• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید اور جمعہ

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
السّلام علیکم رحمت الّٰلہ و برکاتہ
محترم بھائیوں اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن ہوں جیسا کہ آج ہے تو نمازِجمعہ کا کیا حکم ہے
اگر کوئی محترم آن لائن ہوں تو برائے مہربانی فوری بتلائیں
والسّلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السّلام علیکم رحمت الّٰلہ و برکاتہ
محترم بھائیوں اگر عید اور جمعہ ایک ہی دن ہوں جیسا کہ آج ہے تو نمازِجمعہ کا کیا حکم ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنن ابی داود
باب إذا وافق يوم الجمعة يوم عيد
باب: جمعہ اور عید ایک دن پڑے تو کیا کرنا چاہئے؟



عن إياس بن ابي رملة الشامي قال:‏‏‏‏ شهدت معاوية بن ابي سفيان وهو يسال زيد بن ارقم قال:‏‏‏‏ اشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عيدين اجتمعا في يوم؟ قال:‏‏‏‏ نعم قال:‏‏‏‏ فكيف صنع؟ قال:‏‏‏‏ صلى العيد ثم رخص في الجمعة فقال:‏‏‏‏ " من شاء ان يصلي فليصل ".
(سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 1070 )
قال الشيخ الألباني: صحيح
ایاس بن ابی رملۃ شامی کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا اور وہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو عیدوں میں جو ایک ہی دن آ پڑی ہوں حاضر رہے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: ”جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎“۔

(رواه أحمد۔ وأبو داود ۔والنسائي ۔وابن ماجه ۔والدارمي ۔ والحاكم في "المستدرك" وقال: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه، وله شاهد على شرط مسلم. ووافقه الذهبي، وقال النووي في "المجموع": إسناده جيد.
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/العیدین ۳۱ (۱۵۹۲)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۶۶ (۱۳۱۰)، (تحفة الأشراف: ۳۶۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲۵ (۱۶۵۳)

وضاحت: ۱؎ : اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی نماز کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہر پڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہو گا، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا: ’’ہم تو جمعہ پڑھیں گے‘‘۔
Narrated Zayd ibn Arqam: Ilyas ibn Abu Ramlah ash-Shami said: I witnessed Muawiyah ibn Abu Sufyan asking Zayd ibn Arqam: Did you offer along with the Messenger of Allah ﷺ the Friday and Eid prayers synchronised on the same day? He said: Yes. He asked: How did he do? He replied: He offered the Eid prayer, then granted concession to offer the Friday prayer, and said: If anyone wants to offer it, he may offer.
English Translation Reference:, Book 3, Number 1065
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عن ابي صالح عن ابي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال:‏‏‏‏ " قد اجتمع في يومكم هذا عيدان فمن شاء اجزاه من الجمعة وإنا مجمعون "
(سنن ابی داود ،حدیث نمبر: 1073 )
قال الشيخ الألباني: صحيح ۔۔یعنی علامہ البانی فرماتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے؛
جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے اس دن میں دو عیدیں اکٹھا ہو گئی ہیں، لہٰذا رخصت ہے، جو چاہے عید اسے جمعہ سے کافی ہو گی اور ہم تو جمعہ پڑھیں گے“۔

رواه الحاكم ، ورواه وابن ماجه ۔ وابن الجارود ۔ والبيهقي وغيرهم.

Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: Two festivals ('Id and Friday) have synchronised on this day. If anyone does not want to offer the Friday prayer, the Eid prayer is sufficient for him. But we shall offer the Friday prayer. This tradition has been narrated by Umar from Shubah.
English Translation Reference:, Book 3, Number 1068
 

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
تو انہوں نے کہا: ہاں، معاویہ نے پوچھا: پھر آپ نے کس طرح کیا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھی، پھر جمعہ کی رخصت دی اور فرمایا: ”جو جمعہ کی نماز پڑھنی چاہے پڑھے ۱؎“۔

السّلام علیکم
تو کیا پھر او ظہر کی نماز ضرور بضرور ادا کرے
 

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
وضاحت: ۱؎ : اس سلسلے میں وارد تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتی طور پر مسلمان کو اختیار ہے کہ عید کی نماز کے بعد چاہے تو جمعہ نہ پڑھ کر صرف ظہر پڑھ لے اسی طرح جس مسجد میں جمعہ نہیں قائم ہوتا اس میں لوگ ظہر پڑہ لیں، لیکن جس مسجد میں جمعہ قائم ہوتا ہو وہاں جمعہ قائم ہو گا، کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے عام لوگوں کو جمعہ کی چھوٹ دے کر فرمایا: ’’ہم تو[/QUOTE]
 

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
یے اوپر والی پوسٹ آپ ہی کی ہے بھائی میں تھوڑا سمجھ نہیں پا رہا
 

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
السّلام علیکم
شاید آپ busy ہیں بھائی
جزاک اللّٰہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
یے اوپر والی پوسٹ آپ ہی کی ہے بھائی میں تھوڑا سمجھ نہیں پا رہا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
پیارے بھائی !آپ کے سوال کے جواب میں دو انتہائی واضح احادیث پیش کیں ،جن میں مسئلہ کا واضح شرعی حکم موجود ہے
کہ اگر عید جمعہ والے دن آئے تو نماز عید پڑھنے کے بعد اختیار ہے کہ جمعہ پڑھے یا نہ پڑھے
لیکن اگر نماز جمعہ نہ پڑھے تو نماز ظہر تو ضرور پڑھنا ہوگی۔
’’ الإسلام سؤال وجواب ‘‘ ویب سائٹ پر اس سوال کے جواب میں درج بالا احادیث نقل کرکے لکھتے ہیں :
کہ جمعہ نہ پڑھنے کی صورت میں نماز ظہر اپنے وقت پر ضرور پڑھنی ہوگی؛

وبناء على هذه الأحاديث المرفوعة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ، وعلى هذه الآثار الموقوفة عن عدد من الصحابة رضي الله عنهم ، وعلى ما قرره جمهور أهل العلم في فقهها، فإن اللجنة تبين الأحكام الآتية:
1- من حضر صلاة العيد فيرخص له في عدم حضور صلاة الجمعة، ويصليها ظهراً في وقت الظهر، وإن أخذ بالعزيمة فصلى مع الناس الجمعة فهو أفضل.
 

abusadbaig

مبتدی
شمولیت
ستمبر 03، 2015
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
0
سمجھ گیا بھائی جان
جزاک اللّٰہ
 
Top