• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت اپنے خاوند کی اطاعت کیوں کرتی ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
عورت اپنے خاوند کی اطاعت کیوں کرتی ہے


جب لوگ شادی کرتے ہیں توشادی کے بعد عورت پر خاوند کی بات تسلیم اوراسے نافذ کرنا کیوں ضروری ہے ؟

الحمدللہ:

مسلمان کےسامنے جب کوئي بھی حکم شرعی آجائے تواس پر واجب اورضروری ہے کہ اسے تسلیم کرے اوراس پرایمان لائے اگرچہ وہ اس کی حکمت کوجانتا ہویا اسے اس کا علم نہ بھی ہو کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بھی ایسا ہی حکم دیا ہے ۔

اللہ تعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :

{ اور ( دیکھو ) کسی بھی مومن مرد اورعورت کو اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئي اختیار باقی نہیں رہتا ، ( یاد رکھو ) اللہ تعالی اوراس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جوبھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا } الاحزاب ( 36 ) ۔
اورمسلمان یہ یقین اورایمان رکھتا ہے کہ سارے کے سارے شرعی احکام حکمت بالغہ سے پر ہیں ، لیکن ہوسکتا ہے کہ اس پر اس کی حکمت مخفی رہی ہو اوراسے وہ نہیں سمجھ سکا ، تواس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ قصور تواس کے علم اورانسانی عقل کا ہے جوکہ قصور اور کمی وکوتاہی سے خالی نہيں ۔

اورجب مرد وعورت ازدواجی زندگي کے قالب میں جمع ہوتے اوراکٹھے زندگی گزارتے ہیں توان کی رائے میں اختلاف پایا جانا کوئي دور کی بات نہیں اوریہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اختلاف رائے سے خالی ہوگی ، لھذا اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا فریق ہونا چاہیے جواس معاملہ میں کمی کرے وگرنہ اختلافات زیادہ ہوجائيں گے اور آپس میں نزاع بڑھ جائے گا تواس لیے اس کشتی کا کوئي قائد اورکمان کرنے والا بھی ہونا چاہیے وگرنہ جب ملاحوں میں اختلاف پیدا ہوگیا تویہ کشتی ڈوب جائے گی ۔

اس لیے شریعت اسلامیہ نے گھرمیں بیوی پر خاوند کوحکمران بنایا اوراسے ذمہ داری اورمسؤلیت دی کیونکہ وہ غالبا عقل میں کامل ہوتا ہے تواس کا معنی یہ ہوا کہ عورت پر خاوند کی اطاعت کرنی واجب ہوئی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ مرد عورتون پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نےایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں } النساء ( 34 ) ۔

اس اطاعت کے اسباب کئي ایک ہیں جن میں کچھ یہ ہيں :

اول :
اس لیے کہ مردوں میں اس مسؤلیت کونبھانے میں زيادہ قدرت پائي جاتی ہے ، جس طرح کہ مرد کے مقابلہ میں عورت بچوں کی پرورش اورگھر کے معاملات سنبھالنے میں زيادہ قدرت رکھتی ہے ، تواس طرح ہر ایک کے لیے موقع اورجگہ طبعی طور پر مقرر ہے ۔

دوم :
دین اسلام میں مرد عورت کے سارے اخراجات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی پر تمام خرچہ کرے ، تواس طرح بیوی پر واجب اورضروری نہیں کہ وہ ملازمت کرتی پھرے اورنہ ہی اس پر رزق کمانا واجب ہے ، بلکہ اگربیوی کی مستقل آمدنی بھی ہو یا پھر وہ غنی اورمالدار بھی ہوجائے توپھر بھی خاوند پر ہی اس کے اخراجات کرنے واجب ہیں ، اوراس کی سب ضروریات بھی خاوند ہی پوری کرے گا ، تو اس لیے کہ خاوند خرچہ کی ذمہ داری نبھاتا ہے اسی لیے اسے ولایت اورحکمرانی دی گئي ہے ۔
اسی لیے ہم ان معاشروں میں خرابی دیکھتے ہيں جواس قانون کی مخالفت کرتے ہیں ، اورمرد اپنی بیوی کے اخراجات برداشت نہیں کرتا ، اور نہ ہی بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کرتی ہے ، جب چاہے اپنے گھر سے نکل کر زوجیت کا گھونسلہ خالی کرکے چلی جاتی ہے ، اوراس کی اولاد ضائع ہوتی پھرتی ہے ، اورپھروہ محنت و مشقت کرتی پھرتی ہے چاہے وہ اپنے گھر کے لیے ہی ہو ۔

اس معاملہ میں چندایک اشیاء کا خیال رکھنا ضروری ہے :

اول :
عورت اپنے خاوند کی اطاعت کرنے پر اللہ تعالی کے ہاں ماجور ہے اسے اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ۔

دوم :
خاوند کی یہ اطاعت اللہ تعالی کی معصیت کے علاوہ باقی امور میں ہوگي ،

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( کسی بھی مخلوق کی اطاعت خالق کی نافرمانی میں نہیں کی جاسکتی )
سوم :
جس طرح خاوند کا بیوی پر حق اطاعت ہے تواللہ تعالی نے خاوند کوبھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور اچھا برتاؤ کرے ۔

فرمان باری تعالی ہے :
{ اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کےساتھ } البقرۃ ( 228 ) ۔

توخاوند اپنی بیوی پر خدمت لینے میں جور وظلم سے کام نہيں لے گا اوراس پر ظلم بھی نہ کرے ، اورنہ ہی اس پرسخت اوربد اخلاقی کے احکام چلائے گا ، بلکہ وہ اس کے معاملات میں حکمت ودانش مندی سے کام لے ، اوراسے ایسا کام کرنے کا کہے جس میں اس کی اورگھرکی بھلائی اورصلاح ہو اوراس کے ساتھ نرمی و شفقت کے ساتھ معاملات کرے ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تم میں سب سے بہتر وہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے اچھا ہے اورمیں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر اوراچھا ہوں ) ۔
واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
عورت اپنے خاوند کی اطاعت کیوں کرتی ہے


جب لوگ شادی کرتے ہیں توشادی کے بعد عورت پر خاوند کی بات تسلیم اوراسے نافذ کرنا کیوں ضروری ہے ؟

الحمدللہ:

مسلمان کےسامنے جب کوئي بھی حکم شرعی آجائے تواس پر واجب اورضروری ہے کہ اسے تسلیم کرے اوراس پرایمان لائے اگرچہ وہ اس کی حکمت کوجانتا ہویا اسے اس کا علم نہ بھی ہو کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے بھی ایسا ہی حکم دیا ہے ۔

اللہ تعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا :



اورمسلمان یہ یقین اورایمان رکھتا ہے کہ سارے کے سارے شرعی احکام حکمت بالغہ سے پر ہیں ، لیکن ہوسکتا ہے کہ اس پر اس کی حکمت مخفی رہی ہو اوراسے وہ نہیں سمجھ سکا ، تواس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ قصور تواس کے علم اورانسانی عقل کا ہے جوکہ قصور اور کمی وکوتاہی سے خالی نہيں ۔

اورجب مرد وعورت ازدواجی زندگي کے قالب میں جمع ہوتے اوراکٹھے زندگی گزارتے ہیں توان کی رائے میں اختلاف پایا جانا کوئي دور کی بات نہیں اوریہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اختلاف رائے سے خالی ہوگی ، لھذا اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسا فریق ہونا چاہیے جواس معاملہ میں کمی کرے وگرنہ اختلافات زیادہ ہوجائيں گے اور آپس میں نزاع بڑھ جائے گا تواس لیے اس کشتی کا کوئي قائد اورکمان کرنے والا بھی ہونا چاہیے وگرنہ جب ملاحوں میں اختلاف پیدا ہوگیا تویہ کشتی ڈوب جائے گی ۔

اس لیے شریعت اسلامیہ نے گھرمیں بیوی پر خاوند کوحکمران بنایا اوراسے ذمہ داری اورمسؤلیت دی کیونکہ وہ غالبا عقل میں کامل ہوتا ہے تواس کا معنی یہ ہوا کہ عورت پر خاوند کی اطاعت کرنی واجب ہوئی ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :




اس اطاعت کے اسباب کئي ایک ہیں جن میں کچھ یہ ہيں :

اول :
اس لیے کہ مردوں میں اس مسؤلیت کونبھانے میں زيادہ قدرت پائي جاتی ہے ، جس طرح کہ مرد کے مقابلہ میں عورت بچوں کی پرورش اورگھر کے معاملات سنبھالنے میں زيادہ قدرت رکھتی ہے ، تواس طرح ہر ایک کے لیے موقع اورجگہ طبعی طور پر مقرر ہے ۔

دوم :
دین اسلام میں مرد عورت کے سارے اخراجات کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی پر تمام خرچہ کرے ، تواس طرح بیوی پر واجب اورضروری نہیں کہ وہ ملازمت کرتی پھرے اورنہ ہی اس پر رزق کمانا واجب ہے ، بلکہ اگربیوی کی مستقل آمدنی بھی ہو یا پھر وہ غنی اورمالدار بھی ہوجائے توپھر بھی خاوند پر ہی اس کے اخراجات کرنے واجب ہیں ، اوراس کی سب ضروریات بھی خاوند ہی پوری کرے گا ، تو اس لیے کہ خاوند خرچہ کی ذمہ داری نبھاتا ہے اسی لیے اسے ولایت اورحکمرانی دی گئي ہے ۔
اسی لیے ہم ان معاشروں میں خرابی دیکھتے ہيں جواس قانون کی مخالفت کرتے ہیں ، اورمرد اپنی بیوی کے اخراجات برداشت نہیں کرتا ، اور نہ ہی بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کرتی ہے ، جب چاہے اپنے گھر سے نکل کر زوجیت کا گھونسلہ خالی کرکے چلی جاتی ہے ، اوراس کی اولاد ضائع ہوتی پھرتی ہے ، اورپھروہ محنت و مشقت کرتی پھرتی ہے چاہے وہ اپنے گھر کے لیے ہی ہو ۔

اس معاملہ میں چندایک اشیاء کا خیال رکھنا ضروری ہے :

اول :
عورت اپنے خاوند کی اطاعت کرنے پر اللہ تعالی کے ہاں ماجور ہے اسے اجرو ثواب حاصل ہوتا ہے ۔

دوم :
خاوند کی یہ اطاعت اللہ تعالی کی معصیت کے علاوہ باقی امور میں ہوگي ،

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


سوم :
جس طرح خاوند کا بیوی پر حق اطاعت ہے تواللہ تعالی نے خاوند کوبھی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اور اچھا برتاؤ کرے ۔

فرمان باری تعالی ہے :



توخاوند اپنی بیوی پر خدمت لینے میں جور وظلم سے کام نہيں لے گا اوراس پر ظلم بھی نہ کرے ، اورنہ ہی اس پرسخت اوربد اخلاقی کے احکام چلائے گا ، بلکہ وہ اس کے معاملات میں حکمت ودانش مندی سے کام لے ، اوراسے ایسا کام کرنے کا کہے جس میں اس کی اورگھرکی بھلائی اورصلاح ہو اوراس کے ساتھ نرمی و شفقت کے ساتھ معاملات کرے ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :


واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
جزاک اللہ خیرا
اگر خاوند دین کے کام یا تبلیغ سے روکے تو بھی اطاعت ضروری ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
دعوت الی اللہ کے بارے عورت کاکردار

دعوت الی اللہ میں عورت کے کردارکے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟

الحمد للہ:

عورت بھی مرد کی طرح ہے اوراس پردعوت الی اللہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرواجب ہے اس لیے کہ کتاب وسنت کی نصوص اوراہل علم کا کلام صریح دلالت کرتا ہے لھذا عورت کوچاہۓ کہ وہ دعوت الی اللہ اورامربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرے اوراس میں وہ بھی ان شرعی آداب کو مدنظررکھے جو آداب ایک مرد سے مطلوب ہیں ۔

اس بنا پرعورت کے ذمہ ہے کہ وہ بعض لوگوں کے مذاق اوراس پرسب شتم کرنے کی بنا پردعوت کا ختم نہ کردے اورجزع فزع کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ اسے ان تکالیف پرصبر کرنا چاہیے اگرچہ اس میں اسے لوگوں کی باتیں سننی اور مذاق کا بھی سامنا کرنا پڑے ۔

پھراس عورت پریہ بھی واجب ہے کہ وہ کچھ دوسرے امورکا بھی خیال رکھے جس میں عفت وپردہ اختیارکرنا اوربے پردگی سے اجتناب اوراجنبی مردوں سے اختلاط کرنے سےبھی اجتناب کرنا شامل ہے ، بلکہ اسے اپنی دعوت میں ہراس کام کا خیال رکھنا ہوگا جس کی بنا پراس پرعیب جوئ کی جاۓ ۔

اگرکسی مرد کودعوت دے توپردے میں رہتے ہوۓ اورخلوت کے بغیرہو ، اوراگر کسی عورت کودعوت دے تواس میں حکمت سے کام لے اوراپنی سیرت واخلاق میں صاف شفاف ہوتا کہ اس پرکوئ اعتراض نہ کرسکے اوریہ نہ کہے کہ اس نے یہ عمل خود کیوں نہیں کیا ۔

اورداعیۃ عورت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس پہننے سے گریزکرے جو لوگوں کے فتنہ وفساد کا باعث بنے ، اوراسے فتنہ وفساد کے ہرقسم کے اسباب مثلا اپنے اعضاء کا ظاہرکرنا اوربات چیت میں سریلی آوازوغیرہ سے دور رہنا چاہیے ، اس لیے کہ اس طرح کی اشیاء کا اس پرانکارکیا جاۓ‎ گا ۔

بلکہ اسے چاہیے کہ وہ ایسے طریقے سے دعوت کا کام کرے جودین کے لیے فائدہ مند ہونہ کہ نقصان دے اور نہ ہی اس کی شہرت کوبھی نقصان پہنچاۓ ۔

فضیلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالی .
الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ص ( 1010 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ خیرا
اگر خاوند دین کے کام یا تبلیغ سے روکے تو بھی اطاعت ضروری ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔

عورت اپنے گھرسے باہردعوتی کام کیسے کرے

کیا عورت کے لیے گھرسے باہر دعوتی کام کرنے کی کو‏ئ گنجائش ہے ؟ اوراگرہے تو کس طرح ؟

الحمد للہ:

عورت کےلیے گھراورخاندان میں دعوتی کام کرنے کی گنجائش ہے کہ اپنے خاوند اوراپنے محرموں میں سے مرد و عورتوں کودعوت دے ، اوراسی طرح اس کے لیے یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ صرف عورتوں کواپنے گھرسے باہر اسلامی دعوت کا کام کرے ۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ اس دعوت کے لیےکوئ ایسا سفرنہیں ہونا چاہیے جوخاونداوریا پھر محرم کے بغیر ہو اورپھراگر وہ شادی شدہ ہوتوخاوند کی اجازت اورضرورت کے ساتھ ہونی چاہیے ، اوراس سے عورت کےخاندانی حقوق جو کہ اس سے زیادہ واجب ہيں اسے ضائع نہيں ہونا چاہیے .


فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 12/ 249 - 250 )
 

نسرین فاطمہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 21، 2012
پیغامات
1,281
ری ایکشن اسکور
3,232
پوائنٹ
396
جو بہنیں دین کی دعوت کا کام کر رہی ہیں ان کے ذہن میں پیدا ہونے والے کئی سوالوں کے جواب ہیں اس پوسٹ میں ۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top