یہ بات تو معلوم ہے کہ مکہ میں آبادی کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہو ا۔ آپ نے ۱۳۷ سال کی عمر پائی۔( پیدائش(مجموعہ بائیبل ) ۲۵:۱۷ تاریخ طبری ۱/۳۱۴۔ ایک دوسرے قول کے مطابق ۱۳۰ سال میں وفات پائی۔ طبری ایضاً و یعقوبی ۱/۲۲۲)
اور تاحیات مکہ کے سربراہ اور بیت اللہ کے متولی رہے۔ آپ کے بعد آپ کے دوصاحبزادگان ... نابت پھر قَیدار، یا قیدار پھر نابت...یکے بعد دیگرے مکہ کے والی ہوئے۔ ان کے بعد ان کے نانا مضاض بن عَمرو جُرہمی نے زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس طرح مکہ کی سربراہی بنو جرہم کی طرف منتقل ہوگئی اور ایک عرصے تک انھی کے ہاتھ میں رہی۔ حضر ت اسماعیل علیہ السلام چونکہ (اپنے والد کے ساتھ مل کر ) بیت اللہ کے بانی ومعمار تھے، اس لیے ان کی اوّلاد کو ایک باوقار مقام ضرور حاصل رہا، لیکن اقتدار و اختیار میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔
(ابن ہشام ۱/۱۱۱ - ۱۱۳ ، ابن ہشام نے اسماعیل علیہ السلام کی اوّلادمیں صرف نابت کی تولیت کا ذکر کیا ہے۔)
پھر دن پر دن اور سال پر سال گزرتے گئے لیکن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اوّلاد گوشۂ گمنامی سے نہ نکل سکی۔ یہاں تک کہ بخت نصر کے ظہور سے کچھ پہلے بنو جرہم کی طاقت کمزور پڑ گئی اور مکہ کے افق پر عدنان کا سیاسی ستارہ جگمگانا شروع ہوا۔ اس کاثبوت یہ ہے کہ بخت نَصر نے ذات عِرق میں عربوں سے جو معرکہ آرائی کی تھی اس میں عرب فوج کا کمانڈر جرہمی نہ تھا۔ بلکہ خود عدنان تھا۔ (تاریخ طبری ۱/۵۵۹ )
پھر بخت نصر نے جب ۵۸۷ق م میں دوسرا حملہ کیا تو بنو عدنان بھاگ کر یمن چلے گئے۔ اس وقت بنو اسرائیل کے نبی حضرت یَرمیاہ تھے، ان کے شاگرد برخیا عدنان کے بیٹے مَعد کو اپنے ساتھ ملک شام لے گئے اور جب بُخت نصر کا زور ختم ہوا اورمعد مکہ آئے تو انہیں مکہ میں قبیلہ جرہم کا صرف ایک شخص جرشم بن جلہمہ ملا۔ معد نے اس کی لڑکی معانہ سے شادی کی اور اسی کے بطن سے نزا ر پیدا ہوا۔ (تاریخ طبری ۱/۵۵۹ ، ۵۶۰، ۲/۲۷۱ ، فتح الباری ۶/۶۲۲)
اس کے بعد مکہ میں جرہم کی حالت خراب ہوتی گئی۔ انہیں تنگ دستی نے آ گھیرا ، نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے زائرین بیت اللہ پر زیادتیاں شروع کردیں اور خانۂ کعبہ کا مال کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔( تاریخ طبری ۲/۲۸۴ )ادھر بنو عدنان اندر ہی اندر ان کی حرکتوں پر کڑھتے اور بھڑکتے رہے۔ اسی لیے جب بنو خزاعہ نے مَرّ ا لظہران میں پڑاؤ کیا اور دیکھا کہ بنو عدنان بنو جرہم سے نفرت کرتے ہیں تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک عدنانی قبیلے (بنو بکر بن عبد مناف بن کنانہ ) کو ساتھ لے کر بنو جرہم کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور انہیں مکہ سے نکال کر اقتدار پر خود قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ دوسری صدی عیسوی کے وسط کا ہے۔
بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت زمزم کا کنواں پاٹ دیا اور اس میں کئی تاریخی چیزیں دفن کر کے اس کے نشانات بھی مٹادیئے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ عمرو بن حارث بن مضاض (یہ وہ مضاض جرہمی نہیں ہے جس کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے میں گزر چکا ہے۔)جرہمی نے خانہ کعبہ کے دونوں (مسعودی نے لکھا ہے کہ اہل فارس پچھلے دور میں خانہ کعبہ کے لیے اموال وجواہرات بھیجتے رہتے تھے۔ ساسان بن بابک نے سونے کے بنے ہوئے دوہرن ، جواہرات ، تلواریں اور بہت سا سونا بھیجا تھا۔ عمرو نے یہ سب زمزم کے کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ کتب تاریخ وسیر کے مصنفین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ چیزیں جرہم ہی کی تھیں ، لیکن جرہم اتنے مالدار نہ تھے کہ یہ چیزیں ان کی طرف منسوب کی جائیں۔ احتمال ہے کہ کسی اور کی رہی ہوں۔ واللہ اعلم (مروج الذہب ۱/۲۴۲ ، ۲۴۳)) ہرن اور اس کے کونے میں لگا ہوا پتھر...حجر اسود... نکال کر زمزم کے کنویں میں دفن کر دیا اور اپنے قبیلے بنو جرہم کو ساتھ لے کر یمن چلاگیا۔ بنو جرہم کو مکہ سے جلاوطنی اور وہاں کی حکومت کے فوت ہونے کا بڑا قلق تھا۔ چنانچہ عمرو مذکور نے اسی سلسلے میں یہ اشعار کہے :
کأن لم یکن بین الحجون إلی الصفا
أنیس ولم یسمر بمکۃ سامر
بلی نحن کنا أہلہا فأبادنا
صروف اللیالی والجدود العواثر
(ابن ہشام ۱/۱۱۴، ۱۱۵۔ تاریخ طبری۲/۲۸۵)
لگتا ہے حَجون سے صفا تک کوئی شناسا تھا ہی نہیں اور نہ کسی قصہ گونے مکہ کی شبانہ محفلوں میں قصہ گوئی کی۔ کیوں نہیں؟ یقینا ہم ہی اس کے باشندے تھے۔ لیکن زمانے کی گردشوں اور ٹوٹی ہوئی قسمتوں نے ہمیں اُجاڑ پھینکا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلا م کا زمانہ تقریباً دوہزار سال قبل مسیح ہے۔ اس حساب سے مکہ میں قبیلۂ جرہم کا وجود کوئی دوہزار ایک سو برس تک رہا اور ان کی حکمرانی لگ بھگ دو ہزار برس تک رہی۔
بنو خزاعہ نے مکہ پر قبضہ کرنے کے بعد بنو بکر کو شامل کیے بغیر تنہا اپنی حکمرانی قائم کی، البتہ تین اہم اور امتیازی مناصب ایسے تھے جو مُضَری قبائل کے حصے میں آئے :
حاجیوں کو عرفات سے مزدلفہ لے جانا اور یوم النفر:...۱۳/ ذِی الحجہ کو جوکہ حج کے سلسلہ کا آخری دن ہے ... منیٰ سے روانگی کا پروانہ دینا۔یہ اعزاز الیاس بن مضر کے خاندان بنو غَوث بن مرہ کو حاصل تھا۔ جو ''صوفہ'' کہلاتے تھے۔ اس اعزاز کی توضیح یہ ہے کہ ۱۳/ ذی الحجہ کو حاجی کنکری نہ مارسکتے تھے یہاں تک کہ پہلے صوفہ کا ایک آدمی کنکری مار لیتا، پھر حاجی کنکری مار کر فارغ ہوجاتے اور منیٰ سے روانگی کا ارادہ کرتے تو صوفہ کے لوگ منیٰ کی واحد گزر گاہ عقبہ کے دونوں جانب گھیرا ڈال کر کھڑے ہوجاتے اور جب تک خود گزر نہ لیتے کسی کو گزرنے نہ دیتے۔ ان کے گزر لینے کے بعد بقیہ لوگوں کے لیے راستہ خالی ہوتا۔ جب صوفہ ختم ہو گئے تو یہ اعزاز بنو تمیم کے خاندان بنوسعد بن زید مناۃ کی طرف منتقل ہو گیا۔
1۔۔۔۔ ۱۰/ ذی الحجہ کی صبح کو مزدلفہ سے منیٰ کی جانب اِفاضہ (روانگی ): یہ اعزاز بنو عدوان کو حاصل تھا۔
2۔۔۔۔۔ حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا: یہ اعزاز بنو کنانہ کی ایک شاخ بنو تمیم بن عدی کو حاصل تھا۔ (ابن ہشام ۱/۴۴، ۱۱۹-۱۲۲)
مکہ پر بنو خزاعہ کا اقتدار کوئی تین سو برس تک قائم رہا۔( یاقوت : مادّہ مکہ ، فتح الباری ۶/۳۳، مروج الذہب للمسعودی ۲/۵۸)اور یہی زمانہ تھا جب عدنانی قبائل مکہ اور حجاز سے نکل کر نجد ، اطرف ِ عراق اور بحرین وغیرہ میں پھیلے اور مکہ کے اطراف میں صرف قریش کی چند شاخیں باقی رہیں ، جو خانہ بدوش تھیں۔ ان کی الگ الگ ٹولیاں تھیں اور بنو کنانہ میں ان کے چند متفرق گھرانے تھے مگر مکہ کی حکومت اور بیت اللہ کی تولیت میں ان کا کوئی حصہ نہ تھایہاں تک کہ قصی بن کلاب کا ظہور ہو ا۔ (محاضرات خضری ۱/۳۵ ، ابن ہشام ۱/۱۱۷)
قُصَیّ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ابھی گودہی میں تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی والدہ نے بنوعذرہ کے ایک شخص ربیعہ بن حرام سے شادی کرلی۔ یہ قبیلہ چونکہ ملک شام کے اطراف میں رہتا تھا اس لیے قُصَیّ کی والدہ وہیں چلی گئی اور وہ قُصَیّ کو بھی اپنے ساتھ لیتی گئی۔ جب قصی جوان ہوا تو مکہ واپس آیا۔ اس وقت مکہ کا والی حُلیل بن حبشیہ خزاعی تھا۔ قصی نے اس کے پاس اس کی بیٹی حبی سے نکاح کے لیے پیغام بھیجا ، حُلیل نے منظور کر لیا اور شادی کردی۔ (ابن ہشام ۱/۱۱۷، ۱۱۸ حلیل ح کو پیش، ل کو زبر ، حبشیہ ح کو زبر ، ب ساکن ، یہ سلول بن عمرو بن لُحی بن حارثہ بن عمرو بن عامر بن ماء السما ء کا بیٹا تھا۔ حبی میں ح کو پیش ہے ب کو تشدید ہے۔ امالہ کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ ابن حجر ، فتح الباری ۶/۶۳۳ میں کہتے ہیں۔ (اور کچھ دوسرے لوگ بھی یہی کہتے ہیں ) کہ حبشیہ کے ح کو پیش ہے۔ ب ساکن ش کو زیر اور ی کو تشدید ہے۔)اس کے بعد حلیل کا انتقال ہو ا تو مکہ اور بیت اللہ کی تولیت کے لیے خزاعہ اور قریش کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس کے نتیجے میں مکہ اور بیت اللہ پر قصی کا اقتدار قائم ہو گیا۔
جنگ کا سبب کیا تھا ؟ اس بارے میں تین بیانات ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب قصی کی اوّلاد خوب پھَل پُھول گئی۔ اس کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی اور اس کا وقار بھی بڑھ گیا ، اور ادھر حُلیل کا انتقال ہو گیا تو قصی نے محسوس کیا کہ اب بنو خزاعہ اور بنوبکر کے بجائے میں کعبہ کی تولیت اور مکہ کی حکومت کا کہیں زیادہ حقدار ہوں۔ اسے یہ احساس بھی تھا کہ قریش خالص اسماعیلی عرب ہیں اور بقیہ آلِ اسماعیل کے سردار بھی ہیں (لہٰذا سربراہی کے مستحق وہی ہیں ) چنانچہ اس نے قریش اور بنو خزاعہ کے کچھ لوگوں سے گفتگو کی کہ کیوں نہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کو مکہ سے نکال باہر کیا جائے۔ ان لوگوں نے اس کی رائے سے اتفاق کیا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۱۷، ۱۱۸ ، طبری ۲/۲۵۵ ، ۲۵۶)
دوسرا بیان یہ ہے کہ ...خزاعہ کے بقول ...خود حلیل نے قصی کو وصیت کی تھی کہ وہ کعبہ کی نگہداشت کرے گا اور مکہ کی باگ ڈور سنبھالے گا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۱۸ ، الروض الانف ۱/۱۴۲)
تیسرا بیان یہ ہے کہ حلیل نے اپنی بیٹی حبی کو بیت اللہ کی تولیت سونپی تھی اور ابو غبشان(غ کو پیش ب ساکن۔ اس کا نام محرش یا سلیم بن عمرو تھا، فتح الباری ۶/۶۳۳ ، الروض الانف ۱/۱۴۲
) خزاعی کو اس کا وکیل بنایا تھا، چنانچہ حبی کے نائب کی حیثیت سے وہی خانہ کعبہ کا کلید بردار تھا۔ جب حُلیل کا انتقال ہو گیا تو قصی نے ابو غبشان سے ایک مشک شراب کے بدلے کعبہ کی تولیت خرید لی لیکن خزاعہ نے یہ خرید وفروخت منظور نہ کی اور قصی کو بیت اللہ سے روکنا چاہا۔ اس پر قصی نے بنو خزاعہ کو مکہ سے نکالنے کے لیے قریش اور بنو کنانہ کو جمع کیا اوروہ قصی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جمع ہو گئے۔ (تاریخ یعقوبی ۱/۲۳۹ فتح الباری ۶/۶۳۴ مسعودی ۲/۵۸)
بہر حال وجہ جو بھی ہو ، واقعات کا سلسلہ اس طرح ہے کہ جب حلیل کا انتقال ہو گیا ، اور صوفہ نے وہی کرنا چاہا جو وہ ہمیشہ کرتے آئے تھے تو قصی نے قریش اور کنانہ کے لوگوں کو ہمراہ لیا اور عقبہ کے نزدیک جہاں وہ جمع تھے ان سے آکر کہا کہ تم سے زیادہ ہم اس کے اعزاز کے حقدار ہیں۔ اس پر صوفہ نے لڑائی چھیڑ دی۔ مگر قصی نے انہیں مغلوب کر کے اس کا اعزاز چھین لیا۔ یہی موقع تھا جب خزاعہ اور بنو بکر نے قصی سے دامن کشی اختیار کرلی۔ اس پر قصی نے انہیں بھی للکارا، پھر کیا تھا۔ فریقین میں سخت جنگ چھڑ گئی اور طرفین کے بہت سے آدمی مارے گئے۔ اس کے بعد صلح کی آواز یں بلند ہوئیں اور بنو بکر کے ایک شخص یَعمر بن عوف کو حَکَم بنا یا گیا۔ یَعمرَ نے فیصلہ کیا کہ خزاعہ کے بجائے قصی خانہ کعبہ کی تولیت اور مکہ کے اقتدار کا زیادہ حقدار ہے۔ نیز قصی نے جتنا خون بہا یا ہے سب رائیگاں قرار دے کر پاؤں تلے روند رہا ہوں، البتہ خزاعہ اوربنو بکر نے جن لوگوں کو قتل کیا ہے ان کی دِیت ادا کریں اور خانہ کعبہ کو بلا روک ٹوک قصی کے حوالے کردیں...اسی فیصلے کی وجہ سے یَعمر کا لقب شدّاخ پڑ گیا۔( ابن ہشام ۱/۱۲۳، ۱۲۴ تاریخ طبری ۲/۲۵۵-۲۵۸) شَدّاخ کے معنی ہیں پاؤں تلے روندنے والا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں قصی اور قریش کو مکہ پر مکمل نفوذ اور سیاست حاصل ہو گئی اور قصی بیت اللہ کا دینی سربراہ بن گیا، جس کی زیارت کے لیے عرب کے گوشے گوشے سے آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مکہ پرقصی کے تسلط کا یہ واقعہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط، یعنی ۴۴۰کا ہے۔ (فتح الباری ۶/۶۳۳ مسعودی ۲/۵۸ قلب جزیرۃ العرب ص ۲۳۲)
قصی نے مکہ کا بندوبست اس طرح کیا کہ قریش کو اطراف مکہ سے بلا کر پورا شہر ان پر تقسیم کر دیا اور ہر خاندان کے بود وباش کا ٹھکانا مقرر کر دیا، البتہ مہینے آگے پیچھے کرنے والوں کو ، نیز آلِ صفوان، بنو عدوان اور بنو مرہ بن عوف کو ان کے مناصب پر برقرار رکھا کیونکہ قصی سمجھتا تھا کہ یہ بھی دین ہے جس میں ردوبدل کرنا درست نہیں۔( ابن ہشام ۱/۱۲۴ ، ۱۲۵)
قصی کا ایک کار نامہ یہ بھی ہے کہ اس نے حرم کعبہ کے شمال میں دار الندوہ تعمیر کیا۔ (اس کا دروازہ مسجد کی طرف تھا ) دار الندوہ درحقیقت قریش کی پارلیمنٹ تھی، جہاں تمام بڑے بڑے اور اہم معاملات کے فیصلے ہوتے تھے۔ قریش پر دار الندوہ کے بڑے احسانات ہیں کیونکہ یہ ان کی وحدت کا ضامن تھا اور یہیں ان کے الجھے ہوئے مسائل بحسن وخوبی طے ہوتے تھے۔( ایضا ۱/۱۲۵ محاضرات خضری ۱/۳۶ ، اخبار الکرام ص ۱۵۲)
قصی کو سربراہی اور عظمت کے حسبِ ذیل مظاہر حاصل تھے :
دار الندوہ کی صدارت:... جہاں بڑے بڑے معاملات کے متعلق مشورے ہو تے تھے اور جہاں لوگ اپنی لڑکیوں کی شادیاں بھی کرتے تھے۔
لواء : ... یعنی جنگ کا پرچم قصی ہی کے ہاتھوں باندھا جاتا تھا۔
حجابت: ...یعنی خانہ کعبہ کی پاسبانی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کا دروازہ قصی ہی کھولتا تھا اور وہی خانہ کعبہ کی خدمت اور کلید بر داری کا کام انجام دیتا تھا۔
سقایہ (پانی پلانا ):... اس کی صورت یہ تھی کہ کچھ حوض میں حاجیوں کے لیے پانی بھر دیا جاتا تھا اور اس میں کچھ کھجور اور کشمش ڈال کر اسے شیریں بنادیا جاتا تھا ، جب حجاج مکہ آتے تھے تو اسے پیتے تھے۔
رفادہ( حاجیوں کی میز بانی ): ...اس کے معنی یہ ہیں کہ حاجیوں کے لیے بطور ضیافت کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے قصی نے قریش پر ایک خاص رقم مقرر کر رکھی تھی ، جو موسم حج میں قصی کے پاس جمع کی جاتی تھی۔ قصی اس رقم سے حاجیوں کے لیے کھانا تیار کراتا تھا جو لوگ تنگ دست ہوتے ، یا جن کے پاس توشہ نہ ہوتا وہ یہی کھانا کھاتے تھے۔ (ابن ہشام ۱/۱۳۰)
یہ سارے مناصب قصی کو حاصل تھے۔ قصی کا پہلا بیٹا عبد الدار تھا مگر اس کے بجائے دوسرا بیٹا عبد مناف ، قصی کی زندگی ہی میں شرف وسیادت کے مقام پر پہنچ گیا۔ اس لیے قصی نے عبد الدار سے کہا کہ یہ لوگ اگرچہ شرف وسیادت میں تم پر بازی لے جاچکے ہیں مگر میں تمہیں ان کے ہم پلہ کر کے رہوں گا۔ چنانچہ قصی نے اپنے سارے مناصب اور اعزاز ات کی وصیت عبدا لدار کے لیے کر دی۔ یعنی دار الندوہ کی ریاست ، خانہ کعبہ کی حجابت اور لواء ، سقایت اور رفادہ سب کچھ عبد الدار کو دے دیا۔ چونکہ کسی کام میں قصی کی مخالفت نہیں کی جاتی تھی اور نہ اس کی کوئی بات مسترد کی جاتی تھی، بلکہ اس کاہر اقدام ، اس کی زندگی میں بھی اور اس کی موت کے بعد بھی واجب الاتباع دین سمجھا جاتا تھا ، اس لیے اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹوںنے کسی نزاع کے بغیر اس کی وصیت قائم رکھی۔ لیکن جب عبد مناف کی وفات ہوگئی تو اس کے بیٹوںنے ان مناصب کے سلسلے میں اپنے چچیرے بھائیوں، یعنی عبد الدار کی اوّلاد سے تنافس کیا۔ اس کے نتیجے میں قریش دو گروہ میں بٹ گئے اور قریب تھا کہ دونوں میں جنگ ہو جاتی مگر پھر انھوں نے صلح کی آواز بلند کی اور ان مناصب کو باہم تقسیم کر لیا۔ چنانچہ سقایت اور رفادہ کے مناصب بنو عبد مناف کو دیے گئے اور دار الندوہ کی سربراہی، لواء اور حجابت بنو عبد الدار کے ہاتھ میں رہی۔ پھر بنوعبد مناف نے اپنے حاصل شدہ مناصب کے لیے قرعہ ڈالا تو قرعہ ہاشم بن عبد مناف کے نام نکلا۔ لہٰذا ہاشم ہی نے اپنی زندگی بھر سقایہ ورفادہ کا انتظام کیا۔ البتہ جب ہاشم کا انتقال ہو گیا تو ان کے بھائی مُطّلب نے ان کی جانشینی کی۔ مگر مُطّلب کے بعد ان کے بھتیجے عبد المطلب بن ہاشم نے... جو رسول اللہﷺ کے دادا تھے... یہ منصب سنبھال لیا اور ان کے بعد ان کی اوّلاد ان کی جانشین ہوئی ، یہاں تک کہ جب اسلام کا دور آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب اس منصب پر فائز تھے۔ (ایضاً ۱/۱۲۹ -۱۳۲ ، ۱۳۷ ، ۱۴۲ ، ۱۷۸، ۱۷۹)
ان کے علاوہ کچھ اور مناصب بھی تھے، جنھیں قریش نے باہم تقسیم کر رکھا تھا۔ ان مناصب اور انتظامات کے ذریعے قریش نے ایک چھوٹی سی حکومت...بلکہ حکومت نما انتظامیہ... قائم کر رکھی تھی۔ جس کے سرکاری ادارے اور تشکیلات کچھ اسی ڈھنگ کی تھیں جیسی آج کل پارلیمانی مجلسیں اور ادارے ہوا کرتے ہیں۔ ان مناصب کا خاکہ حسب ذیل ہے :
ایسار:...یعنی فال گیری اور قسمت دریافت کرنے کے لیے بتوں کے پاس جو تیر رکھے رہتے تھے ان کی تولیت–– یہ منصب بنو جمح کو حاصل تھا۔
مالیات کا نظم:... یعنی بتوں کے تقرب کے لیے جو نذرانے اور قربانیاں پیش کی جاتی تھیں ان کا انتظام کرنا ، نیز جھگڑے اور مقدمات کا فیصلہ کرنا...یہ کام بنو سہم کو سونپا گیا تھا۔
شوریٰ :...یہ اعزاز بنو اسد کو حاصل تھا۔
اشناق: ...یعنی دیت اور جرمانوں کا نظم ...اس منصب پر بنو تَیْم فائز تھے۔
عقاب :...یعنی قومی پرچم کی علمبرداری ...یہ بنو امیہ کا کام تھا۔
قبہ :...یعنی فوجی کیمپ کا انتظام اور شہسواروں کی قیادت ...یہ بنو مخزوم کے حصے میں آیا تھا۔
سفارت:...بنو عدی کا منصب تھا۔( تاریخ ارض القرآن ۲/۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۶ لیکن صحیح یہ ہے کہ علمبرداری کا حق بنو عبد الدار کا تھا۔ بنو امیہ کو قیادت عامہ یعنی سپہ سالار کا حق حاصل تھا۔)