• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت کی حاکمیت

عمران اسلم

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
كتاب و سنت كے محکم دلائل سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ عورت كے ليے ولايت عامہ كا منصب جائز نہيں، مثلاً خلافت، وزارت اور قضاء جج وغيرہ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ‘‘
مرد عورتوں پر حاكم ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں۔
امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’يعنى: وہ ان پر خرچ كرتے ہيں، اور ان كا دفاع اور حفاظت كرتے ہيں، اور اس ليے بھى كہ مردوں ميں ہى حكمران اور امير اور جھاد و قتال اور جنگ كرنے والے ہوتے ہيں، اور يہ عورتوں ميں نہيں ہوتا۔‘‘ (تفسير القرطبى : 5 / 168)
حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
’’وہ قوم كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات كا نگران عورت كو بنا ليا۔‘‘
امام شوكانى ؒ كہتے ہيں:
’’اس ميں دليل ہے كہ عورت حكمرانى نہيں كر سكتى اور وہ اس كى اہل نہيں، اور كسى بھى قوم كے ليے اسے حكمران بنانا حلال نہيں، كيونكہ ان پر ايسے كام سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جو ان كى عدم فلاح اور ناكامى كا باعث ہو۔ ‘‘ (نیل الاوطار :8/ 305)
امام ابن حزم عورت کی خلافت سے متعلق کہتے ہیں:
’’اس ميں كسى كا اختلاف نہيں كہ يہ عورت كے ليے ناجائز ہے۔‘‘ (الفصل فى الملل و الاھواء والنحل : 4 / 129 )
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
موسوعہ فقہیہ میں ہے:
فقہاء کرام کا اتفاق ہے کہ امام اعظم کی شروط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ مرد ہو۔ اور یہ اس لیے ہے تا كہ وہ مردوں سے ميل جول ركھ سكے، اور حكمرانى كے معاملات نپٹانے كے ليے فارغ ہو؛ اور اس ليے بھى كہ اس منصب ميں بہت سے خطرناك اعمال پائے جاتے ہيں، اور بہت زيادہ تھكا دينے والے كام ہيں، جو صرف اور صرف مرد كے لائق ہيں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ : 21 / 270 )
اس ميں كوئى شك نہيں كہ فرمان رسولﷺ عورت كى عمومى امارت اور حكمرانى كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اسى طرح كسى صوبے اور ملك كى حكمرانى كى حرمت پر بھى؛ كيونكہ يہ سب كچھ اس كى عمومى صفت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو حكمران بنانے كى كاميابى اور فلاح كى نفى كى ہے، اور فلاح و كاميابى خير و بھلائى ميں كاميابى ہوتى ہے۔
خلفاے راشدين كے عہد مبارك ميں امت اور تين صديوں كے ا ئمہ كرام نے عملى اجماع كيا كہ عورت كو نہ تو قضاء كا منصب ديا جا سكتا ہے، اور نہ ہى امارت و حكومت كا منصب، حالانكہ اس دور ميں ايسى عورتيں بھى تھيں جو دينى علوم ميں بہت زيادہ ماہر تھيں، اور علوم قرآن، اور علوم حديث، اور احكام ميں ان كى طرف رجوع كيا جاتا، اور ان سے مسائل دريافت كيے جاتے تھے، بلكہ اس دور ميں تو عورتوں نے امارت اور اس كے ساتھ منسلك دوسرے مناصب اور عام عہدوں كى طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
پھر عام شرعى احكام تو عورت كى امارت كے متعارض ہيں، كيونكہ امارت اور حكمرانى ميں حالت تو يہ ہوتى ہے كہ حكمران اور امير اپنى رعايا كے حالات معلوم كرتا رہتا، اور امت كے افراد اور جماعتوں سے ميل جول ركھتا ہے، اور بعض اوقات جہاد ميں فوج كى قيادت بھى كرتا ہے، اور دشمنوں كے ساتھ معاہدے وغيرہ كرنا ہوتے ہيں، جو عورت كے حالات كے مناسب نہيں ہوتے۔
اور يہ بھى ہے كہ: عقل سے حاصل ہونے والى مصلحت بھى اس كا تقاضا كرتى ہے كہ عمومى مناصب اور عہدے عورت كے سپرد نہ كيے جائيں، كيونكہ سردارى اور منصب پر آنے كے ليے عقلى كمال اور پختگى اور تيزى اور قوت ارادى اور حسن تدبير اور معاملہ فہمى كا ہونا ضرورى ہے۔اور يہ صفات ايسى ہيں جو عورت ميں کم ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جزاک اللہ عمران بھائی اللہ آپ کے علم میں اضافہ فرمائے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا کثیرا عمران بھائی۔ یہ بہت اچھا موضوع منتخب کیا آپ نے۔ دور حاضر میں منکرین حدیث اور جمہوریت پسند علماء کی طرف سے خواتین کو سربراہ بنائے جا سکنے کی خوب اسلامی اسناد کی جا رہی ہے۔ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ حق ماننے والے کے لئے یہ ایک آیت ہی کافی ہے، کجا یہ کہ اس موضوع پر تو کئی دلائل موجود ہیں۔ ابھی حال میں اردو بلاگز پر بھی یہ موضوع خوب تختہ مشق بنا رہا۔ اللہ تعالیٰ کتاب و سنت کی پیروی کی توفیق دے ۔ آمین
 
Top