• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماءاتنے مطعون کیوں؟؟

شمولیت
اپریل 13، 2011
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
142
پوائنٹ
0

اسلام مخالف اور دین بیزار قوتوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ علماء کی معمولی سے معمولی غلطیوں کو اچھال کر عوام کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گفتگو کا آغاز عالم اسلام کی زبوں حالی ، دنیا میں اسلام کی حالت زار، مسلمانوں پر گیر ملکی تسلط غرض جیسی باتوں سے ہوتا ہے۔ظاہر ہے کوئی بھی اس صورتحال سے انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو واقعی سخت ترین حالات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جیسے ہی آپ یہ مان لیتے ہیں تو دوسرے مرحلے میں وہ ان سب خرابیوں کی وجہ علما ءکو قرار دیتے ہیں۔۔ ان کا پروپیگنڈا یہی ہوتا ہے کہ علماء ہی فرسودہ خیالات کے حامی ہیں اور ساری تباہی کی وجہ یہی ہیں۔۔۔ ان کی وجہ سے ہی اسلام کو سر بلندی نہیں مل سکی ہے اور مسلمان ممالک کی حالت زار ایسی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ طبقہ جس میں غیر مذاہب کے لوگ شامل ہیں ، اسلام سے خارج ہونیوالے قادیانی تو خاص کر اس حربے کو استعمال کرتے ہیں جبکہ ان لوگوں کو بھی اس طبقے میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہونے کو ہی اتنا بڑا احسان سمجھتے ہیں کہ ساری زندگی مذہب کی مخالفت کرتے اور کسی بھی اسلام حکم احکام کی پابندی کے بغیر ہی گزار دیتے ہیں ۔۔ان کا موقف ہوتاہے کہ جی وہ ”جاہل علماء“ کے پیروکار نہیں بن سکتے اور اسی ایک ضد کو لیکر وہ دین اسلام سے ہی دور نظر آتے ہیں ۔ ان کے نام نہیں بدلتے لیکن ان کو دیکھ کر اکثر ”یہود وہنود “ شرماتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ اس گروہ کی جانب سے ہی علماء کے بارے میں من گھڑے قصے سنائے جاتے ہیں۔۔۔اور بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوام ان سے مزید متنفر ہوں۔خاص کر جدید دنیاوی علوم کے حامل افراد پر یہ طریقہ کافی اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ انکا دینی علم کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور وہ مغربی علم اور طاقت سے کافی متاثر ہوتے ہیں۔علماء سے خوب خوب متنفر کرنے کے بعد تیسرے مرحلے میں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان حالات میں عالم اسلام کو ایک لیڈر اور ایسے رہنما کی ضرورت ہے کہ جو اس حالت کو بدل دے۔۔اب چونکہ وہ علما ء سے پہلے ہی متنفر کر چکے ہیں۔۔۔اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے یا کم دینی علم رکھنے والے افراد کا دینی طبقے سے رابطہ کم ہی ہوتا ہے۔۔۔اس لیے وہ اسے ہی سچ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک زیادہ تر لوگ اتفاق کرتے ہیں کہ واقعی عالم اسلام کو ایک اچھے لیڈر کی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ مغربی تسلط کو ختم کر دیا جائے۔ اب مرحلہ آتا ہے اپنی من پسند کے لیڈر مسلط کرنے کا۔۔ قادیانی اپنے مسیح موعود کو سب مسائل کا حل قرار دیتے ہیں، کوئی اشتراکیت کا حامی ہے تو کوئی مغربیت اور سرمایہ داری کی مدد سے اسلام کو بچانا چاہتا ہے ۔۔ ہر ایک کی یہی ضد ہوتی ہے کہ اس کا پیش کردہ طریقہ اور بندہ ہی نجات دہندہ ہے۔۔آپ کو ایسے کئی لیڈر اور رہنماءمارکیٹ میں مل سکتے ہیں کہ جو علماءکی تذلیل کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکثر ان کو اسلام دشمن عناصر کی مدد حاصل ہو جاتی ہے اور بعض دین بیزار لوگ بھی ان کے ساتھی بن جاتے ہیں ۔اس گروہ کا بڑا مقصد اپنے مزموم مقاصد کے لیے لوگوں کو علماء سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔ مثلا پاکستان پر دہشت گردی بھارت کرے ، ازبک گوریلے یا بلیک واٹر والے قتل و غارت میں ملوث ہوں الزام ہمیشہ علماء پر ہی آئے گا۔۔۔ اگر پورے ملک میں کہیں کسی کی ذاتی رنجش کے نتیجے میں ہی کوئی دوسرے فرقے کا فرد قتل ہو جائے تو ملزم سارا علما کا طبقہ ہی بنے گا۔۔غرض آپ کو ایسی ہزاروں مثالیں ملیں گی کہ جب مسئلہ کوئی اور ہوتا ہے جبکہ اس کو زیر بحث علماء کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔اور خاص کر پاکستان میں اس کا پروپیگنڈا کرنا انتہائی آسان ہے۔کیونکہ یہاں کے زیادہ تر لوگ ایسے معاملات پر تحقیق وغیرہ کا شوق نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ علماء بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض لوگ خاندانی تعلق اور بعض دوسری وجوہات کی بنا پر اپنے مزموم مقاصد کے لیے عالم دین بننے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور مذہبی رنگ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔لیکن ایسے لوگ نہ صرف بہت جلد بے نقاب ہو جاتے ہیں بلکہ دینی طبقہ انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔آپ کو انسانوں کے اس طبقے سے لاکھ اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ہرگز کوئی عجیب بات نہیں۔ کسی بھی معاشرے میں ایسا ہونا ممکن ہے۔
کیا عیسائی پادریوں کے سکینڈل سامنے نہیں آتے؟
کیا بنیاد پرست عیسائی اور یہودی نہیں ہوتے؟
کیا یہودی علماءفلسطین کے معصوم بچوں کے قتل و غارت کی تبلیغ نہیں کرتے ؟؟
کیا مغربی ممالک میں مختلف گروہوں کے افراد ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال نہیں کرتے۔۔
کیا بھارت کی دس سے زائد ریاستوں میں سرگرم نکسل باغیوں کی تربیت علما اسلام نے کی ہے جو کہ تشدد کی ایک بدترین مثال ہیں۔۔
کیا چرچوں میں پادریوں کی جانب سے زنا اور زیادتیوں کے ہزاروں واقعات سامنے نہیں آ چکے۔
کیا پاکستان میں کرپشن کے ذریعے کھربوں روپے کمانے والوں کا تعلق علما کے طبقے سے ہے۔ جو کہ ملک کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔۔
کیا کسی نے سری لنکا میں تامل باغیوں کے خودکش بمبار نہیں دیکھے ۔
قادیانیوں کی جانب سے پاکستان میں کئی افراد کے قتل اور ایک حالیہ واقعے میں تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کے بیٹے احمد بلا ل کو محض اسلام لانے پر تشدد کا نشانہ بنانے سے ان کے مربی دہشت گرد قرار دئیے گئے ہیں
دنیا کے کئی ممالک میں کیمونسٹوں اور عیسائیوں کی جانب سے بغاوت جاری ہے۔۔۔لیکن کیا کبھی کسی نے اس کو عیسائی مذہب کی غلطی قرار دیا ہے۔۔
کیا امریکہ میں کبھی کسی قتل کی واردات کے بعد عیسائیت اور پادریوں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ یا میڈیا نے عیسائی نے یہودی کو قتل کر دیا کا پروپیگنڈا کیا ہے۔کیا صدر بش کی جانب سے کروسیڈ شروع کرنے کے اعلان پر اس کے رہنما پادری ملزم ٹھہرے۔ہر گز نہیں۔ کبھی بھی نہیں میرے نادان دوستو یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا میں تہذیبوں کی جنگ جاری ہے اور اس میں وہی جیتے گا کہ جو دوسرے کے مذہب ، معاشرے اور اس کے مذہبی طبقے کو ہرانے میں کامیاب رہے گا۔علمائے کرام سمیت کسی بھی طبقے کو غلطیوں سے پاک نہیں قرار دےا جا سکتا ہے ۔ کروڑوں افراد پر مشتمل کسی طبقے کے کچھ افراد غلط بھی ہو سکتے ہیں۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقوں کی شورش کو اسلام اور علماء سے منسلک کیا جاتا ہے ۔ایسے افراد سے سوال ہے کہ بلوچستان میں جو آئے روز قتل و غارت ہوتی ہے اس کے پیچھے کون سے عالم دین ہے۔کیا وہ بھی اسلام کی جنگ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی ناانصافی، غیر ملکی مداخلت، مشرف جیسے حکمرانوں کی جانب سے طاقت کا غیر ضروری استعمال ، کرپشن اور لا قانونیت کے باعث ملکی معیشت کی تباہی۔ اور سب سے بڑھ کر افغانستان میں امریکی موجودگی اور ڈرون حملے وہ بنیادی وجوہات ہیں کہ جن کے باعث ملک ایسے حالات سے دوچار ہے۔۔
۔اگر کوئی طبقہ اس کے لیے اپنی عسکری کارروائیوں کے لیے اسلام کا لفظ استمال کرتا ہے تو اسے ان کی غلط فہمی اور باغی پن قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اسلام فتنے سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن اس کے تحت پورے طبقے کو الزام دینا ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان کی بڑی دینی اور سیاسی جماعتیں عسکری جدوجہد سے اسلام کے نفاذ کے نظریہ سے اختلاف کرتی ہیں۔اور متعدد بار علماءکی جانب سے اس شورش کے خاتمے کے لیے امن کی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔فرقہ واریت کا الزام سب سے بڑھ کر لگایا جاتا ہے۔تو اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اختلاف رائے ہونا کوئی بری بات نہیں۔۔۔ آپ دلائل کی بنیاد پر کسی سے بھی اختلاف کر سکتے ہو۔۔ماسوائے اللہ تعالی اور نبی اکرم ﷺ کے احکامات کے۔۔بعض اوقات بات کے مفہوم اور لاعلمی کی بنیاد پر اختلافات سامنے آتے ہیں۔اور یہ ہرگز ہرگز بری بات نہیں ہے۔ایسا صحابہ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ بڑے بڑے علماءاور محدث ایک دوسرے سے علمی اختلافات کرتے چلے آئے ہیں ۔لیکن کبھی کسی نے دوسرے کو کمتر نہیں سمجھا اور نہ ہی اس کو مار دینے کی دھمکی دی۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد ایک بڑا مسئلہ ہے۔جس کیکوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔یہ سب ایک مخصوص دور میں ہوتا رہا ہے اور ان جھگڑوں میں بعض ملک دشمن اور غیر ملکی عناصر کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔چند برس پہلے تک ہی تمام فرقوں کی نمائندہ جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل بنائی گئی اور سب نے باہمی اتفاق سے ملک میں پرامن ماحول بنا دیا۔ اس میں شعیہ بھی تھے اور سنی بھی ، اہلحدیث بھی اور بریلوی مسلک کی جماعتیں بھی۔ اور ایک اہم ترین بات یہی ہے کہ اگر دنیا بھر میں علماءکا پورا طبقہ ہی فرقہ واریت کی بنیاد پر تشدد کا حامی ہے تو پھر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں یہ سب کچھ کیوں نہیں ہوتا۔۔کیا وہاں شعیہ اور سنی کا اختلاف نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ایک عالمی سازش کے تحت پاکستان میں اس طرح کی کارروائیاں بعض ملک دشمن عناصر کراتے ہیں جس کا مقصد ملک اور اسلام کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکے کا الزام دوسرے پر فرقے پر عائد کریں حالانہ ابھی تک اس کے بھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس بم دھماکے کے بعد کراچی میں قتل و غارت اور مختلف مارکیٹوں کو جلانے کی کارروائی آپ کس کے کھاتے میں ڈالیں گے۔کیا مولانا حسن جان، مفتی شامزئی ، مولانا سرفراز نعیمی ، علامہ احسان الہی ظہیر اور دیگر علما کو بھی علماء نے خود ہی قتل کیا تھا ۔جبکہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت اور مسلمانوں کو مذہب سے قریب تر رکھنے کا فریضہ صرف انہی علمائے کرام نے سرانجام دیا ہے۔اگر آج یورپ اور امریکہ کی عیسائیت اپنے ہاں اسلام کے تیز ترین پھیلاو سے پریشان ہے تو یہ سب اسلام کے خادم ان علما کی ہی وجہ سے ہے۔آپ مسلمانوں کو تو کم علم اور دیگر طعنوں کے ساتھ یہ الزام دے سکتے ہیں کہ وہ علماء کی باتوں میں آ جاتے ہیں۔ لیکن یورپ اور امریکہ اور دیگر ممالک کے بڑے بڑے سکالرز اور صاحب علم افراد کے قبول اسلام کو بھی کیا کوئی حادثہ ہی قرار دیا جائے گا۔ انہوں نے علماءکی ہی دعوت پر اسلام قبول کیا ہے نہ کہ دن رات علماءپر تنقید کرتے مغرب پرستوں کے کہنے پر۔علما کا کام دینی معاملات میں رہنمائی فراہم کرنا ہے اور یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنا یہ فریضہ بخوبی نبھایا ہے۔اگر آپ کو کسی بھی معاملے پر دینی رہنمائی کی ضرورت ہے تو آپ کے لیے مواد کا انبار موجود ملے گا۔اگر تعصب کی آنکھ اتار کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ایک ایسے دور میں کہ جب مغرب سمیت پوری دنیا لادینیت کی لپیٹ میں ہے۔۔۔ عیسائیت کے ماننے والے اس کی تعلیمات پر کی بجائے ملحد بن رہے ہیں یا کم از کم ان کے طرز معاشرت میں مذہب کا کوئی کردار نہیں اور یہی حال ہندوازم کا ہے۔ تو اس دور میں اگر آج بھی مسلمانوں میں کسی حد تک دینی جذبہ برقرار ہے تو یہ صرف ان علما ہی کی وجہ سے ہے۔۔
لاکھوں لوگ کسی بھی غرض کے بغیر رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔۔۔ اسلام پر ہونیوالے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ اگر ڈھونڈنا چاہیں تو ان میں بہت سے خامیاں بھی مل جائیں گی لیکن ان کی ساری زندگی کی خدمات کو کیا نام دیا جائے گا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بہت خوب بھائی! بہت خوب! جزاک عنا وعن العلماء والاسلام خیرا
 
Top