• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
جنہیں آپ مناصب قرار دیتے ہیں، وہ میرے نزدیک منصب نہیں ہے کیونکہ منصب کا تعلق اتھارٹی سے ہے۔
منصب
1. یہ بات ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کسی چیز کے منصب ہونے سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ عورت اس کے لائق نہیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود منصب کا لفظ عورت کےلیے استعمال کیا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں :
وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ( صحیح البخاری ،كِتَابُ الأَذَانِ ،بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ)
2. منصب آپ کس معنی میں استعمال کررہے ہیں نہیں معلوم پر ہم نے منصب مقام اور رفعت کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
والمَنْصبُ، لُغَةً: الحَسَبُ، والمَقَام. ويُسْتَعَارُ للشَّرَفِ
(تاج العروس (4/ 281)
حافظ ابن حجر العسقلانی بھی مذکورہ حدیث کی شرح میں منصب کی وضاحت کرتے ہوں لکھتے ہی:
منصب أَي قدر ورفعة(فتح الباري لابن حجر (1/ 195)
اتھارٹی​
1. اتھارٹی سے اگر آپ کی مراد فیصلہ نافذ کرنے کی اتھارٹی ہے تو یہ اتھارٹی تو ہم صرف قرآن و سنت کے لیے تسلیم کرتے ہیں ۔ مجتہد خواہ مرد ہو یا عورت اس معنی میں اتھارٹی صرف ان کے ان دلائل کو حاصل ہوگی جو وہ اپنے فتوی کے اثبات میں پیش کرتے ہیں ۔
2. اور اگر اتھارٹی سے مراد علمی اتھارٹی ہے تو جس بھی شخص اندر مجتہد کے شروط پائے جائیں گے اجتہاد اور افتاء کی اتھارٹی کسی کے دیے بغیر اسے خود حاصل ہوجائے گی ۔
3. اور اگر اتھارٹی سے مراد سیاسی اتھارٹی ہے تو اس کا تعلق قضاء سے ہے نہ کہ اجتہاد سے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔
عورت فقیہ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اسے مفتی بننے کی اجازت ہے یا نہیں ؟ اجتھاد کر سکتی ہے یا نہیں ؟
امت اسلامیہ میں کون سی عزت مآب خواتین فقیہ تھیں اور انکے شاگرد کون سے محترم مرد حضرات تھے ؟ اور پھر ان سے کن عزت مآب خواتین نے فقاہت سیکھی اور آگے مردوں کو سکھائی ؟
ان سب باتوں کا جواب اور خالصتاً علمی مضمون آپ عنقریب شائع ہونے والے رسالہ "" اشاعۃ السنہ "" میں ملاحظہ کریں ۔ جس کے لیے یقیناً آپ کو انتظار کرنا پڑے گا۔
موضوع کے مولف محمد ابرار شاہ اسدی ہیں ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عزیز بھائی شاید آپ غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔جو مفہوم آپ لے رہے ہیں اورپھر اسی مفہوم پر آپ مضمون وغیرہ بھی پیش کریں گے۔شروع موضوع اس مفہوم کا سرے سے متقاضی ہے ہی نہیں۔شیخ سرفراز فیضی﷾ کا یہ اقتباس آپ کے سب شکوک وشبہات دور کردے گا۔ان شاءاللہ
مجبوری

اس بحث میں میرے لیےیہ بڑا مسئلہ رہا کہ میں اب تک علوی بھائی کا موقف نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ ابتدا میں ایسا لگا کہ وہ سرے سے عورت کے اجتہاد اور فقاہت کے مخالف ہیں ۔ حتی کہ حضرت عائشہ کو بھی مجتہدہ نہیں مانتے ۔پھر ان کی تحریروں سے محسوس ہوا کہ وہ حضرت عائشہ کو مجتہد تو مانتے پر ان کے مجتہد ہونے کو محض ایک استثنائی واقعہ سمجھتے ہیں اور اس سے کسی شرعی مسئلہ کے استنباط کے خلاف ہیں ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ خواتین کے جزوی اجتہاد اورفقاہت کے بھی قائل ہیں ۔
بہر حال کسی موقف کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ٹھہراو ہو تاکہ اس کی بنیادوں میں کجی کہاں آئی ہے پتہ لگایا جاسکے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عزیز بھائی شاید آپ غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔جو مفہوم آپ لے رہے ہیں اورپھر اسی مفہوم پر آپ مضمون وغیرہ بھی پیش کریں گے۔شروع موضوع اس مفہوم کا سرے سے متقاضی ہے ہی نہیں۔شیخ سرفراز فیضی﷾ کا یہ اقتباس آپ کے سب شکوک وشبہات دور کردے گا۔ان شاءاللہ
۔

کلیم بھائی غلط فہمی کا شکار کوئی اورنہیں بلکہ آپ ہورہے ہیں اور علوی بھای کے الفاظ میں شعوری یا لاشعوری طور پر بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر رہے ہیں۔

میں ذیل میں علوی بھائی کے شروع کردہ موضوع اور ان کے پہلے مراسلے کو بعض جملوں کو نماں کرکے پیش کررہا ہوں اسے بار بار پڑھیں اور اپنے دل سے پوچھیں کہ غلط فہمی کا شکار کون ہورہا ہے:

علوی بھائی کا شروع کردہ عنوان درج ذیل ہے:

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟


پھر اس عنوان کے تحت ان کا پہلا مراسلہ درج ذیل ہے:
ایک تھریڈ اس بارے کچھ معروضات پیش کی تھیں کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے لیکن کچھ مہربانوں نے شعوری یا لاشعوری طور بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فقاہت کے بارے ان کی غیرت جوش مارنے لگی حالانکہ جس بات پر ان کی غیرت جوش ما رہی تھی، وہ محل اختلاف نہ تھا اور جو محل اختلاف تھا، شاید اس بارے وہ کچھ کہنا نہیں چاہ رہے تھے۔ اسے ہمارے ہاں بدقسمتی سے مکالمے کا سطحی اسلوب کہتے ہیں کہ اصل موضوع سے گفتگو ہٹا کر اسے کسی ایسی جذباتی یا ضمنی جانب پھیر دیا جائے کہ جس میں کوئی حقیقی اختلاف موجود بھی نہ ہو۔

راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔ اس ضمن میں یہ بات نقل کی تھی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جن حضرات کو اس بیان سے اختلاف تھا، انہیں درحقیقت کوئی ایسی بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا ایک شرعی دلیل ہے یا عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کے یہ یہ مزید شرعی دلائل ہیں؟ دیکھیں تاریخ میں تو عورتیں بادشاہ بھی ہو گزریں ہیں جیسا کہ رضیہ سلطانہ وغیرہ، تاریخی واقعہ کوئی شرعی دلیل نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو برائے مہربانی اس کے شرعی دلیل ہونے کے دلائل بیان کر دیں؟

امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول کچھ دن پہلے پڑھ رہا تھا کہ جب بھی میری کسی عالم دین سے بحث ہوئی تو میں ہمیشہ غالب رہا لیکن جب بھی کسی جاہل سے واسطہ پڑ گیا تو ہمیشہ مغلوب ہو گیا۔ راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔

میں ایک دفعہ پھر اصل محل اختلاف نقل کر دیتا ہوں یا اپنی گفتگو کا خلاصہ نقل کیے دیتا ہوں کہ عورت کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟ برائے مہربانی جو لوگ شرعی دلیل کا اصولی معنی ومفہوم سمجھتے ہوں تو وہ جواب دیں۔ میں ان کی بات ضرور بالضرور اہمیت دوں گا اور اس میں میرے لیے یعنی میرے نقطہ نظر کے لیے کوئی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو ضرور کروں گا۔

بھائی کوئی اصولی دلیل نقل کر دیں کہ عورت مجتہد یا فقیہ ہو سکتی ہے؟ چاہے الاصل فی الاشیاء الاباحۃ ہی سہی ہو؟ اگر کسی کے عالم دین کے نزدیک یہ دلیل بنتی ہے تو اسے پیش تو کریں ؟ کوئی ایسی دلیل تو ہو جسے شرعی دلیل کہا جا سکے؟ پھر میں اس پر کچھ اپنی معروضات پیش کروں گا تو ہم ایک نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں۔

عورت کے مجتہد اور فقیہ نہ ہونے کے دلائل یہ ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔

پہلی دلیل
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپ نے از خود بھی اجتہاد فرمایا اور صحابہ نے بھی کیا اور صحابہ کے اجتہادات کو آپ کی تائید و تصویب حاصل ہوئی یا آپ نے تصحیح فرمائی جیسا کہ دم کے بدلے بکریوں کی صورت میں اجرت وصول کرنا یا غسل کی حاجت کی صورت میں تیمم نہ کرنا یا عصر کی نماز کو غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر وقت کے بعد ادا کرنا وغیرہ ۔ پس سنت تقریری سے مردوں کے لیے اجتہاد ثابت ہوا۔ میرا سوال یہ تھا کہ کیا ایسی اجازت عورتوں کے لیے بھی سنت سے ثابت ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو اجتہاد یا فتوی جیسے اہم دینی شعبوں میں عورتوں کو یہ مقام دینے کی دلیل کیا ہے؟ اگر عورت مفتی یا مجتہد ہو سکتی ہے تو کیا عورت امام نہیں ہو سکتی یا عورت نکاح خواں نہیں بن سکتی یا عورت کسی ادارے کی سربراہ نہیں ہو سکتی یا عورت کسی صوبے کی گورنر نہیں ہو سکتی یا عورت چیف آف آرمی سٹاف نہیں ہو سکتی یا عورت چیف جسٹس نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی یا عورت وزیر اعلی نہیں ہو سکتی یا عورت ایڈمرل نہیں ہو سکتی یا عورت ایئر مارشل نہیں ہو سکتی وغیرہ ذلک۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً )
رواه البخاري (4425)، ورواه النسائي في " السنن " (8/227)
وہ قوم ہر گز کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے اور یہ صرف بادشاہت سے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر اس روایت کو بادشاہت کے ساتھ خاص کریں تو عورت کا چیف آف آرمی سٹاف بننا یاچیف جسٹس بننا وغیرہ جائز ہے۔ یہ روایت اپنے الفاظ میں عام ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ زندگی میں معاملات عورت کے سپرد نہیں کرنے چاہییں اور علمی رہنمائی یعنی اجتہاد و فتوی دین کا ایک اہم اور بنیادی شعبہ ہے اور اس شعبہ کی قیادت عورتوں کے سپرد کر دینا، اس روایت کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری دلیل
اخروھن من حیث اخرھن اللہ میں نص یعنی ما سیق الکلام لاجلہ یہ ہے کہ عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے اور یہی شریعت اسلامیہ کا مقصود اور کتاب و سنت کی تعلیمات ہیں اور اسی میں زندگی کا حسن و توازن ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا کوئی شرعی دلیل نہیں ہے، یعنی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ جن حضرات کو اس بیان سے اختلاف تھا، انہیں درحقیقت کوئی ایسی بات بیان کرنی چاہیے تھی کہ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مجتہدہ یا فقیہ ہونا ایک شرعی دلیل ہے

نمایاں اورخط کشیدہ الفاظ سے صاف مستفاد ہوتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقہ واجتہاد اسی نوعیت کا تھا جس نوعیت کے فقہ واجتہاد کو علوی بھائی عورت کے لئے ناجائز بتلاتے ہیں ورنہ علوی بھائی یوں نہ کہتے کہ یہ شرعی دلیل نہیں، تاریخی واقعہ ہے۔ بلکہ یوں کہتے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقہ واجتہاد عورت کے لئے زیربحث فقہ و اجتہاد سے علیحدہ نوعیت کا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
۔

کلیم بھائی غلط فہمی کا شکار کوئی اورنہیں بلکہ آپ ہورہے ہیں اور علوی بھای کے الفاظ میں شعوری یا لاشعوری طور پر بحث کا رخ کسی اور طرف پھیر رہے ہیں۔

میں ذیل میں علوی بھائی کے شروع کردہ موضوع اور ان کے پہلے مراسلے کو بعض جملوں کو نماں کرکے پیش کررہا ہوں اسے بار بار پڑھیں اور اپنے دل سے پوچھیں کہ غلط فہمی کا شکار کون ہورہا ہے:

علوی بھائی کا شروع کردہ عنوان درج ذیل ہے:

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟


پھر اس عنوان کے تحت ان کا پہلا مراسلہ درج ذیل ہے:
السلام علیکم
بھائی جان ہم بھی آپ کی توجہ سوالات و جوابات والے سیکشن کی طرف کروانا چاہتے ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عزیز بھائی شاید آپ غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔جو مفہوم آپ لے رہے ہیں اورپھر اسی مفہوم پر آپ مضمون وغیرہ بھی پیش کریں گے۔شروع موضوع اس مفہوم کا سرے سے متقاضی ہے ہی نہیں۔شیخ سرفراز فیضی﷾ کا یہ اقتباس آپ کے سب شکوک وشبہات دور کردے گا۔ان شاءاللہ
محترم بھائی! میں کسی غلط فہمی کا شکار کیسے ہوا؟ جبکہ اابو الحسن علوی نے مضمون ’’ ڈاکٹر فرحت حقائق کے کٹہرے میں‘‘‘ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو لیا گیا لیکن درایت کو نہیں لیا گیا ۔ اور عورت فقیہ اور مجتھدہ نہیں بن سکتی ، اور وہ ناقص عقل و دین ہے ۔ تو ان سب کے بعد میں غلط فہمی میں ہوں یا آپ انکی بے جا حمایت اور درپردہ حمایت کر رہے ہیں ؟ اگر ایسی بات نہیں تو انہیں خود وضاحت کرنی چاہیے تھی ۔ اور پھر نہایت علمی بد دیانتی اور خیانت کرتے ہوئے حدیث کا غلط مفہوم بیان کیا اور اسے مرفوع کے طور پر پیش کیا ۔ جس کا مکمل تذکرہ ’’ اشاعۃ السنہ‘‘ مین ضرور آئے گا۔ اور نگران نے جو اصول خود مقرر کیے ہیں انکی خود بھی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے اور پھر جب انکو آڑے ہاتھوں لیا گیا تو موضوع ہی مقفل کر دیا۔ اور پھر میں نے کچھ جواب لکھا تھا۔ جو پورا کر ہی رہا تھا کہ غلطی سے فورم بند ہوگیا تو اسکے بعد میری آئی ڈی ہی بند کردی گئی ۔ یہ کونسا اصول ہے ؟ اگر آپ لوگوں میں ظرف نہین توفورم پر یہ نہ لکھیں ’’ آزادانہ بحث کا حامی ‘‘ ۔ اور کہں کہ جو ہم نے لکھا اسکے خلاف پوسٹ نہ لکھیں اورنہ ہی پیسٹ کی جائے گی ۔ شیخ سرفراز اگر ان کا موقف نہ سمجھ سکے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ’’ ابوالحسن علوی‘‘“ بھی ’’ امام شافعی ‘‘ کی طرح ’’ جاہلوں سے مغلوب ‘ “ ہوجاتے ہیں ۔
کیوں گردش ایام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں ::
اگر شیشے کا گھر میں بیٹھنا ہے تو پھر دوسروں کو پتھر نہ ما را جائے ۔ اور کسی سے بغض کا مطلب یہ نہیں کہ کسی تیسرے کے خلاف طعن کیا جائے۔
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
پھر یہ موضوع ’’ عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے؟‘‘ کس بات کی غمازی کر رہا ہے ؟ کلیم بھائی آج ہمارا یہی تو علمیہ ہے کہ اگر میں کسی ادارہ سے منسلک یا کسی جگہ نوکری کرتا ہوں تو اختلا ف تو کرہی نہیں سکتا بلکہ ہاں میں ہاں اور خوشامدی کرنی لازمی ہے ۔ لیکن جب آپ کتاب و سنت کا نام لیتے ہیں تو پھر آپ کیسے اپنی رائے کو حرف آخر کہہ سکتے ہیں ؟ یا آپ کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ جو آپ کا دل چاہے وہ لکھیں اور جس کو مرضی آئے لتاڑیں ، کسی سے طرزعمل سے اختلاف ہے تو نزلہ اسلاف پر گرائیں یہ کون سا انصاف ہے ؟ جو مرضی آئے لکھیں یا کہیں ؟
’’ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ‘‘
”” یا ایھا الذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ‘‘““
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
آج ہمارا یہی تو علمیہ ہے کہ اگر میں کسی ادارہ سے منسلک یا کسی جگہ نوکری کرتا ہوں تو اختلا ف تو کرہی نہیں سکتا بلکہ ہاں میں ہاں اور خوشامدی کرنی لازمی ہے ۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اگر میں کسی مسلک یا فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں تو پھر بھی غیر ضروری حمایت یا مصلحت مجذوبانہ لبادہ اوڑھ کر سکوت کو ہی ’’ فتنہ ‘‘ سے بچاو کا نام دے کر خود بھی خوش اور دوسروں کو بھی اسی ’’اخلاقی اصول ‘‘‘ کی تلقین اور تبلیغ کو فریضہ سمجھتے ہیں ۔
’’’’’’’’’’ کیا کہیں تم سے جہاں کو کیسا پایا غفلت ہی میں آدمی کو ڈوبایا پایا آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن واللہ کم تھیں جنہیں بینا پایا ‘‘‘‘‘‘‘‘
 
شمولیت
دسمبر 26، 2011
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
0
رافضی اگر غلط ہے تو اسکی روش جو بھی اپنائے وہ بھی غلط ۔ اور انہیں کا ہمنوا ۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ سامنے کون ہے ۔ لیکن اگر کسی کے بغض و عناد میں کتاب و سنت کے نام پر صحابہ پر کوئی بھی غلط بات لکھے گا تو اس کا جواب اسے دینا مسلمان کا قرآنی فریضہ ہے۔
اور اگر آپ اس فورم پر میری آئی ڈی بند بھی کردیں تو کیا دوسرے فورم نہیں ؟ کیا سننے والا کوئی نہیں ، دیکھنے والا کوئی نہیں ؟ نیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے جناب ۔
’’ میں تو مر جائوں گا دوست کیا میری آواز بھی مر جائے گی ‘‘‘‘
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top