• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل جنگ صفین میں ہوا. اس کی خبر نبی صلی الله علیہ وسلم نے دی تھی. بخاری کی روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

ويح عمار، تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار» قال: يقول عمار: أعوذ بالله من الفتن


اے عمار تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا تم ان کو جنت کی طرف بلاؤ گے اور وہ تم کو اگ کی طرف


بخاری کی اس روایت کی صحیح تاویل ہے کہ عمار کو ابن سبا کے باغی گروہ نے قتل کیا ، دونوں جانب مسلمانوں کو لڑا رہا تھا اس بات کی تائید حدیث سے ہوتی ہے کہ عثمان کو منافق قمیص اتارنے کو کہیں گے اور الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ تم اس کو نہ اتارنا سب نے اس سے مراد خلافت کے معزول ہونے کا سبائی ایجنڈا قرار دیا ہے جس کے سبب ان کی شہادت ہوئی

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

يا عثمان انه لعل الله يقصك قميصا فان ارادوك على خلعه فلا تخلعه لهم


اے عثمان ! شاید اللہ تعالٰی تمہیں ایک قمیص پہنائیں ۔ اگر لوگ تم سے وہ قمیص اتروانا چاہیں تو ان کے لئے وہ قمیص نہ اتارنا۔


اس حدیث کو امام ترمذی سنن میں، ابن حبان صحیح میں ، حاکم مستدرک میں روایت کرتے ہیں

مسلم کی حدیث ہے

وحَدَّثَني مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، ح وَحَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ – قَالَ عُقْبَةُ: حَدَّثَنَا، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَخْبَرَنَا – غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالِدًا، يُحَدِّثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَمَّارٍ: “تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ” ,


دوسری سند ہے

وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ وَالْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِمَا، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِه.


تیسری سند ہے

وحَدَّثَنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ”


کتاب الثقات از ابن حبان کے مطابق

خَيْرَةُ مَوْلاةُ أم سَلَمَةَ وَالِدَةُ الْحَسَنِ بن أبي الْحسن يروي عَنْهَا ابْنهَا الْحسن بن أبي الْحسن عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ فِي عَمَّارٍ تَقْتُلُكَ الفِئَةُ الْبَاغِيَةُ


خَيْرَةُ مَوْلاةُ أم سَلَمَةَ، حسن بصری کی والدہ ہیں

امام احمد کے نزدیک، صحیح مسلم کی سند معلول ہے اس کا ذکر وہ مسند میں کرتے ہیں پہلے یہی مسلم کی سند لاتے ہیں پھر ابن سیرین کی بات نقل کرتے ہیں


مسند احمد میں ہے

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: مَا نَسِيتُ قَوْلَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ يُعَاطِيهِمُ اللَّبَنَ، وَقَدْ اغْبَرَّ شَعْرُ صَدْرِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهْ» قَالَ: فَرَأَى عَمَّارًا، فَقَالَ: «وَيْحَهُ ابْنُ سُمَيَّةَ تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيرِينَ فَقَالَ: عَنْ أُمِّهِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، أَمَا إِنَّهَا كَانَتْ تُخَالِطُهَا، تَلِجُ عَلَيْهَا


محمّد ابن سِيرِينَ نے پوچھا کہ حسن نے اپنی ماں سے روایت کیا کہا جی یا تو یہ اختلاط ہے یا اس میں کچھ اور بات مل گئی ہے

کتاب العلل ومعرفة الرجال از عبدللہ کے مطابق

حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا مُحَمَّد بن أبي عدي عَن بن عون قَالَ فَذَكرته لمُحَمد فَقَالَ عَن أمه قلت نعم قَالَ أما أَنَّهَا قد كَانَت تخالطها تلج عَلَيْهَا يَعْنِي حَدِيث الْحسن عَن أمه عَن أم سَلمَة فِي عمار تقتله الفئة الباغية


احمد کہتے ہیں میں نے محمّد بن سیرین سے ذکر کیا محمّد ابن سِيرِينَ نے پوچھا کہ حسن نے اپنی ماں سے روایت کیا کہا جی یا تو یہ اختلاط ہے یا اس میں کچھ اور بات مل گئی ہے


مسند احمد میں امام احمد یہ الفاظ بھی نقل کرتے ہیں

قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ مُحَمَّدًا، فَقَالَ: «عَنْ أُمِّهِ؟ أَمَا إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ تَلِجُ عَلَى أَمِّ الْمُؤْمِنِينَ»


احمد کہتے ہیں میں نے اس کا ابن سیرین سے ذکر کیا انہوں نے کہا (حسن) اپنی ماں سے روایت کیا ؟ بے شک انہوں نے (حسن کی والدہ) نے ام المومنین کی بات گڈمڈ کر دی


ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَيَّةَ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ: سَمِعْتُ فِي حَلْقَةٍ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ وَيَحْيَى بْنَ مَعِينٍ وَأَبَا خَيْثَمَةَ وَالْمُعَيْطِيَّ ذَكَرُوا: «يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالُوا: مَا فِيهِ حَدِيثٌ صَحِيحٌ


محمّد بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ایک حلقہ میں سنا جس میں احمد بن حنبل ، یحیی بن معین ابو خَيْثَمَةَ اور وَالْمُعَيْطِيَّ تھے اور روایت يَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَة عمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا
ذکر ہوا سب نے کہا اس سلسلے میں ایک بھی حدیث صحیح نہیں


اسی کتاب میں یہ بات بھی لکھی ہے

سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: رُوِيَ فِي: «تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ثَمَانِيَةٌ وَعِشْرُونَ حَدِيثًا، لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ


میں نے محمّد بن عبد الله بن ابراہیم سے سنا کہا میں نے اپنے باپ سے سنا کہتے تھے میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا
عمار کو باغی گروہ قتل کرے گا کو ٢٨ حدیثوں سے روایت کیا ایک بھی صحیح نہیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

قاتل صحابی رسول تھا
مسند احمد کی ایک روایت ہے

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَفْصٍ، وَكُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ، عَنْ أَبِي غَادِيَةَ، قَالَ: قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ فَأُخْبِرَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ قَاتِلَهُ، وَسَالِبَهُ فِي النَّارِ»، فَقِيلَ لِعَمْرٍو: فَإِنَّكَ هُوَ ذَا تُقَاتِلُهُ، قَالَ: إِنَّمَا قَالَ: قَاتِلَهُ، وَسَالِبَه.


كُلْثُومُ بْنُ جَبْرٍ کہتا ہے کہ أَبِي غَادِيَةَ (رضی الله عنہ)، عمرو بن العاص (رضی الله عنہ) کے پاس پہنچے اور ان کو بتایا کہ عمار (رضی الله عنہ) شہید ہو گئے


ایک روایت میں ہے کہ ابو الغادیہ رضی الله عنہ نے عمار رضی الله عنہ کو عثمان رضی الله عنہ پر سب و شتم کرتے سنا اس لئے قتل کیا


وَقَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ: ثَنَا كُلْثُومُ بن جبر، عن أبي الغادية قَالَ: سَمِعْتُ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ يَشْتِمُ عُثْمَانَ، فَتَوَعَّدْتُهُ بِالْقَتْلِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ طَعَنْتُهُ، فوقع، فقتلته


ان دونوں کی سند میں َكُلْثُومُ بْنُ جَبْر المتوفی ١٣٠ ھ ہے . احمد اس کو ثقہ جبکہ النسائي ليس بالقوى ، قوی نہیں کہتے ہیں

ابن حجر ان کو صدوق يخطىء غلطیاں کرتا ہے کہتے ہیں

مسلم نے كتاب القَدَر میں ایک روایت نقل کی ہے

امام مسلم نے کلثوم بن جبر سے صرف ایک روایت نقل کی ہے کہ الله نے رحم پر فرشتہ مقرر کیا ہے جو امام مسلم نے شاہد کے طور پر پیش کی ہے


ابن حجر نے لسان المیزان ج ٣ ص ٤٠ میں ایک روایت الحسن بن دينار کے واسطے سے نقل کی ہے کہ عمار کو ابو الغادیہ رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ، لیکن کہا ہے کہ یہ متروک راوی ہے

طبقات ابن سعد میں بھی ایک روایت ہے کہ ابو الغادیہ نے عمار کا قتل کیا لیکن اس کی سند میں واقدی ہے لہذا روایت ضعیف ہے

أَبِي غَادِيَةَ يَاسِرُ بْنُ سَبْعٍ، مَدَنِيٌّ صحابی رسول ہیں ان کے اس قتل میں شامل ہونے کی ایک روایت بھی صحیح نہیں لیکن پھر بھی بعض محقیقن (الذھبی وغیرہ) نے ان پر یہ الزام لگایا ہے جو ہمارے نزدیک محتاج دلیل ہے

زبیر علی زئی رحم الله ، ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں -

ابو الغادیہؓ کا سیدنا عمار بن یاسرؓ کو جنگِ صفین میں شہید کرنا ان کی اجتہادی خطا ہے جس کی طرف حافظ ابن حجر العسقلانی نے اشارہ کیا ہے ۔ دیکھئے الاصابۃ (۱۵۱/۴ ت ۸۸۱، ابو الغادیۃ الجہنی) وما علینا إلا البلاغ (۵ رمضان ۱۴۲۷؁ھ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

معاویہ اور عمرو بن العاص رضی الله عنہما کے تبصرے

مسند احمد کی روایت ہے

حدثنا يزيد أَخبرنا العوَّام حدثني أسْوَد بن مسعود عن حنظَلة بن خُويلد العَنَزِي قال: بينما أَنا عند معاوية، إذْ جاءَه رجلان يختصمانِ في رأس عَمّار، يقول كل واحد منهما: أنا قتلتُه، فقال عبد الله ابن عمرو: ليَطبْ به أحدكما نَفْساً لصاحبه، فإني سمعت رسول الله -صلي الله عليه وسلم – يقول: “تقتلَه اَلفئة الباغية”، قال معاوية: فما بالُك معنا؟!، قال: إن أبي شكاني إلى رسول الله -صلي الله عليه وسلم -، فقال: “أطِعْ أباك ما دام حياً ولا تَعْصه”، فأنا معكم، ولستَ أقاتل.


حنظَلة بن خُويلد کہتا ہے . معاوية کے سامنے جھگڑا ہوا کہ عمار کو کس نے قتل کیا .. معاوية نے عبد الله بن عمرو سے کہا تم ہمارے ساتھ کیوں ہو ؟


اس کے راوی أسود بن مسعود کے لئے الذھبی میزان میں لکھتے ہیں حنظلة سے روایت کی ہے، لا يدري من هو، میں نہیں جانتا کون ہے . لہذا ضعیف روایت ہے

ایسے مجھول راوی کی روایت کو آج لوگ صحیح کہہ رہے-

مسند احمد کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ دَخَلَ عَمْرُو بْنُ حَزْمٍ عَلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ، فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَزِعًا يُرَجِّعُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: قُتِلَ عَمَّارٌ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ قُتِلَ عَمَّارٌ، فَمَاذَا؟ قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: دُحِضْتَ فِي بَوْلِكَ، أَوَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟ إِنَّمَا قَتَلَهُ عَلِيٌّ وَأَصْحَابُهُ، جَاءُوا بِهِ حَتَّى [ص:317] أَلْقَوْهُ بَيْنَ رِمَاحِنَا، – أَوْ قَالَ: بَيْنَ سُيُوفِنَا


ابو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب عمار شہید ہوگئے تو عمرو بن حزم عمرو بن العاص کے پاس گئے اور کہا عمار قتل ہوگئے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا تھا عمار تمہیں باغی اور نابکار جماعت قتل کرے گی ۔ عمرو بن العاص غمناک ہوکر اٹھے اور کہا «لا حول ولا قوة الا بالله» معاویہ کےپاس پہنچے تو معاویہ نے سوال کیا کہ کیا ہوا؟ کہا عمار قتل ہوگئے ہیں معاویہ نے کہا قتل ہوگئے تو ہوگئے اب کیا کریں؟ عمرو نے کہا میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سے سنا تھا کہ عمار کو ایک باغی اور ظالم لوگ قتل کرینگے معاویہ نے جواب دیا ہم نے عمار کو قتل نہیں کیا عمار کو علی اور اسکے ساتھیوں نے قتل کیا ہے جو اسے اپنے ساتھ لائے اور انھوں نے ان کو ہماری تلواروں اور نیزوں کے سامنے کیا


عمرو بن حزم ، عمار بن یاسر کے قتل پر عمرو بن العاص کے پاس آئے اور انکو نبی کا قول سنایا… مُعَاوِيَةُ نے کہا ان کو ہماری تلواروں کے آگے جس نے کیا اسی نے قتل کیا

محمّد بن عمرو بن حزم کہتے ہیں عمرو بن العاص کے پاس عمرو بن حزم داخل ہوئے اور بتایا کہ عمار قتل ہوئے


جبکہ کتاب الإصابة في تمييز الصحابة کے مطابق

قال أبو نعيم: مات في خلافة عمر، كذا قال إبراهيم بن المنذر في الطبقات


أبو نعيم کہتے ہیں ان (عمرو بن حزم) کا عمر رضی الله عنہ کی خلافت میں انتقال ہوا اور ایسا ہی إبراهيم بن المنذر نے الطبقات میں کہا ہے


اگرچہ امام احمد نے اس کو عبد الرزاق سے سنا ہے لیکن مصنف عبد الرزاق میں یہ موجود نہیں شاید اس کی وجہ سند کا انقطاع ہے یہ روایت بھی ضعیف ہے

مسند احمد کی ایک اور روایت ہے

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: إِنِّي لَأَسِيرُ مَعَ مُعَاوِيَةَ فِي مُنْصَرَفِهِ مِنْ صِفِّينَ، بَيْنَهُ وَبَيْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ: يَا أَبَتِ، مَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَمَّارٍ: «وَيْحَكَ يَا ابْنَ سُمَيَّةَ تَقْتُلُكَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» ؟ قَالَ: فَقَالَ عَمْرٌو لِمُعَاوِيَةَ:أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ هَذَا؟ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَا تَزَالُ تَأْتِينَا بِهَنَةٍ أَنَحْنُ قَتَلْنَاهُ؟ إِنَّمَا قَتَلَهُ الَّذِينَ جَاءُوا بِهِ


اس روایت میں ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ اور عمرو بن العاص رضی الله عنہ میں عمار رضی الله عنہ کے قتل کے بعد بحث ہوئی معاویہ نے عمرو کو ڈانٹا کہ جو سنتے ہو بولنے لگتے ہو نعوذ باللہ


اس کی سند میں عبد الرحمن بن زياد بن أنعم الإفريقي ہیں ان کو قال ابن حبان كان يدلس کہ یہ تدلیس کرتے ہیں. امام احمد ليس بشيء کوئی چیز نہیں اور لا تكتب اس کی حدیث نہ لکھو کہتے ہیں

لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے

ابن الجوزی کتاب العلل المتناهية في الأحاديث الواهية میں لکھتے ہیں

وأما قوله عليه السلام لعمار تقتلك الفيئة الباغية وقد أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيّ من حديث أَبِي قَتَادَة وأم سلمة إلا أن أَبَا بَكْر الخلال ذكر أن أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي ذكروا هَذَا الحديث تقتل عمارًا الفيئة الباغية فقال فِيهِ ما فِيهِ حديث صحيح وأن أَحْمَد قال قد روى فِي عمار تقتله الفيئة الباغية ثمانية وعشرون حديثًا ليس فيها حديث صحيح”.


اور جہاں تک اس قول کا تعلق ہے کہ عمار کو با غی گروہ قتل کرے گا اس کی تخریج بخاری نے ابی قتادہ اور ام سلمہ کی حدیث سے کی ہے. بے شک ابو بکر الخلال نے ذکر کیا ہے کہ أَحْمَد بْن حنبل ويحيى بْن معين وأبا خيثمة والمعيطي نے اس باغی گروہ والی روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے ایک بھی روایت صحیح نہیں. اور احمد نے ٢٨ روایات سے عمار تقتله الفيئة الباغية کو روایت کیا جن میں ایک بھی صحیح نہیں ہے


کتاب الثقات از العِجْلِيُّ کے مطابق امام عبد الرَّحْمَن بن إِبْرَاهِيم الدِّمَشْقِي دُحَيْم کہتے تھے

قَالَ أَحْمَدُ العِجْلِيُّ: دُحَيْمٌ ثِقَةٌ كَانَ يَخْتلِفُ إِلَى بَغْدَادَ فَذَكَرُوا الفِئَةَ البَاغِيَةَ هُم أَهْلُ الشَّامِ, فَقَالَ: مَنْ قَالَ هَذَا, فَهُوَ بن الفَاعِلَةِ.


العِجْلِيُّ کہتے ہیں دُحَيْمٌ ثقہ ہیں ان کا بغداد میں اختلاف ہوا پس باغی گروہ والی روایت سے لوگوں نے اہل شام مراد لئے اس پر امام دُحَيْم نے کہا جو یہ کہے وہ فاحشہ کی اولاد ہے


محدثین اس روایت کو یا تو رد کرتے ہیں یا تاویل جیسا کہ اوپر پیش کی گئی ہے

بیہقی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگوں کا اختلاف ہو گا تو عمار حق پر ہونگےاس کی سند ہے

عمَّار الدَّهني عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، إِذَا اخْتَلَفَ النَّاس كَانَ ابْنُ سُمَيَّةَ مَعَ الْحَقِّ


سند میں سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، مدلس ہے جو کبار صحابہ سے تدلیس کرتا ہے

کتاب جامع التحصيل في أحكام المراسيل کے مطابق

سالم بن أبي الجعد الكوفي مشهور كثير الإرسال عن كبار الصحابة كعمر وعلي وعائشة وابن مسعود وغيرهم رضي الله عنهم قال بن المديني لم يلق بن مسعود


ابن المدینی کہتے ہیں سالم کی ابن مسعود سے ملاقات نہیں ہوئی

یہ روایت بھی ضعیف ہے

الغرض عمار رضی الله عنہ کے قاتل جہنمی ہیں لیکن وہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم نہیں ہیں

بعض مورخین (الذھبی، ابن حجر، الزركلي ) نے واقدی کے قول پر دعوی کیا ہے کہ جنگ صفین میں صحابی رسول خُزَيْمة بْن ثابت بْن الفاكه، أَبُو عِمارة الأنصاريّ الخطْمي، ذو الشهادتين رضی الله عنہ بھی قتل ہوئے. روافض ان کا نام چھپاتے ہیں ان کی گواہی نبی صلی الله علیہ وسلم کے قول کے مطابق دو کے برابر تھی. یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے قرآن کی سوره توبہ کی آیات پر گواہی دی تھی کہ وہ نازل ہوئی تھیں .روافض کی جانب سے ان پر جرح کی جاتی ہے کہ یہ مصحف عثمانی والی سازش میں شامل تھے. لیکن بعد میں یہ علی رضی الله عنہ کی طرف سے لڑے تھے اس کوچھپایا جاتا ہے. ہمارے نزدیک ان کی وفات صفیں میں ہونے والی بات صحیح نہیں ہے

إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں مغلطائ لکھتے ہیں

وفي «كتاب ابن عساكر»: قال محمد بن عبد الله: قيل للحكم: أشهد خزيمة بن ثابت ذو الشهادتين الجمل؟ قال: ليسبه، ولكنه غيره من الأنصار مات ذو الشهادتين في زمان عثمان بن عفان رضي الله عنهما.


اور کتاب ابن عساکر (تاریخ دمشق) میں ہے محمّد بن عبدللہ نے حکم سے پوچھا کہ خزيمة بن ثابت ذو الشهادتين نے جنگ جمل میں حصہ لیا ؟ کہا ایسا نہیں ہے .. ان کا انتقال عثمان رضی الله عنہ کے دور میں ہی ہو گیا تھا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
کمال کی عربی دانی ہے !
اور غضب کا علم جرح و تعدیل ۔۔۔۔
ہر سطر سے لغت اسلاف کا خون ٹپک رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ہر جملہ سے ’‘مصطلح الحدیث ’‘ سے استہزاء جھلک رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بقول شخصے ع
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن رکھا تھا ،لیکن محبوب کی ترجمانی کا ایسا انوکھا اور عبرت ناک منظر چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا ،
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کمال کی عربی دانی ہے !
اور غضب کا علم جرح و تعدیل ۔۔۔۔
ہر سطر سے لغت اسلاف کا خون ٹپک رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اور ہر جملہ سے ’‘مصطلح الحدیث ’‘ سے استہزاء جھلک رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بقول شخصے ع
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن رکھا تھا ،لیکن محبوب کی ترجمانی کا ایسا انوکھا اور عبرت ناک منظر چشم فلک نے نہ دیکھا ہوگا ،

عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
عمار بن یاسر رضی الله عنہ کا قتل - تحقیق درکار ہے
ابو مخنف کی روایت کے مطابق حضرت عمار جنگ صفین میں شہید ہوئے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ باغی راویوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو اپنا ساتھی ثابت کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے آپ پر یہ جھوٹا الزام عائد کیا ہے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش میں باغیوں کے ساتھ شریک تھے۔ کبھی یہ کہا کہ حضرت عمار ہی دراصل ابن سوداء تھے۔ اس طرح سے انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عمار گویا انہی کے ساتھی تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص بالکل ابتداء ہی میں اسلام قبول کرتا ہے اور اس کی راہ میں اپنے والدین کو اپنے سامنے شہید ہوتا دیکھتا ہے، پھر وہ اپنی پوری عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ گزارتا ہے اور دین کے لیے جہاد میں حصہ لیتا ہے۔ کیا ایسے شخص سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عمر کے آخری حصے میں وہ ان باغیوں سے مل جائے گا جن کی اسلام دشمنی واضح تھی؟ ابو مخنف وغیرہ نے اس ضمن میں جو روایات وضع کی ہیں، ان کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ باغی تحریک کی ساکھ (Credibility) کو کچھ بہتر بنایا جائے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بغاوت کا مجرم ثابت کیا جائے۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مرتبہ دیکھ کر فرمایا تھا کہ "عمار! آپ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔" یہ حدیث الیثمی نے مجمع الزوائد اور احمد بن حنبل نے مسند میں بیان کی ہےاور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے راوی حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہیں جن پر باغی ، حضرت عمار کی شہادت کا الزام عائد کرتے ہیں۔

ہشام کلبی اور ابو مخنف نے اپنے الفاظ حضرت عمار کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اور دعوی کیا ہے کہ حضرت عمار ، نعوذ باللہ حضرت معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو اسلام دشمن سمجھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر انہی کے ساتھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ کو اقتدار کیوں سونپا؟ ان باغی راویوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ اپنے الفاظ کو صحابہ کرام کی زبان سے کہلوائیں تاکہ ان کی تحریک کو قوت ملے۔ طبری نے ان اسناد کے ساتھ بیان کی ہے:

1۔ حدثني محمد، عن خلف، قال: حدثنا منصور بن أبي نويرة، عن أبي محنف. وحدثت عن هشام بن الكلبي، عن أبي محنف، قال: حدثني مالك بن أعين الجهني، عن زيد بن وهب الجهني،

2۔ حدثني موسى بن عبد الرحمن المسروقي، قال: أخبرنا عبيد بن الصباح، عن عطاء بن مسلم، عن الأعمش، عن أبي عبد الرحمن السلمي

پہلی سند تو کسی تبصرے کی محتاج نہیں ہے کہ اس میں ابو مخنف اور ہشام کلبی تشریف فرما ہیں۔ دوسری سند میں عطاء بن مسلم (d. 135/753)ہیں جو کہ تدلیس (سند میں کمزور راوی کا نام چھپا لینا) کے لیے مشہور ہیں۔[16] دوسرے صاحب اعمش (d. 147/765) ہیں جن میں تشیع کا رجحان پایا جاتا تھا اور وہ تدلیس بھی کیا کرتے تھے۔[17] محدثین کا مسلمہ اصول ہے کہ تدلیس کرنے والے راوی اگر ’عن‘ کہہ کر روایت کریں تو یہ قابل قبول نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ ذو معنی لفظ ہے۔

جنگ صفین میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت کی داستان سے متعلق طبری نے انہی حضرات سے منسوب ایک جھوٹی روایت نقل کی ہے۔ اس کی سند میں یہی عطاء بن مسلم اور اعمش موجود ہیں۔ عطاء سے اس روایت کو ولید بن صالح بیان کرتے ہیں جن کے حالات نامعلوم ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ صاحب باغی تحریک کا حصہ رہے ہوں۔

حدثنا أحمد بن محمد، عن وليد بن صالح، عن عطاء بن مسلم، عن الأعمش، عن أبي عبد الرحمن السلمياحمد بن محمد نے ہم سے یہ روایت بیان کی، ان سےولید بن صالح، ان سے عطاء بن مسلم، ان سے اعمش،اور ان سے ابو عبدالرحمن السلمی نے یہ روایت بیان کی۔ ابو عبدالرحمن السلمی کا کہنا ہے کہ جب رات ہوئی تو میں نے ارادہ کیا کہ میں دشمنوں میں جاؤں اور یہ معلوم کروں کہ آیا ہماری طرح انہیں عمار کے قتل کا علم ہوا یا نہیں۔ جب جنگ بند ہوتی تھی تو دونوں جانب کے لشکری آپس میں ملتے تھے اور باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور آہستہ آہستہ شامیوں کے لشکر کی جانب چلا۔ جب میں شامی لشکر میں داخل ہوا تو چار افراد میدان جنگ میں گھوم رہے تھے۔ یہ معاویہ، ابو الاعور اسلمی، عمرو بن عاص اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم تھے۔ عبداللہ ان چاروں میں سب سے بہتر تھے۔ میں ان کے بیچ میں داخل ہو گیا تاکہ وہ باتیں سنوں جو مخالفین حضرت عمار کے بارے میں کریں۔

عبداللہ نے ایک شخص کی لاش دیکھ کر اپنے والد سے کہا: "ابا جان! کیا آپ نے آج اس شخص (عمار) کو بھی قتل کر دیا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں کچھ فرمایا تھا۔" عمرو کہنے لگے: "کیا فرمایا تھا؟" عبداللہ نے جواب دیا: "کیا آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم مسجد نبوی بنا رہے تھے۔ لوگ ایک ایک پتھر اور ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے اور عمار دو دو پتھر اور دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے۔ اس سے ان پر غشی طاری ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کے چہرے سے مٹی صاف کی اور فرمایا: "اے سمیہ کے بیٹے! افسوس کہ لوگ تو ایک ایک پتھر اور ایک ایک اینٹ اٹھا کر لاتے ہیں جبکہ تم دو دو پتھر اور دو دو اینٹیں لے کر آتے ہو۔ یہ کام تم ثواب کے لیے کر رہے ہو۔ افسوس! تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرےگا۔"

عمرو بن عاص نے یہ سن کر اپنے گھوڑے کا رخ موڑ لیا۔ معاویہ نے انہیں پیچھے سے پکڑ کر کھینچا۔ عمرو نے کہا: "کیا آپ نے وہ حدیث نہیں سنی جو عبداللہ بیان کر رہے ہیں؟" معاویہ نے پوچھا: "وہ کیا حدیث ہے؟" عمرو نے انہیں حدیث سنائی تو معاویہ نے جواب دیا: "تمہارا تو بڑھاپے سے دماغ خراب ہو گیا۔ تم حدیثیں بیان کرتے رہتے ہو اور تمام دن اپنے پیشاب میں لتھڑے رہتے ہو۔ کیا ہم نے عمار کو قتل کیا ہے؟ عمار کو تو اس نے قتل کیا ہے جو انہیں میدان میں گھسیٹ لایا ہے۔"[18]

روایت کی سند کاتجزیہ ہم اوپر کر چکے ہیں۔ سند کے تجزیے کے بعد متن کے تجزیے کی طرف آئیے۔سوال یہ ہے کہ کیا میدان جنگ میں ممکن ہے کہ مخالف فوج کا ایک شخص دوسری فوج کے کیمپ میں داخل ہو اور سیدھا اس فوج کے کمانڈروں اور جرنیلوں کے پاس جا پہنچے اور ان کی گفتگو سن لے اور کسی کو کوئی خبر نہ ہو ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ روایت کے مطابق سلمی نے یہ کام اس وقت کیا جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صرف تین ساتھی تھے اور وہ بھی کسی بند جگہ پر بھی نہیں بلکہ کھلے میدان میں موجود تھے۔

کسی نے صحیح کہا ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ روایت گھڑنے والا شاید حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی سے آگاہ نہیں تھا۔ روایت کے الفاظ کے مطابق حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنے والد محترم سے کہہ رہے تھے: " کیا آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے جب ہم مسجد نبوی بنا رہے تھے۔ لوگ ایک ایک پتھر اور ایک ایک اینٹ اٹھا کر لا رہے تھے اور عمار دو دو پتھر اور دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے۔ " یہ بات معلوم و معروف ہے کہ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سن سات ہجری میں ایمان لائے جبکہ مسجد نبوی کی تعمیر سن ایک ہجری میں ہوئی۔ کیا حضرت عمرو کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ ایمان لانے سے چھ برس قبل مدینہ آ کر مسجد نبوی کی تعمیر میں شریک ہوتے؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر "کیا آپ اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھے۔۔۔" کہنے کا کیا مطلب ہے؟

روایت کے الفاظ سے لگتا ہے کہ باغی راویوں کے دل حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کے بغض سے لبریز ہیں چنانچہ اس نوعیت کی بدزبانی وہی کر سکتے ہیں کہ " تمہارا تو بڑھاپے سے دماغ خراب ہو گیا۔ تم حدیثیں بیان کرتے رہتے ہو اور تمام دن اپنے پیشاب میں لتھڑے رہتے ہو۔ " انہوں نے یہ الفاظ گھڑ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کر دیے ہیں جن کا حلم اور تدبر ضرب المثل ہے اور ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں کہ وہ انتہا درجے کے بردبار انسان تھے۔ وہ تو کبھی کسی عام آدمی سے بھی ایسی سخت کلامی نہ کرتے تھے کجا یہ کہ اپنی ہی فوج کے کمانڈر انچیف سے ایسی بات کرتے۔

رہا یہ سوال کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو قتل کس نے کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے بارے میں یہ ارشاد موجود ہے کہ انہیں ایک باغی گروپ قتل کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ قاتلین عثمان کی باغی تحریک کے لوگوں ہی نے انہیں میدان جنگ میں شہید کر دیا ہو تاکہ اس کا الزام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لگا کر انہیں باغی ثابت کیا جا سکے۔ بعض لوگ ابو مخنف وغیرہ کے پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر حضرت معاویہ کو باغی کہتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ حضرت معاویہ نے کبھی حضرت علی کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا بلکہ انہوں نے بار بار یہ کہا کہ ہم آپ کی خلافت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، آپ قاتلین عثمان سے قصاص لیجیے۔ اگر آپ اس کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو ہمیں ان سے مقابلہ کرنے دیجیے۔ انہوں نے کبھی خود حضرت علی کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ ہاں جب باغیوں نے ان پر حملہ کیا تو انہوں نے اپنا دفاع ضرور کیا۔
محمد مبشر نذیر
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
قتل حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے متعلق علامہ ابن جریرطبری رح رقمطرز ہیں:

حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ جب خلافت پر ممتکن ہوے تو اپنے بعض اصحاب کو مختلف ممالکت اسلامیہ میں امن و سلامتی کی صورت حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا - حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو مصر کے حالات معلوم کرنے کے لئے مقرر کیا گیا- تمام اصحاب اپنا اپنا دورہ مکمل کرکے واپس آگئے اوران ممالک کے حالات حضرت عثمان رضی الله عنہ کے گوش گزار کردیے - لیکن عمار رضی الله عنہ لوٹ کر واپس نہ آے - (اس بات کا احتمال تھا کہ انھیں سبایوں یعنی عبدللہ بن سبا کے پیروکاروں نے شہید کردیا ہے- (تاریخ طبری جلد ٦ صفحہ ٩٩)-
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
قتل حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کے متعلق علامہ ابن جریرطبری رح رقمطرز ہیں:

حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ جب خلافت پر ممتکن ہوے تو اپنے بعض اصحاب کو مختلف ممالکت اسلامیہ میں امن و سلامتی کی صورت حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا - حضرت عمار بن یاسر رضی الله عنہ کو مصر کے حالات معلوم کرنے کے لئے مقرر کیا گیا- تمام اصحاب اپنا اپنا دورہ مکمل کرکے واپس آگئے اوران ممالک کے حالات حضرت عثمان رضی الله عنہ کے گوش گزار کردیے - لیکن عمار رضی الله عنہ لوٹ کر واپس نہ آے - (اس بات کا احتمال تھا کہ انھیں سبایوں یعنی عبدللہ بن سبا کے پیروکاروں نے شہید کردیا ہے- (تاریخ طبری جلد ٦ صفحہ ٩٩)-
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=21392
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محمد علی بھائی اگر صرف عمار بن یاسر کی شہادت کا مسئلہ حل ہو جائے تو ہماری تاریخ کے بہت سے بدنما داغ دور ہو سکتے ہیں لیکن ہم یہ داغ دور کرنا نہیں چاہتے اور اس کی وجہ مجھے اگر میں غلط نہیں ہوں تو کسی حد تک شخصیت پرستی کا ہے
 
Top