• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء کرام سے علم کے حصول کی ضرورت اور اہمیت!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چوتھی مثال:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ‘رسول ﷺسے سنا :

الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ اللَّهِ، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يُحِبُّ فَلاَ يُحَدِّثْ بِهِ إِلاَّ مَنْ يُحِبُّ، وَإِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّيْطَانِ وَلْيَتْفِلْ ثَلاَثًا وَلاَ يُحَدِّثْ بِهَا أَحَدًا فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ

جب تم میں سے کوئی شخص خواب دیکھے جسے وہ پسند کرتا ہو تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس پر اسے اللہ کی تعریف کرنی چاہئیے اور اسے بیان بھی کرنا چاہئیے اور جب کوئی خواب ایسا دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو وہ شیطان کی طرف سے ہے اور اسے چاہئیے کہ اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور اس کا ذکر کسی سے نہ کرے ‘ کیونکہ وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔

(صیح بخاری: 7045)

اس دنیا میں ایسے بہت سارے جاہل لوگ ہیں سمجھتے ہیں کہ انکا فہم اور منطق علماء سے برتر ہے، وہ علماء جنہوں نے اپنی پوری زندگی دین کے مطالعے میں صرف کردی اور پھر بھی بستر مرگ پر انکے منہ سے یہ الفاظ نکلتے رہے " کاش کہ میں اس سے زیادہ جانتا اور اس سے زیادہ مطالعہ کرتا کیوں کہ میں کچھ نہیں جانتا "- اگرمندرجہ بالا حدیث کو ایک عام آدمی کے فہم کے مطابق سمجھا جائے تو اسکا مطلب ہوگا کہ کہ اگر کوئی شخص خواب میں عورت اور دولت دیکھے جو اسے بہت پسند ہو تو وہ سمجھے گا کہ بھائی یہ خواب تو اللہ کی طرف سے ہے چلو سب کو بتاؤ ، اور اسی طرح اگر ایک شخص خواب میں دیکھے کہ وہ غریب ہے اور دنیا کے عیش و آرام سے دور ہے ، تو وہ کہے گا کہ بھائی مجھے تو یہ خواب بالکل پسند نہیں اور یہ شیطان کی طرف سے ہے-۔ اعوذ بِااللہ! لیکن ہاں اگر لوگ اس طرح اپنا دماغ اور اپنا فہم حدیث کو سمجھنے میں استعمال کرتے رہے تو پھر اس طرح کے ہی تشریحات سامنے آ ینگے - ۔ اور اسلئے ہم کہتے ہیں کہ علماء سے رجوع کرو کیوں کہ ایک درست ؤ مناسب اور صحیح علم ہی ہمیں بتاتا ہے کہ نا جائز رشتے اور حرام دولت کہ خواب اچھے نہیں ہیں ۔

ایک اور مثال آج کے زمانے کی یہ ہے کہ آج جتنے بھی فرقے ہیں ہر ایک کا دعوی ہے کہ وہ قرآن و سنت پر قائم ہیں لیکن ان میں سے بہت قرانی آیات اور احادیث کی تشریح اپنے ہی فہم اور خواہشات کے مطابق کرتے ہیں جو ایک بہت بڑے فتنے کا با عث بنی ہے-

اس کے ساتھ ساتھ ہم پانچویں مثال پرآ تے ہیں :

قادیانی( ایک حالیہ فرقہ یا اسلام کی ایک شاخ) کہتے ہیں نبوت کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ، انکا دعوی ہے کہ محمدﷺ کے بعد بھی نبی آئینگے، اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ان نبیوں میں سے ایک ہندوستان کے ایک شہر قادیان میں آیا، اور جو کوئی بھی انکے نبی میں ایمان نہ لائے وہ کافر ہے۔ وہ یہ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں جب کے واضح آیت ہے ،

"بلکہ (محمد)الله کے رسول اور آخری نبی ہیں۔۔۔۔

(سورة الأحزاب : 33:40)

وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جب کہ متواتر احادیث میں آیا ہے کہ ،

"میرے بعد کوئی نبی نہیں"
(بخاری اور مسلم)

پس ان لوگوں نے قرآن کی غلط اور من پسند تشریح کی اور اسکی وضاحت سے قاصر رہے جسطرح وضاحت سلف صالحین نے کی ، وہ وضاحت جس پر مسلمان نسل د ر نسل عمل پیرا تھے، حتی کہ اس کذاب دجال غلاماحمد پرویز قادیانی نے نبوت کا دعوی کر دیا،- اسکی ایک لمبی کہانی ہے جسکی وضاحت یہاں ضروری نہیں ۔ بہت سے لوگ( جنہیں اس اصول کا پتہ نہیں تھا کہ قرآن و سنت کو سلف صالحین کے فہم پر سمجھنا فرض ہے، اور جو ایک مسلمان کے لئے فتنوں اور گمراہی سے بچنے کا واحد راستہ ہے ) اس دجال کے دعوی کو سچ مان بھیٹے اور یہ بیوقوف اس دجال کے نبوت کے فریبی دعوے میں سلف صالحین کا راستہ چھوڑ گئے-

تو پھر کیا کیا غلام پرویز قادیانی نے اس آیت کے ساتھ کہ "بلکہ (محمد ﷺ )اللہ کے پیغمبر ہیں اور نبیوں کے مہر ہیں"؟ اسنے کہا کہ مہر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انکے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا بلکہ مہر کا مطلب ہے کہ محمد ﷺ انبیاءکی زینت ہیں ۔ تو پس انہوں نے اس آیت سے انکار نہیں کیا اور نا یہ کہا کہ الله نی یہ آیت رسول پر نازل نہیں کی بلکہ انھیں اسکے اصل اور صحیح معنی اور تشریح سے انکار کیا- تو بتایئے کیا فائدہ ایسے الفاظ میں یقین رکھنے کا جسکا حقیقی معنی سے کوئی تعلق نہ ہو-

(شیخ شدی نعمان کی موسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
چھٹی مثال :

شیخ البانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے :

چلیں اسکو سمجھنے کے لئے ایک مثال دیتے ہیں جس سے یہ حقیقت اور عیاں ہو جایئگی جس میں کوئی شک نہیں اور نہ ہیں کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے ۔ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماتے ہے :

"اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……"
(سورة المائدة : 5:38)

اب ذرا غور کریں کہ کس طرح قرآن کو سمجھنے کے لئے ہم صرف عربی لغت کا استعمال نہیں کر سکتے- لغت کی اعتبار سے سے "چور" ہر وہ شخص ہوتا ہے جو ایک محفوظ جگہ سے کوئی چیز چرائے، اسکی مالیت چاہے جتنی بھی ہو یا ایسا بھی ہو سکتا ہے اسکی مالیت کچھ بھی نہ ہو، ہو سکتا ہے اسنے ایک انڈا چرایا ہو،یا ایک روپیہ یا پانچ روپے چرائے ہوں، تو لسانی یا لغت کے اعتبار سے ایسا شخص چور کہلائیگا –

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

"اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو……"

تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ہر چور کے ہاتھ کاٹ دیے جاینگے ؟

جواب ہے نہیں۔

کیوں ؟

کیونکہ جو شخصیت وضاحت کر رہی ہے اور جسے وضاحت کی ذمداری سونپی گئی ہے وہ ہےمحمد ﷺ اور جس چیز کی وضاحت کی جا رہی ہے وہ ہے الله کا کلام (یعنی یہ آیت)، محمد ﷺ ہمیں وضاحت دے رہے ہیں کہ چور ( مرد یا عورت ) میں سے کس کے ہاتھ کاٹے جاینگے-

" لاَ تُقْطَعُ الْيَدُ إِلاَّ فِي رُبُعِ دِينَارٍ"

"چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ پر ہاتھ کاٹ لیا جائے گا "

(بخاری اور مسلم (نمبر:6789) ،ابو بکر بن محمد بن عمر بن حزم کی سند سے عائشہ بنت ابی بکر سے روائیت ہے)

پس یہاں سے ایک اہم بات پتہ چلی جسکی طرف طالب علم کوئی دیہان نہیں دیتے: کہ ایک طرف ہے روایتی عربی زبان دوسری طرف ہے شرعی زبان جسکی بنیاد الله نے خود رکھی۔ اہل عرب جو قران کی زبان بولتے تھے، قران جن کی زبان میں نازل ہوا، انکو اس سے پہلے عربی زبان کی ایسی شرعی استعمال کا علم نہیں تھا ۔ تو پس جب لسانی یا لغت کے اعتبار چور کا لفظ استعمال ہو تو اسکے زمرے میں سا رے چور آیینگے ، لیکن جب شریعت کے معنوں میں اسکا ذکر کیا جاتا ہے تو ہر چور شامل نہیں ہو گا ، لیکن صرف وہ جو ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ چوری کرے۔

پس یہ ایک بہترین مثال ہے جو ہمیں اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ قرآن و سنّت کو سمجھنے کے لئے عربی زبان بمع اپنے فہم اور منطق کا استمعال غلط ہے ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس میں آج کے مصنفین پڑھ گئے ہیں۔ وہ روایتی عربی زبان کا اطلاق قرانی آیات اور حدیث نبوی پر کرتے ہیں اور نتیجتہ ایسے تشریحات اور وضاحتیں سامنے آتی ہیں جنہیں امّت مسلمہ نے کبھی نہیں سنا - یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا واجب ہے کہ اسلام کی بنیاد تین اصولوں پر قائم ہے-

1. کتاب (قران)
2. سُنت
3. سلف صالحین کا منہج و فہم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ساتویں مثال :

ان لوگوں کی تردید میں جو علماء کے فہم کی بجائے اپنے منطق و فہم کو ترجیح دیتے ہیں ۔

اس آیت کے آخر میں اللہ (سبحانه و تعالى)نے فرمایا:

"…انکے ہاتھ کاٹ ڈالو "-

اب ہاتھ کا مطلب کیا ہے ؟ ایک پورا ہاتھ ، اُنگلی تک …………؟ تو پھر کلائی سے ، یا کوہنی سے ، یا مونڈھے سے کاٹنا چاہئے ؟

نبی ﷺ اپنے اعمال کے ذریعے سے اس کی وضاحت کی- ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے اسکے بارے میں ہمارے پاس کوئی بھی مستند قول ﷺ نہیں ہے –بلکہ ہمارے پاس رسول ﷺ کا عمل(غیر زبانی) موجود ہے – تو ہمارے پاس یہ عمل کس طرح پہنچا ؟ ہمیں کس طرح پتہ چلا؟ ہمارے سلف و صالحین سے ، رسول الله ﷺ کے صحابہ سے جنہوں نے اس عمل کو اگلے نسل تک پہنچایا، اور اسی طرح انہوں نے اگے نسل تک، اور اسی طرح یہ بزریعہ علماء ہمیں آج پہنچا۔

(شیخ شدی نعمان کیموسوعات علامہ ،مجدد العصر محمد ناصر الدین البانی، ، جلد1، صفحہ 212-230 سے لیا گیا اقتباس)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
آٹھویں مثال ہمارے آج کے جدید دور سے :

سائل : اللہ (سبحانه و تعالى) آپکو سلامت رکھے ۔

سائل کہتا ہے ، "ائے ہمارے شیخ ، کچھ لوگوں کا حدیث قدسی کے بارے میں کہنا ہے کہ :

'ائے میرے بندے ،میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی …… " یہ مبہم معاملات میں سے ہے اور اسے چھوڑ دینا واجب ہے ۔ تو اس بارے میں آپکی کیا نصیحت ہے ؟"

شیخ صالح الفوذان (اللہ اُن ہے محفوظ رکھے ) کا جواب :

اسے چھوڑو ؟؟؟؟؟ میں اللہ (سبحانه و تعالى)پناہ مانگتا ہوں ! اس شخص کا مطلب یہ ہے ہمیں مبہم آیات اور حدیث کو چھوڈ دینا چاہیے ؟ نہیں ۔ ہم اُنکو نہیں چھوڑتے، تاہم ہم اسے دوسرے حدیث اور آیات کے ساتھ انکی وضاحت کرتے ہیں۔ ہم اسے چوڑ نہیں سکتے ۔ ہم انکو صحیح و مستند حوالہ دیتے ہے اور ہم اسکی وضاحت کرتے ہیں تاکہ انکے صحیح وضاحت ہوجائے ۔ تاہم ، یہ پچیدہ جہالت ہے ، اس شخص کو نہیں معلوم ! اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی وضاحت کرتا ہے۔ یہ روایت اگے کہتی ہے ، میں آپ(اللہ) کی عیادت کیسے کرسکتا ہوں جبکہ آپ سارے جہاں کے رب ہیں ؟ اللہ (سبحانه و تعالى)فرماۓ گا ، " بشک میر فلاں فلاں بندہ بیمار تھا اور تم اس کی عیادت نہیں کی، اور اگر تم اس کی عیادت کرتے تو تم اُس کے پاس مجھے پاتے۔"

تو یہ حدیث کا ایک حصہ دوسرے حصے کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم، اس شخص ( جسنے اس طرح اسکا جواب دیا) کو وہ نہیں جانتا ۔ وہ مسکین (علم میں غریب) ہے ۔ اور میرے بھایئوں یہ ایک فتنہ کہ آج ایسے لوگ ہیں جو علم کا دعوی تو کرتے ہیں مگر انکو علم کہ بنیادی کا سرے سے پتا نہیں ۔ وہ لوگوں کے سامنے اہل علم کی روپ میں آتے ہیں مگر ان کا علم ضعیف و ناقص ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اے میرے بھایئوں، علم کو علماء اور اسکے مستند اصولوں کے بغیر نہیں سیکھنا چاہیے ۔ اور یقنا علماء نے انتھک محنت کی ہے، ہر ایک چیز کو بڑے باریک بینی سے دیکھا اور جانچا ہے تب جا کہ علم کے اصول جامع اور مستحکم ہوئے ہیں ۔ اور درست صرف یہی ہے کہ علم علماء سے لیا جائے نہ کہ خود اکیلے کتابوں سے ۔ علم کو علماء سے سم کے لو، (یعنی علماء کی صحبت اختیا کرو) اور کتابیں صرف اوذار ہیں ، اور جو لوگ لوگوں کو تربیت دیتے ہیں کتابوں کے ذریعے وہی علماء ہیں ۔تو پس اگر آپ کتابیں لو اور آپکو انکے طریقہ استمعال کا پتا نہیں تو آپ آپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ہلاک کر دوگے ۔ پس اصول ہونا ضروری ہے ، جیساکہ کہا جاتا ہے ، " تو جس کسی کے پاس اصول نہیں ہے، وہ جواب تک نہیں پہنچ سکتا -


پس محظ عربی زبان یا اسکے ترجمے، اپنے منطق، تہذیب و روایات ، خواہشات یا سمجھ وغیرہ کی بنیاد پر دین اسلام کو سمجھنا باطل ہے اور ہمیں دین کو اسکے اصلی معنوں میں سمجھنے کے لئے علماء سے رجوع کرنا ہوگا جیسا کہ قرآن و سنّت کا حکم ہے۔

4.3) بطور مثال حضرت عمر ررضی الله عنہ کے دور کےایک شخض کا واقعہ جسنےا پنے سمجھ و فہم سے دینی معاملات و احکامات کی تشریح کرنے کی کوشش کی:

سُلیمان بن یاسر سے روایت ہے کہ :

قبلہ غنیم کا صبیغ ابن اصل نامی ایک شخص مدینہ آیا اور اسکے پاس کتابیں تھیں- اور اس نے لوگوں سےمتشابحات ( وہ معاملات جن کی قرآن نے وضاحت نہیں کی ہے) کے بارے میں سوالات شروع کر دیے – یہ خبر عمر رضی الله عنہ تک پہنچی- تو عمر رضی الله نے کجھور کی کچھ شاخیں اکھٹا کیں – پس جب عمر رضی الله اس شخص کے پاس پہنچے اور اسکے ساتھ بیٹھ گئے تو اس سے سوال کیا " کون ہو تم؟ اس نے کہا : " میں عبداللہ صبیغ ہوں ، عمر رضی الله نے کہا : " میں عبداللہ (الله کا بندہ) عمر ہوں- اور پھر عمر رضی الله نے اسے ان کجھور کی شاخوں سے مارنا شروع کر دیا ، اور عمر رضی الله نے اس شخص کو تب تک مارا جب تک اسکا سر پھٹ گیا اور اسکا چہرہ خون سے سرخ ہو گیا- اس نے (صبیغ) نے کہا: یا امیر المومنین بس کیجئے ، الله کی قسم جو (گند) میرے کھوپڑی میں تھا وہ نکل گیا

(شرح اصول الاعتقاد لالکائی(3/٦٣٥-٦٣٦) اور اور شیخ خالد دھوئ از ضفیری کے مقالات، نیز دیکھئے سنن دارمی (عبداللہ ہاشم یمنی، ١/١٥،# ١٤٦)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
4.4). اس انتشاری ذہنیت اور بیماری کا حل:

جس طرح ڈرائیونگ کے اصول کے بارے میں اسکے ماہرین سے رجوع کرنا چاہیئے اور جس طرح ایک جمع ایک کا جواب ایک ریاض دان سے پوچھنا چاہیئے اسی طرح، دین کے معاملات میں بھی ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیئے جو کہ اس میں ماہر ہوں- جس طرح ہم نے اوپر عرض کیا کہ کس طرح اس امّت کے بہترین لوگ (صحابہ) نے بھی قرآن کی لفظی تشریح میں غلطی کی جسے رسول الله ﷺ نے خود صحیح کیا- اور پھر ہم نے پڑھا کہ کسطرح آج کے مختلف فرقوں نے دین کو اپنے منطق سے سمجھنے کی کوشش کی اور تباہی اور گمراہی کی طرف گامزن ہوئے- پس ہمیں اس بات کی اہمیت کا پتہ چل گیا کہ دین ہمیں ان سے سیکھنا چاہیئے جو اسمیں ماہر ہیں ہ جو اسکا علم رکھتے ہیں جو اہل علم ہیں اور اپنی منطق اور دماغ اور خواہشات کی بنیاد پر نہیں- ہم چاہیں جتنے بھی سمجھدار ہو جایئں صحابہ سے زیادہ سمجھدار نہیں ہو سکتے- اگر ان سے غلطی ہو سکتی ہے تو ہم سے بھی لازمی ہوگی - اگر انھیں رسول ا للہﷺ نے اہل علم سے رجوع کا حکم دیا تھا تو ہمیں بھی اہل علم سے رجوع کرنا چایئے قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنے پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں-پس جب تک ہم دین کو الله ، اسکے رسول ﷺ اور سلف صالحین کے فہم پر بذریعہ علماء نہیں سیکھیں گے ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی-

اور اسی لیے عبداللہ ابن المبارک(رحم الله عنه)نے کہا :

یہ بات صحیح ہے کہ ایک عقل مند شخص تین لوگوں کی بے قدری نہیں کرتا:

علماء کی، حکمرانوں کی، اور اپنے مسلمان بھائی کی ۔ اور جو کوئی علماء کی بے قدری کرتا ہے ( یعنی اُنکا احترام نہیں کرتا ، اُنکے علم کی قدر نہیں کرتا ، اُن سے علم حاصل نہیں کرتا ، وغیرہ) اسکی آخرت کی زندگی تباہ ہو گی-جو بھی حکمرانوں کی بے قدری کرےگا وہ دنیوی زندگی کھودیگا ، اور جو بھی اپنے بھائی (مسلمان) کی بے قدری کرےگا وہ اپنے اچھے اخلاق اور کردار کھودیگا ۔

(الذهبي، سير أعلام النبلاء' 17:251)

یہی وجہ ہے اللہ (سبحانه و تعالى)اور اُسکے رسول نے ہمیں ہر وقت علماء کا دامن پکڑنے کا حکم دیا ہے - جیساکے الله فرماتا ہے :

مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مانجامب ھی اچھا ہے۔

(سورة النساء : 59)

اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی خبر پہنچتی ہے تو اس کو مشہور کردیتے ہیں اور اگر اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس پہنچاتے تو تحقیق کرنے والے اس کی تحقیق کر لیتے اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو چند اشخاص کے سوا سب شیطان کے پیرو کارہوجاتے۔
(سورة النساء : 83)

اور ہم نے تم سے پہلے مردوں، ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔
(سورة النحل : 43)

عن علي قال : قلت : يا رسول الله ، إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان : أمر ولا نهي ، فما تأمرنا ؟ قال : تشاورون الفقهاء والعابدين ، ولا تمضوا فيه رأي خاصة

علی (رضي الله عنه)فرماتے ہیں :اے نبی ﷺ :اگر ہم پر کوئی ایسا معاملا آ جائے جسکے بارے میں ہمیہ نہیں جانتے کہ آیا اسے کیا جائے یا اس سے بچا جائے؟ تو ایسے معاملے کے بارے میں اپکا کا کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : " آپنے فقہاء اور صالحین سے رجوع کرو، اورکسی ایک شخص کے رائے پر نتیجہ اخذ نہ کرو-

(معجم الاوسط ۔ حدیث 1641، ابو یحییٰ نورپوری نے اسے حسن کہا)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
5) مستند ذرائع اور حقیقی علماء سے (علم) لینا لازم ہے۔

عمران بن حسین رضی الله فرماتے ہیں :

اے لوگوں ! دین کا علم ہم سے حاصل کرو (رسول اللهﷺ کےطالب علم جو لوگوں سے زیادہ دین کی سمجھ رکھتے ہیں)-

[الکفایہ صفحہ ١٥. خطیب بغدادی]

إِنَّ هَذَا العِلْمَ دِيْنٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِيْنَكُمْ-

بے شک یہ علم ہمارا دین ہے، پس تم دیکھو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟

[الخطیب بغدادی ،الجامع الاخلاق الراوی بہ روایت ابو ہریرہ اور انس رضی الله،
مستدرک الحاکم بہ روایت ابن سرین، اور ابن عون ان صحیح مسلم اور خطیب بغدادی کی الفقیح ول متفقہ، ابن حبان کی ال مجروحین ١/١٥٢ بہ روایت ابنے عباس رضی الله]


امام مالک رحم الله نے فرمایا:

علم حدیث تمہارے گوشت اور خون کے مانند ہے اور تم سے قیامت کے دن اسکے بارے میں سوال و جواب ہوگا- پس دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے لے رہے ہو؟-
[ خطیب بغدادی کی المحدث الفاصل (صفحہ.٤١٦) اور الکفایہ (صفحہ.٢١)]

امام اوزاعی رحم الله فرماتے ہیں-

علم وہ ہے جسکا منبع صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم ہو، اسکے علاوہ جو بھی ہے وو علم نہیں-
[امام ذہبی، سير أعلام النبلاء، تاریخ دمشق ابنے عساکر جلد ٣٥ صفحہ 201-]


امام عبد الله ابن مبارک نے فرمایا:

اسناد دین کا حصہ ہیں، اگر اسناد نہیں ہوتے تو پھر ہر شخص کی اپنی مرضی ہوتی جو چاہے (دین میں) کہ دے-

[امام مسلم مقدمہ صحیح مسلم ( ١٥/١) ، امام ترمذی العلل، الجامع (٢٣٢/6)، ابن حبان جرح و تعدیل (16/١/١)،الرامہ حرمزئی المحدث الفاصل (صفحہ ٢٠٩)، ابن حبان المجروحین (٢٦/١)، الحاکم المعارف العلوم الحدیث (صفحہ 6)، الخطیب کی تاریخ میں (١٦٥/6)، الکفایہ (صفحہ ٥٥٨)، الجامع لاخلاق الراوی (١٦٤٣) اور شرف اصحاب الحدیث (٧٧،٧٨) میں عبدللہ بن مبارک سے بہ سند صحیح –]

وقال أيضا : حدثنا محمد بن إسماعيل قال حدثنا إبراهيم بن المنذر حدثنا معنبن عيسى قال كان مالك بن أنس يقول :لا يؤخذ العلم من أربعة ويؤخذ ممن سوىذلك :

- 1 لا يؤخذ من سفيه معلن بالسفه وإن كان أروى الناس .

- 2 ولا يؤخذ من كذاب يكذب في أحاديث الناس إذا جرب ذلك عليه وان كان لا يتهم أن يكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم .

- 3 ولا من صاحب هوى يدعوا الناس إلى هواه .

- 4 ولا من شيخ له فضل وعبادة إذا كان لا يعرف الحديث

" محمد بن اسمعیل نے ہم سے بیان کیاکہ ابراہیم بن المنذر نے اسے روایت کیا کہ معین ابن عیسیٰ نے کہا:

امام ملک کہا کرتے تھے-

علم ما سوائے ان چار لوگو ں کے سب سے لیا جا سکتا ہے-

١. ایک بےوقوف جسکی بے وقوفی لوگوں پر عیاں ہو،اگرچے کہ یہ شخص لوگوں میں سب سے زیادہ احادیث بیان کرتا ہو-

٢. ایک جھوٹا جو لوگوں پر جھوٹ بولتا ہو اور لوگوں پر یہ بات عیاں ہو اگرچے کہ اسنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولا ہو تب بھی –

٣. ایک ایک شخص جو اپنی نفس کی پیروی کرتا ہو اور لوگو کو اس طرف بلاتا ہو-

٤. ایک ایسا شیخ جو عابد اور نیک ہو لیکن اسکے پاس علم نہ ہو-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
6). ) حجت،اہمیت و فضائل علماء (مختصراً) ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک طالب علم اپنا علم ایک شیخ سے حاصل کرے گا جو اسے صحیح راستہ بتائے گا- بے شک علماء رہنمائی کے مینار ہیں جو لوگوں کو الله کی کتاب اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کی سمجھنے میں مدد کرتے ہیں-

سلف نے تو اس حد تک خود کتابوں سے علم حاصل کرنے سے روکا ہے کہ ان میں سے ایک نے کہا:

" جو کوئی کتاب کو اپنا استاد بنا لیتا ہے اسکی غلطیاں اسکے راستبازی سے زیادہ ہوں گی-


ابن برجس:

اے طالب علم! اگر تم علم کی بنیادوں کو کو جاننا اور حاصل کرنا چاہتے ہو تو عظیم علماء کی صحبت اختیار کرو: وہ علماء جنکی داڑھیاں سفید اور جسم کمزور ہیں اور جو علم کے حصول میں اپنا طاقت کھو بھیٹے ہیں- انکی صحبت اختیار کرو اس سے پہلے کہ وہ چل بسے، اور انکے علم کے خزانوں سے مستفید ہو اس سے پہلے کہ وو آپنے ساتھ یہ خزانے لے چلے-

[الاوائق ، صفحہ ٢٦]

علم الحدیث کو کس نے شروع کیا ور اسے کس نے پروان چڑھایا ؟

ایک ایسا علم اور مطالعہ جو صرف اسلام کی خاصیت ہے- دنیا کے کسی اور مذہب میں اس جیسا کوئی طریقہ کار نہیں جو روایت کو جانچ سکے اور اور اسکی حفاظت کر سکے- اگر اصول الحدیث کو دنیا کے کسی بھی مذہب پر لاگو کیا جائے تو وہ فوراّ فنا ہو جاینگے-

ابو العالیہ (المتوفی:قبل ١٠٠ ہ):
عن أبي العالية (متوفى قبل المائة): «كنا نسمع الرواية بالبصرة عن أصحابرسول الله – صلى الله عليه وسلم – فلا نرضى حتى نركب إلى المدينة فنسمعها
من أفواههم

" ہم بصرہ میں صحابہ رسول صلی الله وسلم سے منسوب روایات سنتے تھے، لیکن ہم انھیں نہیں لیتے تب تک جب ہم مدینہ آ کر انسے خود نہ سن لیتے-"


نوٹ:

آج کے زمانے میں ہم تھوڑا سفر طے کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہم تھک گئے، لیکن آپ تصور کریں انکا کو ہزار سال پہلے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے احادیث کے لئے ہزارروں میل راستہ طے کرتے- یہ انہی لوگوں کی کاوشیں تھیں کہ آج یہ علم کا ایک بڑا ذخیرہ ہمارے ہاتھوں میں ہے- سبحان الله، الله ان سب (علماء اور طالب علموں) سے راضی ہو-

اہل سنت میں سب سے پہلے "اسماء الرجال" پر کام امیر المومنین “شعبة بنالحجاج (المتوفی ١٦٠ ھ)” نے عراق میں شروع کیا تھا-

علم الحدیث اتنی اہمیت کا حامل تھا اور سلف نے اس علم کی ترویج کی کہ عبداللہ ابن مبارک (المتوفی ١٨١ ھ) نے فرمایا:

" اسناد دین کا حصہ ہیں، اسکے بغیر جو کوئی چاہے کچھ بھی کہہ دے-"

اور 200 سال کے اندھر ہی مسلمانوں نے اسناد کے علم کو اسکے عروج تک پہنچایا-

یہ ایک نقطہ نظر ہے- اصول الفقه کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ کہ لوگوں کہ رہمنائی انکے حالت کے مطابق کرو- چھوٹے بدعت سے لے کر بڑے بدعت کے خلاف جنگ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کفر اور دوسری گمراہیوں کی تردید کے بارے میں کیا خیال ہے؟ علم کو ہزاروں سال سے آج تک پہنچانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان اصولوں کے تحفظ کے بارے میں کیا خیال ہے جسکا متن ہمارے پاس نہیں لیکن ان پر علماء کا اجماع موجود ہے؟ قرآن کی کی تلاوت اور تجوید کے تحفظ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اور اسی طرح یہ لسٹ کافی لمبی ہے –

کیا ہم محض ان علماء کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے ہیں جس طرح انکا حق ہے؟ نہیں بلکہ ہم تو انھیں ہر وقت نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ با علم تو ہم ہیں- الله ہم پر رحم کرے-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
6.1) علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کے قول کی روشنی میں علماء کی اہمیت اور ذمہ داری -

علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کا قول ہے:

" کیا میں تمہیں بتاؤں کہ حقیقی فقیه کون ہے؟ یہ وہ شخص ہے جو لوگوں کو الله کے رحم سے مایوس نہ کرے، لیکن اسکے باوجود بھی وہ لوگوں کو الله کی نافرمانی میں رعایت نہیں دیتا- وہ لوگوں کو الله کی منصوبہ بندی سے حفاظت کا احساس نہیں دلاتا اور وہ قرآن کا راستہ کبھی نہیں چھوڑتا-

[العجوری کی اخلاق العلماء # ٤٥، الخطیب کی الفقیح والمتفقیہ ٣٣٨-٣٣٩/٢]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
6.2) علماء کا خود یہ کہنا کہ میں نہیں جانتا۔

ابو بکر رضی الله عنہ کا فرمان ہے:

کونسا آسمان مجھے پناہ دیگا اور کونسی زمین مجھے اپنے اوپر رہنے دیگی اگر میں الله کی کتاب کے بارے میں ایسا بولوں جسکا مجھے علم نہ ہو؟

[ابن ماجہ کتاب الزکات # ١٧٩١؛ ابن قیم کی للعم الموقعین، یہ روایت مقطوع ہے لیکن مختلف اطراف سے اس کو تقویت ملتی ہے جسکا ذکر ہم یہاں کریں گے-]

الشیبانی سے روایت ہے:

" میں نے عبد الله بن ابو عوفہ سے پوچھا:

کیا الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے رجم کی سزا دی؟ انھوں نے کہا : ہاں.

میں نے پوچھا سورہٴ نور کے نازل ہونے سے پہلے ؟ انھوں نے کہا: میں نہیں جانتا-

ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں-

يا أيها الناس من علم شيئا فليقل به ومن لم يعلم فليقل الله أعلم فإن من العلم أن يقول لما لا يعلم الله أعلم

" اے لوگوں! جس کسی پاس کسی چیز کے بارے میں کچھ علم ہو تو اسے آگے پہنچاؤ، اور کسی کے پاس کسی چیز کے بارے میں علم نہیں تو وہ کہے " واللہ علم "- کیونکہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو اور کوئی کہے کہ مجھے علم نہیں (واللہ علم) تو یہ علم کی نشانی ہے-

[صحیح بخاری:٤٤٣٥ اور صحیح مسلم ٥٠٠٧]

عبدللہ ابن عمر رضی الله نے فرمایا:

حدثنا طاهر بن عصام كان طاهرا وكان ثقة عن مالك بن أنس عن نافع عن ابن عمر أنه قال العلم ثلاثة كتاب الله الناطق وسنة ماضية ولا أدري

" علم کے تین اقسام ہیں: قرآن، صحیح سنت اور مجھے علم نہیں-

[ابن حزم الاحکام: ٣:٨٠٧- ابن حجر تہذیب التھزیب ٦:١٥٩- الدارقطنی غرائب مالک- الخطیب بغدادی: اسماء من روا ابو داود. کتاب الفرائض، جلد ٣، صفحہ ١٦٤. ابن ماجہ کے مقدمے میں، باب # ٨]

امام مالک رحم الله نے فرمایا:

" ایک عالم کی ڈھال "مجھے نہیں معلوم" ہے، اگر وہ اسے چھوڑتا ہے تو وار کرنے والا اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے-

[یوسف ابن عبدالبر کی کتاب الانتقا فی فضائل ثلاثہ الفقہا]

وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، قَالَحَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا أَبُوعَقِيلٍ، صَاحِبُ بُهَيَّةَ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِعُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فَقَالَ يَحْيَى لِلْقَاسِمِ يَاأَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَى مِثْلِكَ عَظِيمٌ أَنْ تُسْأَلَعَنْ شَىْءٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ فَلاَ يُوجَدَ عِنْدَكَ مِنْهُعِلْمٌ وَلاَ فَرَجٌ - أَوْ عِلْمٌ وَلاَ مَخْرَجٌ - فَقَالَ لَهُالْقَاسِمُ وَعَمَّ ذَاكَ قَالَ لأَنَّكَ ابْنُ إِمَامَىْ هُدًى ابْنُأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ‏.‏ قَالَ يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ أَقْبَحُ مِنْذَاكَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنِ اللَّهِ أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْآخُذَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ ‏.‏ قَالَ فَسَكَتَ فَمَا أَجَابَهُ ‏.

ابو بکر بن النظر بن ابی نظر نے مجھے روایت کیا، اسنے کہا ابو النظر ہاشم بن القاسم نے مجھے روایت کیا، ابو عقل جو رفیق ہے بُهَيَّةَ کا، نے ہم سے روایت کیا، اسنے کہا:

" میں قاسم بن عبیداللہ اور یحییٰ بن سعد (بن قیس المدنی القاضی) کے پاس بھیٹا ہوا تھا، تو یحییٰ نے القاسم سے کہا: "

او ابو محمد! بے شک یہ بہت عجیب بات ہے کہ آپ سے مذہب کے معاملات کے بارے میں سوال کیا جائے اور آپ کے پاس جواب نہ ہو".

القاسم نے پوچھا: "کیوں؟"

یحییٰ نے کہا : " کیونکہ آپ علم کے دو اماموں (ابو بکر و عمر) کی اولاد میں سے ہیں-

القاسم نے کہا: اس سے بری بات کیا ہوگی کہ ایک انسان کو الله نے دانائی دی ہو اور وہ بغیر علم کے بات کرے یا قابل اعتبار لوگوں کے علاوہ کسی اور سے علم لے"
-پھر یحییٰ چپ رہے اور کوئی جواب نہیں دیا-

[امام مسلم-مقدمہ صحیح مسلم ٣٣]
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
6.3) علما کرام کی فضیلت اور عام آدمی (جاہل) پر برتری ۔

عمر بن الخطاب رضی الله عنہ:

" ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"

[جامع البیان العلم ؤ فضلہ ، جلد ١.صفحہ ٦٥]

امام ابن القیم نے فرمایا:

فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکے حاجات بھی پورا کرتا ہو- پھر وھ مر جاتا ہے اور اسکی رسائی اب اپنے دولت تک نہیں ہو- پس ایک عالم کی موت بنسبت اس مالدار شخص کے موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-

[مفتاح دار السعدہ: ١/٢٦٥]

امام عبدالله بن مبارک رحم الله سے پوچھا گیا:

"بہترین لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا " علماء"-
ان سے پوچھا گیا کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا " سادہ ؤ درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، " بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ضرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-

[ابو بکر الدینوری ، المجلاصه ؤ جواہر ال-علم ٢:١٨١ ]

الزہری :

ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے نفلی عبادت سے بہتر ہے-

[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]

ابو ہریرہ رضی الله عنہ:

" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں بجائے اسکے کہ میں پوری رات صبح ہونے تک عبادت کروں-"

[جامع البیان العلم ؤ فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]

امام ترمذ ی نے اپنے کتاب جامع ترمذی میں ایک باب
" فقہ کی عبادت پر برتری کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:

قیس بن کثیر سے روایت ہے:

" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:
" وہ میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
آپ رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
اسنے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ

" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- پھر عالم کی آباد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چند کی فضیلت ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جسنے اسے حاصل کیا اسنے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-

[جامع ترمذی :٢٦٨٢، اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]

امام العینی رحم الله صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري (٢.٣٩)میں لکھتے ہیں- اس حدیث

(علماء انبیاء کے وارث ہیں ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے جہاں الله نے فرمایا:

پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔
[سورہ فاطر :٣٢ ]

علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم تھے، اور پھر انکے بعد تابعین پھر انکے بعد طبع تابعین اور یہ سلسلہ اسطرح چلتا گیا"-

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُقَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَفِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْبِي، وَلاَ بُدَّ لِيمِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُوَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ

" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا علماء) ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"

[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]

ابو امامہ بھلی رضی الله عنہم فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ‏"‏ ‏.‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ اللَّهَوَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِالْخَيْرَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌغَرِيبٌ ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍالْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌعَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ ‏.

عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے جسطرح میری تمہاری ادنی ترین آدمی پر- پھر فرمایا کہ یقیناّ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-

[جامع ترمذی :٢٦٨٥]

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَالنَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْيُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏"

اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

[صحیح بخاری:١٠٠، سنان ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]

عوف بن مالک السجعی رضی الله عنہ سے روایت ہے :

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کسطرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اسکا مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا تھا، کیا یہود اور نصاریٰ کی پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟

[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی بمع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]

رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا:

" کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپنے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

" بے شک زمین پر علماء کی مثال بالکل اسس طرح ہے جیسے آسماں میں ستاروں کی. انکے زریعے ایک انسان کو زمین ؤ سمندر کے اندھیروں میں روشنی ملتی ہے-

[مسند احمد بن حنبل،جلد ٣، حدیث # ١٢٦٢١. شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الجامع # ١٩٧٣ میں ضعیف کہا ہے]

آدب حاتم رضی الله نے فرمایا:

" تم بہتری میں رہو گے جب تک تم اس چیز کی اجازت نہیں دو گے جس کو تم برا جانتے تھے یا اس چیز کی مذمت نہیں کرو گے جسے تم اچھا جانتے تھے، اور جب تک اہل علم تمہارے بیچ نڈر ہوکر بولے ( حاکم وقت اور لوگوں کے خوف سے)-

[ابنے بطاح، الابانہ الکبریٰ ، مضمون ٢٦]


عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا

8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم

" لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گے جب تک وہ علم لے اپنے بڑھوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے ؤ خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-

[ ابن منده, مسند ابراہیم بن آدم ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]
 
Top