• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید الفطر 2016 بعنوان: "مقاصدِ عید اور خارجیوں کیلیے وعید" از ڈاکٹر عبد الباری ثبیتی حفظہ اللہ

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
عید الفطر 2016 بعنوان: "مقاصدِ عید اور خارجیوں کیلیے وعید" از ڈاکٹر عبد الباری ثبیتی حفظہ اللہ

بسم الله الرحمن الرحيم

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں عید الفطر 1437 کا خطبہ " مقاصدِ عید اور خارجیوں کیلیے وعید" کے موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے عید کی اہمیت عیاں کی اور عید کے مقاصد ذکر کرنے کے بعد مملکت حرمین اور خصوصاً مسجد نبوی کے بالکل قریب رونما ہونے والے سانحے کی پر زور الفاظ میں مذمت کی، پھر اپنی جانوں کو راہِ الہی میں لٹانے والوں کیلیے شہادت کی دعا فرمائی، اس کے بعد انہوں نے مدینہ نبویہ اور خارجیوں کے بارے میں نبی ﷺ کے ارشادات ذکر کیے اور آخر میں ان کے بارے میں مسلمانوں کے کردار کا ذکر کر کے باہمی محبت ، مودت، انس کے ساتھ رہنے کی تلقین کی۔

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں اسی نے ماہ رمضان اپنی بندگی اور حصولِ تقوی کا ذریعہ بنایا، میں اسی کیلیے نہ ختم ہونے والی حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اسی کی توفیق سے ہم نے نماز، روزے، صدقات اور عبادات ادا کیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی نے آپ کو مجتبیٰ اور مصطفیٰ بنا کر آپ کی رہنمائی بھی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور سب سامعین کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}

ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔[آل عمران : 102]

ہم گزشتہ ایام میں خیر و برکت کے لمحات سے لطف اندوز ہوئے، یہ لمحات زندگی کے حسین ترین لمحات تھے؛ اور یہ حسین ترین لمحات کیوں نہ ہوں کیا اللہ تعالی سے راز و نیاز کی باتیں کرنے سے بھی اچھا لمحہ ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالی کی آیات کے ذریعے کانوں کو بہرہ مند اور دلوں کو پاک کر کے ایمان میں اضافہ کرنے سے کون سا عمل اچھا ہو سکتا ہے؟

نیکیاں کرنے والے کو قبولیت، کامیابی اور بخشش مبارک ہو، ماہِ رمضان کی تکمیل عید کیلیے سب سے بڑی خوشی ہے، لیلۃ القدر پانے سے زندگی میں برکت آتی ہے اور عید کے دن گناہوں پاک صاف ہونے والے بدن نیا لباس زیب تن کرتے ہیں۔

عید کی تقریبات میں مسلمان اپنی خوشی اور شادمانی کا اظہار کرتا ہے، مسرت و عید کے موسم میں فرحت و بشاشت اعلانیہ طور پر کرتا ہے، خوشی کا اظہار کرنے سے دل مہک اٹھتا ہے اور جسم میں چستی پیدا ہوتی ہے، عید کا تقاضا ہے کہ ہم ہر وقت خوشی منائیں، شریعت اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر طرح سے مسرت کا اظہار کریں، عید کے دن اظہار خوشی لباس، زیب و زینت اور گفتار و کردار سے ممکن ہے۔

اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

رسول اللہ ﷺ کے شہر ، آپ کی مسجد اور صحن [کے قریب]اور وہ بھی ماہِ رمضان میں رونما ہونے والے سانحے کو سن کر ایک مسلمان کا دماغ پھٹنے لگتا ہے ، وہ ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے، قلم و کلمات اسے بیان کرنے سے بالکل عاجز ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی مسجد اور دیگر جگہوں پر رونما ہونے والے دل خراش واقعات ، قتل و غارت کے اقدامات انتہائی گھٹیا، سنگین ترین جرم اور زمین پر دہشت گردی ہے۔

اس گمراہ ٹولے نے اپنی لغت سے اللہ تعالی کے شعائر اور عبادت میں مصروف نمازیوں سے بھر پور رسول اللہ ﷺ کی مسجد کا احترام تک نکال دیا ہے، انہوں نے اللہ کے دین کو حقیر سمجھ لیا ہے، یہ لوگ روزے داروں ، رکوع و سجود کرنے والوں کو ماہ رمضان میں ، مقدس شہر میں، اور مسجد نبوی میں قتل کرنا بھی معمولی سمجھ رہے ہیں، یہ کس دین کے پیرو ہیں؟ !اور کون سا عقیدہ رکھتے ہیں؟! کہ انہوں نے نبی ﷺ کے منبر و محراب اور حجرۂ مبارک کے قریب معصوم جانوں کا قتل عام کیا، زائرین اور عمرہ کرنے والوں کی حفاظت کیلیے دن رات ایک کرنے والے پاسداروں کو قتل کیا، پر امن لوگوں میں دہشت پھیلائی ، دھوکا دہی ،خیانت اور خود کشی کر کے ایک سے بڑھ کر ایک گناہ کرتے گئے ۔

اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے بارے میں ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ انہیں شہدا میں قبول فرمائے، یہ ان کیلیے شرف کی بات ہے؛ کیونکہ جس شخص کو نماز کی حالت میں قتل کیا گیا تو وہ نماز کی حالت میں اٹھایا جائے گا، جسے روزے کی حالت میں قتل کیا گیا اسے روزے کی حالت میں اٹھایا جائے گا، بخاری و مسلم میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ:

"ایک شخص کو اونٹ نے گرا کر اس کی گردن توڑ دی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ، ہم اس وقت نبی ﷺ کے ساتھ تھے آپ نے احرام باندھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: (اسے بیری کے پتوں اور پانی کے ساتھ غسل دے کر دو کپڑوں میں کفن دے دو، اسے خوشبو لگانا اور نہ ہی سر ڈھانپنا؛ کیونکہ اللہ تعالی روزِ قیامت اسے تلبیہ کہتے ہوئے اٹھائےگا)"

بخاری ، مسلم


علمائے کرام کہتے ہیں:

"جو شخص دوران عبادت فوت ہو جائے تو اسے اسی حالت میں اٹھایا جائے گا"

عنقریب معصوم مقتولین اللہ تعالی کے سامنے اپنے خون کا بدلہ لینے کیلیے کھڑے ہوں گے۔

شہر نبوی کی حرمت پامال کرنے کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:

(عیر اور ثور پہاڑ کےد رمیان حرمِ مدینہ ہے، یہاں کسی نے کوئی بدعتی کام ایجاد کیا یا بدعتی شخص کو پناہ دی تو اس پر اللہ تعالی، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، روزِ قیامت اس کی کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کی جائے گی)

بخاری ، مسلم

آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:

(اہل مدینہ کے بارے میں کوئی بھی مکاری کرے تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جیسے پانی میں نمک پگھل جاتا ہے)

بخاری


مسلمانوں کو جس بات کا زیادہ دکھ ہے وہ یہ ہے کہ : مسلمانوں کی سرزمین پر فتنہ پروری کچھ مسلمانوں کی طرف سے رونما ہوئی ہے، انہیں انسانی و جناتی شیطانوں نے بہکا دیا ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(آخری وقت میں کچی عمر کے لوگ ہوں گے، جو عقل سے پیدل ہوتے ہوئے زبان سے اعلی ترین باتیں کریں گے؛ لیکن اسلام سے ایسے باہر نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے باہر نکل جاتا ہے، ایمان ان کے حلق سے بھی نیچے نہیں اترے گا، وہ جہاں بھی ملیں انہیں قتل کر دو، ان کے قاتلوں کیلیے روزِ قیامت اجر ہے۔)

بخاری


دہشت گردی عصر حاضر میں ایک عالمی مسئلہ ہے، ہر کوئی دہشت گردی کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہا ہے، دہشت گردی کا کسی دین، ملک یا قوم سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ شیطانی عمل ہے، شیطان ہی دہشت گردی کو گمراہ اور ناکام ترین لوگوں کے ذہنوں میں پروان چڑھاتا ہے، اس وقت پوری دنیا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے، دہشت گردی کی وجہ سے بہت نقصانات ہو رہے ہیں، اس کے بھیانک نتائج کی وجہ سے اس کی روک تھام کیلیے سب چیخ و پکار میں مبتلا ہیں، تا کہ دہشت گردی کے مفہوم، اقسام اور صورتوں کی حد بندی کر کے اس کے خاتمے کیلیے عملی اقدامات کیے جائیں۔

اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

یہ ملک پوری دنیا کیلیے خیر و بھلائی کے امور میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور ان شاء اللہ ایسے ہی رہے گا، دوسری طرف پیٹھ پیچھے سے دسیسہ کاریاں کرنےو الے ناکام و نامراد ہوں گے اور شکست خوردہ ہو کر واپس لوٹیں گے۔

ہمارا ملک ممکنہ تمام خطرات کے مقابلے کیلیے آہنی دیوار ثابت ہو گا؛ یہ ملک اپنے ایمان کی وجہ سے مضبوط، باہمی اتحاد کی بنا پر بلند و بالا ہے، اور یہاں کے امن و امان کے بارے میں منفی سوچ رکھنے والوں کے بارے میں تیغ و شمشیر ثابت ہوگا، کوئی بھی ایرا غیرا اس ملک و قوم کے عزائم میں رخنہ نہیں ڈال سکتا۔

اس ملک کی اساس ٹھوس بنیادوں، محکم اصولوں اور اسلامی منہج پر قائم ہے، اس ملک کو توڑنے ، یہاں انتشار پیدا کرنے والا ہمیشہ نا مراد و ناکام ہو گا۔

ہمیں یقین ہے کہ یہ واقعات عارضی نوعیت کے ہیں اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلل آگہی ، تعلیم و تربیت اور بزورِ بازو ختم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ

مسلمانوں کو گمراہوں کے خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں متعلقہ اداروں تک اطلاع کرنا اور ان کی گمراہی عیاں کرنا واجب ہے؛ چنانچہ ان کو ٹھکانےمہیا کرنے والا ، یا ان کی مجرمانہ کاروائیوں کے لیے عذر تلاش کرنے والا بھی معصوم جانوں کے قتل میں برابر کا شریک ہے۔

ہم ان دہشت گردانہ کاروائیوں کی بھر پور مذمت کرتے ہیں؛ بلکہ علمائے کرام اور اہل علم کے علاوہ تمام مسلمان اور دانشمند بھی ان کاروائیوں کی مذمت کر رہے ہیں؛ کیونکہ پوری ملت و قوم ایک ہی صفحہ اور ایک ہی میز پر ہیں ، پورے معاشرے کا کسی معاملے پر اتحاد و اتفاق قوت و دفاع کا باعث ہوتا ہے۔

ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ تمام ممکنہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان گمراہ کن نظریات کا مقابلہ کریں، ملکی اور قومی سطح پر ہر ادارے کے ساتھ تعاون کریں تا کہ منحرف افکار اور بیرونی نظریات کا مقابلہ کرنے کیلیے سب میں یگانگت پیدا ہو، اس کے ساتھ ساتھ باہمی اور داخلی اتحاد کی بہت ضرورت ہے اس کیلیے اندرونی انتشار سمیت ذاتی اختلافات کو بھلانا انتہائی لازمی ہے۔

یہ بات سب کے علم میں ہے کہ امن و امان کا تحفظ شرعی طور پر مطلوب ہے، جبکہ امن و امان کی تباہی دین، علم، عزت آبرو، جانوں اور معیشت سمیت ہر چیز کی تباہی ہے۔

اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

عید کادن محبت کا پرچار کرنے کیلیے عظیم ترین تہوار ہے، اس دن میں دلوں کو محبت کے مفہوم سے سر شار اور محبت کی خوبیوں سے آگاہ کر کے دل میں محبت کی چنگاری بھڑکائی جا سکتی ہے۔

اسلام نے معاشرے کی اساس ٹھوس بنیادوں پر رکھنے کیلیے محکم اور صاف ، شفاف اصول و ضوابط وضع فرمائے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

(تم میں سے کوئی اس وقت کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کیلیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے)

بخاری ، مسلم


محبت ایک دوسرے سےپیار کرنے والا معاشرہ تشکیل دیتی ہے ایسے معاشرے میں مانوسیت سے بھر پور فضا آپ کے استقبال کیلیے موجود ہو گی ، حقیقتِ مودّت اور کچھ اچھا کر دکھانے کا جذبہ گلی کوچوں میں آپ سے ہاتھ بڑھا کر ملے گا، ایسے معاشرے میں خاوند اپنی بیوی سے محبت کا تبادلہ کرتا ہے، بچے والدین سے، رشتہ دار عزیز و اقارب سے، پڑوسی ہمسائے سے، مالدار نادار لوگوں سے ، بڑا چھوٹوں سے محبت کرتا ہے، ملازم اپنی ذمہ داری محبت سے نبھاتا ہے، جس سے قومی اتحاد اور امت کیلیے اعزاز اور دفاع کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔

اسی محبت کی وجہ سے افراد مل کر یک جسم و جان کا مظہر پیش کرتے ہیں؛ لہذا ایک فرد کی خوشی پورے معاشرے کی خوشی قرار پاتی ہے اور جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم بے چین رہتا ہے ، آفتوں مصیبتوں کے وقت معاشرے کے افراد متحرک نظر آتے ہیں کہ کس طرح نقصانات روکے جائیں اور خدشات و خطرات سے بچاؤ کیا جائے، ایسے ہی معاشرے میں ایک بھائی دوسرے کے کام آتا ہے، بھائی ہی تکلیف رفع کرتا ہے، پہننے کے لباس مہیا کرتا ہے، مسائل حل کرنے کیلیے تعاون فراہم کرتا ہے، خوشی ہو یا غمی برابر کا شریک رہتا ہے، اگر کوئی مصیبت آن پڑے تو مدد کرتا ہے، اس کیلیے سفارش بھی کر دیتا ہے، نقصانات پورے کرنے کیلیے تگ و دو کرتا ہے، جہاں کہیں خرابی ہو اس کی اصلاح کرتا ہے، زر و زبان ہر دو ذریعے سے اشک شوئی کرتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

(مومن سب سے مانوس ہو کر رہتا ہے، اور ایسے شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو خود کسی سے مانوس نہ ہو اور نہ کوئی اسے مانوس کر سکے) حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی میرے لیے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے فرمایا:

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا

اور اس نعمت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو بار بار آنے کی پر امن جگہ بنایا۔[البقرۃ: 125]،

میں اپنے رب کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں وہی عنایتیں کرنے والا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اسی کا فرمان ہے کہ:

فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ (3) الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ

اس گھر کے پروردگار کی عبادات کرو[3] جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور دہشت سے امن عطا کیا۔ [قریش: 3-4]،

اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے چاند دیکھ کر یہ دعا فرمائی:

(اَللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإِسْلَامِ


[یا اللہ! اس چاند کو ہم پر امن و ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما])،

اللہ تعالی آپ پر اور آپ کے صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو!

اَللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ اَللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ

آپ ہر سال ایک دوسرے سے محبت کریں، آپ کی وجہ سے ملکی ترقی ہو ، قوم کو نئے اعزاز اور کامیابیاں ملیں۔

ہر سال پاکیزہ ہاتھ مصافحہ کرتے رہیں، صاف شفاف دل صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور محبت سے سرشار دل ایک دوسرے سے ملتے رہیں۔


رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]

یا اللہ! محمد -ﷺ- پر ان کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! ہمارے روزے ، قیام، رکوع و سجود قبول فرما، یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جن کے قیام و صیام تیری بارگاہ میں مقبول ہو چکے ہیں، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! جلدی یا دیر سے ملنے والی خیر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کی بھلائی کا ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! جلدی یا دیر سے ملنے والے شر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اور جامع ترین اول تا آخر، ظاہری ہوں یا باطنی تمام بھلائیوں کا سوال کرتے ہیں، نیز ہم تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے بھی سوالی ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی سرحدوں پر حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری سکیورٹی فورس کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کی ہر جگہ حفاظت فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر اور مدد گار بن، یا اللہ! اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو شہدا میں قبول فرما، یا اللہ! ان کے درجات ہدایت یافتہ لوگوں میں بلند فرما، یا اللہ! ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، ان کے گناہوں سے درگزر فرما، اور ا ن کے اہل خانہ کیلیے پیدا ہونے والا خلا پر فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا!

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو حق بات کی توفیق دے ، تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے ، نیز انہیں صحت و عافیت سے نواز، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]}

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

آپ کا پروردگار کفار کی موشگافیوں سے پاک ہے، سلامتی ہو تمام رسولوں پر اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں۔

پی ڈی ایف فارمیٹ کیلیے کلک کریں

عربی آڈیو ویڈیو سمیت انگلش اور عربی ٹیکسٹ کیلیے کلک کریں

 
Top