• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عظیم آزمائش

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ۝۰ۭ وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ۝۴۹ وَاِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ۝۵۰
جب ہم نے تمھیں فرعون کی قوم سے چھڑا یا کہ تم کو بڑی تکلیف دیتے تھے کہ تمہاری بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔۱؎ (۴۹)اورجب ہم نے تمہارے(پار اتارنے کے) لیے دریا کو چیرا اورتمھیں بچالیا اور فرعون کے لوگوں (قوم) کو ڈبودیا اور تم دیکھ رہے تھے۔۲؎(۵۰)


۱۔ یوسف علیہ السلام کے زمانہ سے بنی اسرائیل مصر میں آکر آباد ہوئے۔ موسیٰ علیہ السلام تک ان کو تقریباً چار صدیاں ہوئی ہیں۔ اس عرصے میں قبطیوں نے تمام مناصب پر قبضہ جمالیا اور سارے نظام حکومت پر چھاگیے۔ بنی اسرائیل کے لیے سوائے محنت ومزدوری اور کوئی کام باقی نہ رہا۔ادھرفراعنہ نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل زیادہ قوی اور ذہین ہیں تو انھیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ساری حکومت ہی ان کے ہاتھ میں نہ آجائے۔عموماً حکومتیں زورآور اور توانا قوموں سے خائف رہتی ہیں، اس لیے انھوں نے اورزیادہ مظالم توڑے تاکہ ان میں رہی سہی قوت بھی جاتی رہے۔ بالآخر جب کاہنوں نے فرعون کو ڈرایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شان دار انسان پیدا ہونے والا ہے جس سے تیری جابرانہ حکومت خطرہ میں پڑجائے گی تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور بچیوں کو خدمت وغیرہ کے لیے زندہ باقی رکھا۔ ان آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمھیں اس ذلت وخفت سے نجات دی۔ تم میں موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا جس نے تمھیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے بہرہ ورکیا۔

۲۔ البحر سے مراد یہاں دریائے قلزم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو آمادہ کرلیا کہ وہ راتوںرات ارض مصر سے نکل جائیں۔ یہ ہجرت اس لیے تھی تاکہ فرعون کے اثر سے الگ رہ کر ان میں صحیح طریق پر دین کی روح پھونکی جائے۔ غلامی سے دماغی اور ذہنی قویٰ کمزور ہوجاتے ہیں، اس لیے ضرورت تھی کہ آزاد آب وہوا میں انھیں لے جایا جائے۔ فرعون کو جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں تو اس نے باقاعدہ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور دریائے قلزم پر ان کو جالیا۔ وہ دریا کے پھٹ جانے کی وجہ سے پار اترگیے اور فرعون بمعہ اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب گیا۔ یہ اس لیے تھا کہ بنی اسرائیل اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت ناک انجام دیکھ لیںاور ان میں جرأت پیدا ہو، انھیں خدا کے بھیجے ہوئے رسول علیہ السلام کی باتوں پر یقین ہو اور وہ دیکھ لیں کہ جو قوم اپنی فلاح وبہبود کے لیے ذرا بھی کوشاں ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ دریا کا پھٹ جانا اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دینا محض اتفاقی نہ تھابلکہ بطور خرق عادت کے تھا۔ صرف حسن اتفاق ہوتا تو فرعون بھی اس سے فائدہ اٹھالیتا۔
حل لغات
{یسومون} تکلیف دیتے تھے۔ دکھ دیتے تھے۔{بَلاَئٌ} امتحان۔ آزمائش۔ تکلیف۔{فَرَقْنَا} فعل ماضی جمع متکلم۔ مادہ فرق۔ پھاڑنا۔
 
Top