• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء انبیاء کے وارث ھیں ۔۔۔حدیث کی تحقیق

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

من سلك طريقًا يطلبُ فيه علمًا ، سلك اللهُ به طريقًا من طرُقِ الجنَّةِ ، وإنَّ الملائكةَ لَتضعُ أجنحتَها لطالبِ العلمِ رضًا بما يصنع ، وإنَّ العالمَ لَيستغفرُ له مَن في السمواتِ ، ومن في الأرضِ ، والحيتانُ في جوفِ الماءِ ، وإنّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ ، لم يُوَرِّثوا دينارًا ، ولا درهمًا ، إنما وَرّثوا العلمَ ، فمن أخذه أخذ بحظٍّ وافرٍ
الراوي: أبو الدرداء المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الجامع - الصفحة أو الرقم: 6297
خلاصة حكم المحدث: صحيح

کیا یہ حدیث صحیح ھے ؟
اگر ضعیف تو اسکا معنی صحیح ھے؟
اور اگر معنی صحیح ھے تو کیا ھم اس حدیث کو دلیل کے طور پر نقل کر سکتے ھیں؟
جزاکم اللہ خیر و احسن الجزاء

شیخ محترم @اسحاق سلفی صاحب حفظہ اللہ
محترم بھائ @رضا میاں حفظہ اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا یہ حدیث صحیح ھے ؟
اگر ضعیف تو اسکا معنی صحیح ھے؟
اور اگر معنی صحیح ھے تو کیا ھم اس حدیث کو دلیل کے طور پر نقل کر سکتے ھیں؟
جزاکم اللہ خیر و احسن الجزاء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنن الترمذی
باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة
باب: عبادت پر علم و فقہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 2682

حدثنا محمود بن خداش البغدادي حدثنا محمد بن يزيد الواسطي حدثنا عاصم بن رجاء بن حيوة عن قيس بن كثير قال:‏‏‏‏
قدم رجل من المدينة على ابي الدرداء وهو بدمشق ، فقال:‏‏‏‏ ما اقدمك يا اخي؟ فقال:‏‏‏‏ حديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ اما جئت لحاجة؟ قال:‏‏‏‏ لا قال:‏‏‏‏ اما قدمت لتجارة؟ قال:‏‏‏‏ لا قال:‏‏‏‏ ما جئت إلا في طلب هذا الحديث؟ قال:‏‏‏‏ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " من سلك طريقا يبتغي فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضاء لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض حتى الحيتان في الماء وفضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب إن العلماء ورثة الانبياء إن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما إنما ورثوا العلم فمن اخذ به اخذ بحظ وافر " ،


قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا: (اچھا تو سنو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب (علم) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا“ ۱؎۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قال ابو عيسى:‏‏‏‏ ولا نعرف هذا الحديث إلا من حديث عاصم بن رجاء بن حيوة وليس هو عندي بمتصل هكذا ، حدثنا محمود بن خداش هذا الحديث وإنما يروى هذا الحديث عن عاصم بن رجاء بن حيوة عن الوليد بن جميل عن كثير بن قيس عن ابي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا اصح من حديث محمود بن خداش ، وراي محمد بن إسماعيل هذا اصح.

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم عاصم بن رجاء بن حیوہ کی روایت کے سوا کسی اور طریقہ سے اس حدیث کو نہیں جانتے، اور اس حدیث کی سند میرے نزدیک متصل نہیں ہے۔ اسی طرح انہیں اسناد سے محمود بن خداش نے بھی ہم سے بیان کی ہے، ۲- یہ حدیث عاصم بن رجاء بن حیوہ نے بسند «داود بن جميل عن كثير بن قيس عن أبي الدرداء عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ حدیث محمود بن خداش کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور محمد بن اسماعیل بخاری کی رائے ہے کہ یہ زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العلم ۱ (۳۶۴۱)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳) (تحفة الأشراف : ۱۰۹۵۸)، وسنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴) (صحیح) (سند میں کثیر بن قیس، یا قیس بن کثیر ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: زہد وکیع رقم ۵۱۹)
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (223)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علماء و محدثین بہت بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حصول علم کے لیے دور دراز کا سفر درکار ہے، یہ سفر خالص علم دین کی نیت سے ہو کوئی دنیوی غرض اس کے ساتھ شامل نہ ہو، علم دین حاصل کرنے والے کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے، کائنات کی ساری مخلوق اس کے لیے مغفرت طلب کرتی ہیں، علماء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور سنن ابی داود میں اس طرح ہے :
حدثنا مسدد بن مسرهد حدثنا عبد الله بن داود سمعت عاصم بن رجاء بن حيوة يحدث عن داود بن جميل عن كثير بن قيس قال:‏‏‏‏ " كنت جالسا مع ابي الدرداء في مسجد دمشق فجاءه رجل فقال:‏‏‏‏ يا ابا الدرداء إني جئتك من مدينة الرسول صلى الله عليه وسلم لحديث بلغني انك تحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ما جئت لحاجة قال:‏‏‏‏ فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏ " من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا من طرق الجنة وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم وإن العالم ليستغفر له من في السموات ومن في الارض والحيتان في جوف الماء وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على سائر الكواكب وإن العلماء ورثة الانبياء وإن الانبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ورثوا العلم فمن اخذه اخذ بحظ وافر ".
(سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 3641 )
کثیر بن قیس کہتے ہیں کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے اس حدیث کے لیے آیا ہوں جس کے متعلق مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا“۔

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۹ (۲۶۸۲)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۹۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۵۴)
(متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود اور کثیر دونوں ضعیف ہیں، ملاحظہ ہو: زہد وکیع نمبر: ۵۱۹ بتحقیق الفریوائی)
اور حافظ زبیر علی زئی انوار الصحیٖفہ میں لکھتے ہیں:
((اسناده ضعيف داود بن جميل و شيخه كثير بن قيس ضعيفان (تق--) وحديث مسلم 2699 يغني عنه )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور علامہ شعیب الارنؤط مسند احمد کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، وقيس بن كثير، وقيل: كثير بن قيس -وهو قول الأكثرين- ضعيف، ثم إن عاصم بن رجاء لم يسمعه من قيس، فهو منقطع، بينهما داود بن جميل كما في الحديث التالي، وهو ضعيف أيضاً.
یعنی اس سند سے تو یہ حدیث ضعیف ہے ،لیکن دیگر شواہد و متابعات کی بنا پر یہ ’’ حسن لغیرہ ‘‘ بن جاتی ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وقد أورد البخاري بعضه في "صحيحه" في كتاب العلم ضمن عنوان باب العلم قبل القول والعمل، فقال: "وإن العلماء هم ورثة الأنبياء، وَرَّثوا العلم، من أخذه أخذ بحظ وافر، ومن سلك طريقاً يطلب به علماً سهل الله له به طريقاً إلى الجنة". قال الحافظ في "الفتح" 1/160. وهو طرف من حديث أخرجه أبو داود، والترمذي، وابن حبان، والحاكم مصححاً من حديث أبي الدرداء، وحسنه حمزة الكناني، وضعفه غيرهم بالاضطراب في سنده، لكن له شواهد يتقوى بها، ولم يفصح المصنف بكونه حديثاً فلهذا لا يعد في تعاليقه، لكن إيراده له في الترجمة يُشعر بأن له أصلاً.
اور لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے صحیح بخاری کی کتاب العلم میں باب العلم قبل القول کے ضمن میں لکھا ہے : علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ،جنہوں نے علم کا ورثہ حاصل کیا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے تحت حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں :
العلماء هم ورثة الأنبياء ‘‘ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے ،جسے ترمذی ،ابو داود ،اور ابن حبان نے ابو درداء سے روایت کیا ،اور اس حدیث کو حمزہ الکتانی نے اسے حسن کہا ہے ،جبکہ دیگر کئی علماء نے اسے ضعیف کہا ہے ،
حافظ ابن حجر کہتے ہیں :اس کے کئی شواہد ہیں ،جن کی بناء پر اسے تقویت مل رہی ہے،اور امام بخاری نے گو واضح لفظوں میں یہاں اسے حدیث نہیں کہا ،اسلئے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ بخاری کی معلقات میں سے ہے ،تاہم ترجمۃ الباب میں لانے سے اتنا تو ضرور پتا چلتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ،،
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیر یا شیخ.
حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اسکو ضعیف کہا ہے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیر یا شیخ.
حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ نے اسکو ضعیف کہا ہے.
حافظ زبیر علی زئی انوار الصحیٖفہ میں لکھتے ہیں:
((اسناده ضعيف داود بن جميل و شيخه كثير بن قيس ضعيفان (تق--) وحديث مسلم 2699 يغني عنه )
یعنی یہاں تو اس کی سند ہے کیونکہ اس دو راوی داود بن جمیل اور کثیر بن قیس ضعیف ہیں ،لیکن صحیح مسلم کی ایک روایت (2699 ) (علم کی فضیلت و اہمیت میں )اس حدیث کا مقصد پورا کر دیتی ہے ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ مکرم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی ایک روایت (2699 ) کی جس روایت کا حوالہ دیا وہ یہ ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»،

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی دنیا کی سختی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا۔ اور جو شخص مفلس کو مہلت دے (یعنی اس پر اپنے قرض کا تقاضا اور سختی نہ کرے) تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کا عیب ڈھانپے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اور آخرت میں اس کا عیب ڈھان کے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کی مدد میں رہے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا اور جو شخص حصول علم کے لئے کسی راستے پر چلے (یعنی علم دین خالص اللہ کے لئے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا اور جو لوگ اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جمع ہوں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی سکینت اترتی ہے۔ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے پاس رہنے والوں (یعنی فرشتوں) میں کرتا ہے اور جس کا نیک عمل سست ہو تو اس کا خاندان (نسب) اس کو آگے نہیں بڑھائے گا۔ (کچھ کام نہ آئے گا)۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء.
اللہ آپ کے علم علم میں برکت عطا فرماۓ.
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم اسحاق بہائی ، آپکی وضاحتیں بیحد علمی اور غیر مبہم ہوتی ہیں ، قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ عنوان سے انصاف کیا گیا ۔
اللہ آپ کے علم میں اضافہ کرے اور آپ کے اساتذہ کے درجات کو بلند فرمائے جنہوں آپ جیسے مثالی شاگردوں کی صحیح راہ نمائی کی ۔
آئین جواں مردی حق گوئی و بیباکی
اللہ سبحانہ و تعالی آپکے قدموں میں استحکام دے ۔ آپ کے حاصل کردہ علم سے ہم جیسے بیشمار بهی فائدہ اٹہا رہے ہیں ۔ اللہ آپ کو اجر عظیم سے نوازے ۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اور اس حدیث شریف کا معنی و مفہوم واضح ہے :
کہ اس وراثت سے مراد علم و حکمت کی وراثت ہے ، جیساکہ درج فتوی میں بتایا گیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ما المقصود بقول الرسول صلى الله عليه وسلم: (العلماء ورثة الأنبياء)؟ أريد منكم جوابا شافيا.
جزاكم الله خيراً.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الإجابــة
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فقد بين النبي صلى الله عليه وسلم المقصود بذلك في بقية الحديث فقال: إن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً إنما ورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظ وافر. رواه الترمذي وغيره وصححه الألباني.
فالأنبياء لا تورث أموالهم وإنما هي صدقة، والذي يورث عنهم هو العلم ووارثه هم العلماء، وقد ترجم البخاري في صحيحه قال: وإن العلماء هم ورثة الأنبياء ورثوا العلم. وانظر الفتوى رقم: 64606.
والله أعلم.

کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے (کسی کو ) اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا ، بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا“۔
ثابت ہوا کہ انبیاء کسی کو اپنے مال و جائداد کا وارث نہیں بناتے ،بلکہ ان کا مال تو فی سبیل اللہ صدقہ ہوتا ہے ، انبیاء کی وراثت تو علم ہوتا ہے ،جو علماء کی حصے میں آتی ہے ،اور اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں (ترجمۃ الباب ) میں لکھا ہے ،:
اور (حدیث میں ہے) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔‘‘ انتہی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اللہ آپ کے علم میں اضافہ کرے اور آپ کے اساتذہ کے درجات کو بلند فرمائے جنہوں آپ جیسے مثالی شاگردوں کی صحیح راہ نمائی کی ۔
جزاکم اللہ تعالی خیر الجزاء
سب اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے ہی ہے ، اللہ کریم کی بے حساب رحمتیں ہوں محدثین کرام اور علما اہل حدیث پر جن کی محنتوں اور خلوص سے بے شمار محبان حدیث و سنت ،اور مجھ ایسے ناچیز بھی استفادہ کر رہے ہیں ؛
اور شیخ سعدی نے جو کہا ہے کہ
بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم

جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

یعنی محض جمال ہم نشین کا اثر ہے
وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔

سو اپنی ’’ ہستی تو محض خاک ‘‘ہی ہے ،
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
جزاکم اللہ تعالی خیر الجزاء
سب اللہ کی رحمت اور فضل و کرم سے ہی ہے ، اللہ کریم کی بے حساب رحمتیں ہوں محدثین کرام اور علما اہل حدیث پر جن کی محنتوں اور خلوص سے بے شمار محبان حدیث و سنت ،اور مجھ ایسے ناچیز بھی استفادہ کر رہے ہیں ؛
اور شیخ سعدی نے جو کہا ہے کہ
بگفتا من گِلے ناچیز بُودم
و لیکن مدّتے با گُل نشستم

جمالِ ہمنشیں در من اثَر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

یعنی محض جمال ہم نشین کا اثر ہے
وگرنہ میری ہستی تو محض خاک ہے۔

سو اپنی ’’ ہستی تو محض خاک ‘‘ہی ہے ،
اللہ آپ کی انکساری سے خوش ہو ۔ بیشک تمام تعریفیں اور ساری کبریائی اللہ کے لیئے هی ہے
 
Top