• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبیﷺ اور اس طرح کی دیگر مجالس کے اہتمام کاشرعی حکم

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
عید میلاد النبیﷺ اور اس طرح کی دیگر مجالس کے اہتمام کاشرعی حکم

فتاویٰ شیخ عبد العزیز بن باز۔ مترجم: سمیع الرحمٰن
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه ومن اهتدى بهداه.
ہر قسم کی تعریف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے ہے اور درود وسلام محمد رسول اللہﷺ پر، اس کی آل اور اصحاب پر اور ان پر جنہوں نے ان کی ہدایت سے رہنمائی پائی۔
سوال:بہت سے لوگوں کی طرف سے سوالات موصول ہوئے ہیں کہ محفل میلاد اوراس میں آپﷺ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونا،آپ پر سلام بھیجنااور اس طرح کے دیگر امورکا کیا حکم ہے؟
جواب:محفل میلاد اور اس طرح کی دیگر محافل کا انعقاد جائز نہیں، کیونکہ یہ دین میں ایک نیا کام ہے اس لیے کہ اس کام کو نہ تو رسول اللہ ﷺ نے کیا ، نہ خلفاء راشدین نے ، نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام ہی نے کیا جب کہ وہ لوگ بہترین زمانے میں موجود تھے لوگوں میں سے سب سے زیادہ سنت کو جاننے والے،آپؐ کے ساتھ کامل محبت رکھنے والے اور شریعت کی پیروی کرنے والے تھے ۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
«من أحدث في أمرنا هذا ما لیس منه فهو رد» (صحیح البخاری:۲۶۹۷)
’’جس نے ہماری شریعت میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو شریعت میں نہیں وہ مردود ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
«علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المهدیین من بعدي تمسکوا بها،وعضوا علیها بالنواجذ،وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة» (صحیح سنن أبی داود:۴۶۰۷)
’’تم پر واجب ہے کہ تم میرے بعد (اسی طرح)میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے پکڑے رکھو ۔خبردار!(دین میں) نئے نئے کاموں سے بچتے رہنا ۔بے شک (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث میں بدعت کو ایجاد کرنے اور ان پر عمل کرنے پر شدید وعید سنائی گئی ہے جس سے اس عمل کی شناعت کا پتہ چلتا ہے۔
اِرشاد ربانی ہے:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ﴾
’’جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جاؤ۔‘‘(الحشر:۷)
﴿فَلْيَحْذَرِ‌ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِ‌هِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾(النور:۷)
’’رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتارنہ ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے۔‘‘
﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا﴾ (الأحزاب:۷)
’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے،ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔‘‘
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِ‌ينَ وَالْأَنصَارِ‌ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّ‌ضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَ‌ضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾(التوبۃ:۱۰۰)
’’اورمہاجرو انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی،نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے،اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ،یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔‘‘
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ﴾(المائدۃ:۳)
’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیاہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو پسند کیا۔‘‘
اس مفہوم کی قرآن میں اور بہت سی آیات موجود ہیں ۔
اللہ نے اپنے دین کوتمام کر دیا اور یقینا یہ دین ہر اعتبار سے مکمل ہے ۔میلاد جیسی بدعت کو قبول کرنے سے یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دین کو مکمل نہیں کیا اوررسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو کما حقہ پیغام شریعت نہیں پہنچایاجس پر وہ عمل کر سکیں۔یقینا آپﷺ نے امت تک دین سے متعلقہ تمام اُمور پہنچا دیئے ہیں بلکہ بدعات سے دور رہنے کا حکم دیا، لیکن آپﷺ کے بعد والے لوگوں نے اللہ کی شریعت میں اضافے کرنا شروع کر دئیے جس کی ان کواجازت نہیں تھی اور اس بات کے دعوے کرنے لگے کہ یہ اعمال اللہ کے زیادہ قریب کرنے والے ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو دین سے متعلقہ امور کا واضح پیغام پہنچا دیا اور اپنی امت کے لیے ہر اس راستے کی راہنمائی فرمائی جو جنت کی طرف لے جاتا ہو اور جہنم سے دور کرتا ہو اور اس کی دلیل یہ ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا:
«ما بعث اﷲ من نبی إلا کان حقا علیه أن یدل أمته على خیر ما یعلمه لهم،وینذرهم شر ما یعلمه لهم»(صحیح مسلم:۱۸۴۴)
’’مجھ سے پہلے جو نبی بھی گزرا اس پر یہ بات ضروری تھی کہ جس امر میں وہ اپنی امت کی بھلائی دیکھے اس کو بتلا دے اور جس میں برائی دیکھے اس سے ڈرائے۔‘‘
نبی ﷺتمام انبیاء میں سے افضل ترین اور خاتم الانبیاء اور ایک کامل دین کے داعی ہیں۔ اگر میلاد جیسی محفلیں دین کا حصہ ہوتیں جس کو اللہ پسند کرتا تو آپﷺ اپنی اُمت کے لیے نشاندہی ضرور کر دیتے یا اپنی زندگی میں اس کو اختیار کرتے اور اس کو صحابہ کرام7بھی سر انجام دیتے۔اگر اس قسم کی چیز نبیﷺ اور صحابہ کی زندگیوں میں وقوع پذیر نہیں ہوئی تو پھر بخوبی جان لینا چاہیے کہ ان محفلوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ دین کے اندر بدعت ہے جس سے اللہ کے رسول نے اپنی اُمت کو ڈرایا ہے جیسا کہ پہلے احادیث میں ان کا تذکرہ ہو چکا ہے۔اسی سے متعلقہ آپ ﷺکا ایک قول ہے جو آپ ﷺ خطبہ جمعہ میں پڑھا کرتے:
«أما بعد: فإن خیر الحدیث کتاب اﷲ وخیر الهدي هدي محمد ﷺ وشر الأمور محدثاتها،وکل بدعة ضلالة» (صحیح مسلم:۸۶۷)
’’ اما بعد!بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب اور بہترین راستہ محمدﷺکا راستہ ہے اور سب سے برے امور، دین میں اضافہ ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
علماے حق نے مذکورہ بالا دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے میلاد منانے کا رد فرمایا ہے اور لوگوں کو اس سے کلی اجتناب کی ہدایت کی ہے ،لیکن کچھ لوگوں نے اس کو سند جواز بخشنے کے لیے اس میں ہونے والی منکرات، مثلاً رسول اللہﷺکے بارے میں غلو سے کام لینا، عورتوں مردوں کا اختلاط،آلات موسیقی کا استعمال اور اس طرح کی دوسری چیزیں جس سے شریعت مطہرہ نے روکاہے اس کو بدعت حسنہ کا نام دے دیاہے۔جو کہ محض دل کو تسلی دینے والی بات ہے۔ قاعدہ شرعیہ ہے کہ جس بات پر لوگوں کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹانا چاہیے جیسا کہ اللہ کاارشاد ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‌ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ‌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں،پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میںنزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو ۔اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق ِ کار اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘ (النساء:۵۹)
اسی طرح ﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ ۚ﴾ (الشوری:۱۰)
’’تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو ، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔‘‘
ہم نے اس مسئلہ یعنی (عید میلاد کی محافل) کو اللہ کی کتاب کی طرف لوٹا دیا ہے جو ہمیں اِتباع رسول کاحکم دیتا ہے بلکہ وہ ان جیسے معاملات میں ہماری رہنمائی کے لیے ہی نازل کیا گیا۔ وہ ہمیں قرآن کے منع کیے گئے امور کے ارتکاب سے ڈراتا ہے اور اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اللہ نے اس امت کے لیے دین کو مکمل کر دیا ہے، لہٰذا اس قسم کی محفلوں کا اسلام میں اور اللہ کی مکمل کی گئی شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔اسی طرح جب ہم نے اس مسئلہ کو حدیث پر پیش کیا تو وہاں سے بھی ہمیں اس سے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکی جس میں یہ ہو کہ آپﷺ نے اس کام کو کیا ،کرنے کا حکم دیا یا آپ کے سامنے کیا گیا۔آپﷺکے بعد صحابہ کا دور بھی اس بدعت سے یکسر خالی رہا،لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ خالصتا دین میں نئی چیز ہے اور بدعت ہے اور اس کی یہود ونصاری کی عیدوں کے ساتھ مشابہت ہے۔
مذکورہ بالا دلائل سے دین کے بارے میں ادنیٰ سی بصیرت رکھنے والے شخص اور حق کے متلاشی کے لیے اس کی قباحت کا مسئلہ واضح ہو جانا چاہیے اور انصاف یہی ہے کہ میلاد النبی کی محفلیں دین اسلام میں سے نہیں بلکہ وہ ایجاد کردہ بدعات ہیں جس کو اللہ اور رسولﷺ نے چھوڑنے اور اس سے بچنے کا حکم دیا ہے اور کسی عقل مند شخص کو اکثر لوگوں کو اس عمل بد پر عمل کرنے سے دھوکہ میں نہیں آنا چاہیے،کیونکہ حق پہچاننے کا معیار اکثریت کا عمل نہیں ہو سکتا۔بلکہ ادلہ شرعیہ سے اس کی پہچان ہوتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کے بارے میں کہا ہے :
﴿ وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَ‌ىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْ‌هَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ (البقرۃ:۱۱۱)
’’ان کا کہنا ہے کہ کو ئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا (عیسائیوں کے خیال کے مطابق)عیسائی نہ ہو۔یہ ان کی تمنائیں ہیں۔ان سے کہو!اپنی دلیل پیش کرو،اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔‘‘
اسی طرح فرمایا:﴿ وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ‌ مَن فِي الْأَرْ‌ضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ﴾ (الانعام:۱۱۶)
’’اور اے نبیﷺ! اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے بھٹکا دیں گے۔‘‘
محفل میلاد بدعتی عمل ہونے کے ساتھ دیگر منکرات سے خالی نہیں ہے،جیسے عورتوں کا مردوں سے اختلاط،آلات لہو و لعب کا استعمال،نشہ آور چیزوں کا استعمال اور اسی طرح دوسری بڑی برائیاں جس میں انسان یقینا مبتلا ہو جاتا ہے وہ شرک اکبر ہے۔ آپ ﷺکے بارے میں غلو یااولیاء کے بارے غلو، جیسے ان سے دعا کرنا اور ان سے فریاد طلب کرنا،ان کو مدد کے لیے پکارنا اوریہ اعتقاد رکھنا کہ وہ غیب جانتے ہیں اور اس جیسے دوسرے کفریہ اُمور کہ جس کے اِرتکاب میں لوگ جلدی کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
«إیاکم والغلو في الدین فإنما أهلك من کان قبلکم الغلو في الدین»
’’دین میںغلو کرنے سے بچو تم سے پہلے لوگ دین میں غلوکی وجہ سے تباہ ہو گئے۔‘‘ (صحیح سنن نسائی:۳۰۵۷)
ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا:«لا تطروني کما أطرت النصاری ابن مریم إنما أنا عبد فقولوا عبد اﷲ ورسوله » (صحیح البخاري:۳۴۴۵)
’’مجھے اس طرح نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی شان میں انتہا کر دی میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘
سب سے عجیب بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسی محفلوں میں بڑے جوش وخروش سے شریک ہوتے ہیں، اس بدعت کا دفاع کرتے ہیں اور اللہ کے واجب کیے ہوئے فرائض کو پس پشت ڈال دیتے ہیں بلکہ ان کی طرف کان تک نہیں دھرتے۔اور وہ اس بے جا حمایت پر اس کا شعور تک نہیں رکھتے کہ وہ کن برائیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ انسان کی ایمان کی کمزوری ،کم عقلی، ناعاقبت اندیشی اور معاصی کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ہے جن کے تسلسل نے ان کے دلوں پر زنگ کے گہرے نشان ثبت کر دیئے ہیں۔
نسأل اﷲ العافیة لنا ولسائر المسلمین
’’ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘
اسی ضمن میں یہ بات بھی ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ رسول اللہﷺ میلاد میں حاضر ہوتے ہیں اور یہ لوگ آپ کو مرحبا اور سلام پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں یہ ایک بہت بڑا جھوٹ اور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے، کیونکہ آپﷺ قیامت سے پہلے اپنی قبر سے نہیں نکلیں گے نہ لوگوں میں سے کسی سے ملیں گے اور نہ ہی ان کے اجتماعات میں حاضر ہوں گے بلکہ وہ قیامت تک اپنی قبر میں ٹھہرے رہیں گے۔اور آپﷺ کی روح اعلی علیین میں ان کے رب کے ہاں دار الکرامہ میں ہے جیسا کہ اللہ نے سورۃ المؤمنون میں فرمایا:﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ﴾ (المومنون:۱۵،۱۶)
’’پھراس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے،پھر قیامت کے روز یقینا تم اٹھائے جاؤ گے۔‘‘
اور آپﷺ نے فرمایا:«أنا سید ولد آدم یوم القیامة وأوّل من ینشق عنه القبر وأوّل شافع وأول مشفّع» (صحیح مسلم:۲۲۷۸)
’’میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس سے قیامت کے دن قبر کو کھولا جائے گا اور میں سب سے پہلے سفارش کرنے والا اور سب سے پہلا ہوں گاجس سے سفارش کروائی جائے گی۔‘‘
علیه من ربه أفضل الصلاة والسلام
مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف اور جو بھی اس معنی کی آیات واحادیث ہیں ساری کی ساری اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبیﷺ اور آپ کے علاوہ دوسرے لوگ جو اس دنیا سے کوچ کر گئے فوت شدہ ہیں اور اس بات پر علماے مسلمین کے درمیان اجماع ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں کہ وہ صرف قیامت کے دن ہی اپنی قبروں سے نکلیں گے۔
ہر مسلمان کوان کاموں سے بچنے کی اور اس بات سے ڈرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو کہ جاہل لوگوں نے بدعات وخرافات کو گھڑ لیا جس کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔یقینا اللہ ہی مددگار اور اسی پر توکل ہے،کسی کام کے کرنے کی ہمت اللہ کے سواکوئی نہیں دے سکتا۔
٭ رہی آپ ﷺ پر درود بھیجنے کی بات تو یہ اللہ سے قریب ہونے اور اعمال صالحہ میں سے ہے ۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ﴿ إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾
’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبی پر درود بھیجتے ہیں ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(الاحزاب:۵۶)
اور آپﷺنے فرمایا:«من صلى على صلاة صلى اﷲ علیه بها عشرا»
’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا اللہ اس پر د س رحمتیں بھیجتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:۳۸۴)
اور درودہر وقت پڑھنا مشروع ہے خصوصادعاء کے آخر میں اس کی تاکید ہے بلکہ تمام اہل علم کے نزدیک نماز کے آخری تشہد میں پڑھنا واجب ہے اور بہت ساری جگہوں میں یہ سنت موکدہ بھی ہے ، مثلاً اذان کے بعد، آپﷺ کے تذکرہ کے بعداور اسی طرح جمعہ کے دن اور رات میں بہت ساری احادیث اس بات پر شاہد ہیں۔
واﷲ المسؤول أن یوفقنا وسائر المسلمین للفقه في دینه والثبات علیه،وأن یمن على الجمیع بلزوم السنة، والحذر من البدعة،إنه جواد کریم،وصلی اﷲ على نبینا محمد وعلى آله وصحبه.
’’اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ہم سب کو سنت پر تمسک اور بدعات سے بچنے کی توفیق دے ،بے شک وہ سخی اور عزت والا ہے۔ ہمارے نبیؐ محمد پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے اصحاب پر رحمتیں نازل ہوں۔ ‘‘ (مجموع فتاویٰ ابن باز:۱؍۱۸۳)
 
Top