محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
یہ بھی ہمارے معاشرے کی ہی ایک تصویر ہے جو قطعی مستحسن نہیں ہے لیکن حتمی اور قطعی نہیں ہے معاشرے میں ہر شعبہ حیات میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں اگر کچھ لوگ اچھائی کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو سب کے لیے وہی سختی استعمال کرنا مناسب نہیںدُعا سسٹر
یہی سب سے عمدہ بات ہے کہ دِل نرم رہیں۔
الحمد للہ۔ حافظ صاحب سے کئی دفعہ میری ملاقات ہو چکی ہے۔ کم از کم دو دفعہ جمعۃ المبارک حافظ عسکری صاحب کے پیچھے ادا کرنے کا موقعہ ملا ہے۔ یہ سعادت کی بات ہے۔ حافظ صاحب سے یا راجا صاحب سے میری کوئی ذاتی دشمنی و عناد نہیں ہے۔
مزید یہ کہ میرے دل میں الحمد للہ کسی بھی مؤحد بہن بھائی کے لئے کوئی بھی کینہ و بغض و حسد نہیں ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسی باتوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔
دل میں جو بات ہوتی ہے وہ باہر نکال کر رکھ دیتا ہوں۔
میں مانتا ہوں کہ
علم پر عمل کا مطالبہ
اکثر لوگوں میں اکثر اوقات میرے متعلق منفی رجحانات بڑھنے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔
مثلاً:
ایک مؤحد عالم صاحب جب درس و تدریس یا خطابت کرتے ہیں تو پاؤں سے پاؤں ملانے، پاؤں سیدھے رکھنے، اونچی آمین کہنے، نماز میں ادھر اُدھر نہ دیکھنے، اذان کے بعد مسجد سے نہ نکلنے، سچ بولنے، وعدہ پورا کرنے اور معاملات کو درست رکھنے وغیر وغیرہ کی بہت اچھے انداز سے وعظ و نصیحت فرماتے ہیں۔ جس سے میرے جیسے لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔
لیکن
جب کبھی اتفاقاً ایسے مدرس اور خطیب حضرات مقتدی کے طور پر نماز میں شامل ہوں تو الا ماشاء اللہ ان ساری باتوں کی اپنے عمل سے نفی فرما رہے ہوتے ہیں۔ اور منبر سے نیچے اتر کر اپنے عمل سے اپنی وعظ و نصیحت کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔
یہ الفاظ میں نے نہ تو راجا صاحب کے لئے لکھے ہیں اور نہ ہی حافظ عسکری صاحب کے لئے۔
یہ تو عام باتیں آپ کو بتائی ہیں۔
لہٰذا
رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ سے جہاں ہمیں اور بہت کچھ ملتا ہے وہاں یہ بات بھی ملتی ہے کہ جس قدر آپ کے پاس علم ہے اس پر عمل کرو۔
اور خاص طور پر علماء کرام کو چاہیے کہ روزمرہ کی زندگی میں اپنے اوپر نظر دوڑائیں اور ایسی عادات ترک فرما دیں جن سے دیکھنے والے کو یہ سمجھ آرہی ہو کہ علم پر عمل نہیں ہو رہا۔
اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
ویسے آپ کی باتوں سے مجھے اپنے استاد ذکر کردہ ایک شعر یاد آگیا جو لکھ رہا ہوں
العلم بلا عمل وبال
والعمل بلا علم ضلال