- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
عید میلاد کی تاریخ و ارتقا اور مجوزین کے دلائل
مبشر حسین لاہوری
بلاناغہ ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ’عید میلاد النبی ﷺ ‘کے نام پر جشن منایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کے شروع ہوتے ہی اس جشن میلاد کی تقریبات کے انتظامات شروع ہوجاتے ہیں۔ نوجوان گلی کوچوں اور چوراہوں میں راہ گیروں کا راستہ روک کر زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ علما حضرات مسجدوں میں جشن ولادت منانے کے لئے دست ِسوال دراز کرتے ہیں۔
گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے اور حضورِ اکرمﷺ کی رسالت کا احترام کرتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ حکومتی سطح پر بڑی بڑی سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کرتی ہے۔پھر بارہ ربیع الاول کو نبی اکرم ﷺ کے یوم ولادت کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں، شیرینی تقسیم کی جاتی ہے، پرتکلف دعوتوں کا اہتمام کیا جاتااور گلیوں، بازاروں ، گھروں اور مسجدوں میں چراغاں کیا جاتا ہے، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، تانگوں، گدھا گاڑیوں اور بسوں میں سوار ہوکر پورے ملک میں اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ جشن، یہ میلاد اور یہ سلسلۂ تقریبات اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کے اظہار کا ذریعہ گردانا جاتا ہے اس لئے چاروناچار حب ِرسول سے سرشار ہر پیروجوان حسب ِحیثیت اس میں شمولیت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔
عید ِمیلاد چونکہ آنحضرت ﷺ سے محبت کے جذبہ سے منائی جاتی ہے۔ اسلئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سردست آنحضرت ﷺ سے محبت اور اسکے معیار و تقاضے پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کا اظہار بجاہے اور آپ ﷺ کی عقیدت و احترام کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے … مگر دیکھنا یہ ہے کہ حضور ﷺ سے محبت کا یہ طریقہ اور جشن و جلوس کا یہ سلسلہ حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کی رو سے جائز بھی ہے یا نہیں…؟ شریعت کی عدالت میں اس کی کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ اور اللہ کی بارگاہ میں یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں…؟!