دانیال احمد
مبتدی
- شمولیت
- اکتوبر 28، 2019
- پیغامات
- 20
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 25
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عشاء کے بعد چار رکعات پڑھنے کے حوالے سے روایات کی ایک تعداد وارد ہے۔ ان روایات میں مرفوع، موقوف اور مقطوع تینوں شامل ہیں۔
جہاں تک مقطوع روایات کی بات ہے تو وہ اکیلے دین نہیں بن سکتیں۔ امام ابن حجر نے فرمایا: عمل التابعي بمفرده ولو لم يخالف لا يحتج بہ (الفتح 2/306)
جہاں تک مرفوع روایات کی بات ہے تو تمام کی تمام ضعیف ہیں۔ ان کے ضعف کو ظاہر کرنا اس پوسٹ کا ہدف نہیں۔ اور اس حوالے سے انٹرنٹ پر بھی مواد موجود ہے۔
عشاء کے بعد چار رکعات پڑھنے کے حوالے سے موقوف روایات کی بحث اس پوسٹ کا مقصد ہے۔ یہ اس لئے کہ اس متعلق میری نظر سے ان فورمز پہ زیادہ کچہ نہیں گزرا۔
دیگر معاصرین علماء نے ان موقوف روایات کو صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ شیخ البانی نے:
لكن الحديث قد صح موقوفاً عن جمع من الصحابة؛ دون قوله: "قبل أن يخرج من المسجد"؛ فأخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (2/127) ،وابن نصر (قیام اللیل ص92) أيضاً عن عبد الله بن عمرو قال: "من صلى بعد العشاء الآخرة أربع ركعات كن كعدلهن من ليلة القدر."
قلت: وإسناده صحيح.
ثم أخرج ابن أبي شيبة مثله عن عائشة، وابن مسعود، وكعب بن ماتع، ومجاهد، وعبد الرحمن بن الأسود موقوفاً عليهم.
الضعیفہ 11/103
اور ان میں شیخ عبد اللہ السعد بھی شامل ہیں، وغیرہ۔ ان محققین کے نزدیک ان روایات می خفیف ضعف ہے جو کہ مضر نہیں. اور انھوں نے اس لئے بھی استھال برتا کیونکہ یہ روایات فضائل میں ہیں۔
لیکن دیگر اور علماء نے ان روایات کو غریب اور منکر قرار دیا. غریب اس لئے کہ یہ روایات ان صحابہ سے مشہور نہیں ہیں جن سے یہ مروی ہیں۔ ان روایات میں ایسی افرادیت پائی جاتی ہے جو اس طرح کی ثقیل فضیلتوں والی روایات کو زیب نہیں دیتی۔
اور منکر اس لئے کہ ان میں چار مسلسل رکعات کا ذکر ہے، جوکہ صرف فرائض میں ہی ہوتا ہے نوافل میں نہیں. امام ابن خزیمہ نے اس پر طویل بحث کی ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى" (صحیح البخاری 990)
اس امر كى مکمل تحقیق کے لئے دیکھیں:
فضل الرحيم الودود تحريج سنن ابي داود ح1303
اور فضل الاربع بعد العشاء – الشيخ أبو عمرو ياسر بن محمد فتحي آل عيد المصري
اس حوالے سے درج ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:
1. عن عبد الله بن مسعود
مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"جو شخص عشاء کی نماز کے بعد چار رکعات ایک ہی سلام سے پڑھے تو یہ لیلۃ القدر میں چار رکعات کا قیام کرنے کے برابر ہونگی"
مصنف ابن ابی شیبة 7275
سند: وکیع عن عبد الجبار بن عباس عن قیس بن وھب عن مرہ عن عبد اللہ بن مسعود
حکم: ضعیف. عبد الجبار متکلم فیہ ہیں. اقوال ملاحظہ فرمائیں:
ابو حاتم: ثقہ (الجرح والتعديل 6/31)
احمد بن حنبل: لأرجو لأن لا یکون به بأس (العلل ومعرفة الرجال 2/341)
ابن سعد: وکان فیه ضعف (الطبقات 6/346)
العقیلی: ولا یتابع علی حدیثه (الضعفاء 3/88)
ابن عدی: وعامة ما یرویه مما لا یتابع علیه (الکامل 7/17)
2. عن عبد الله بن عمرو:
مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"جو شخص عشاء کی نماز کے بعد چار رکعات پڑھے تو یہ لیلۃ القدر میں چار رکعات کا قیام کرنے کے برابر ہوں گی"
مصنف ابن أبي شيبة 7273 اور الضعفاء للعقيلي 4/101
سند: ابن ادریس اور محمد بن عبد الرحمن السھمی عن حصین عن مجاھد عن عبد اللہ بن عمرو
حکم: شاذ. حصین بن عبد الرحمن السھمی(ثقہ حجت) کا حافظہ آخری عمر میں تبدیل ہو گیا تھا. اس حدیث کو موقوف بیان کرنا غالبا ان کا وہم ہو کیونکہ یہ روایت مجاھد کے قول کی حیثیت سے مقطوعا نقل کی گئی ہے:
خلف بن خلیفہ (صدوق) نے حصین اور ھلال بن خباب دونوں سے مجاھد سے مقطوعا بیان کیا ہے (اخبار الصلاة لعبد الغني المقدسي 51)
امام اعمش (ثقہ ثبت) نے بھی اس کو مجاھد سے مقطوعا بیان کیا ہے (مصنف ابن أبي شيبة 7278)
بظاہر حصین نے اس روایت کو ابن ادریس اور محمد بن عبد الرحمن السھمی کو بیان کرتے ہوئے موقوف بیان کیا، اور خلف بن خلیفہ کو مقطوع. اس سے ان کے اس روایت کی حافظت پر شک اٹھتا ہے.
مزید یہ کہ اگر یہ روایت حضرت عمرو سے ہوتی تو ان سے مشہور ہوتی، اور مجاھد کے علاوہ بھی اس عظیم فضیلت کو بیان کرنے والے ہوتے. لیکن یہ روایت صرف مجاھد ہی سے مشہور ہے. پس اس روایت کی افرادیت بھی ایک علت ہے.
3. عن عائشة:
أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"عشاء کے بعد چار رکعات لیلۃ القدر میں چار رکعات ادا کرنے کے برابر ہوتی ہیں"
مصنف ابن أبي شیبة 7274
سند: محمد بن فضیل عن العلاء بن المسیب عن عبد الرحمن بن الأسود عن ابیہ عن عائشہ
حکم: شاذ. العلاء بن المسیب ثقہ ہیں ان کی حدیث بخاری میں بھی ہے، لیکن یہ کبھی کبھار غلطی کر بیٹھتے تھے.
امام حاکم نے کہا: لہ أوہام فی الإسناد والمتن
اور امام الازدری نے: في بعض حدیثہ نظر (التہذیب 8/193)
امام ابن حجر نے فرمایا: فصح انه (یعنی البخاري) ما أخرج لہ إلا ما توبع علیہ (هدی الساري 434)
یہ بھی العلاء کے اوھام میں سے لگتا ہے، کیونکہ محارب بن دثار سے یہ روایت عبد الرحمن بن الأسود کے قول کی حیثیت سے نقل کی ہے. نا صرف یہ، بلکہ جب محارب نے عبد الرحمن سے پوچھا: ممن سمعتہ؟ تو انہوں نے جواب دیا: إن کن کذا، وإلا فہن صوالح (الزہد لامام احمد 2100)
یعنی عبد الرحمن کے پاس اس کی کوئی سند نہیں تھی. ایک اور سند میں بھی اس کو عبد الرحمن سے مقطوعا نقل کیا گیا ہے، لیکن وہ سند ضعیف ہے (مصنف ابن أبي شیبة 7279 - بكير بن عامر ضعيف)
عشاء کے بعد چار رکعات پڑھنے کے حوالے سے روایات کی ایک تعداد وارد ہے۔ ان روایات میں مرفوع، موقوف اور مقطوع تینوں شامل ہیں۔
جہاں تک مقطوع روایات کی بات ہے تو وہ اکیلے دین نہیں بن سکتیں۔ امام ابن حجر نے فرمایا: عمل التابعي بمفرده ولو لم يخالف لا يحتج بہ (الفتح 2/306)
جہاں تک مرفوع روایات کی بات ہے تو تمام کی تمام ضعیف ہیں۔ ان کے ضعف کو ظاہر کرنا اس پوسٹ کا ہدف نہیں۔ اور اس حوالے سے انٹرنٹ پر بھی مواد موجود ہے۔
عشاء کے بعد چار رکعات پڑھنے کے حوالے سے موقوف روایات کی بحث اس پوسٹ کا مقصد ہے۔ یہ اس لئے کہ اس متعلق میری نظر سے ان فورمز پہ زیادہ کچہ نہیں گزرا۔
دیگر معاصرین علماء نے ان موقوف روایات کو صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ شیخ البانی نے:
لكن الحديث قد صح موقوفاً عن جمع من الصحابة؛ دون قوله: "قبل أن يخرج من المسجد"؛ فأخرجه ابن أبي شيبة في المصنف (2/127) ،وابن نصر (قیام اللیل ص92) أيضاً عن عبد الله بن عمرو قال: "من صلى بعد العشاء الآخرة أربع ركعات كن كعدلهن من ليلة القدر."
قلت: وإسناده صحيح.
ثم أخرج ابن أبي شيبة مثله عن عائشة، وابن مسعود، وكعب بن ماتع، ومجاهد، وعبد الرحمن بن الأسود موقوفاً عليهم.
الضعیفہ 11/103
اور ان میں شیخ عبد اللہ السعد بھی شامل ہیں، وغیرہ۔ ان محققین کے نزدیک ان روایات می خفیف ضعف ہے جو کہ مضر نہیں. اور انھوں نے اس لئے بھی استھال برتا کیونکہ یہ روایات فضائل میں ہیں۔
لیکن دیگر اور علماء نے ان روایات کو غریب اور منکر قرار دیا. غریب اس لئے کہ یہ روایات ان صحابہ سے مشہور نہیں ہیں جن سے یہ مروی ہیں۔ ان روایات میں ایسی افرادیت پائی جاتی ہے جو اس طرح کی ثقیل فضیلتوں والی روایات کو زیب نہیں دیتی۔
اور منکر اس لئے کہ ان میں چار مسلسل رکعات کا ذکر ہے، جوکہ صرف فرائض میں ہی ہوتا ہے نوافل میں نہیں. امام ابن خزیمہ نے اس پر طویل بحث کی ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى" (صحیح البخاری 990)
اس امر كى مکمل تحقیق کے لئے دیکھیں:
فضل الرحيم الودود تحريج سنن ابي داود ح1303
اور فضل الاربع بعد العشاء – الشيخ أبو عمرو ياسر بن محمد فتحي آل عيد المصري
اس حوالے سے درج ذیل روایات پیش کی جاتی ہیں:
1. عن عبد الله بن مسعود
مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ، عَدَلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"جو شخص عشاء کی نماز کے بعد چار رکعات ایک ہی سلام سے پڑھے تو یہ لیلۃ القدر میں چار رکعات کا قیام کرنے کے برابر ہونگی"
مصنف ابن ابی شیبة 7275
سند: وکیع عن عبد الجبار بن عباس عن قیس بن وھب عن مرہ عن عبد اللہ بن مسعود
حکم: ضعیف. عبد الجبار متکلم فیہ ہیں. اقوال ملاحظہ فرمائیں:
ابو حاتم: ثقہ (الجرح والتعديل 6/31)
احمد بن حنبل: لأرجو لأن لا یکون به بأس (العلل ومعرفة الرجال 2/341)
ابن سعد: وکان فیه ضعف (الطبقات 6/346)
العقیلی: ولا یتابع علی حدیثه (الضعفاء 3/88)
ابن عدی: وعامة ما یرویه مما لا یتابع علیه (الکامل 7/17)
2. عن عبد الله بن عمرو:
مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا بَعْدَ الْعِشَاءِ كُنَّ كَقَدْرِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"جو شخص عشاء کی نماز کے بعد چار رکعات پڑھے تو یہ لیلۃ القدر میں چار رکعات کا قیام کرنے کے برابر ہوں گی"
مصنف ابن أبي شيبة 7273 اور الضعفاء للعقيلي 4/101
سند: ابن ادریس اور محمد بن عبد الرحمن السھمی عن حصین عن مجاھد عن عبد اللہ بن عمرو
حکم: شاذ. حصین بن عبد الرحمن السھمی(ثقہ حجت) کا حافظہ آخری عمر میں تبدیل ہو گیا تھا. اس حدیث کو موقوف بیان کرنا غالبا ان کا وہم ہو کیونکہ یہ روایت مجاھد کے قول کی حیثیت سے مقطوعا نقل کی گئی ہے:
خلف بن خلیفہ (صدوق) نے حصین اور ھلال بن خباب دونوں سے مجاھد سے مقطوعا بیان کیا ہے (اخبار الصلاة لعبد الغني المقدسي 51)
امام اعمش (ثقہ ثبت) نے بھی اس کو مجاھد سے مقطوعا بیان کیا ہے (مصنف ابن أبي شيبة 7278)
بظاہر حصین نے اس روایت کو ابن ادریس اور محمد بن عبد الرحمن السھمی کو بیان کرتے ہوئے موقوف بیان کیا، اور خلف بن خلیفہ کو مقطوع. اس سے ان کے اس روایت کی حافظت پر شک اٹھتا ہے.
مزید یہ کہ اگر یہ روایت حضرت عمرو سے ہوتی تو ان سے مشہور ہوتی، اور مجاھد کے علاوہ بھی اس عظیم فضیلت کو بیان کرنے والے ہوتے. لیکن یہ روایت صرف مجاھد ہی سے مشہور ہے. پس اس روایت کی افرادیت بھی ایک علت ہے.
3. عن عائشة:
أَرْبَعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ يَعْدِلْنَ بِمِثْلِهِنَّ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ
"عشاء کے بعد چار رکعات لیلۃ القدر میں چار رکعات ادا کرنے کے برابر ہوتی ہیں"
مصنف ابن أبي شیبة 7274
سند: محمد بن فضیل عن العلاء بن المسیب عن عبد الرحمن بن الأسود عن ابیہ عن عائشہ
حکم: شاذ. العلاء بن المسیب ثقہ ہیں ان کی حدیث بخاری میں بھی ہے، لیکن یہ کبھی کبھار غلطی کر بیٹھتے تھے.
امام حاکم نے کہا: لہ أوہام فی الإسناد والمتن
اور امام الازدری نے: في بعض حدیثہ نظر (التہذیب 8/193)
امام ابن حجر نے فرمایا: فصح انه (یعنی البخاري) ما أخرج لہ إلا ما توبع علیہ (هدی الساري 434)
یہ بھی العلاء کے اوھام میں سے لگتا ہے، کیونکہ محارب بن دثار سے یہ روایت عبد الرحمن بن الأسود کے قول کی حیثیت سے نقل کی ہے. نا صرف یہ، بلکہ جب محارب نے عبد الرحمن سے پوچھا: ممن سمعتہ؟ تو انہوں نے جواب دیا: إن کن کذا، وإلا فہن صوالح (الزہد لامام احمد 2100)
یعنی عبد الرحمن کے پاس اس کی کوئی سند نہیں تھی. ایک اور سند میں بھی اس کو عبد الرحمن سے مقطوعا نقل کیا گیا ہے، لیکن وہ سند ضعیف ہے (مصنف ابن أبي شیبة 7279 - بكير بن عامر ضعيف)