• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم عَرَب ... اَد ْیان ومذاہب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
عَرَب ... اَد ْیان ومذاہب

عام باشندگانِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت وتبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پَیرو تھے۔ اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کار بند تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے خدائی درس ونصیحت کا ایک حصہ بھلا دیا۔ پھر بھی ان کے اندر توحید اور کچھ دین ابراہیمی کے شعائر باقی رہے۔ تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عَمر و بن لُحَی منظر عام پر آیا۔ اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری ، صدقہ وخیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی۔ اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھا اور اسے اکابر علماء اور افاضل اوّلیاء میں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا۔ دیکھا تو وہاں بتوں کی پوجا کی جارہی ہے۔ اس نے سمجھا کہ یہی بہتر اور بر حق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سر زمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہبل بت بھی لے آیا اور اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کر دیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نے اس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقش قدم پر چل پڑے۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ (مختصر سیرۃ الرسول ، تالیف شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی ؒ ص ۱۲) اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔
ہبل سرخ عقیق سے تراشا گیا تھا۔ صورت انسان کی تھی۔ دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا، قریش کو وہ اسی حالت میں ملا تھا۔ انھوں نے اس کی جگہ سونے کا ہاتھ لگا دیا یہ مشرکین کا پہلا بت تھا اور ان کے نزدیک سب سے عظیم اور مقدس تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۲۸)
ہبل کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے مَنَاۃ ہے۔ یہ ہذیل اور خزاعہ کا بت تھا اور بحر احمر کے ساحل پر قُدَیْد کے قریب مُشَلَّل میں نصب تھا۔ مشلل ایک پہاڑی گھاٹی ہے جس سے قُدَید کی طرف اترتے ہیں۔( صحیح بخاری ۱/۲۲۲ فتح الباری ۳/۴۹۹، ۸/۶۱۳) اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا۔ یہ ثقیف کا بت تھا اور موجودہ مسجد طائف کے بائیں منارے کی جگہ پر تھا۔ (کتاب الاصنام لابن الکلبی ص ۱۶) پھر وادئ نخلہ میں ذات عرق سے اوپر عُزّیٰ کی تنصیب عمل میں آئی۔ یہ قریش، بنو کنانہ اور دوسرے بہت سے قبائل کا بت تھا۔ (ایضا ص ۱۸، ۱۹ فتح الباری ۸/۶۶۸ ، تفسیر قرطبی ۱۷/۹۹) اور یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے۔ اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت او ر بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جن عَمرو بن لُحی کے تابع تھا۔ اس نے بتایاکہ قوم نوح کے بت ...یعنی وَدّ ، سُواع ، یَغُوث، یَعُوق ، اور نسر ...جدہ میں مدفون ہیں۔ اس کی اطلاع پر عمرو بن لحی جدہ گیا اور ان بتوں کو کھود نکالا۔ پھر انہیں تِہامہ لایا اور جب حج کا زمانہ آیا تو انہیں مختلف قبائل کے حوالے کیا۔ یہ قبائل ان بتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں لے گئے۔ چنانچہ ود کو بنو کلب لے گئے اور اسے عراق کے قریب شام کی سرزمین پر دومۃ الجندل کے علاقے میں جرش کے مقام پر نصب کیا۔ سواع کو ہذیل بن مدرکہ لے گئے اور اسے حجاز کی سرزمین پر مکہ کے قریب ، ساحل کے اطراف میں رہاط کے مقام پر نصب کیا۔ یغوث کو بنو مرا د کا ایک قبیلہ ، بنو غطیف لے گیا اور سبا کے علاقے میں جرف کے مقام پر نصب کیا۔ یعوق کو بنو ہمدان لے گئے اور یمن کی ایک بستی خیوان میں نصب کیا۔ خیوان اصلاً قبیلہ ہمدان کی ایک شاخ ہے۔ نسر کو قبیلۂ حمیر کی ایک شاخ آل ذی الکلاع لے گئے اور حمیر کے علاقے میں نصب کیا۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر۴۹۲۰ (فتح الباری ۶/۵۴۹، ۸/۶۶۸) المنمق لمحمد بن حبیب ص ۳۲۷ ، ۳۲۸ کتاب الاصنام ص ۹-۱۱، ۵۶-۵۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پھر عرب نے ان بتوں کے آستانے تعمیر کیے۔ جن کی کعبہ کی طرح تعظیم کرتے تھے۔ انھوں نے ان آستانوں کے لیے مجاور اور خدام بھی مقرر کر رکھے تھے اور کعبہ ہی کی طرح ان آستانوں کے لیے بھی ہدیہ اور چڑھاوے پیش کرتے تھے۔ البتہ کعبہ کو ان آستانوں سے افضل مانتے تھے۔ (ابن ہشام ۱/۸۳)
پھر دوسرے قبائل نے بھی یہی روایت اپنائی اور اپنے لیے بت اورآستانے بنائے۔ چنانچہ قبیلہ دوس خثعم اور بجیلہ نے مکہ اور یمن کے درمیان یمن کی اپنی سر زمین میں تبالہ کے مقام پر ذو الخلصہ نامی بت اور بت خانہ تعمیر کیا۔ بنو طی اور ان کے اڑوس پڑوس کے لوگوں نے أجا اور سلمیٰ نامی بنو طی کی دو پہاڑیوں کے درمیان فلس نامی بت کو نصب کیا۔ اہل یمن اور حمیر نے صنعاء میں ریام نامی بت اور آستانہ تعمیر کیا۔ بنو تمیم کی شاخ بنو ربیعہ بن کعب نے رضاء نامی بت خانہ بنایا اور بکرو تغلب اور ایاد نے سنداد میں کعبات کی تعمیر کی۔ (ایضا ۱/۷۸، ۸۹ ، تفسیر ابن کثیر : سورہ نوح)
قبیلہ دوس کا بت ذو الکفین کہلاتا تھا۔ بکر ومالک اور ملکان ابنائے کنانہ کے قبائل کاایک بت سعد کہلاتا تھا۔ بنو عذرہ کا ایک بت شمس کہلاتا تھا۔ (تاریخ الیعقوبی ۱/۲۵۵)اور خولان کے ایک بت کا نام عمیانس تھا۔ (ابن ہشام ۱/۸۰)
غرض اس طرح جزیرۃ العرب میں ہرطرف بت اور بت خانے پھیل گئے ، یہاں تک کہ ہرہرقبیلے ، پھر ہرہر گھر میں ایک ایک بت ہوگیا۔ مسجد حرام بھی بتوں سے بھر دی گئی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے جب مکہ فتح کیا تو بیت اللہ کے گرد اگرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ چنانچہ آپ اپنے ہاتھ میں موجود ایک لکڑی سے انہیں مارتے جارہے تھے اور وہ گرتے جارہے تھے۔ پھر آپ نے حکم دیا اور ان سارے بتوں کو مسجد حرام سے باہر نکال کر جلادیا گیا۔ ان کے علاوہ خانۂ کعبہ میں بھی بت اور تصویریں تھیں۔
ایک بت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صورت پر اور ایک بت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت پر بنا ہوا تھا اور دونوں کے ہاتھ میں فال گیری کے تیر تھے۔ فتح مکہ کے روز یہ بت بھی توڑ دیئے گئے اور یہ تصویریں بھی مٹا دی گئیں۔ (صحیح بخاری ، حدیث نمبر ۱۶۱۰ ، ۲۴۷۸، ۳۳۵۱،۳۳۵۲، ۴۲۸۷، ۴۲۸۸، ۴۷۲۰۔)
لوگوں کی گمراہی اسی پر بس نہ تھی بلکہ ابورجاء عطاردی کا بیان ہے کہ ہم لوگ پتھر پوجتے تھے۔ جب پہلے سے اچھا کوئی پتھر مل جاتا تو پہلا پتھر پھینک کر اسے لے لیتے۔ پتھر نہ ملتا تو مٹی کی ایک چھوٹی سی ڈھیری بناتے۔ اس پر بکری لا کر دوہتے ، پھر اس کا طواف کرتے۔ (ایضاً حدیث نمبر ۴۳۷۶۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
خلاصہ یہ کہ شرک اور بت پرستی اہل جاہلیت کے دین کا سب سے بڑا مظہر بن گئی تھی جنھیں غرہ تھاکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ انہیں شرک وبت پر ستی کا خیال کیونکر پید ا ہوا تو اس کی بنیاد یہ تھی کہ جب انھوں نے دیکھا کہ فرشتے ، پیغمبر ،انبیاء ، اوّلیاء ، اتقیاء ، صلحاء ، اور کار خیر انجام دینے والے اللہ کے سب سے مقرب بندے ہیں ، اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مرتبہ ہے ، ان کے ہاتھ پر معجزے اور کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں تو انھوں نے سمجھا کہ اللہ نے اپنے ان نیک بندوں کو بعض ایسے کاموں پر قدرت اور تصرف کا اختیار دے دیا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اور یہ لوگ اپنے اس تصرف کی وجہ سے ، اور اللہ کے نزدیک ان کی جو جاہ ومنزلت ہے اس کی وجہ سے اس بات کے اہل ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے عام بندوں کے درمیان وسیلہ اور واسطہ ہوں۔ اس لیے مناسب نہیں کہ کوئی آدمی اپنی حاجت اللہ کے حضور ان لوگوں کے وسیلے کے بغیر پیش کرے کیونکہ یہ لوگ اللہ کے نزدیک اس کی سفارش کریں گے اور اللہ ان کے جاہ ومرتبے کے سبب ان کی سفارش رد نہیں کرے گا۔ اسی طرح مناسب نہیںکہ کوئی آدمی اللہ کی عبادت ان لوگوں کے وسیلے کے بغیر کرے ، کیونکہ یہ لوگ اپنے مرتبے کی بدولت اسے اللہ کے قریب کردیں گے۔
جب لوگوں میں اس خیال نے جڑ پکڑ لی اور یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تو انھوں نے ان فرشتوں ، پیغمبروں اور اوّلیاء وغیرہ کو اپنا ولی بنالیا ، اور انہیں اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ ٹھہرالیا اور اپنے خیال میں جن ذرائع سے ان کا تقرب حاصل ہو سکتا تھا ان ذرائع سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اکثر کی مورتیاں اور مجسّمے تراشے۔ جو ان کی حقیقی یا خیالی صورت کے مطابق تھے، انھی مجسّموں کو بت کہا جاتا ہے۔
بہت سے بت ایسے بھی تھے جن کا کوئی مجسمہ نہیں تراشاگیا بلکہ ان کی قبروں ، مزاروں ، قیام گاہوں ، پڑاؤ اور آرام کی جگہوں کو مقدس مقام قرار دے لیا گیا اور انہیں پر نذر اور چڑھاوے پیش کیے جانے لگے اور ان کے سامنے جھکاؤ عاجزی اور اطاعت کا کام ہونے لگا۔ ان مزارات، قبروں، آرام گاہوں اور قیام گاہوں کو عربی زبان میں ''اوثان'' کہا جاتا ہے۔ جو بت کے تقریباً ہم معنی ہے اور ہماری زبان میں اس کے لیے قریب ترین لفظ درگاہ وزیارت اور دربار وسرکار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مشرکین کے نزدیک ان بتوں اور مزارات وغیرہ کی پوجا کے کچھ خاص طریقے اور رسم بھی تھے۔ جوزیادہ تر عمرو بن لحی کی اختراع تھے۔ اہل جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحی کی اختراعات دین ابراہیمی ؑ میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں۔ ذیل میں ہم اہل جاہلیت کے اندر رائج بُت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں :
دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے۔ انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی ومشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔
1۔۔۔ بتوں کا حج وطواف کرتے تھے ، ان کے سامنے عجز ونیاز سے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کر تے تھے۔
2۔۔۔ بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لیجاکر ذبح کرتے تھے اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ارشاد ہے (۵:۳) یعنی ''وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں '' اور دوسری جگہ ارشاد ہے (۶:۱۲۱) یعنی ''اس جانور کاگوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ''
3۔۔۔ بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوا بدید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چوپائے کی پیداوار کا ایک حصہ بتوں کے لیے خاص کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میںان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لیے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایک حصہ خاص کرتے تھے۔ پھر مختلف اسباب کی بنا پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے لیکن بتوںکا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَـٰذَا لِلَّـهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖفَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّـهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿١٣٦﴾

(۶: ۱۳۶)
''اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کیے ہیں اس کا ایک حصہ انھوں نے اللہ کے لیے مقرر کیاہے اور کہا کہ یہ اللہ کے لیے ہے...ان کے خیال میں...اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے، تو جو ان کے شرکاء کے لیے ہوتا ہے وہ اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ ان کے شرکاء تک پہنچ جاتا ہے ، کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ''
4۔۔۔ بتوں کے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے اندر مختلف قسم کی نذریں مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَالُوا هَـٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿١٣٨﴾
(۶: ۱۳۸ )

''ان مشرکین نے کہا کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں انہیں وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں ... ان کے خیال میں... اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ حرام کی گئی ہے۔ (نہ ان پر سواری کی جاسکتی ہے نہ سامان لادا جاسکتا ہے ) اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن پر یہ لوگ- اللہ پر افتراء کرتے ہوئے - اللہ کا نام نہیں لیتے۔ ''
5۔۔ ان ہی جانوروں میں بحیرہ، سائبہ ، وَصیلہ اور حامی تھے۔ حضرت سعید بن مسیبؒ کا بیان ہے کہ بحیرہ وہ جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے خاص کر لیا جاتا تھا اور اسے کوئی نہ دوہتا تھا اور سائبہ وہ جانور ہے جسے اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑتے تھے۔ اس پر کوئی چیز لادی نہ جاتی تھی۔ وصیلہ اس جوان اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پہلی دفعہ کی پیدائش میں مادہ بچہ جنتی۔ پھر دوسری دفعہ کی پیدائش میں بھی مادہ ہی بچہ جنتی۔ چنانچہ اسے اس لیے بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا کہ اس نے ایک مادہ بچے کو دوسرے مادہ بچے سے جوڑ دیا۔ دونوں کے بیچ میں کوئی نر بچہ پیدا نہ ہوا۔ حامی اس نر اونٹ کو کہتے جو گنتی کی چند جفتیاں کرتا (یعنی دس اوٹنیاں) جب یہ اپنی جفتیاں پوری کرلیتا اور ہر ایک سے مادہ بچہ پیدا ہو جاتا... تو اسے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے اور لادنے سے معاف رکھتے ، چنانچہ اس پر کوئی چیز لادی نہ جاتی اور اسے حامی کہتے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۶۲۳ فتح الباری ۸/۱۳۳ ، ابن خلدون (مرتب) ۸/۵۳ قوسین کی عبارت ابن حبان کی ہے۔) ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ ، سائبہ ، کی بچی کو کہا جاتا ہے اور سائبہ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس سے پے دَرپے دس مادہ بچے پیدا ہوں۔ درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہو ، ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی۔ اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا ، اس پر سواری نہ کی جاتی ، اس کا بال نہ کاٹا جاتا اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا ، یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔
وصِیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے در پے دومادہ بچے جنتی۔ (یعنی پانچ بار میں دس مادہ بچے پیدا ہوتے ) درمیان میں کوئی نَر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑدیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھاسکتے تھے ، عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مُردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھاسکتے تھے۔
حامی اس نَر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے۔ درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی ، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا، بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت کی بت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
مَا جَعَلَ اللَّـهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَـٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۖوَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٠٣﴾
(۵: ۱۰۳)

'' اللہ نے نہ کوئی بحیرہ ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ ''
ایک دوسری جگہ فرمایا :
وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَـٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ ﴿١٣٩﴾
(۶: ۱۳۹ )

''ان (مشرکین ) نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مَردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ، البتہ اگر وہ مردہ ہوتو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں۔ ''
چوپایوں کی مذکورہ اقسام، یعنی بحیرہ ، سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ۱/۸۹، ۹۰) جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں۔
حضرت سعید بن مُسیَّب رحمہ اللہ کا بیان گزرچکا ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے۔ (صحیح بخاری ۱/۴۹۹)صحیحین میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر لحی خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۲۱۲ فتح الباری ۳/۹۸ حدیث نمبر ۳۵۲۱ فتح الباری ۶/۶۳۳ حدیث نمبر ۴۶۲۳ فتح الباری ۸/۱۳۲) کیونکہ یہ پہلا شخص تھا جس نے دین ابراہیم کو تبدیل کیا، بت نصب کیے ، سائبہ چھوڑے ، بحیرہ بنائے ، وصیلہ ایجاد کیا
اور حامی مقرر کیے۔ (اسے حافظ نے فتح الباری ۶/۶۳۴ میں ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح کلبی نے اصنام میں اور ابن حبیب نے المنمق میں درج کیا ہے کہ اس کا بعض حصہ صحیح بخاری میں مرفوعاً موجود ہے۔ بعض کو حافظ نے صحیح مسلم کی طرف ابو صالح عن ابی ہریرہ کی روایت سے منسوب کیا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری ۸/۸۵)
عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کردیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے، چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے :
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ
(۳۹: ۳)

''ہم ان کی عبادت محض اس لیے کررہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں گے۔ ''
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ﴿١٨﴾
(۱۰: ۱۸ )

'' یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچاسکیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ ''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مشرکین عرب اَزلام، یعنی فال کے تیر بھی استعمال کرتے تھے۔ (اَزلام، زَلَم کی جمع ہے اور زَلَم اس تیر کو کہتے ہیں جس میں پر نہ لگے ہوں ) فال گیری کے لیے استعمال ہونے والے یہ تیر تین قسم کے ہوتے تھے۔ ایک وہ جن پر صرف ''ہا ں'' یا ''نہیں'' لکھا ہوتا تھا۔ اس قسم کے تیر سفر اور نکاح وغیرہ جیسے کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، اگر فال میں ''ہاں '' نکلتا تو مطلوبہ کام کر ڈالا جاتا اگر ''نہیں'' نکلتا تو سال بھر کے لیے ملتوی کردیا جاتا اور آئندہ پھر فال نکالا جاتا۔
فال گیری کے تیروں کی دوسری قسم وہ تھی جن پر پانی اور دیت وغیرہ درج ہوتے تھے اور تیسری قسم وہ تھی جس پر یہ درج ہوتا تھا کہ ''تم میں سے ہے۔ ''یا ''تمہارے علاوہ سے ہے۔ '' یا ''ملحق ہے۔'' ان تیروں کا مصرف یہ تھا کہ جب کسی کے نسب میں شبہ ہوتا تو اسے ایک سو اونٹوں سمیت ہُبل کے پاس لے جاتے۔ اونٹوں کو تیر والے مَہَنت کے حوالے کرتے اور وہ تمام تیروں کو ایک ساتھ ملا کر گھماتا جھنجوڑتا، پھر ایک تیر نکالتا۔ اب اگر یہ نکلتا کہ ''تم میں سے ہے۔'' تو وہ ان کے قبیلے کا ایک معزز فرد قرار پاتا اور اگر یہ برآمد ہوتا کہ ''تمہارے غیر سے ہے۔ '' تو حلیف قرار پاتا اور اگر یہ نکلتا کہ ''ملحق '' ہے تو ان کے اندر اپنی حیثیت پر برقرار رہتا۔ نہ قبیلے کا فرد مانا جاتا نہ حلیف۔ (فتح الباری ۸/۲۷۷ ، ابن ہشام ۱/۱۵۲، ۱۵۳)
اسی سے ملتا جلتا ایک رواج مشرکین میں جوا کھیلنے اور جوئے کے تیر استعمال کرنے کا تھا، اسی تیر کی نشاندہی پر وہ جوئے کا اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت بانٹتے تھے۔
اس کا طریقہ یہ تھا کہ جوا کھیلنے والے ایک اونٹ ادھار خریدتے اور ذبح کر کے اسے دس یا اٹھائیس حصوں پر تقسیم کرتے ، پھر تیروں سے قرعہ اندازی کرتے۔ کسی تیر پر جیت کانشان بنا ہوتا اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، جس کے نام پر جیت کے نشان والا تیر نکلتا وہ کامیاب مانا جاتا اور اپنا حصہ لیتا اور جس کے نام پر بے نشان تیر نکلتا اسے قیمت دینی پڑتی۔ (یعقوبی نے اپنی تاریخ میں بعض جزئیات کے اختلاف کے ساتھ بسط سے بیان کیا ہے۔ ۱/۲۵۹، ۲۶۱ا)
مشرکین عرب کاہنوں ، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ کاہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیشین گوئی کرے اور راز ہائے سر بستہ سے واقفیت کا دعویدار ہو۔ بعض کاہنوں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ایک جِن ان کے تابع ہے ،جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے اور بعض کاہن کہتے تھے کہ انہیں ایسا فہم عطا کیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ غیب کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اس کے قول وفعل سے یا اس کی حالت سے ، کچھ مقدمات اور اسباب کے ذریعے وہ جائے واردات کا پتہ لگا لیتے ہیں۔ اس قسم کے آدمی کو عرّاف کہا جاتا تھا۔ مثلاً: وہ شخص جو چوری کے مال ، چوری کی جگہ اور گم شدہ جانور وغیرہ کا پتہ ٹھکانا بتاتا۔
نجومی اسے کہتے ہیں جو تاروں پر غور کرکے اور ان کی رفتار واوقات کا حساب لگا کر پتہ لگا تا ہے کہ دنیا میں آئندہ کیا حالات وواقعات پیش آئیں گے۔ (اللسان اور دیگر کتب لغت۔) ان نجومیوں کی خبر وں کو ماننا درحقیقت تاروں پر ایمان لاناہے اور تاروں پر ایمان لانے کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مشرکینِ عرب نچھتروں پر ایمان رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم پر فلاں اور فلاں نَچِھتّر سے بارش ہوئی ہے۔( ملاحظہ ہو : صحیح بخاری حدیث نمبر ۸۴۶، ۱۰۳۸ ، ۴۱۴۷، ۷۵۰۳، صحیح مسلم مع شرح نووی : کتاب الایمان ، باب بیان کفر من قال مُطرنا بالنوء ۱/۹۵)
مشرکین میں بد شگونی کا بھی رواج تھا۔ اسے عربی میں طِیَرہ کہتے ہیں۔ اس کی صورت یہ تھی کہ مشرکین کسی چڑیا یا ہرن کے پاس جاکر اسے بھگاتے تھے۔ پھر اگر وہ داہنے جانب بھاگتا تو اسے اچھائی اور کامیابی کی علامت سمجھ کر اپنا کام کر گزرتے اور اگر بائیں جانب بھاگتا تو اسے نحوست کی علامت سمجھ کر اپنے کام سے باز رہتے۔ اسی طرح اگر کوئی چڑیا یا جانور راستہ کاٹ دیتا تو اسے بھی منحوس سمجھتے۔
اسی سے ملتی جلتی ایک حرکت یہ بھی تھی کہ مشرکین ، خرگوش کے ٹخنے کی ہڈی لٹکاتے تھے اور بعض دنوں ، مہینوں، جانوروں ، گھروں اورعورتوں کو منحوس سمجھتے تھے۔ بیماریوں کی چھوت کے قائل تھے اور روح کے اُلّو بن جانے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ یعنی ان کا عقیدہ تھا کہ جب تک مقتول کا بدلہ نہ لیا جائے ، اس کو سکون نہیں ملتا اور اس کی روح اُلّو بن کر بیابانوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور ''پیاس ، پیاس ''یا ''مجھے پلاؤ ، مجھے پلاؤ'' کی صدا لگاتی رہتی ہے۔ جب اس کا بدلہ لے لیا جاتا ہے تو اسے راحت اور سکون مل جاتا ہے۔ (صحیح بخاری۲/۸۵۱ ،۸۵۷ مع شروح۔)

الرحیق المختوم

 
Top