گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
عقائد اہل حدیث
اہل حدیث کے عقائد اتنے واضح ہیں کہ اگر کوئی انصاف سے ان عقائد کو ہی دیکھ لے۔تو وہ خود با خود سمجھ سکتا ہے۔کہ اب ان کی نسبت کس طرف کی جائے۔؟ کیا اسلام کے مشہو ر و معروف فرقوں کی طر ح فرقہ ہے۔؟ جو ان عقائد کا حامل ہو۔؟یا جو ان عقائد کی موجودگی میں اپنی فرقہ وارانہ حیثیت کو قائم رکھ سکتا ہو۔اگرکوئی ایسا فرقہ ہو تو اس کا نام لیجئے۔ اور انگلی رکھ کر کہے کہ اہل حدیث فلاں گروہ ۔پارٹی فرقہ یا جماعت میں شمار ہوسکتے ہیں۔سنیے اہل حدیث کے موٹے موٹے عقائد یہ ہیں۔
یہ ہیں وہ جلی عقائد جن کی بنیاد پر ایک مسلمان سچا پکا مسلمان بن سکتا ہے۔یا یوں کہیے کہ تمام فرقوں سے نکل کر اہل حدیث جماعت میں شامل ہوسکتاہے۔1۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔نہ حاجت روانہ مشکل کشا۔نہ کوئی رزق کھول سکتا ہے۔نہ بند کر سکتاہے۔ نہ بیما ر کر سکتا ہے۔ نہ شفاء دے سکتا ہے۔نہ مار سکتا ہے نہ پیدا کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے 99 اوصاف میں سے کوئی بھی اس کے کسی وصف میں شریک نہیں ہو سکتا ہے۔
2۔آپ ﷺ اللہ کےرسول اور مقبول بندے ہیں۔افضل البشر ہیں۔معصوم عن الخطاء ہیں۔واجب الاطاعت ہیں۔ان کی اطاعت کے سوا کسی امام اور بزرگ اورولی کی اطاعت ہم پرواجب نہیں ہے۔
3۔جملہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور آئمہ عظام۔ اولیائے ذوی الاحترام ہماری آنکھوں کے تارے۔اور سر کے تاج ہیں۔ہم جس جس میں یہ خوبی دیکھیں ان کی اقتداء کر سکتے ہیں۔مگر ان کی تقلید کو واجب نہیں گردان سکتے۔ کیونکہ امکان ہے ان سے خظاء ہوجائے۔ معصوم عن الخطاء صرف آپ ﷺ کی ذات ہے۔اوروہی ذات واجب الاطاعت ہے۔مگر ان بزرگوں میں سے کسی ایک کی بھی توہین کرنا ہمارے نزدیک گناہ میں داخل ہے۔
4۔دینی احکام اور مسائل میں محمدرسول اللہﷺ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے۔ہاں فیصلہ وہاں سے نہ ملے اور کسی صحابی یا کسی تابعی یا امام سے مل جائے۔ اسے قبول کر لینا ہمارے ایمان میں داخل ہے۔مگر کسی ایک کا ہو رہنا یا تقلید شخصی قبول کر لینا ہمارے ہاں جائز نہیں ہے۔
5۔جملہ رسومات قبیحہ اور جاہلیہ خواہ وہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاشرت سے۔تجارت کے متعلق ہوں۔یا سیاست سے تمدن کے متعلق ہوں یا تہذہب سے۔مرنے جینے سے متعلق ہوں یا بیاہ شادی سے سب ترک کر دینی چاہییں۔اور سلسلہ میں بجز سنت نبویہﷺ کے کسی چیز کو انگیز نہیں کرنا چا ہیے۔اور اس پر شدت سے پابندی کرنی چاہیے۔اور اس کو تبلیغ و تلقین جاری رکھنی چاہیے۔خواہ کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ پیش آئے۔تبلیغ ہی کے تحت جہاد باللسان، جہادبالقلم، جہاد بالسیف بتدریج واجب قرار پاتے ہیں۔