زور ختم ہوا اورمعد مکہ آئے تو انہیں مکہ میں قبیلہ جرہم کا صرف ایک شخص جرشم بن جلہمہ ملا۔ معد نے اس کی لڑکی معانہ سے شادی کی اور اسی کے بطن سے نزا ر پیدا ہوا۔ (تاریخ طبری ۱/۵۵۹ ، ۵۶۰، ۲/۲۷۱ ، فتح الباری ۶/۶۲۲)​
اس کے بعد مکہ میں جرہم کی حالت خراب ہوتی گئی۔ انہیں تنگ دستی نے آ گھیرا ، نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے زائرین بیت اللہ پر زیادتیاں شروع کردیں اور خانۂ کعبہ کا مال کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔( تاریخ طبری ۲/۲۸۴ )ادھر بنو عدنان اندر ہی اندر ان کی حرکتوں پر کڑھتے اور بھڑکتے رہے۔ اسی لیے جب بنو خزاعہ نے مَرّ ا لظہران میں پڑاؤ کیا اور دیکھا کہ بنو عدنان بنو جرہم سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عدنانی قبیلے (بنو بکر بن عبد مناف بن کنانہ ) کو ساتھ لے کر بنو جرہم کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور انہیں مکہ سے نکال کر اقتدار پر خود قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ دوسری صدی عیسوی کے وسط کا ہے۔​
بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت زمزم کا کنواں پاٹ دیا اور اس میں کئی تاریخی چیزیں دفن کر کے اس کے نشانات بھی مٹادیئے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ عمرو بن حارث بن مضاض (یہ وہ مضاض جرہمی نہیں ہے جس کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے میں گزر چکا ہے۔)جرہمی نے خانہ کعبہ کے دونوں (مسعودی نے لکھا ہے کہ اہل فارس پچھلے دور میں خانہ کعبہ کے لیے اموال وجواہرات بھیجتے رہتے تھے۔ ساسان بن بابک نے سونے کے بنے ہوئے دوہرن ، جواہرات ، تلواریں اور بہت سا سونا بھیجا تھا۔ عمرو نے یہ سب زمزم کے کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ کتب تاریخ وسیر کے مصنفین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ چیزیں جرہم ہی کی تھیں ، لیکن جرہم اتنے مالدار نہ تھے کہ یہ چیزیں ان کی طرف منسوب کی جائیں۔ احتمال ہے کہ کسی اور کی رہی ہوں۔ واللہ اعلم (مروج الذہب ۱/۲۴۲ ، ۲۴۳)) ہرن اور اس کے کونے میں لگا ہوا پتھر...حجر اسود... نکال کر زمزم کے کنویں میں دفن کر دیا اور اپنے قبیلے بنو جرہم کو ساتھ لے کر یمن چلاگیا۔ بنو جرہم کو مکہ سے جلاوطنی اور وہاں کی حکومت کے فوت ہونے کا بڑا قلق تھا۔ چنانچہ عمرو مذکور نے اسی سلسلے میں یہ اشعار کہے :​
کأن لم یکن بین الحجون إلی الصفا​
أنیس ولم یسمر بمکۃ سامر​
بلی نحن کنا أہلہا فأبادنا​
صروف اللیالی والجدود العواثر​
(ابن ہشام ۱/۱۱۴، ۱۱۵۔ تاریخ طبری۲/۲۸۵)​
لگتا ہے حَجون سے صفا تک کوئی شناسا تھا ہی نہیں اور نہ کسی قصہ گونے مکہ کی شبانہ محفلوں میں قصہ گوئی کی۔ کیوں نہیں؟ یقینا ہم ہی اس کے باشندے تھے۔ لیکن زمانے کی گردشوں اور ٹوٹی ہوئی قسمتوں نے ہمیں اُجاڑ پھینکا۔​
حضرت اسماعیل علیہ السلا م کا زمانہ تقریباً دوہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس حساب سے مکہ میں قبیلۂ جرہم کا وجود کوئی دوہزار ایک سو برس تک رہا اور ان کی حکمرانی لگ بھگ دو ہزار برس تک رہی۔​
بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کرنے کے بعد بنو بکر کو شامل کیے بغیر تنہا اپنی حکمرانی قائم کی، البتہ تین اہم اور امتیازی مناصب ایسے تھے جو مُضَری قبائل کے حصے میں آئے :​
حاجیوں کو عرفات سے مزدلفہ لے جانا اور یوم النفر:...۱۳/ ذِی الحجہ کو جوکہ حج کے سلسلہ کا آخری دن ہے ... منیٰ سے روانگی کا پروانہ دینا۔یہ اعزاز الیاس بن مضر کے خاندان بنو غَوث بن مرہ کو حاصل تھا۔ جو ''صوفہ'' کہلاتے تھے۔ اس اعزاز کی توضیح یہ ہے کہ ۱۳/ ذی الحجہ کو حاجی کنکری نہ مارسکتے تھے یہاں تک کہ پہلے صوفہ کا ایک آدمی کنکری مار لیتا، پھر حاجی کنکری مار کر فارغ ہوجاتے اور منیٰ سے روانگی کا ارادہ کرتے تو صوفہ کے لوگ منیٰ کی واحد گزر گاہ عقبہ کے دونوں جانب گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور جب تک خود گزر نہ لیتے کسی کو گزرنے نہ دیتے۔ ان کے گزر لینے کے بعد بقیہ لوگوں کے لیے راستہ خالی ہوتا۔ جب صوفہ ختم ہو گئے تو یہ اعزاز بنو تمیم کے خاندان بنوسعد بن زید مناۃ کی طرف منتقل ہو گیا۔​
1۔۔۔۔ ۱۰/ ذی الحجہ کی صبح کو مزدلفہ سے منیٰ کی جانب اِفاضہ (روانگی ): یہ اعزاز بنو عدوان کو حاصل تھا۔​
2۔۔۔۔۔ حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا: یہ اعزاز بنو کنانہ کی ایک شاخ بنو تمیم بن عدی کو حاصل تھا۔ (ابن ہشام ۱/۴۴، ۱۱۹-۱۲۲)​
مکہ پر بنو خزاعہ کا اقتدار کوئی تین سو برس تک قائم رہا۔( یاقوت : مادّہ مکہ ، فتح الباری ۶/۳۳، مروج الذہب للمسعودی ۲/۵۸)اور یہی زمانہ تھا جب عدنانی قبائل مکہ اور حجاز سے نکل کر نجد ، اطرف ِ عراق اور بحرین وغیرہ میں پھیلے اور مکہ کے اطراف میں صرف قریش کی چند شاخیں باقی رہیں ، جو خانہ بدوش تھیں۔ ان کی الگ الگ ٹولیاں تھیں اور بنو کنانہ میں ان کے چند متفرق گھرانے تھے مگر مکہ کی حکومت اور بیت اللہ کی تولیت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھایہاں تک کہ قصی بن کلاب کا ظہور ہو ا۔ (محاضرات خضری ۱/۳۵ ، ابن ہشام ۱/۱۱۷)​
قُصَیّ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ابھی گودہی میں تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی والدہ نے بنوعذرہ کے ایک شخص ربیعہ بن حرام سے شادی کرلی۔ یہ قبیلہ چونکہ ملک شام کے اطراف میں رہتا تھا اس لیے قُصَیّ کی والدہ وہیں چلی گئی اور وہ قُصَیّ کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔ جب قصی جوان ہوا تو مکہ واپس آیا۔ اس وقت مکہ کا والی حُلیل بن حبشیہ خزاعی تھا۔ قصی نے اس کے پاس اس کی بیٹی حبی سے نکاح کے لیے پیغام بھیجا ، حُلیل نے منظور کر لیا اور شادی کردی۔ (ابن ہشام ۱/۱۱۷، ۱۱۸ حلیل ح کو پیش، ل کو زبر ، حبشیہ ح کو زبر ، ب ساکن ، یہ سلول بن عمرو بن لُحی بن حارثہ بن عمرو بن عامر بن ماء السما ء کا بیٹا تھا۔ حبی میں ح کو پیش ہے ب کو تشدید ہے۔ امالہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ابن حجر ، فتح الباری ۶/۶۳۳ میں کہتے ہیں۔ (اور کچھ دوسرے لوگ بھی یہی کہتے ہیں ) کہ حبشیہ کے ح کو پیش ہے۔ ب ساکن ش کو زیر اور ی کو تشدید ہے۔)اس کے بعد حلیل کا انتقال ہو ا تو مکہ اور بیت اللہ کی تولیت کے لیے خزاعہ اور قریش کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس کے نتیجے میں مکہ اور بیت اللہ پر قصی کا اقتدار قائم ہو گیا۔​
جنگ کا سبب کیا تھا ؟ اس بارے میں تین بیانات ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب قصی کی اوّلاد خوب پھَل پُھول گئی۔ اس کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی اور اس کا وقار بھی بڑھ گیا ، اور ادھر حُلیل کا انتقال ہو گیا تو قصی نے محسوس کیا کہ اب بنو خزاعہ اور بنوبکر کے بجائے میں کعبہ کی تولیت اور مکہ کی حکومت کا کہیں زیادہ حقدار ہوں۔ اسے یہ احساس بھی تھا کہ قریش خالص اسماعیلی عرب ہیں اور بقیہ آلِ اسماعیل کے سردار بھی ہیں (لہٰذا سربراہی کے مستحق وہی ہیں ) چنانچہ اس نے قریش اور بنو خزاعہ کے کچھ لوگوں سے گفتگو کی کہ کیوں نہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کو مکہ سے نکال باہر کیا جائے۔ ان لوگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۱۷، ۱۱۸ ، طبری ۲/۲۵۵ ، ۲۵۶)​
دوسرا بیان یہ ہے کہ ...خزاعہ کے بقول ...خود حلیل نے قصی کو وصیت کی تھی کہ وہ کعبہ کی نگہداشت کرے گا اور مکہ کی باگ ڈور سنبھالے گا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۱۸ ، الروض الانف ۱/۱۴۲)​
تیسرا بیان یہ ہے کہ حلیل نے اپنی بیٹی حبی کو بیت اللہ کی تولیت سونپی تھی اور ابو غبشان(غ کو پیش ب ساکن۔ اس کا نام محرش یا سلیم بن عمرو تھا، فتح الباری ۶/۶۳۳ ، الروض الانف ۱/۱۴۲​
) خزاعی کو اس کا وکیل بنایا تھا، چنانچہ حبی کے نائب کی حیثیت سے وہی خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا۔ جب حُلیل کا انتقال ہو گیا تو قصی نے ابو غبشان سے ایک مشک شراب کے بدلے کعبہ کی تولیت خرید لی لیکن خزاعہ نے یہ خرید وفروخت منظور نہ کی اور قصی کو بیت اللہ سے روکنا چاہا۔ اس پر قصی نے بنو خزاعہ کو مکہ سے نکالنے کے لیے قریش اور بنو کنانہ کو جمع کیا اوروہ قصی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے۔ (تاریخ یعقوبی ۱/۲۳۹ فتح الباری ۶/۶۳۴ مسعودی ۲/۵۸)​
بہر حال وجہ جو بھی ہو ، واقعات کا سلسلہ اس طرح ہے کہ جب حلیل کا انتقال ہو گیا ، اور صوفہ نے وہی کرنا چاہا جو وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے تو قصی نے قریش اور کنانہ کے لوگوں کو ہمراہ لیا اور عقبہ کے نزدیک جہاں وہ جمع تھے ان سے آکر کہا کہ تم سے زیادہ ہم اس کے اعزاز کے حقدار ہیں۔ اس پر صوفہ نے لڑائی چھیڑ دی۔ مگر قصی نے انہیں مغلوب کر کے اس کا اعزاز چھین لیا۔ یہی موقع تھا جب خزاعہ اور بنو بکر نے قصی سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اس پر قصی نے انہیں بھی للکارا، پھر کیا تھا۔ فریقین میں سخت جنگ چھڑ گئی اور طرفین کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ اس کے بعد صلح کی آواز یں بلند ہوئیں اور بنو بکر کے ایک شخص یَعمر بن عوف کو حَکَم بنا یا گیا۔ یَعمرَ نے فیصلہ کیا کہ خزاعہ کے بجائے قصی خانہ کعبہ کی تولیت اور مکہ کے اقتدار کا زیادہ حقدار ہے۔ نیز قصی نے جتنا خون بہا یا ہے سب رائیگاں قرار دے کر پاؤں تلے روند رہا ہوں، البتہ خزاعہ اوربنو بکر نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کی دِیت ادا کریں اور خانہ کعبہ کو بلا روک ٹوک قصی کے حوالے کردیں...اسی فیصلے کی وجہ سے یَعمر کا لقب شدّاخ پڑ گیا۔( ابن ہشام ۱/۱۲۳، ۱۲۴ تاریخ طبری ۲/۲۵۵-۲۵۸) شَدّاخ کے معنی ہیں پاؤں تلے روندنے والا۔​
اس فیصلے کے نتیجے میں قصی اور قریش کو مکہ پر مکمل نفوذ اور سیاست حاصل ہو گئی اور قصی بیت اللہ کا دینی سربراہ بن گیا، جس کی زیارت کے لیے عرب کے گوشے گوشے سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مکہ پرقصی کے تسلط کا یہ واقعہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط، یعنی ۴۴۰کا ہے۔ (فتح الباری ۶/۶۳۳ مسعودی ۲/۵۸ قلب جزیرۃ العرب ص ۲۳۲)​
قصی نے مکہ کا بندوبست اس طرح کیا کہ قریش کو اطراف مکہ سے بلا کر پورا شہر ان پر تقسیم کر دیا اور ہر خاندان کے بود وباش کا ٹھکانا مقرر کر دیا، البتہ مہینے آگے پیچھے کرنے والوں کو ، نیز آلِ صفوان، بنو عدوان اور بنو مرہ بن عوف کو ان کے مناصب پر برقرار رکھا کیونکہ قصی سمجھتا تھا کہ یہ بھی دین ہے جس میں ردوبدل کرنا درست نہیں۔( ابن ہشام ۱/۱۲۴ ، ۱۲۵)​
قصی کا ایک کار نامہ یہ بھی ہے کہ اس نے حرم کعبہ کے شمال میں دار الندوہ تعمیر کیا۔ (اس کا دروازہ مسجد کی طرف تھا ) دار الندوہ درحقیقت قریش کی پارلیمنٹ تھی، جہاں تمام بڑے بڑے اور اہم معاملات کے فیصلے ہوتے تھے۔ قریش پر دار الندوہ کے بڑے احسانات ہیں کیونکہ یہ ان کی وحدت کا ضامن تھا اور یہیں ان کے الجھے ہوئے مسائل بحسن وخوبی طے ہوتے تھے۔( ایضا ۱/۱۲۵ محاضرات خضری ۱/۳۶ ، اخبار الکرام ص ۱۵۲)​
قصی کو سربراہی اور عظمت کے حسبِ ذیل مظاہر حاصل تھے :
دار الندوہ کی صدارت:... جہاں بڑے بڑے معاملات کے متعلق مشورے ہو تے تھے اور جہاں لوگ اپنی لڑکیوں کی شادیاں بھی کرتے تھے۔​
لواء : ... یعنی جنگ کا پرچم قصی ہی کے ہاتھوں باندھا جاتا تھا۔​
حجابت: ...یعنی خانہ کعبہ کی پاسبانی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کا دروازہ قصی ہی کھولتا تھا اور وہی خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید بر داری کا کام انجام دیتا تھا۔​
سقایہ (پانی پلانا ):... اس کی صورت یہ تھی کہ کچھ حوض میں حاجیوں کے لیے پانی بھر دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ کھجور اور کشمش ڈال کر اسے شیریں بنادیا جاتا تھا ، جب حجاج مکہ آتے تھے تو اسے پیتے تھے۔​
رفادہ( حاجیوں کی میز بانی ): ...اس کے معنی یہ ہیں کہ حاجیوں کے لیے بطور ضیافت کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے قصی نے قریش پر ایک خاص رقم مقرر کر رکھی تھی ، جو موسم حج میں قصی کے پاس جمع کی جاتی تھی۔ قصی اس رقم سے حاجیوں کے لیے کھانا تیار کراتا تھا جو لوگ تنگ دست ہوتے ، یا جن کے پاس توشہ نہ ہوتا وہ یہی کھانا کھاتے تھے۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۰)​
یہ سارے مناصب قصی کو حاصل تھے۔ قصی کا پہلا بیٹا عبد الدار تھا مگر اس کے بجائے دوسرا بیٹا عبد مناف ، قصی کی زندگی ہی میں شرف وسیادت کے مقام پر پہنچ گیا۔ اس لیے قصی نے عبد الدار سے کہا کہ یہ لوگ اگرچہ شرف وسیادت میں تم پر بازی لے جاچکے ہیں مگر میں تمہیں ان کے ہم پلہ کر کے رہوں گا۔ چنانچہ قصی نے اپنے سارے مناصب اور اعزاز ات کی وصیت عبدا لدار کے لیے کر دی۔ یعنی دار الندوہ کی ریاست ، خانہ کعبہ کی حجابت اور لواء ، سقایت اور رفادہ سب کچھ عبد الدار کو دے دیا۔ چونکہ کسی کام میں قصی کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی اور نہ اس کی کوئی بات مسترد کی جاتی تھی، بلکہ اس کاہر اقدام ، اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی واجب الاتباع دین سمجھا جاتا تھا ، اس لیے اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹوںنے کسی نزاع کے بغیر اس کی وصیت قائم رکھی۔ لیکن جب عبد مناف کی وفات ہوگئی تو اس کے بیٹوںنے ان مناصب کے سلسلے میں اپنے چچیرے بھائیوں، یعنی عبد الدار کی اوّلاد سے تنافس کیا۔ اس کے نتیجے میں قریش دو گروہ میں بٹ گئے اور قریب تھا کہ دونوں میں جنگ ہو جاتی مگر پھر انھوں نے صلح کی آواز بلند کی اور ان مناصب کو باہم تقسیم کر لیا۔ چنانچہ سقایت اور رفادہ کے مناصب بنو عبد مناف کو دیے گئے اور دار الندوہ کی سربراہی، لواء اور حجابت بنو عبد الدار کے ہاتھ میں رہی۔ پھر بنوعبد مناف نے اپنے حاصل شدہ مناصب کے لیے قرعہ ڈالا تو قرعہ ہاشم بن عبد مناف کے نام نکلا۔ لہٰذا ہاشم ہی نے اپنی زندگی بھر سقایہ ورفادہ کا انتظام کیا۔ البتہ جب ہاشم کا انتقال ہو گیا تو ان کے بھائی مُطّلب نے ان کی جانشینی کی۔ مگر مُطّلب کے بعد ان کے بھتیجے عبد المطلب بن ہاشم نے... جو رسول اللہﷺ کے دادا تھے... یہ منصب سنبھال لیا اور ان کے بعد ان کی اوّلاد ان کی جانشین ہوئی ، یہاں تک کہ جب اسلام کا دور آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب اس منصب پر فائز تھے۔ (ایضاً ۱/۱۲۹ -۱۳۲ ، ۱۳۷ ، ۱۴۲ ، ۱۷۸، ۱۷۹)​
ان کے علاوہ کچھ اور مناصب بھی تھے، جنھیں قریش نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ ان مناصب اور انتظامات کے ذریعے قریش نے ایک چھوٹی سی حکومت...بلکہ حکومت نما انتظامیہ... قائم کر رکھی تھی۔ جس کے سرکاری ادارے اور تشکیلات کچھ اسی ڈھنگ کی تھیں جیسی آج کل پارلیمانی مجلسیں اور ادارے ہوا کرتے ہیں۔ ان مناصب کا خاکہ حسب ذیل ہے :
ایسار:...یعنی فال گیری اور قسمت دریافت کرنے کے لیے بتوں کے پاس جو تیر رکھے رہتے تھے ان کی تولیت–– یہ منصب بنو جمح کو حاصل تھا۔​
مالیات کا نظم:... یعنی بتوں کے تقرب کے لیے جو نذرانے اور قربانیاں پیش کی جاتی تھیں ان کا انتظام کرنا ، نیز جھگڑے اور مقدمات کا فیصلہ کرنا...یہ کام بنو سہم کو سونپا گیا تھا۔​
شوریٰ :...یہ اعزاز بنو اسد کو حاصل تھا۔​
اشناق: ...یعنی دیت اور جرمانوں کا نظم ...اس منصب پر بنو تَیْم فائز تھے۔​
عقاب :...یعنی قومی پرچم کی علمبرداری ...یہ بنو امیہ کا کام تھا۔​
قبہ :...یعنی فوجی کیمپ کا انتظام اور شہسواروں کی قیادت ...یہ بنو مخزوم کے حصے میں آیا تھا۔​
سفارت:...بنو عدی کا منصب تھا۔( تاریخ ارض القرآن ۲/۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶ لیکن صحیح یہ ہے کہ علمبرداری کا حق بنو عبد الدار کا تھا۔ بنو امیہ کو قیادت عامہ یعنی سپہ سالار کا حق حاصل تھا۔)​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

بقیہ عرب کی سرداریاں


ہم پچھلے صفحات میں قحطانی اور عدنانی قبائل کے ترکِ وطن کا ذکر کرچکے ہیں اور بتلا چکے ہیں کہ پورا ملک عرب ان قبائل کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی امارتوں اور سرداریوں کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ جو قبائل حِیرہ کے ارد گرد آباد تھے انہیں حکومت حیرہ کے تابع مانا گیا اور جن قبائل نے بادیۃ الشام میں سکونت اختیار کی تھی، انہیں غسّانی حکمرانوں کے تابع قرار دیا گیا مگر یہ ماتحتی صرف نام کے لیے تھی ، عملاً نہ تھی۔ ان دومقامات کو چھوڑ کر اندرون عرب آباد قبائل بہر طور آزاد تھے۔
ان قبائل میں سرداری نظام رائج تھا۔ قبیلے خود اپنا سردار مقرر کرتے تھے اور ان سرداروں کے لیے ان کا قبیلہ ایک مختصر سی حکومت ہوا کرتا تھا۔ سیاسی وجود وتحفظ کی بنیاد ، قبائلی وحدت پر عصبیت اور اپنی سر زمین کی حفاظت ودفاع کے مشترکہ مفادات تھے۔
قبائلی سرداروں کا درجہ اپنی قوم میں بادشاہوں جیسا تھا، قبیلہ صلح وجنگ میں بہر حال اپنے سردار کے فیصلے کے تابع ہوتاتھا اور کسی حال میں الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔ سردار کو وہی مطلق العنانی اور استبداد حاصل تھا جو کسی ڈکٹیٹر کو حاصل ہو ا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض سرداروں کا یہ حال تھا کہ اگر وہ بگڑ جاتے تو ہزاروں تلواریں یہ پوچھے بغیر بے نیام ہو جاتیں کہ سردارکے غصے کا سبب کیا ہے۔ تاہم چونکہ ایک ہی کنبے کے چچیرے بھائیوں میں سرداری کے لیے کشاکش بھی ہوا کرتی تھی اس لیے اس کا اقتضا ء تھا کہ سردار ، اپنے قبائلی عوام کے ساتھ رواداری برتے، خوب مال خرچ کرے ، مہمان نوازی میں پیش پیش رہے۔ کرَم و بُرد باری سے کام لے، شجاعت کا عملی مظاہرہ کرے اور غیرتمندانہ امور کی طرف سے دفاع کرے تاکہ لوگوں کی نظر میں عموماً ، اور شعرا ء کی نظر میں خصوصاً خوبی و کمالات کا جامع بن جائے۔ (کیونکہ شعراء اس دور میں قبیلے کی زبان ہوا کرتے تھے) اور اس طرح سردار اپنے مد مقابل حضرات سے بلند وبالا درجہ حاصل کرلے۔
سرداروں کے کچھ مخصوص اور امتیازی حقوق بھی ہوا کرتے تھے ، جنھیں ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے :
لک المرباع فینا ،والصفایا
وحکمک والنشیطۃ والفضول

''ہمارے درمیان تمہارے لیے مالِ غنیمت کا چوتھائی ہے اور منتخب مال اور وہ مال ہے جس کا تم فیصلہ کردو اور جو سرراہ ہاتھ آجائے اور جو تقسیم سے بچ رہے۔ ''
مِرباع : مالِ غنیمت کا چوتھائی حصہ۔
صَفِیّ : وہ مال جسے تقسیم سے پہلے ہی سردار اپنے لیے منتخب کر لے۔
نشیطہ: وہ مال جو اصل قوم تک پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں سردار کے ہاتھ لگ جائے۔
فضول :وہ مال جو تقسیم کے بعد بچ رہے اور غازیوں کی تعدادپر برابرتقسیم نہ ہو مثلاً: تقسیم سے بچے ہوئے اونٹ گھوڑے وغیرہ ا ن سب اقسام کے مال سردار قبیلہ کا حق ہوا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سیاسی حالت

جزیزۃ العرب کی حکومت اور حکمرانوں کا ذکر ہوچکا۔ بیجانہ ہوگا کہ اب ان کے کسی قدر سیاسی حالات بھی ذکر کردیے جائیں۔
جزیرۃالعرب کے وہ تینوں سرحدی علاقے جو غیر ممالک کے پڑوس میں پڑتے تھے ان کی سیاسی حالت سخت اضطراب وانتشار اور انتہائی زوال وانحطاط کا شکار تھی۔ انسان ، مالک اور غلام یا حاکم اور محکوم کے دوطبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ سارے فوائد سربراہوں...اور خصوصاً غیر ملکی سربراہوں ...کو حاصل تھے اور سارا بوجھ غلاموں کے سر تھا۔ اسے زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ رعایا درحقیقت ایک کھیتی تھی جو حکومت کے لیے محاصل اور آمدنی فراہم کرتی تھی اور حکومتیں اسے لذتوں ، شہوتوں ، عیش رانی اور ظلم وجَور کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ عوام اپنی تاریکی میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے اور ان پر ہر طرف سے ظلم کی بارش ہو رہی تھی مگر وہ حرفِ شکایت زبان پر نہ لا سکتے تھے، بلکہ ضروری تھا کہ طرح طرح کی ذِلت ورسوائی اور ظلم وچیرہ دستی برداشت کریں ، اور زبان بند رکھیں۔ کیونکہ حکومت مُستَبِدَّانہ تھی اور انسانی حقوق نام کی کسی چیز کا کہیں کو ئی وجود نہ تھا۔
ان علاقوں کے پڑوس میں رہنے والے قبائل تذبذب کا شکار تھے۔ انہیں اغراض وخواہشات اِدھر سے اُدھر، اور اُدھر سے اِدھر پھینکتی رہتی تھیں ، کبھی وہ عراقیوں کے ہم نوا ہو جاتے تھے اور کبھی شامیوں کی سر میں سر ملاتے تھے۔
جو قبائل اندرونِ عرب آباد تھے ان کے بھی جوڑ ڈھیلے اور شیرازہ منتشر تھا۔ ہر طرف قبائلی جھگڑوں ، نسلی فسادات اور مذہبی اختلافات کی گرم بازاری تھی۔ جس میں ہر قبیلے کے افراد بہر صورت اپنے اپنے قبیلے کا ساتھ دیتے تھے۔ خواہ وہ حق پر ہو یا باطل پر۔ چنانچہ ان کا ترجمان کہتا ہے ؎
وما أنا إلا من غزیۃ إن غوت
غویت وإن ترشد غزیۃ أرشد

''میں بھی تو قبیلہ غزیہ ہی کا ایک فرد ہوں۔ اگر وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی غلط راہ پر چلوں گا اور اگر وہ صحیح راہ پر چلے گا تو میں بھی صحیح راہ پر چلوں گا۔ ''
اندرونِ عرب کو ئی بادشاہ نہ تھا جو ان کی آواز کو قوت پہنچاتا اور نہ کوئی مرجع ہی تھا جس کی طرف مشکلات وشدائد میں رجوع کیا جاتا اور جس پر وقت پڑنے پر اعتماد کیا جاتا۔
ہاں، حجاز کی حکومت کو قدر واحترام کی نگاہ سے یقیناً دیکھا جاتا تھا اور اسے مرکز دین کا قائد وپاسبان بھی تصور کیا جاتا تھا۔ یہ حکومت درحقیقت ایک طرح کی دنیوی قیادت اور دینی پیشوائی کا معجون مرکب تھی۔ اسے اہل عرب پر دینی پیشوائی کے نام سے بالادستی حاصل تھی اور حرم اوراطرافِ حرم پر اس کی باقاعدہ حکمرانی تھی۔ وہی زائرین بیت اللہ کی ضروریات کا انتظام اور شریعت ابراہیمی کے احکام کا نفاذ کر تی تھی اور اس کے پاس پارلیمانی اداروں جیسے ادارے اور تشکیلات بھی تھیں لیکن یہ حکومت اتنی کمزور تھی کہ اندرونِ عرب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رکھتی تھی ، جیسا کہ حبشیوں کے حملے کے موقع پر ظاہر ہوا۔

الرحیق المختوم
 
Top