سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
علماء بیزاری: اسباب ومحرکات
(۱)
امت کا عروج دین سے اس کی وابستگی کے ساتھ مشروط ہے ۔ دین سراپا خیر ہے اور جوکچھ بھی دین کے خلاف ہے سراپا شر ہے ۔ امت دین سے جتنی دور ہوگی خیروفلاح سے اس کے فاصلے اتنے ہی طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔ زوال کے جس مرحلہ پر آج امت کھڑی ہے وہ کوئی اچانک پیش آجانے والا حادثہ نہیں ۔ یہ زوال کے ایک تدریج کے ساتھ امت پر طاری ہوا ہے اور اس تدریج کی ایک تاریخ ہے اور اس تاریخ کا ایمانداری کے ساتھ مطالعہ کرنے والا کوئی بھی شخص اس اصولی حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ یہ زوال امت کی دین سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اور دین سے یہ دوری جتنی شدید ہوگی زوال اتنا ہی گہرا ہوتا چلا جائے گا۔
(۲)
دین سے امت کی دوری کے بہت سارے اسبا ب میں سے ایک بہت بڑا سبب امت کا علماء حق سے دور ہوجانا ہے ۔ علماء اس امت کے محافظ ہیں ۔ دین کا علم انبیاء کی وراثت ہے اور علماء اس وراثت کے امین ہیں ۔دین کی حفاظت وصیانت ، تفسیر وتشریح اور دعوت وتبلیغ کی عظیم ذمہ داریاں ان کے سپرد کی گئی ہیں ۔ علماء امت اور نبی کے درمیان کا واسطہ ہیں ۔امت کےعلماء سے واسطے میں جتنی کمی آئے گی امت کا نبی سے تعلق ویسا ہیں کمزور ہوتا جائے گا۔
زمان ومکان کے اعتبار سے علماء بیزاری کے موضوع پر بہت سارے پہلوں سے بات کی جاسکتی ہے ۔ سر دست ہم علماء بیزاری کے مختلف اسباب کی نشاندہی کی کوشش کریں گے۔
(۳)
امت کے علماء حق سے دور ہوجانے کے اسبا ب میں سے ایک بڑا سبب دنیا سے علم کا اٹھالیا جانا ہے ۔ اور علم کے اٹھالیے جانے کا مطلب علماء حق کا اٹھایا لیاجانا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ کے نبی کا ارشا د ہے ۔
عن عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی اﷲ علیہ وسلم یَقُول: إِنَّ اﷲ لاَ یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا، یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقبْضِ الْعُلَمَاء ِ حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالاً، فَسُئِلُوا، فَأَفْتَوْا بغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا
عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اﷲ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں سے) نکال لے بلکہ علماء کو موت د ے کر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(البخاری: کتاب العلم: باب کیف یقبض العلم)
(۴)
علماء سوء کی بدکرداریاں
علماء سوء کی بدکرداریاں بھی علماء کی بدنامی اور امت کے ان سے دور ہوجانے کا ایک سبب ہے ۔ علماء کی بدکرداری کے اثرات صرف انہیں تک محدود نہیں رہتے اس کا اثر دین سے لوگوں کے تعلق اور سماج میں علماء کے مقام ومرتبہ پر بھی پڑتا ہے ۔
اسلام علم کو لیے عدالت کا لازمی شرط قرار دیتا ہے ۔ علماء وہی ہیں جو امانت ودیانت اور تقوی وتدین کی صفت سے متصف ہوں ۔
اﷲ رب العالمین کا ارشاد ہے ۔
(إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ) (فاطر: 28)
اﷲ کے بندوں میں علماء میں اﷲ کی خشیت سب سے زیادہ ہوتی ہے
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کافرمان ہے :
یَحْمِلُ ہَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُولُہُ
ہر آئندہ آنے والی جماعت میں سے اس کے عادل لوگ اس علم کو حاصل کریں گے ۔
( بیہقی، شیخ البانی نے مشکاۃ کی تخریج میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)
عالم اگر عدالت کے دائرے سے باہر ہوتو شریعت کی اصطلاح میں اس کا شمار جاہلوں میں ہوتا ہے :
(قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَہُنَّ أَصْبُ إِلَیْہِنَّ وَأَکُنْ مِنَ الْجَاہِلِینَ)
یوسف نے کہا اے میرے رب ، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گاور جاہلوں میں شامل ہو جاوں گا۔ (یوسف: 33)
علماء کے بدکردار ہوجانے کے کیا اسباب ہیں ۔
نیت کا بگاڑ:
علم اگر اﷲ کی رضا وخوشنودی اور اس کے دین کی سرفرازی کیلیے حاصل کیا جائے تو صاحب علم کے لیے رحمت وفضل کا سبب بنتا ہے لیکن اگر علم کے حصول کامقصد دنیا کے ناجائز مفادات کی بازیابی ہو تو ایسا علم صاحب علم کو اور ایسا صاحب علم امت کو سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں پہنچاتا۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ سلم کا فرمان ہے ۔
من طلب العلم لیجاری بہ العلماء أو لیماری بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ اﷲ فی النار
جس نے اس لیے علم سیکھا کہ اس کے ذریعہ سے علماء کا مقابلہ کرے یا بے وقوف لوگوں سے بحث و جھگڑا کرے اور لوگوں کو اس سے اپنی طرف متوجہ کرے تو اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو جہنم میں داخل کرے گا۔
(ترمذی ، شیخ البانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیاہے ۔ )
ملوکیت کا بگا ڑ اور علماء سوء کا فروغ :
سیاست کی دین سے جدائی نے اسلامی خلافت کو ملک عضوض بنا دیا۔ خلافت کا مقصد اسلام اور اہل اسلامی کی خدمت کے بجائے دنیا وی عشرتوں کو حصول بن گیا۔ بگڑے ملوک نے اپنے ناپاک جرائم کو دین کے پردہ میں چھپانے کے لیے اور اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے علماء سوء کا سہارا لیا ۔ ملوک سوء اور علماء سوء کی اس جوڑی نے ایک طرف تو دین کو اپنی تاویل وتحریف کا نشانہ بنایااور علم و علماء کی بدنامی کا سبب بنے تو دوسری طرف علماء حق ہمیشہ ان کی ظلم و استبداد کا شکار رہے ۔
مسلکی تعصب کا فروغ :
قرآن وسنت سے دوری نے امت میں بہت سارے اعتقادی اور فقہی فرقوں میں تقسیم کردیا۔ ان فرقوں نے ایسے علماء پیدا کیے جنہوں نے اپنے علم کو دین کی فروغ کے بجائے اپنے باطل مسلک کی تبلیغ کیلیے استعمال کیا ۔ جب دینی حمیت کی جگہ مسلکی تعصب نے لے لی تو علماء سے خلوص رخصت ہوگیااور وہ اپنی باطل فکر کے ثبوت کے لیے جھوٹ ، فریب مکاری ہر چیز کو جائز سمجھا جانے لگا۔
(۵)
بد دین معاشرہ:
معاشرہ میں بڑھی ہوئی بد دینی بھی علماء بیزاری کا ایک سبب ہے۔ بے دین معاشرہ ہمیشہ مصلحین کا دشمن رہا ہے ۔ فاسق اخلاقی اور دینی پابندیوں سے آزادی چایتاہے ۔ اور علماء اس آزادی کے خلاف آواز اٹھانے والے ہوتے ہیں ۔ بے دین افراد اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اصلاح کی طرف بلانے والوں کو ہی اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اور ان کی تحقیر وتذلیل سے اپنی نفس لوامہ کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ سماج میں بد دینی جتنی بڑھے گی علماء کے خلاف غم وغصہ کی لہر اتنی ہی تیز ہوگی۔ ہم اپنے ادب کے مطالعہ میں بھی یہ بات محسوس کرسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں شراب و شباب کاتذکرہ کتنی عظمت کے ساتھ اور واعظ ، شیخ ، ملا اور مولوی کاتذ کرہ کتنی حقارت سے کیا جاتا ہے ۔
(۶)
رویبضہ کی جماعت
امت کی پیشوائی اور نمائندگی کو سیاسی رسوخ ، میڈیا ئی شہرت اور دولت میں اضافہ کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے ۔ دین کا سطحی علم رکھنے والے یا دین کے اصولی اور بنیادی علم سے بھی نا واقف رویبضہ کی ایک پوری جماعت ہے جو دین اور امت کے معاملہ میں بے جا دخل اندازی کرکے دین ، علم دین اور علماء دین کو بدنام کررہی ہے اورخود کو امت کا پیشوا اور رہنما بناکر پیش کررہی ہے ۔ اس جماعت کی طرف سے اپنے ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے مکر ، فریب ، جھوٹ ، عیاری، دغاباری ، پارٹی بندی اخبار بازی اور ان جیسے گندی سیاست کے سارے گندے ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ سیاست کی اس گندگی سے متنفر علماء مدارس ، مساجد اور گاوں اور محلہ میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیمی مناصب پر اسی طرح کے علماء سوء اپنے سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعہ قابض ہوتے ہیں اور اپنی کرسیوں کی حفاظت اور اپنی جہالت کی پردہ پوشی کیلیے علماء حق کو پس منظر میں رکھنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں ۔
(۷)
امت کے علماء حق سے دور ہوجانے کی ایک وجہ پچھلی ایک صدی میں تیزی کے ساتھ پھیل جانے والا مذہب بیزاری کا رجحان بھی ہے ۔ کیونکہ علماء مذہب اسلام کے نمائندے ہیں لہذا اگر لوگوں کے زندگی میں مذہب کی اہمیت کم ہوگی تو اس کا اثر سماج میں علماء کی حیثیت پر پڑنا بھی لازمی ہے ۔
مذہب بیزاری کے پھیلاو کے اسباب کیا ہیں؟
تاریخ کے ایک دور میں سائنس اور کلیسا کے درمیان ہونے والی کشمکش کو مذہب اور سائنس کی کشمکش سمجھ لیا گیا۔ اہل علم وفن کے خلاف کلیسا کی زیادتیوں نے مذہب کو بدنام کیا اور لوگوں کے دل میں مذہب کے تنگ نظر ہونے کا تاثر قائم ہوگیا ۔ اس کے بعد سائنس کے مقابلہ میں کلیسا کی شکشت کو مذہب کی شکشت سمجھ لیا گیا۔ مغرب میں سائنسی انقلاب آیا ۔ اس انقلاب نے دنیا کا کنٹرول جن ہاتھوں میں دیا مذہب بیزاری ان کی خمیر میں شامل تھی۔ اس طبقہ نے ابلاغ کے سارے ذرائع مذہب بیزاری کے رجحان کو فروغ دینے کیلیے استعمال کیے ۔ سیکولرازم کا نظریہ کو فروغ دیا جس کی بنیاد ہی اس بات پر تھی کے انسانی زندگی سے مذہب کے عمل دخل کو ختم یا آخری حد تک کم کردیا جائے ۔
مادیت کا فروغ:
صنعتی انقلاب نے انسانی زندگی کے معیا ر بلند کیے ۔ انسان کی آرزوں طویل ہوگئیں ۔ تکاثر نے نئے انسان کو حد درجہ مصروف ہوکردیا۔ عاجلہ کی فکر نے آخرۃ کی فکر کو ختم یا بڑی حد تک دھیما کردیا ۔ ترقی کے نئے مفہوم کے حصول میں مصروف جدید انسان کے پاس خدا ، مذہب ، دین ، آخرت جیسی مابعد الطبیعاتی چیزوں کے بارے میں سوچنے وقت نہیں بچا۔
ٖقرآن و سنت سے دوری:
امت کی دین سے دوری کی وجہ امت میں اگ آنے والے بہت سے باطل فرقے بھی ہیں جنہوں نے اپنے بطلان اور بے ثباتی کو چھپانے کے لیے قرآن و سنت کو علماء کے پڑھنے پڑھانے کی چیز بنا دیا ۔ امت دین سے دور ہوئی تو دنیا سے قریب ہوگئی اور دنیا سے قربت دین سے مزید دوری کا سبب بنی ۔ اس رجحان نے گرچہ لوگوں کے دلوں میں علماء کی عقید ت کو کم نہیں کیا بلکہ ایک حدتک اس عقیدت میں غلو بھی اسی رجحان کے وجہ سے شامل ہوگیا لیکن اس کے بعد عوام میں علماء کی حیثیت صرف مذہبی رسوم ادا کروانے والے مذہبی رہنما کی بن کر رہ گئی ۔
(۸)
علماء بیزاری کی ایک وجہ علماء کا اپنے زمانے کے حالات اور اس کے تقاضوں سے غافل رہ جانا بھی ہے ۔ ہندستا ن میں انگریزی استبداد سے پہلے دینی اور عصری تعلیم کی دوئی نہیں تھی ۔ دینی علم اور حکمت ہی دو ایسے شعبے تھے جن سے وابستہ افراد پڑھے لکھے کہلاتے تھے انگریزی استبدادد اور ہندستان کے مغرب کے ساتھ تعلقات ، سائنسی ترقیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب اور عصری علوم کے سیلاب نے بہت سارے ہندستانی مسلمان کے اندر بہت ساری فکری اور سماجی تبدیلیاں پیدا کیں ۔ لیکن ہندستانی علماء زمانے کی اس تبدیلی کے ساتھ خود کو تبدیل کرپائے اورنہ ہی اس تبدیلی کا صحیح تجزیہ کرپائے۔ ۔ نہ مدارس کے نظام تعلیم میں کوئی خاص فرق آیااور نہ ہی نصاب تعلیم زمانے کی ضرورتوں کے مطابق اپ ڈیٹ ہوسکا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علماء کرام اپنے زمانے کے لوگوں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ بلکہ وہ اس زمین پر رہتے ہوئے ایک دوسرے سیارے کی مخلوق بن گئے ۔ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا امتزاج ایک تفصیلی بحث ہے لیکن من لا یعرف اھل زمانہ فہو جاہل ایک اصولی حقیقت ہے ۔
(۹)
علماء بیزاری کے یہ کچھ اسباب تھے جو ہماری سمجھ میں آئے ۔ علماء بیزاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ازالہ کیسے ہو اور سماج میں علماء کا حقیقی مقام کیسے دلایاجائے یہ ایک موضوع ہے جس پر آئندہ کبھی تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے ۔
( ماہنامہ دی فری لانسر کے ’’ علماء بیزاری نمبر‘‘ میں میرا یہ مضمون شائع ہو چکا ہے۔)