• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غامدی صاحب اور اخبار احاد

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97

اصول غامدی:۔

غامدی صاحب کا نظریہ اخباراحاد (یعنی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کے متعلق یہ ہے کہ دین صرف ان دو چیزوں (یعنی قرآن وسنت جس کو غامدی صاحب سنت ابراہیمی کی روایت کہتے ہیں ) کا نام ہے اور کہتے ہیں کہ جن چیزوں کا ذکر (یعنی عبادات ،معاشرت ،خوردنوش،رسوم آداب ) گذشتہ صفحہ پر کیا ہے سنت یہی ہے ۔

اور اسی پر صحابہ اور امت کا اجماع رہاہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز دین نہیں اور احادیث احاد کے بارے میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کبھی درجہ یقین تک نہیں پہنچ سکتی اور دین میں اس سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتاقرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین اور اس پر عمل کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیا ن ہے حدیث کا دائرہ وہی ہے چناچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیا جاسکتا ہے(، اصول ومبادی میزان ص۱۱)

جواب:۔
قارئین کرام اگر آپ غامدی صاحب کے اس اصول کا غور سے مطالعہ کریں تو آپ کو خود ہی غامدی صاحب کے اصول کی حقیقت معلوم ہوجائے گی ایک طرف تو غامدی صاحب ضعیف احادیث کو دین کا حصہ تسلیم کررہے ہیں(جیساکہ بچے کے کان میں اذان دینا )دوسری طرف وہ احادیث جو اخبار احاد کے نام سے جانی جاتی ہیں چاہے وہ سند کے لحاظ سے صحیح ہو ںیا نہ ہوںقبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اسے دین ماننے سے انکار کر رہے ہیں ۔

ایک طرف غامدی صاحب یہ فرماتے ہیںکہ حدیث قرآن کی تخصیص نہیں کرسکتی دوسری طرف خود قرآن کی اس آیت کی تخصیص کررہے ہیں۔
وما اٰ تٰکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فا انتھوا (سورہ حشر آیت ۷)​
ترجمہ :اور جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز آجاؤ۔
یہ حکم ہر صحیح حدیث سے متعلق عام ہے چاہے وہ خبر متواتر کی صورت میں ہو یا خبر واحد کی صورت میں ہو ۔ لیکن غامدی صاحب نے اپنی مرضی اور مطلب کی احادیث اور روایتوں کو دین سمجھ کر اور اسے اپنا کر قرآن کے اس حکم کی تخصیص کردی ۔ جب غامدی صاحب کے نزدیک حدیث کو یہ حق نہیںکہ وہ قرآن کی تخصیص کرے تو غامدی صاحب کو خود قرآن کی تخصیص کا حق کس نے دیا ۔

اورجہاں تک بات ہے غامدی صاحب کے اس اصول کی کہ اخبار احاد سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی درجہ یقین کو نہیں پہنچ سکتا اور دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوتا ۔غامدی صاحب کا یہ خود ساختہ اصول ہے کیونکہ خبر واحد کے بارے میں ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ یہ علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور اس پر عمل واجب ہے (الاحکام فی الاصول الاحکام جلد ۱ صفحہ ۱۳۸)اگر آپ کہیں کہ جمہور محدثین نے اسے ظنی کہا ہے تو محدثین کی یہاں ظن سے مراد یہ ہے کہ جب تک ان کی صحت ثابت نہ ہوجائے تب تک یہ ظنی ہے کیونکہ صحت ثابت ہونے کی جو شروط ہیں یہ ظن کو دور کردیتی ہیں ۔

جیسا کہ ڈاکٹر صبحی الصالح اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہیں
’’لامعنی للقول بظنیۃ الحدیث الاحادی بعد ثبوت صحتہ لأن مااشترط فیہ لقبول صحتہ یزیل کل معانی الظن ویستوجب وقوع العلم الیقینی بہ‘‘(علوم الحدیث ومصطلحہ للصبحی الصالح،ص۱۵۲بحوالہ الباعث الحثیث،ص۳۹)’’​
ا
خبار احاد کی صحت ثابت ہوجانے کے بعد ان کا ظنی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ حدیث کی قبولیت اور اس کی صحت کے لئے جو شرائط ہیں وہ ظن کے معنی کو زائل کردیتی ہیں اور علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں ۔ اور رہی بات کہ اخباد احاد سے دین میں کسی قسم کے عقیدے یا عمل کا اضافہ نہیں ہوتا تواس شبہ کا ازالہ حافظ ابن حجرؒ نے فرمادیاہے،حافظ موصوف رقمطراز ہیں:

’’اتفق العلماء علی وجوب العمل ماصح ولولم یخرجہ الشیخان ‘‘(قواعد التحدیث للقاسمی صفحہ 87)​
ترجمہ :علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر اس حدیث پر عمل واجب ہے جس کی صحت ثابت ہوجائے اگرچہ اس کی تخریج شیخان(بخاری ومسلم) نے نہ کی ہو ۔
لہذا غامدی صاحب کا یہ خودساختہ اصول اہل علم کے اتفاق کے نزدیک دوکوڑی کی بھی حیثیت نہیں رکھتا ۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
السلام علیکم !

غامدی ایک گمراہ شخص ہے -

کیا انبیاء ، قوموں کی طرف اکیلے نہیں آتے رہے ؟؟؟؟؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی دعوت دی ، تو کیا آپ اکیلے نہ تھے ؟؟؟؟؟؟

تمام صحابہ کا ، اسلام لانا، خبر واحد پر عمل ہے -

صحابہ کا اکیلے اکیلے ، اپنے قبیلے کی طرف ، دعوت کےلیے جانا ، خبر واحد نہیں ہے ؟؟؟؟؟؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر ، خبر واحد نہ تھے ؟؟؟؟

کیا نماز پڑھانے والا امام ،خبر واحد نہیں ہے؟؟؟؟؟؟

جبرئیل علیہ السلام ، خبر واحد نہیں ہیں؟؟؟؟؟؟

خبر واحد ،حجت ہے ، یقینی ہے -
 
Top