السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میری رائے یہاں تھوڑی سی مختلف ہے۔ عام طور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس اسلوب میں ہم احادیث رسولؐ کی چھان بین کرتے ہیں اسی انداز میں ہمیں تاریخ کی بھی کرنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں کیونکہ احادیث کے مقاصد فرق ہیں جبکہ تاریخ کے بالکل فرق۔ احادیث سے تو دین کا ثبوت ہوتا ہے جبکہ تاریخ شریعت کے اصولوں میں شامل نہیں۔ تاریخ کے مقاصد فرق ہیں اور وہ گزرے ہوئے حالات اور معاملات کی فہمی اور اس سے عبرت ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اسلامی تاریخ کی حیثیت وہی ہے جوکہ تفسیر میں اسرائیلیات کی ہے۔ یعنی کسی واقعہ کو تفصیلا سمجھنے کے لیے تاریخ کی مدد لی جاسکتی ہے ورنہ شرعی استدلال اسرائیلیات سے درست نہیں الا یہ کہ وہ بذات خود شریعت سے ثابت ہو۔ اسی طرح تاریخ سے ایک عمومی بات کو تو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن تفاصیل کو نہیں کیونکہ تفاصیل میں ہر مؤرخ اپنے بیان میں منفرد ہوتا ہے۔
دوسرا یہ کہ تاریخ کی انتہاء نہیں جبکہ شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ تاریخ تو آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک چلتی آرہی ہے جبکہ جس شریعت کا ہمیں مکلف بنایا گیا ہے اسکی ابتدا اللہ کے رسول کی نبوت سے ہوئ اور آپؐ کی وفات کے ساتھ تکمیل بھی۔ اس لیے تمام تاریخ کو احادیث کے معیار پر پرکھنا نہ صرف وقت کا ضیاء ہے بلکہ ناممکن بھی۔ اسی لیے ہمیں احادیث کی اسناد کی چھان بین کرنے والے تو بہت ملیں گے لیکن تاریخ کے کم۔
تیسرا یہ ہے کہ اہل علم نے بھی تاریخ کو اس طرح اہمیت نہیں دی اسی لیے ہمیں نامور مؤرخین میں ایسے بھی مل جائیں گے جوکہ جرح و تعدیل کے معیار پر تو کمزور ہیں لیکن تاریخ میں انکا اپنا مقام ہے۔ اگر تاریخ کو انہیں معیارات پر پرکھنا شروع کردیا جائے جس پر احادیث کو کیا جاتا ہے تو تاریخ کا اکثر حصہ فارغ ہوجائے گا۔
اگر معترض یہ سوال کرے کہ صحابہ کی طرف بعض لوگ غلط باتیں منسوب کرتے ہیں تو کیا اب ہم اسکو قبول کرلیں؟ تو میں یہ کہوں گا کہ ہر وہ چیز جسکا تعلق دین سے ہو وہ بغیر سند کے قبول نہیں کی جائے گی لیکن جسکا تعلق دین سے نہیں اسکو اس طرح پرکھنے کی ضرورت نہیں۔
امیرالمؤمنین فی الجرح والتعدیل ، فقیہ اسماء الرجال ، علامہ معلمی رحمہ اللہ(المتوفی1386) فرماتے ہیں:
أن حاجة التاريخ إلى معرفة أحوال ناقلي الوقائع التاريخية ، أشد من حاجة الحديث إلى ذلك ؛ فإن الكذب والتساهل في التاريخ أكثر
تاریخ کو حدیث سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ تاریخی واقعات نقل کرنے والے راویوں کی معرفت حاصل کی جائے کیونکہ جھوٹ اورتساہل کا وجود تاریخ میں بہت زیادہ ہے۔[علم الرجال وأهميته للمعلمی ص: 257]
واللہ تعالی اعلم