مشرکین کے نزدیک ان بتوں اور مزارات وغیرہ کی پوجا کے کچھ خاص طریقے اور رسم بھی تھے۔ جوزیادہ تر عمرو بن لحی کی اختراع تھے۔
اہل جاہلیت سمجھتے تھے کہ عمرو بن لحی کی اختراعات دین ابراہیمی ؑ میں تبدیلی نہیں بلکہ بدعت حسنہ ہیں۔ ذیل میں ہم اہل جاہلیت کے اندر رائج بُت پرستی کے چند اہم مراسم کا ذکر کر رہے ہیں :
دور جاہلیت کے مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے، ان کی پناہ ڈھونڈھتے تھے۔ انہیں زور زور سے پکارتے تھے اور حاجت روائی ومشکل کشائی کے لیے ان سے فریاد اور التجائیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے سفارش کر کے ہماری مراد پوری کرا دیں گے۔
1۔۔۔ بتوں کا حج وطواف کرتے تھے ، ان کے سامنے عجز ونیاز سے پیش آتے تھے اور انہیں سجدہ کر تے تھے۔
2۔۔۔ بتوں کے لیے نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے اور قربانی کے ان جانوروں کو کبھی بتوں کے آستانوں پر لیجاکر ذبح کرتے تھے اور کبھی کسی بھی جگہ ذبح کر لیتے تھے مگر بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ ذبح کی ان دونوں صورتوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ ارشاد ہے (۵:۳) یعنی ''وہ جانور بھی حرام ہیں جو آستانوں پر ذبح کیے گئے ہوں '' اور دوسری جگہ ارشاد ہے (۶:۱۲۱) یعنی ''اس جانور کاگوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ''
3۔۔۔ بتوں سے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مشرکین اپنی صوا بدید کے مطابق اپنے کھانے پینے کی چیزوں اور اپنی کھیتی اور چوپائے کی پیداوار کا ایک حصہ بتوں کے لیے خاص کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میںان کا دلچسپ رواج یہ تھا کہ وہ اللہ کے لیے بھی اپنی کھیتی اور جانوروں کی پیداوار کا ایک حصہ خاص کرتے تھے۔ پھر مختلف اسباب کی بنا پر اللہ کا حصہ تو بتوں کی طرف منتقل کر سکتے تھے لیکن بتوںکا حصہ کسی بھی حال میں اللہ کی طرف منتقل نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَـٰذَا لِلَّـهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَـٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖفَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّـهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿١٣٦﴾
(۶: ۱۳۶)
''اللہ نے جو کھیتی اور چوپائے پیدا کیے ہیں اس کا ایک حصہ انھوں نے اللہ کے لیے مقرر کیاہے اور کہا کہ یہ اللہ کے لیے ہے...ان کے خیال میں...اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے ہے، تو جو ان کے شرکاء کے لیے ہوتا ہے وہ اللہ تک نہیں پہنچتا (مگر) جو اللہ کے لیے ہوتا ہے وہ ان کے شرکاء تک پہنچ جاتا ہے ، کتنا برا ہے وہ فیصلہ جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ''
4۔۔۔ بتوں کے تقرب کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مشرکین کھیتی اور چوپائے کے اندر مختلف قسم کی نذریں مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَالُوا هَـٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَن نَّشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَّا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِم بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ ﴿١٣٨﴾
(۶: ۱۳۸ )
''ان مشرکین نے کہا کہ یہ چوپائے اور کھیتیاں ممنوع ہیں انہیں وہی کھا سکتا ہے جسے ہم چاہیں ... ان کے خیال میں... اور یہ وہ چوپائے ہیں جن کی پیٹھ حرام کی گئی ہے۔ (نہ ان پر سواری کی جاسکتی ہے نہ سامان لادا جاسکتا ہے ) اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن پر یہ لوگ- اللہ پر افتراء کرتے ہوئے - اللہ کا نام نہیں لیتے۔ ''
5۔۔ ان ہی جانوروں میں بحیرہ، سائبہ ، وَصیلہ اور حامی تھے۔ حضرت سعید بن مسیبؒ کا بیان ہے کہ بحیرہ وہ جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے خاص کر لیا جاتا تھا اور اسے کوئی نہ دوہتا تھا اور سائبہ وہ جانور ہے جسے اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑتے تھے۔ اس پر کوئی چیز لادی نہ جاتی تھی۔ وصیلہ اس جوان اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پہلی دفعہ کی پیدائش میں مادہ بچہ جنتی۔ پھر دوسری دفعہ کی پیدائش میں بھی مادہ ہی بچہ جنتی۔ چنانچہ اسے اس لیے بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا کہ اس نے ایک مادہ بچے کو دوسرے مادہ بچے سے جوڑ دیا۔ دونوں کے بیچ میں کوئی نر بچہ پیدا نہ ہوا۔ حامی اس نر اونٹ کو کہتے جو گنتی کی چند جفتیاں کرتا (یعنی دس اوٹنیاں) جب یہ اپنی جفتیاں پوری کرلیتا اور ہر ایک سے مادہ بچہ پیدا ہو جاتا... تو اسے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے اور لادنے سے معاف رکھتے ، چنانچہ اس پر کوئی چیز لادی نہ جاتی اور اسے حامی کہتے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۶۲۳ فتح الباری ۸/۱۳۳ ، ابن خلدون (مرتب) ۸/۵۳ قوسین کی عبارت ابن حبان کی ہے۔) ابن اسحاق کہتے ہیں کہ بحیرہ ، سائبہ ، کی بچی کو کہا جاتا ہے اور سائبہ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس سے پے دَرپے دس مادہ بچے پیدا ہوں۔ درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہو ، ایسی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس پر سواری نہیں کی جاتی تھی۔ اس کے بال نہیں کاٹے جاتے تھے اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہیں پیتا تھا۔ اس کے بعد یہ اونٹنی جو مادہ بچہ جنتی اس کا کان چیر دیا جاتا اور اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ آزاد چھوڑ دیا جاتا ، اس پر سواری نہ کی جاتی ، اس کا بال نہ کاٹا جاتا اور مہمان کے سوا کوئی اس کا دودھ نہ پیتا ، یہی بحیرہ ہے اور اس کی ماں سائبہ ہے۔
وصِیلہ اس بکری کو کہا جاتا تھا جو پانچ دفعہ پے در پے دومادہ بچے جنتی۔ (یعنی پانچ بار میں دس مادہ بچے پیدا ہوتے ) درمیان میں کوئی نَر نہ پیدا ہوتا۔ اس بکری کو اس لیے وصیلہ کہا جاتا تھا کہ وہ سارے مادہ بچوں کو ایک دوسرے سے جوڑدیتی تھی۔ اس کے بعد اس بکری سے جو بچے پیدا ہوتے انہیں صرف مرد کھاسکتے تھے ، عورتیں نہیں کھا سکتی تھیں۔ البتہ اگر کوئی بچہ مُردہ پیدا ہوتا تو اس کو مرد عورت سبھی کھاسکتے تھے۔
حامی اس نَر اونٹ کو کہتے تھے جس کی جُفتی سے پے در پے دس مادہ بچے پیدا ہوتے۔ درمیان میں کوئی نر نہ پیدا ہوتا۔ ایسے اونٹ کی پیٹھ محفوظ کر دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سواری کی جاتی تھی ، نہ اس کا بال کاٹا جاتا تھا، بلکہ اسے اونٹوں کے ریوڑ میں جفتی کے لیے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا اور اس کے سوا اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہ اٹھایا جاتا تھا۔ دورِ جاہلیت کی بت پرستی کے ان طریقوں کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
مَا جَعَلَ اللَّـهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَـٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ ۖوَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٠٣﴾
(۵: ۱۰۳)
'' اللہ نے نہ کوئی بحیرہ ، نہ کوئی سائبہ نہ کوئی وصیلہ اور نہ کوئی حامی بنایا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا وہ اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ ''
ایک دوسری جگہ فرمایا :
وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَـٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِّذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِن يَكُن مَّيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ ﴿١٣٩﴾
(۶: ۱۳۹ )
''ان (مشرکین ) نے کہا کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو کچھ ہے وہ خالص ہمارے مَردوں کے لیے ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ہے ، البتہ اگر وہ مردہ ہوتو اس میں مرد عورت سب شریک ہیں۔ ''
چوپایوں کی مذکورہ اقسام، یعنی بحیرہ ، سائبہ وغیرہ کے کچھ دوسرے مطالب بھی بیان کیے گئے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ۱/۸۹، ۹۰) جو ابن اسحاق کی مذکورہ تفسیر سے قدرے مختلف ہیں۔
حضرت سعید بن مُسیَّب رحمہ اللہ کا بیان گزرچکا ہے کہ یہ جانور ان کے طاغوتوں کے لیے تھے۔ (صحیح بخاری ۱/۴۹۹)صحیحین میں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر لحی خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۲۱۲ فتح الباری ۳/۹۸ حدیث نمبر ۳۵۲۱ فتح الباری ۶/۶۳۳ حدیث نمبر ۴۶۲۳ فتح الباری ۸/۱۳۲) کیونکہ یہ پہلا شخص تھا جس نے دین ابراہیم کو تبدیل کیا، بت نصب کیے ، سائبہ چھوڑے ، بحیرہ بنائے ، وصیلہ ایجاد کیا
اور حامی مقرر کیے۔ (اسے حافظ نے فتح الباری ۶/۶۳۴ میں ابن اسحاق سے نقل کیا ہے۔ اسی طرح کلبی نے اصنام میں اور ابن حبیب نے المنمق میں درج کیا ہے کہ اس کا بعض حصہ صحیح بخاری میں مرفوعاً موجود ہے۔ بعض کو حافظ نے صحیح مسلم کی طرف ابو صالح عن ابی ہریرہ کی روایت سے منسوب کیا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری ۸/۸۵)
عرب اپنے بتوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس عقیدے کے ساتھ کرتے تھے کہ یہ بت انہیں اللہ کے قریب کردیں گے اور اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے، چنانچہ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ مشرکین کہتے تھے :
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ
(۳۹: ۳)
''ہم ان کی عبادت محض اس لیے کررہے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں گے۔ ''
وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّـهِ ﴿١٨﴾
(۱۰: ۱۸ )
'' یہ مشرکین اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ نفع پہنچاسکیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔ ''