• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید کی نماز فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟

علی عامر

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2014
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
25
27026: نماز عيدين كى قضاء

عيد الفطر كے دن جب ہم عيدگاہ پہنچے تو امام نماز سے فارغ ہو كر خطبہ بھى ختم كرنے والا تھا، تو ہم نے خطبہ كے دوران ہى نماز عيد كى دو ركعت ادا كيں، كيا يہ نماز صحيح ہے يا نہيں ؟

الحمد للہ:
نماز عيد فرض كفايہ ہے؛ جب كچھ لوگ ادا كرليں تو باقيوں سے ساقط ہو جاتى ہے، سوال ميں جس صورت مسئولہ ميں ان لوگوں كى جانب سے فرض ادا ہو چكا تھا جنہوں نے پہلے نماز كر لى ـ جنہيں امام خطبہ دے رہا تھا ـ اور جس كى نماز رہ گئى اور وہ اس كى قضاء ميں نماز ادا كرنا چاہے تو اس كے ليے نماز عيد ادا كرنا مستحب ہے.
تو وہ اسى طريقہ پر نماز عيد ادا كرے گا جس طرح نماز عيد ادا كى جاتى ہے، ليكن خطبہ نہيں.
امام مالك، امام شافعى، اور امام احمد، نخعى وغيرہ رحمہم اللہ كا يہى قول ہے.
اس ميں اصل اور دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" جب تم نماز كے ليے آؤ تو وقار اور سكون سے چل كر آؤ، جو تمہيں مل جائے وہ ادا كرو، اور جو فوت ہو جائے اس كى قضاء "
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب ان كى نماز عيد امام كے ساتھ رہ جاتى تو وہ اپنے غلاموں اور اہل و عيال كو جمع كرتے، اور پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ انہيں دو ركعت پڑھاتے، اور اس ميں تكبيريں كہتے.
جو شخص عيد كے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ خطبہ سنے اور پھر خطبہ كے بعد نماز كى قضاء كرے، تاكہ دونوں مصلحتوں كے مابين جمع ہو سكے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 306 )

[FONT=Droid Arabic Kufi, Droid Arabic Naskh, Helvetica, Arial, sans-serif]http://islamqa.info/ur/27026[/FONT]​
 

علی عامر

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2014
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
25
نماز عيدين كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
نماز عيدين كے حكم ميں علماء كرام كے تين قول ہيں:
پہلا قول:
يہ سنت مؤكدہ ہے، امام مالك اور امام شافعى كا مسلك يہى ہے.
دوسرا قول:
يہ فرض كفايہ ہے، امام احمد رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.
تيسرا قول:
يہ ہر مسلمان پر واجب ہے، لہذا ہر مرد پر واجب ہے، اور بغير كسى عذر كے ترك كرنے پر گنہگار ہو گا، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور شوكانى رحمہما اللہ نے اسى قول كو اختيار كيا ہے.
ديكھيں: المجموع ( 5 / 5 ) المغنى ( 3 / 253 ) الانصاف ( 5 / 316 ) الاختيارات ( 82 ).
تيسرے قول والوں نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے، جن ميں چند ايك يہ ہيں:
1 - ارشاد بارى تعالى ہے:
﴿اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو ﴾الكوثر ( 2 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:
اس كى تفسير ميں مشہور يہ ہے كہ: اس سے مراد نماز عيد ہے. اھـ
اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: اس آيت سے مراد عمومى نماز مراد ہے، نہ كہ يہ نماز عيد كے ساتھ خاص ہے.
چنانچہ آيت كا معنى يہ ہوا كہ: نماز اور قربانى صرف اللہ وحدہ كے ليے ادا كرو، تو يہ بھى مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كى طرح ہو گا:
﴿كہہ ديجئے كہ ميرى نماز اور ميرى قربانى اور ميرا زندہ رہنا اور ميرا مرنا اللہ رب العالمين كے ليے ہے ﴾الانعام ( 162 ).
آيت كى تفسير ميں يہ قول ابن جرير اور ابن كثير رحمہما اللہ تعالى نے اختيار كيا ہے.
ديكھيں: تفسير ابن جرير ( 12 / 724 ) اور تفسير ابن كثير ( 8 / 502 ).
تو اس بنا پر اس آيت ميں نماز عيد كے وجوب پر كوئى دليل نہيں پائى جاتى.
2 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد كے ليے عيدگاہ كى طرف نكلنے كا حكم ديا ہے، حتى كہ عورتوں كو بھى وہاں جانے كا حكم ديا.
امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:
" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).
العواتق: عاتق كى جمع ہے، اور اس كا معنى وہ لڑكى ہے جو قريب البلوغ ہو يا بالغ ہو چكى ہو، يا پھر شادى كے قابل ہو.
ذوات الخدور: كنوارى لڑكيوں كو كہتے ہيں.
اس حديث سے نماز عيد كے وجوب كا استدلال پہلى آيت سے زيادہ قوى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " مجموع الفتاوى" ميں كہتے ہيں:
" ميرے خيال ميں نماز عيد فرض عين ہے، اور مردوں كے ليے اسے ترك كرنا جائز نہيں، بلكہ انہيں نماز عيد كے ليے حاضر ہونا ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريب البلوغ اور كنوارى لڑكيوں اور باقى عورتوں كو بھى حاضر ہونے كا حكم ديا ہے، بلكہ حيض والى عورتوں كو بھى نماز عيد كے ليے نكلنے كا حكم ديا، ليكن وہ عيد گاہ سے دور رہيں گى، اور يہ اس كى تاكيد پر دلالت كرتا ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن عثيمين ( 16 / 214 ).
اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
" دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 ).
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے فرض عين ہونے كے متعلق كہتے ہيں:
دلائل ميں يہ قول ظاہر ہے، اور اقرب الى الصواب يہى ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 13 / 7 ).
واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/48983
 

علی عامر

مبتدی
شمولیت
نومبر 26، 2014
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
25
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ نماز عید فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟
دلائل کی روشنی میں جواب دیں۔
جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
@اسحاق سلفی بھائی
@خضر حیات بھائی
رہنمائی فرمائیں پلہز ، جزاکم اللہ خیرا
کیا مردو خواتین سب پر عید کی نماز فرض عین ہے یا سنت ہے، یا صرف مردوں پر فرض اور عورتوں کے لیے سنت؟ کیا عورتیں گھر میں یا الگ مسجد میں اپنی جماعت سے یا الگ الگ عہد کی نماز پڑھ سکتی ہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہل علم بھائیوں سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ نماز عید فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟
دلائل کی روشنی میں جواب دیں۔
جزاک اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شرعی دلائل اور عید کی اسلام میں اہمیت کے پیش نظر صحیح بات یہی ہے کہ نماز عید فرض ہے
روى البخاري (324) ومسلم (890) عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .

(الْعَوَاتِق) جَمْع عَاتِق وَهِيَ مَنْ بَلَغَتْ الْحُلُم أَوْ قَارَبَتْ , أَوْ اِسْتَحَقَّتْ التَّزْوِيج .
(وَذَوَات الْخُدُور) هن الأبكار .
والاستدلال بهذا الحديث على وجوب صلاة العيد أقوى من الاستدلال بالآية السابقة .

قال الشيخ ابن عثيمين في "مجموع الفتاوى" (16/214) :
"الذي أرى أن صلاة العيد فرض عين، وأنه لا يجوز للرجال أن يدعوها، بل عليهم حضورها، لأن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بها بل أمر النساء العواتق وذوات الخدور أن يخرجن إلى صلاة العيد، بل أمر الحيض أن يخرجن إلى صلاة العيد ولكن يعتزلن المصلى، وهذا يدل على تأكدها" اهـ .

وقال أيضاً (16/217) :

"والذي يترجح لي من الأدلة أنها فرض عين ، وأنه يجب على كل ذكر أن يحضر صلاة العيد إلا من كان له عذر" اهـ .

وقال الشيخ ابن باز في "مجموع الفتاوى" (13/7) عن القول بأنها فرض عين ، قال :

"وهذا القول أظهر في الأدلة ، وأقرب إلى الصواب" اهـ .

ترجمہ:
امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور عيد الاضحى ميں ( عيد گاہ كى طرف ) نكلنے كا حكم ديا، اور قريب البلوغ اور حائضہ اور كنوارى عورتوں سب كو، ليكن حائضہ عورتيں نماز سے عليحدہ رہيں، اور وہ خير اور مسلمانوں كے ساتھ دعا ميں شريك ہوں, وہ كہتى ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر ہم ميں سے كسى ايك كے پاس اوڑھنى نہ ہو تو ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے اس كى بہن اپنى اوڑھنى دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 324 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 890 ).

العواتق: عاتق كى جمع ہے، اور اس كا معنى وہ لڑكى ہے جو قريب البلوغ ہو يا بالغ ہو چكى ہو، يا پھر شادى كے قابل ہو.

ذوات الخدور: كنوارى لڑكيوں كو كہتے ہيں.

اس حديث سے نماز عيد كے وجوب كا استدلال زيادہ قوى ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى " مجموع الفتاوى" ميں كہتے ہيں:
" ميرے خيال ميں نماز عيد فرض عين ہے، اور مردوں كے ليے اسے ترك كرنا جائز نہيں، بلكہ انہيں نماز عيد كے ليے حاضر ہونا ضرورى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قريب البلوغ اور كنوارى لڑكيوں اور باقى عورتوں كو بھى حاضر ہونے كا حكم ديا ہے، بلكہ حيض والى عورتوں كو بھى نماز عيد كے ليے نكلنے كا حكم ديا، ليكن وہ عيد گاہ سے دور رہيں گى، اور يہ اس كى تاكيد پر دلالت كرتا ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى لابن عثيمين ( 16 / 214 ).

اور ايك دوسرى جگہ پر رقمطراز ہيں:
" دلائل سے جو ميرے نزديك راجح ہوتا ہے وہ يہ كہ نماز عيد فرض عين ہے، اور ہر مرد پر نماز عيد ميں حاضر ہونا واجب ہے، ليكن اگر كسى كے پاس عذر ہو تو پھر نہيں " اھـ (ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 217 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے فرض عين ہونے كے متعلق كہتے ہيں:
دلائل ميں يہ قول ظاہر ہے، اور اقرب الى الصواب يہى ہے" اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن باز ( 13 / 7 ).

واللہ اعلم .
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
نماز عید کی شرعی حیثیت
سوال:
نماز عید فرض ہے یا سنت، قرآن و حدیث میں اس کی کیا حیثیت ہے، کیا یہ فرض ہے کہ اس کا تارک گنہگار ہوگا یا اس کا پڑھنا مستحب ہے کہ اس کے چھوڑنے سے کوئی گناہ نہیں ہوگا، وضاحت فرمائیں؟

جواب:
نماز عید کے متعلق اہل علم میں کچھ اختلاف ہے، کچھ حضرات کا خیال ہے کہ نماز عید فرض نہیں بلکہ ایسی سنت ہے جس کے متعلق بہت تاکید کی گئی ہے۔ جبکہ اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ نماز عید فرض ہے۔ پھر فرض کے قائلین میں سے کچھ اسے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں کہ چند حضرات اگر پڑھ لیں تو باقی لوگوں سے کفایت کر جاتی ہے۔ جبکہ اکثر حضرات اسے فرض عین قرار دیتے ہیں کہ ہر مسلمان عاقل و بالغ پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمارا رجحان یہ ہے کہ نماز عید نماز پنجگانہ کی طرح فرض ہے اور اس کا ادا کرنا ضروری ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں انسان گنہگار ہوگا جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے بھی صلوٰۃ عیدین کو فرض عین ہی قرار دیا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ ص ۱۶۱ ج ۲۳)

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور دس سال پابندی کے ساتھ عیدین کی نماز پڑھتے رہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی عیدین کی نماز کو بڑی پابندی اور اہتمام سے ادا کیا، ایک دفعہ بھی نماز عیدین کا ترک ثابت نہیں۔

2۔ نماز عیدین سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار مقصود ہے، اس بناء پر صلوٰۃ جمعہ کی طرح یہ بھی واجب ہے، جو لوگ بالکل اسے ادا نہ کریں، ان سے قتال کیا جائے گا تاکہ وہ نماز عید پابندی سے ادا کریں۔

3۔ نماز عید کی ادائیگی اور اس دن اجتماع عظیم میں حاضری عورتوں کیلئے بھی ضروری ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن عورتوں کو باہر کھلے میدان میں نکلنے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ جس کے پاس پردے کیلئے اپنی ذاتی چادر نہیں اسے بھی حاضری کا حکم دیا گیا ہے۔

4۔ اگر جمعہ اور عیدین ایک دن جمع ہو جائیں تو جمعہ کے متعلق رخصت ہے۔ حالانکہ جمعہ واجب ہے، اگر صلوٰۃ عید فرض نہ ہوتی تو دوسرے فرض کو کیسے ساقط کر سکتی ہے۔ یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ صلوٰۃ عیدین دیگر نماز پنجگانہ کی طرح فرض عین ہے۔ (واللہ اعلم)
لنک فتویٰ
 
Top